2
Wednesday 27 Mar 2024 16:49

پاکستان رژیم نومبر 2024ء ستمبر 2024ء کے بعد آئے گا

پاکستان رژیم نومبر 2024ء ستمبر 2024ء کے بعد آئے گا
تحریر: عرفان علی

آج صوبہ پنجاب سے سات سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں، جبکہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت سے ایم کیو ایم کے پرانے رہنماء اور تحریک انصاف سے آنے والے رہنماء سینیٹ الیکشن سے دستبردار ہوچکے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ تحریک انصاف کے دوسرے پرانے رکن قومی اسمبلی فیصل واوڈا نے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سے ملاقات کی۔ زرداری نے انہیں بیٹا بنا لیا اور رئیس آصف علی خان زرداری دوسری مرتبہ صدر مملکت بن چکے ہیں۔ تو ان کا اضافی نیا گود لیا بیٹا ابا حضور کی پیپ لس پارٹی کی بجائے الطاف حسین کے عاق شدہ و بظاہر بابائے قوم مھاجر و کراچی کے باغی بچوں نے بھی زرداری کے adopted son کو سیاسی گود لینے کی ایک نئی روایت قائم کر ڈالی ہے۔ فیصل واوڈا ایک بڑا سا فوجی بوٹ لے کر ٹی وی پروگرام کے ٹاک شو میں شرکت کرچکے تھے۔ اس میں اہل عقل کے لیے کہ جن کی مت مارے جانے سے تاحال بچی ہوئی ہے، فقط ان کے لیے کھلے اشارے ہیں۔

کھلے واضح محکم اشارے تو دیکھیں کہ بلامقابلہ سات سینیٹرز میں بوٹ پالش مخالف پرویز رشید بھی ہیں تو ڈونلڈ ٹرمپ کی بیِٹی و داماد کے قریبی زلفی بخاری بھی، سی این این سے چینل 24 کا سفر کرنے والے، نگراں وزیراعلیٰ سے پی سی بی تا وزیر داخلہ پاکستان تک کا سفر طے کرچکنے والے محسن نقوی بھی تو عمران خان و پاکستان تحریک انصاف کے عدیم النظیر اتحادی مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری جنرل سے چیئرمین تک کا سفر طے کرنے والے راجہ ناصر عباس جعفری بھی ہیں۔ جناب کیا لکھوں طلال چوہدری، احد چیمہ بھی ہیں۔ ناصر محمود بھی ہیں، تو سرگردان حامد خان وکیل بھی۔ یعنی کل ملا کر منظر نامہ یہ ہے کہ بکریاں شیر ایک گھاٹ پر مزے سے پانی پی لیں، یہ تاثر دیا جا رہا ہے۔

شاہ جی کے مزے آئے ہوئے۔ ایوب و ضیاء و مشرف تینوں بیک وقت پاور میں ہوتے تو جو وہ تین کرتے، چیف صاحب اکیلے کر رہے ہیں۔ سب دا سجن، سب دا بیلی! نواز شریف کی بیٹی مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کے وفادار ترین ڈٹ جانے والے پرویز رشید بلامقابلہ سینیٹر۔ خاتون رہنماء کے گھر والے قصے کے ولن طلال بھی۔ نو مئی والی پارٹی کے زلفی بخاری بھی تو کیا حامد خان پرانے انصافین نہیں۔ چل کیا رہا ہے۔ سارا گیم انڈر کنٹرول۔!؟ بہت واضح نظر آرہا ہے کہ یو ایس امریکا کے نومبر 2024ء صدارتی الیکشن کو مدنظر رکھ کر یہ ساری کھچڑی پکائی جا رہی ہے، لیکن اس سارے قضیے میں ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ راجہ ناصر اپنے اصل میدان والوں کے لیے قابل اعتماد رہ سکے ہیں یا حضرات مومنین آج انہیں 2013ء الیکشن جیسا ہی قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔؟!؟

پہلے عرض کیا جاچکا کہ ایک خطرناک ترین منافقانہ خفیہ سازشیں و کھلا کھیل ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ جس کی کامیاب تکمیل کے لیے امریکی مغربی نیٹو زایونسٹ بلاک کو نومبر 2024ء صدارتی الیکشن کا انتظار ہے، لیکن ٹرانزیشن ٹو نیو ایڈمنسٹریشن میں کتنا وقت لگے گا، یہ کہنا مشکل ہے یا پہلے سے پوری کابینہ تیار ہے اور کیا واقعی ڈیموکریٹک صدارتی اقتدار اس برس ختم ہونے کی کوئی کنفرمڈ اطلاع کسی کو مل چکی ہے!؟ بالفرض ٹرمپ آتا ہے، تب کیا روس کو ریلیف ملے گا اور چین بنے گا مرکزی ولن یا دونوں سے کوئی ڈیل یا تصادم کی پالیسی کے علاوہ زیرو آپشن ہیں!؟ ناممکن کے قریب ہے کہ درمیانی راہ بچی ہے یا یوکرین و چائنا اقتصادی عروج کی طرح عالمی سیاسی قیادت کے اپنے منصوبے سے پیچھے ہٹے گا۔

کیا زرداری و نواز شریف روس اور چین کو پاکستان کی بیک وقت تینوں کشتیوں کی سواری والے لالی پوپ کے آگے ڈھیر کر لیں گے، ممکن نہیں لگتا، کیونکہ عمران خان کی حکومت اور آئی ایم ایف کے توسط سے پاکستان اور سی پیک و چین کی ایسی کی تیسی بھی کی جاچکی ہے، یوکرین جنگ کا متبادل اب ہے ہی نہیں اور غزہ سمیت مشرقی یروشلم دارالحکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کی شرط اسرائیل نے کسی صورت ماننی نہیں۔ آج ابھی تک سے 1948ء تک سکون سے نگاہ دوڑا لیں۔ نومبر 2024ء سے پہلے ستمبر 2024ء آتا ہے اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر 18 بلین ڈالر جرمانے سے بچنے کے لیے گوادر تک پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کرنا بھی ستمبر 2024ء میں لازم ہے، لارے لپوں کا دور گذر چکا۔

اقتصادی لحاظ سے آپشن اتنے محدود اور کم ہیں کہ پاکستان کو محض اللہ کی غیبی مدد و لطف خفی سے ہی شیطان کی اولاد اور اولیاء و خائنین و منافقین و مرتدین و ظالمین و کافرین و مشرکین و حاسدین کے شر سے نجات ممکن ہے۔ رژیم کی اعلانیہ تدابیر سے خاص طور پر امریکی نیٹو زایونسٹ بلاک کے خلاف کوئی اشارتی کھوکھلا سا بیان بھی نہ آنا رژیم کی غلط سمت پر واضح دلیل ہے۔ ایشو سارے انڈے ایک باسکٹ میں نہ ڈالنا نہیں ہے، تجارتی خسارہ 48 بلین ڈالر ملک ڈیفالٹ ہوگیا، باوجود اسکے کہ سارے انڈے بیک وقت امریکی زایونسٹ بلاک کے ممالک خاص طور پر امریکا و چند جی سی سی ممالک خاص طور پر سعودی عربیہ و یو اے ای و حتیٰ چین سے تجارت و روس سے گیس کی خریداری کا تجربہ بھی کرلیا تب بھی، حافظ صاحب کا تو پتہ نہیں بس اب اللہ ہی حافظ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1125240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش