0
Thursday 28 Mar 2024 15:38

نئی دہلی میں ’’سی اے اے اور ہندوستانی مسلمان‘‘ کے عنوان سے مذاکرہ

نئی دہلی میں ’’سی اے اے اور ہندوستانی مسلمان‘‘ کے عنوان سے مذاکرہ
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

نئی دہلی میں نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے زیر اہتمام انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں ’’سی اے اے اور ہندوستانی مسلمان‘‘ کے عنوان سے ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا۔ جس کا مقصد سی اے اے کے حوالے سے مسلمانوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنا تھا۔ این سی پی کا خیال ہے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) سے مسلمانوں کو کسی طرح سے کوئی نقصان نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کی شہریت چھینی جائے گی بلکہ یہ بیرون ممالک (پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان) سے آنے والے اقلیتوں کو شہریت دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس موقع پر کچھ مسلم لیڈروں کی جانب سے سی اے اے سے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا، جس کے جواب میں این سی پی کی طرف سے اس بات کا وعدہ اور اعادہ کیا گیا کہ کسی بھی طرح سے بھارتی مسلمانوں کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس بات کو بھی دہرایا گیا کہ این سی پی حکومت کا حصہ ہے اور وہ کسی بھی ہندوستانی مسلمان کی شہریت پر آنچ نہیں آنے دے گی۔ این سی پی کے قومی جنرل سکریٹری سید جلال الدین نے کہا کہ نیلی فساد کے بعد پہلی بار کانگریس حکومت میں سی اے اے، این پی آر اور این آر سی جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا۔ اس کے باوجود این سی پی یہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں ہونے دے گی اور اجیت پوار کا یہ واضح موقف ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ قبول نہیں کیا جائے گا۔

اس موقع پر آل انڈیا مجلس علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نے سیاسی پارٹیوں سے اچھے لوگوں کو انتخابی امیدوار بنانے کی اپیل کی اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لوگ پارٹی دیکھ کر نہیں بلکہ امیدوار کے کردار کو دیکھ کر ووٹ کریں تاکہ ملک میں ماحول خوشگوار ہوسکے۔ مولانا سید کلب جواد نے ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے دعا بھی کی۔ ایڈوکیٹ زیڈ کے فیضان سمیت متعدد مسلم رہنماؤں نے سی اے اے کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب بھارت کے وزیرداخلہ امت شاہ جیسے عظیم عہدے پر بیٹھے لوگ کرونولوجی کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو اس سے ڈر بھی لگتا ہے اور تکلیف بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو الفاظ تول کر بولنا چاہیئے، جس سے ملک کے سیکولر تانے بانے کو کوئی آنچ نہ آنے پائے اور سب لوگ مل کر ملک کی ترقی کے لئے بات کریں۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے کی، جو این سی پی اقلیتی شعبہ کے جنرل سکریٹری اور میڈیا انچارج بھی ہیں۔ آچاریہ پرمود کرشنم نے بھی یہی دہرایا کہ اپوزیشن کو باٹنے کی نہیں بلکہ جوڑنے کی سیاست کرنی چاہیئے۔

اس دوران اپنے خطاب میں آچاریہ مرمود کرشنم نے کہا کہ اگر کوئی قانون یا کوئی بات صحیح ہے تو اس کو درست کہنا چاہیئے اور اگر غلط ہے تو اس کی مخالفت بھی ہونی چاہیئے۔ لیکن اگر کسی قانون سے یا شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) سے کوئی نقصان نہیں ہے تو بلا وجہ اس کی مخالفت نہیں ہونی چاہیئے اور جو لوگ گمراہ کرکے سیاست کرنا چاہتے ہیں، ان کو جواب دینا چاہیئے۔ آچاریہ مرمود کرشنم نے کہا کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہے، جہاں سبھی ہم خیال یا ایک خیال کے ہوں۔ اسی طرح کوئی محلہ یا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے، جہاں پر سبھی لوگ ایک خیال رکھتے ہوں۔ آچاریہ پرمود کرشنم نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے سی اے اے کو نافذ کردیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر فرق نہیں پڑنے والا ہے تو پھر اس کی مخالفت کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن اگر سی اے اے سے مسلمانوں کا نقصان ہے تو اس کی مخالفت ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بیٹھ کر بات چیت کرکے فیصلہ کرنا ہوگا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، ورنہ مخالفت کرتے رہیں گے اور وقت نکل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ زبان اور مذہب کی بنیاد پر کسی سے ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہیئے، سب اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں۔

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے کارگزار صدر پرفل پٹیل نے مسلمانوں کو ماہ مقدس رمضان کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ این سی پی پہلے دن سے اپنے سیکولر اور جمہوری ایجنڈے پر قائم ہے اور وہ ہندوستانی آئین اور قانون کا پورا احترام کرتی ہے۔ این سی پی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ عدنان سامی اور راحت فتح علی جیسے لوگوں کو بھی ہندوستان کی شہریت دی جا چکی ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ کوئی مسلمان بھی شہریت کے لئے اپلائی کرے گا تو اس کو بھی شہریت دی جائے گی۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینیئر وکیل ایڈووکیٹ زیڈ کے فیضان نے کہا کہ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت کرتا ہوں اور یہ میری رائے ہے کیونکہ وزیرداخلہ امت شاہ نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’’سی اے اے‘‘ کے بعد ’’این آر سی‘‘ اور ’’این پی آر‘‘ لایا جائے گا۔ اس لئے مجھے لگتا ہے کہ سی اے اے، این آر سی اور این پی آر سے جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے قانون ہمارے ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون 2019ء میں بنا، لیکن اب تک نافذ نہیں کیا گیا، مسلمانوں کو اس سے باہر نکال دیا گیا ہے، اس پر میرا اعتراض ہے۔

ایڈوکیٹ زیڈ کے فیضان نے کہا کہ سی اے اے کے ذریعہ صرف مظلوموں کو شہریت نہیں دی جائے گی بلکہ اس سے ایسے راستے کھول دیئے گئے ہیں کہ غلط طریقے سے بھی لوگ آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 1955ء کا قانون جب پہلے سے موجود تھا تو پھر نئے قانون کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ مذاکرہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) اقلیتی شعبہ کے سربراہ اور پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری سید جلال الدین کی قیادت میں منعقدہ کیا گیا، جس میں پارٹی کے کارگزار صدر پرفل پٹیل، آچاریہ پرمود کرشنم، معروف شیعہ عالم دین مولانا سید کلب جواد، سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ایڈووکیٹ زیڈ کے فیضان، این سی پی لیڈر برج موہن شری واستو کے علاوہ مولانا زاہد رضا رضوی، انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے نائب صدر ایس ایم خان، سکریٹری ابرار احمد، بی او ٹی محمد شمیم، سکندر حیات، فیض احمد فیض، مفتی عطاء الرحمان قاسمی، ایڈووکیٹ انس تنویر، ایڈووکیٹ اسلم سپریم کورٹ اور ایڈووکیٹ رئیس احمد سمیت متعدد خانقاہوں کے سربراہان اور ملی تنظیموں کے نمائندوں اور مسلم رہنماؤں نے شرکت کی۔

قابل ذکر ہے کہ سی اے اے کے حوالے سے بی جے پی کا موقف یہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کا مقصد افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے ستائی جانے والی اقلیتوں کے لئے ہندوستانی شہریت کا راستہ فراہم کرنا ہے۔ یہ ایکٹ ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جینوں، پارسیوں اور عیسائیوں کا احاطہ کرتا ہے جو 31 دسمبر 2014ء کو یا اس سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ بی جے پی کا ماننا ہے کہ سی اے اے کا کسی بھی ہندوستانی شہری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا چاہے اس کا مذہب کوئی بھی ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ سی اے اے پر بھارتی مسلمانوں نے ہمیشہ خدشات ظاہر کئے ہیں۔ نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے سی اے اے کو دسمبر 2019ء میں منظور کیا تھا، تاہم اس کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے سبب اس کا نفاذ روک دیا گیا تھا۔ بھارت کی تقریباً تمام مسلم تنظیموں نے سی اے اے کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے غیر آئینی اور مسلمانوں کے ساتھ تفریقی سلوک قرار دیا۔ ملکی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی اور دیگر علاقائی پارٹیوں نے بھی اس قانون کے نفاذ پر شدید تنقید کی ہے اور اس اقدام کو ’’عام انتخابات سے قبل عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش‘‘ کا نام دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1124979
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش