0
Thursday 21 Mar 2024 10:53

بے وفا باوفا نہیں ہوتا

بے وفا باوفا نہیں ہوتا
تحریر: سید تنویر حیدر

سوویت یونین کے خاتمے کے لیے امریکی سامراج کی جانب سے شروع کی گئی جنگ میں پاکستان کے ایک آمر نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کیا اور امریکی حمایت یافتہ پشتون افغانوں کو افغانستان کی باقی قومیتوں پر مسلط کرنے میں مدد دی اور انہیں اپنا اسٹریٹیجک اثاثہ قرار دیا، جبکہ شمالی افغانستان میں بسنے والی قومیتوں، تاجک، ازبک اور ہزارہ کو امریکہ کی دی ہوٸی پالیسی کے تحت اپنا حریف بنا کر افغان جہاد کے نام پر فساد کا بیج بویا گیا اور یوں باہمی قتال و جدال کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا۔ امریکی مداخلت کے نتیجے میں افغانستان جو نئے نئے فتنوں کی آماجگاہ اور تجربہ گاہ بن چکا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس سرزمین پر ایک نیا باب فتن کھولا گیا اور پاکستان سے جڑے افغان علاقے میں طالبان کے نام سے ایک نئی تنظیم کو جنم دیا گیا جس کی پرورش کی ذمے داری پاکستان کے شانوں پر ڈالی گئی۔

اپنے بیرونی سرپرستوں کی امداد کے بل بوتے پر مذہبی شدت پسند طالبان نے جلد ہی افغانستان کے ایک بڑے علاقے پر تسلط حاصل کر لیا۔ پاکستان نے طالبان کی نئی انتہاء پسند حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ وہ بندوق کے زور پر قاٸم کی گئی اس جابرانہ حکومت کی دنیا میں ترجمان بن گی۔ دنیا کی تمام امن پسند قوتیں اس وقت پاکستان پر ایک ہی الزام لگاتی تھیں کہ اس نے ایک شدت پسند گروہ کے اقتدار کو تسلیم کیا ہوا ہے اور اس کو مدد فراہم کر رہی ہے، لیکن پاکستان کے اس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل مشرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر ہونے والی عالمی تنقید کے جواب میں مکرر یہ کہتے ہوتے نظر آتے تھے کہ ”ہم نے دو وجوہات کی بنا پر طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے۔اول یہ کہ طالبان ایک حقیقت ہیں۔ دوم یہ کہ انہوں نے افغانستان کے نوے فیصد علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔“

یہ وہ وقت تھا، جب طالبان اور پاکستان یک جان دو قالب تھے، لیکن پھر اچانک گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو آسمان سے ایک ایسی آفت نازل ہوٸی، جس نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرح پاکستان اور طالبان کے تعلقات کی بلند و بالا عمارت کو بھی زمیں بوس کر دیا اور آخر کارحالات کے جبر کے تحت پاکستان کے فیصلہ سازوں نے افغانستان کی سنگلاخ زمین پر اپنا خون پسینا ایک کرکے کھودی گئی کی ”اسٹریٹیجک ڈیبتھ“ کو خود اپنے ہاتھوں سے ”اسٹریٹیجیک ڈیتھ“ میں بدل دیا۔ اپنے پروردہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستان نے جس پھرتی سے امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی، اس نے خود امریکہ کو بھی حیران کر دیا۔ نتیجے میں وہ طالبان جن کی شمالی اتحاد کے خلاف مدد کرکے پاکستان افغاستان کے ایک حصے کو اپنا دشمن بنا چکا تھا، اس نے اپنے اثاثے طالبان کو بھی اپنے دشمنوں کی صف میں لا کھڑا کر دیا۔

طالبان کا اقتدار تو وقتی طور پر ختم ہوگیا، لیکن پاکستان میں ایک خاص مکتبہءفکر کی ہمدردیاں بدستور طالبان کے ساتھ باقی رہیں۔ پاکستان کے بعض مذہبی طبقوں کے علاوہ پاکستان کے ایک قدرے لبرل سیاسی رہنماء عمران خان بھی نظریاتی طور پر طالبان کے ہم خیال تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب پاکستان میں طالبان کو اپنا آٸیڈیل ماننے والے دہشت گردوں کی کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں۔ پاکستان کی اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ پاکستان میں طالبان کے حمایت یافتہ گروہوں کے خلاف بھرپور فوجی کاررواٸی کے حق میں تھی اور پاکستان کی مسلح افواج کسی حد تک ان دہشت گردوں کے خلاف افغانستان سے ملحق پاکستانی سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائیاں کر بھی رہی تھیں، لیکن اس عالم میں پاکستان کے وہ واحد سیاستدان جو ان کارروائیوں کے کھلے ناقد تھے، وہ عمران خان تھے۔

ان کے خیال میں طالبان کی یہ کارروائیاں دراصل امریکہ کی جانب سے طالبان کے خلاف ہونے والے ڈرون حملوں کا ردعمل تھیں۔ آخر پھر سولہ دسمبر کی وہ گھڑی آٸی، جب پاکستانی طالبان نے ایک ایسی دہشت پسندانہ کاررواٸی کی، جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا، یعنی آرمی پبلک سکول پر حملہ جس کے نتیجے میں سینکڑوں طلبا شہید اور زخمی ہوئے۔ اب وہ وقت آگیا تھا، جب طالبان کے خلاف بھرپور فوجی کاررواٸی کے سوا اور کوٸی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ چنانچہ پاکستان کی مسلح افواج نے طالبان کے خلاف ایک ایسی کاررواٸی کی، جس نے طالبان کی وقتی طور پر کمر توڑ کر رکھ دی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ افغان طالبان کی آشیر باد سے ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان کی اشرف غنی کی حکومت کے خلاف طالبان کی مزاحمتی کارروائیاں جاری تھیں۔ پاکستان میں اس وقت عمران خان برسر اقتدار آچکے تھے۔ طالبان کیونکہ عمران خان کے آٸیڈیل تھے، اس لئے عمران خان نے اپنے چہیتے جنرل فیض حمید کی کمان میں افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں کو کچلنا شروع کر دیا۔ وادی پنجشیر جو طالبان کے خلاف جدوجہد کی ایک علامت بن چکی تھی، اس پر قبضے کے لیے مبینہ طور پر پاکستانی فضاٸیہ کو بھی استعمال کیا گیا۔ نتیجے کے طور پر طالبان کے خلاف مزاحمت دم توڑ گئی اور طالبان ایک بار پھر پورے افغانستان پر قابض ہوگئے۔ پاکستان میں طالبان کے حامیوں اور عمران خان کی حکومت نے اس کامیابی پر خوب جشن منایا۔

عمران خان نے جیل سے اپنے تازہ انٹرویو میں بھی اپنی اس کامیابی اور جنرل فیض حمید کے کارناموں کا ذکر کیا ہے اور اپنے دور حکومت میں طالبان سے بہتر تعلقات کی بات کی ہے۔ پھر یہ ہوا کہ عمران خان کی حکومت کا بوجوہ خاتمہ کر دیا گیا۔ شروع شروع میں نئی بننے والی طالبان حکومت کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات رہے۔ لیکن طالبان کی مخصوص آٸیڈیالوجی نے انہیں پاکستان سے ایک بار پھر آہستہ آہستہ دور کر دیا۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے ایک بار پھر تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان میں دہشت پسندانہ کارروائیوں کے لیے اپنی زمین فراہم کی اور اب تک کر رہی ہے۔

پاکستان کے خلاف افغانستان کی طالبان حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی پاکستانی طالبان کی کاررواٸیوں سے اب بات بہت آگے تک جا چکی ہے۔ اب تو دونوں ملکوں کے مابین ایک براہ راست جنگ کا خطرہ پیدا ہوچکا ہے۔ طالبان جس طرح محسن شکنی پر اتر آئے ہیں، وہ ان کی فطرت حصہ تو ہے ہی، لیکن پاکستانی حکومتیں بھی جس طرح طالبان کی بڑھ چڑھ کر سپورٹ کرتی رہی ہیں، وہ بھی ملک کے حقیقی مفادات کے خلاف ایسی حکمت عملی تھی، جس کا نہ جانے کس قدر خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 1124008
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش