0
Wednesday 27 Mar 2024 04:10

پاکستان میں مسلسل حملے، چل کیا رہا ہے؟

پاکستان میں مسلسل حملے، چل کیا رہا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان سے باہر بیٹھے بہت سے تجزیہ نگار اور اندرون ملک ان کے متاثرین یہ پیشگوئیاں کر رہے تھے کہ پاکستان میں انتخابات پرامن نہیں ہوں گے۔ ملک میں بڑی خونریزی ہوگی اور اس حوالے سے بلوچستان اور کے پی میں بدامنی کے امکانات تھے۔ اسی لیے تجزیئے یہ تھے کہ انتخابات ہوں گے ہی نہیں، ہوئے تو کئی لاشیں دے جائیں گے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ملک بھر میں حفاظتی اقدامات کی تہہ در تہہ حکمت عملی بنائی، جس میں انہیں بہت کامیابی ہوئی اور پاکستان کی تاریخ کے پرامن ترین انتخابات وقوع پذیر ہوئے۔ یہ پاکستان دشمن عناصر کی بڑی ناکامی تھی اور جو لوگ ان دہشتگردوں کو پالتے پوستے ہیں، ان کی بھی بڑی ناکامی تھی۔

یہ لوگ تو پاکستان کا بدنما چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے تھے کہ پاکستان پرامن انتخابات کرانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ پرامن انتخابات نے دنیا بھر میں ایک اچھا پیغام دیا، دنیا نے بھی اسے سراہا۔ پھر حکومت نہیں بنے گی، حکومت بنی تو کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت لڑیں گے، غرض ہر جگہ ناکام ہوئے۔ اس تصویر نے تمام پاکستان دشمنوں کے دلوں میں جلن پیدا کر دی، جس میں چاروں وزرائے اعلیٰ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک اور تصویر بھی بڑی وائرل ہوئی، جس میں صدر پاکستان اور آرمی چیف شہید کی میت کو کندھا دیئے ہوئے ہیں۔ ہر چیز کا اثر ہوتا ہے اور ایسی تصاویر تو بہت ہی موثر ہوتی ہیں، اپنا پیغام چھوڑ جاتی ہیں۔

ان حالات میں دہشتگردوں نے پاکستان میں بھرپور کارروائیاں کرکے اپنے وجود کے اظہار کی کوشش کی۔ بشام میں بہت افسوس ناک واقعہ ہوا، منگل کو صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ کی تحصیل بشام میں اِن چینی انجینئرز کا قافلہ داسو ڈیم کی طرف جا رہا تھا۔ خودکش حملہ آوروں نے اپنی گاڑی سے چینی انجینئرز کی گاڑی کو ٹکر ماری، جس سے ان کی گاڑی کھائی میں جا گِری اور پانچ چینی باشندوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے۔ اسٹسنٹ کمشنر بشام عدنان خان نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ یہ واقعہ لگ بھگ ایک بجے دوپہر پیش آیا، جب ایک وٹز گاڑی میں سوار خودکش حملہ آور نے چینی انجینئرز کی گاڑی کے ساتھ اپنی گاڑی ٹکرا دی۔ ان کے بقول مزید تفصیلات قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تفتیش کے بعد سامنے آسکیں گی۔

چینی کارکنان کے خلاف خارجی اور وطن دشمن گروہوں کی کارروائیوں کا سلسلہ نظر آرہا ہے، کیونکہ اس سے قبل داسو منصوبے پر کام کرنے والے چینیوں پر 2021ء میں حملہ کیا گیا تھا، جس کا الزام ٹی ٹی پی پر عائد کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر اس واقعے کو ایک حادثہ قرار دیا گیا تھا، لیکن بعد میں اس کی تصدیق کی گئی تھی کہ یہ باقاعدہ حملہ تھا۔ اس حملے کے بعد محکمہ انسداد دہشت گردی کے اس وقت کے ڈی آئی جی جاوید اقبال نے بتایا تھا کہ داسو حملے میں کل 14 افراد ملوث تھے اور یہ گروہ پاکستان میں متحرک تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں کی گئی تھی، جہاں کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر معاویہ اور طارق اس کے ماسٹر مائنڈ تھے۔

ایک ہفتے کے دوران یہ پاکستان میں مسلح شدت پسندوں نے بلوچستان میں بھی دو حملے کیے۔ منگل کو ایران سے متصل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں دہشتگردوں نے بحریہ کے ایئر بیس پی این ایس صدیق پر حملہ کیا، جس میں سکیورٹی فورسز کا ایک اہلکار شہید ہوا جبکہ چار حملہ آور مارے گئے۔ اس سے قبل کیچ سے متصل ضلع گوادر میں پورٹ اتھارٹی کمپلیکس پر بھی متعدد شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا جسے پاکستانی حکام کے مطابق ناکام بنا دیا گیا تھا۔ اس حملے میں سرکاری حکام نے دو اہلکاروں کے شہید ہونے کی تصدیق کی تھی جبکہ آٹھ حملہ آور بھی ہلاک کر دیئے گئے تھے۔

بلوچستان کے حملوں کی ناکامی یہ بتاتی ہے کہ وہاں سکیورٹی فورسز مکمل تیار تھیں، اس لیے جیسے ہی حملہ آور آئے، دبوچ لیے گئے اور انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ان حملوں کے نتیجے میں ایک اور اہم انکشاف بھی سامنے آیا کہ گوادر کے حملے میں مارا جانا والا ایک دہشتگرد مسنگ پرسن کی لسٹ میں بھی تھا، خبر ہے کہ ہلاک دہشتگرد کریم جان کی بہن نے اسپتال میں نعش کی شناخت کی۔ دہشتگرد کریم جان کی بہن کی نعش حوالگی کیلئے سول اسپتال گوادر کو درخواست میں کہا ہے کہ کریم جان دہشتگرد تنظیم کالعدم بی ایل اے (مجید بریگیڈ) کا رکن تھا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ کریم جان بلوچ کا نام یکجہتی کونسل کی مسنگ پرسن کی لسٹ میں بھی تھا۔ اس واقعے نے اس پروپیگنڈے کو بھی بے نقاب کیا ہے، جس میں ہزاروں افراد  کی فہرستیں بنا کر دنیا کو بے وقوف بنایا جاتا ہے کہ اتنے لوگوں کو ریاست نے اٹھا لیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی بڑی تعداد اسی طرح کی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے اور یہ لوگ خواتین کو استعمال کرکے لوگوں کو جذباتی کرتے ہیں۔ بشام حملے کے بعد وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب خود چینی سفارتخانے گئے اور چینی سفیر سے ملاقات کرکے اظہار افسوس کیا۔ دہشتگرد پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کاٹنا چاہتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اس وقت سب سے بڑی سرمایہ کاری چین کر رہا ہے، اگر چینی سرمایہ کاری نکل جائے تو پاکستان مالی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا اور یہاں معاشی افلاس آجائے گا۔ معاشی عدم استحکام ہی ان دہشتگردوں کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ افغانستان کی محفوظ پناہ گاہ دہشتگردوں کے حوصلے بلند کر رہی ہے، ریاست آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے اور جلد راستہ بہت واضح ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1125146
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش