2
Monday 25 Mar 2024 22:46

یونائٹڈ نیشنز سکیورٹی کائونسل کی سیز فائر ریزولوشن پر تبصرہ

یونائٹڈ نیشنز سکیورٹی کائونسل کی سیز فائر ریزولوشن پر تبصرہ
تحریر: عرفان علی

بین الاقوامی سطح پر مشہور ذرایع ابلاغ کے مطابق سات اکتوبر 2023ء کے واقعات کے بعد سے جاری اسرائیلی جارحیت سے متعلق ایک طویل سیز فائر ریزولوشن منظور کرلی ہے۔ یاد رہے کہ اس قضیہ کا سارا ملبہ حماس پر ڈالا جا رہا تھا، چونکہ سات اکتوبر 2023ء کا ناقابل یقین، حیرت انگیز ایکشن گویا لائیو ہالی ووڈ فلم شوٹنگ میں بھی ناممکن مناظر کو دنیا نے وقوع پذیر ہوتے دیکھا۔ اس کا اصل سہرا حماس و دیگر اتحادی فلسطینی قومی مزاحمتی تحریکوں کے سر تھا اور ان میں سب سے بڑی تحریک حرکت مقاومت اسلامی المعروف حماس تھی۔ اسی لیے میں نے حماس کے بظاہر طرفدار نیوز چینل الجزیرہ ٹی وی کی خبر کا مطالعہ کیا اور عالمی شہرت یافتہ حماس مخالف مغربی ذرایع ابلاغ کی خبروں پر بھی نگاہ کی۔ خاص طور پر برطانوی روزنامہ دی گارجین، برطانوی نشریاتی ادارے برٹش براڈ کاسٹنگ بی بی سی و امریکی ٹی وی چینل کیبل نیوز نیٹ ورک سی این این۔۔۔۔ وغیرہ

الجزیرہ کی خبر سب سے پہلے وائرل ہوئی۔ شہہ سرخی کی پہلی ذیلی سرخی کے مطابق اسرائیل کی غزہ میں حماس سے جاری جنگ کو فوری طور پر روکنے پر مبنی جاری رہنے والی پائیدار جنگ بندی اور سارے مغویوں کی رہائی پر تاکید کی، جبکہ اصل سرخی کے مطابق فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ البتہ اس کا اصل عنوان غزہ پر اسرائیلی جنگ رکھا، جو کہ واقعیت پر مبنی واحد شے تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ ریزولوشن (قرارداد) عدل و انصاف پر مبنی ہے!؟ جواب ہے، ہرگز نہیں۔ یقیناً پوچھا جانا چاہیئے کہ وہ کیسے؟! تو جواب ہے وہ ایسے:

قرارداد کا متن و منظوری کا پس منظر، منظوری کا واحد سبب یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی رائے شماری میں حصہ لینے سے گریز، چونکہ اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کائونسل میں 10 تو غیر مستقل اراکین ہیں، جو ایک مخصوص مدت کے بعد بدلتے رہتے ہیں، جبکہ پانچ مستقل اراکین یو ایس امریکا، روس، برطانیہ، چین و فرانس ہیں۔ یہ فیصلہ ساز اراکین ہیں، اگر ایک بھی مخالفت کر دے تو اسے کہتے ہیں ویٹو، یعنی استرداد یعنی وہ قرار مسترد ہوچکی۔ قرارداد کی منظوری تب ممکن ہے کہ ان پانچ میں سے کوئی ایک بھی مخالفت نہ کرے۔ اگر حمایت نہیں کرتا تو کم سے کم مخالفت بھی نہ کرے۔ درمیانی دو آپشن بچتے ہیں بائیکاٹ کر دے، یعنی سرے سے عدم شرکت غیر حاضر رہ کر یعنی ابسینٹ۔ یا پھر مستقل مندوب یا نمائندہ اجلاس میں موجود تو ہو لیکن ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہ لے، تو یو ایس امریکا نے یہ راہ اختیار کی، یوں یہ قرارداد منظور ہوئی۔

اب یہ کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ بین الاقوامی سطح پر جو شدید عوامی غیض و غضب کا ماحول تھا اور مقبوضہ فلسطین خاص طور پر اہلیان غزہ کی مظومیت و اسرائیلی جارحیت و مظالم کی شدت نے اسرائیل کے مددگار و سہولت کار ممالک نیشن اسٹیٹس کے سیاہ و سفید کے مالک حکام و نیٹ ورک کا ہر وہ موقف ماننے سے انکار کر دیا، جس میں حماس یا دیگر فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی مذمت کی، اسرائیلی امریکی شرط مان لی گئی ہو۔ اس میں حماس و اتحادی مزاحمتی تحریکوں کی اپنی استقامت اس بظاہر غیر اہم و چھوٹی سی کامیابی، لیکن درحقیقت اسرائیل و امریکا کی بہت بڑی ناکامی کو ممکن کر دکھایا۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود میں اسے بدترین فراڈ کیوں کہتا ہوں۔ اس لیے کہ اصل منصوبہ طویل المدت تھا، ہے اور رہے گا۔

وہ کچھ یوں ہے کہ مستقل سیز فائر نہیں ہے۔ کسی نوعیت کی واضح مدت کا تعین بھی نہیں ہے اور مغویوں کی غیر مشروط رہائی کی شرط منوائی جا رہی ہے۔ یہ امریکا کی اصل کامیابی ہے۔ نام نہاد امداد کے نام پر فیس سیونگ کی جا رہی ہے۔ رفح میں فلسطینی پناہ گزینوں پر زمینی یلغار اصل منصوبہ ہے، جس کے لیے وقت سازگار نہ پایا گیا۔ دوسرا سبب یونائٹڈ نیشنز کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوترس کا پیش کردہ موقف ہے۔ یعنی حماس غیر مشروط طور پر مغویوں کو آزاد کرے۔ یہ اسرائیلی بلاک کی بہت بڑی کامیابی ہے اور دوسرا یہ کہ نہ کرنا ناقابل معافی ہے۔ گویا مستقبل کی سزا پر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ یا تو متفق ہوچکی ہے یا پھر چین و روس یا دونوں میں سے ایک پسپائی اختیار کرچکے ہیں، یہ مستقبل قریب میں ظاہر ہوچکا ہوگا۔

نتیجہ گیری کریں تو محض ٹائم پاس کیا جا رہا ہے اور امریکی، غربی، عربی، مسلمان، کرسچن نما اتحاد کے عرب نما مسلمان نما اتحادیوں دوستوں نے حتی کہ قطر و ترکی نے ایک اور مرتبہ حماس و پورے فلسطین کاز کی تذلیل، توہین تحقیر پر سعودی بلاک کی طرح امریکی زایونسٹ بلاک کی مدد کرنے کو ترجیح دے دی ہے۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے روس و چین کا بھی جلد پتہ لگ جائے گا کہ وہ امریکی بلاک و زایونسٹ استثماری نیٹ ورک کی مشترکہ یا الگ الگ یا کسی ایک کی تڑی میں یا آکر ساتھ دینے پر مجبور ہوئے یا اپنی ایک سے زائد شرط منواچکے ہیں۔ بہت ہوا تو عید الفطر تک یہ سارے وقت گذاریں گے اور فوری بعد نیا مرحلہ شروع کریں گے۔

اب اس سارے قضیے میں حماس کا فیصلہ اہم ہے۔ رائٹرز خبر رساں ادارے کے مطابق حماس نے قرارداد کو ویلکم کیا ہے۔ یعنی ایک اور مرتبہ حماس کی قیادت اپنے عرب دوستوں و سرپرستوں کا سر اونچا کر رہی ہے یا واقعی اس کے پاس کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں۔ اس سوال کا جواب فقط حماس کے قائدین ہی بتا سکتے ہیں، کیونکہ ترکی قطر و دیگر تو حقائق بتانے سے رہے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ فلسطین سمیت عرب اسلامی سارے ممالک کے لیے یہ زندگی یا موت میں سے ایک کے انتخاب کا مرحلہ ہے، جسے انگریزی میں میک اینڈ بریک سچویشن کہیں، تب بھی غلط نہ ہوگا یا کچھ کر گذرو یا مرجائو ڈو آر ڈائی!!!

بہرحال پورے عرب عجم مزاحمتی و مقاومتی بلاک پر امریکی زایونسٹ بلاک کی براہ راست جارحیت کا واقعی خطرہ موجود ہے۔ کیا وہ عید سے پہلے ہی اس ایک محاذ کے علاوہ دوسرے محاذوں کی ایسی کی تیسی درمیانی مدت میں کرنا چاہتے ہیں، یہ بھی وہ بلحاظ عمل خود کرکے دکھا دیں گے۔ یوں براہ راست اصل امریکی ہدف جمھوری اسلامی ایران ہے کہ یو ایس جسے اس خطے میں  اپنی ناکامیوں کا سب سے بڑا ذمہ دار سمجھتا بھی ہے اور گاہے بگاہے آن ریکارڈ اعتراف بھی کرتا ہے کہ وہ ایسا ہی سمجھتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1124898
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش