0
Saturday 27 Apr 2024 10:55

ایران کے صدر کے دورہ پاکستان پر لکھے گئے چند تبصروں سے اقتباس

ایران کے صدر کے دورہ پاکستان پر لکھے گئے چند تبصروں سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
 
 ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کا 28 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے. دفتر خارجہ کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا، ایرانی صدر کے ہمراہ وزیر خارجہ سمیت اعلیٰ سطح کا وفد بھی پاکستان آیا، جس میں وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر کابینہ ارکان بھی شامل تھے۔مشترکہ اعلامیے کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی نے وزیراعظم شہباز شریف سے وفود کی سطح پر بات چیت کی، فریقین نے پاک ایران دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا، باہمی تشویش کے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اعلامیے میں بتایا گیا کہ دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی متعدد یادداشتوں اور معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے، برادرانہ تعلقات مضبوط بنانے کیلئے اعلیٰ سطح کے دوروں کے باقاعدہ تبادلے کے ذریعے باہمی روابط کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔

دفتر خارجہ کے مطابق دونوں پڑوسیوں اور مسلم ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی، مذہبی اور تہذیبی تعلقات کو اجاگر کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق پاکستان اور ایران نے دمشق میں ایرانی قونصلر سکیشن پر حملے کی مذمت کی، دونوں ممالک نے باہمی سرحد کو پاک ایران دوستی، امن کی سرحد کے طور پر تسلیم کیا، پاکستان اور ایران نے مستقل بنیادوں پر سیاسی، سکیورٹی حکام کے تعاون پر اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ باہمی تعاون کا مقصد دہشتگردی، منشیات اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ہے۔ یاد رہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی 22 اپریل کو پاکستان پہچنے تھے، جس کے بعد انہوں نے لاہور اور کراچی کے دورے بھی کیے تھے اور پھر ابراہیم رئیسی 24 اپریل کو اپنا دورہ مکمل کرکے واپس وطن روانہ ہوگئے۔

نوائے وقت اخبار کا تبصرہ
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان پر امریکا کی جانب سے ردعمل سامنے آگیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے پاک ایران تجارتی معاہدوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر پابندیوں کا خطرہ ہوسکتا ہے، تجارتی معاہدوں پر غور کرنے والوں کو ممکنہ پابندیوں کے خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے پریس بریفنگ کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے مزید کہا کہ امریکا پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈیوں میں سے ایک ہے، اپنی شراکت داری کو جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔ پاکستان آزاد اور خود مختار ملک ہے، اس لئے اپنے سود و زیاں کا پاکستان بہتر فیصلہ کرسکتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس دورے کے حوالے سے دھمکی آمیز لب و لہجے میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے، وہ قطعی بے جا ہیں۔ گو ایران پر امریکہ کی طرف سے کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں، لیکن کیا ان پابندیوں پر عمل کرنا صرف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔؟ چین سمیت کئی ممالک کو آج بھی ایران پیٹرولیم مصنوعات برآمد کر رہا ہے۔ گذشتہ سال پیٹرولیم کی برآمدات میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے ساتھ ایران کے کئی معاہدے رو بہ عمل ہیں۔ گذشتہ سال تجارتی حجم 48 فیصد اضافے کے ساتھ 2.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔

آج پاکستان کو انرجی کے بحرانوں کا سامنا ہے۔ بجلی اور گیس کی کمی ہے جبکہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں، جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور براہ راست پاکستان اور ایران کی کوئی مخالفت نہیں ہے، لیکن گیس پائپ لائن سمیت کئی معاہدوں پر پاکستان امریکہ کی وجہ سے عمل کرنے سے قاصر ہے۔ اگر امریکہ کی پابندیاں آڑے نہ آتیں تو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ کر پاکستان میں گیس کی ضروریات کو پوری کر رہا ہوتا۔ ایران پاکستان کو بجلی فراہم کرنے کی بھی پیشکش کرچکا ہے۔ اگر ایران سے پیٹرولیم کی سمگلنگ کو ریگولیٹ کرکے تجارت کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو پاکستان میں تیل کی قیمتیں آج کے مقابلے میں ایک چوتھائی پر آسکتی ہیں۔ امریکہ جب پاکستان کو ایران سے تعلقات کے حوالے سے ڈکٹیٹ کرتا ہے تو کیا وہ پاکستان کو وہی سہولیات دے سکتا ہے، جو ایران کی طرف سے پاکستان کو ممکنہ طور پر فراہم کی جاسکتی ہیں۔ اس کا جواب ہاں میں ہوسکتا ہے۔

امریکہ پاکستان کو اس ریٹ پر پیٹرولیم مصنوعات فراہم کر دے، جس پر ایران پاکستان کو فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تو پاکستان کے توانائی کے مسائل ضرور کم ہوسکتے ہیں۔ پاکستان ایران فروغ پاتے تعلقات امریکہ سمیت تمام الحادی قوتوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکیں گے۔ یہی وقت ہے کہ ہم ملکی اور قومی مفادات کو اپنی خارجہ پالیسی کا محور بنائیں۔ اسرائیل اور بھارت کی سرپرستی کرکے امریکہ علاقائی امن و سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔ مسلم دنیا کو اب مصلحتوں کا لبادہ اتار کر یکجہت ہو جانا چاہیئے۔ اسلامک بلاک آج وقت کی ضرورت ہے۔ ایرانی صدر کے دورے کے اختتام پر دونوں ملکوں کی جانب سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، جو موجودہ حالات میں بڑا جامع اور جرات مندانہ ہے۔ مشترکہ اعلامیہ کا مرکزی نقطہ تجارت کو اگلے پانچ سال میں 10 ارب ڈالر تک بڑھانا ہے، جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان موجودہ تجارت کا حجم 2.3 ارب ڈالر ہے۔

جیو نیوز کا تبصرہ
پاکستان اور ایران کے مابین سرد مہری کا آغاز اس وقت دیکھنے میں آیا، جب مئی 2016ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایران کا دورہ کیا اور پھر ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دینے کیلئے انڈیا ایران اور افغانستان کے مابین سہ فریقی 550 ملین ڈالر کا فنڈ کا قائم کیا گیا۔ ایرانی سرحد سے بھارتی جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری اور اس کے نیٹ ورک سے حاصل شدہ معلومات کے بعد یہ تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہوگئے۔ رواں سال کے شروع میں ایرانی فورسز کی جانب سے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستان کی جوابی کارروائیوں کے بعد سفارتی تعلقات منقطع ہوگئے۔ ایرانی صدر کا دورہ پاکستان ان تعلقات میں سابقہ گرمجوشی واپس لانے اور اپنی عالمی تنہائی کا تاثر دور کرنے کی کوشش ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں سفارتکاری کے رجحان میں اچانک خوشگوار اضافہ دیکھا گیا ہے۔

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، سعودی سرمایہ کاروں کا دورہ پاکستان، سعودی وزیر خارجہ اور اعلیٰ عسکری حکام کے پے درپے دوروں نے یہ تاثر دیا ہے کہ ایرانی صدر کے دورے کے باوجود وہ پاکستان کو اولین ترجیح سمجھتے ہیں، جبکہ اگلے ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان بھی متوقع ہے۔ حرمین شریفین اور لاکھوں پاکستانیوں کا ذریعہ روزگار ہونے کے باعث سعودی عرب کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بنیادی اہمیت حاصل ہے، پاکستان کے زرمبادلہ میں سعودی عرب کی طرف سے پارک کیے گئے اربوں ڈالرز کا بنیادی حصہ ہے۔ ایران کی طرف سے اعلیٰ سطحی دورے کے باوجود کسی بڑے بریک تھرو کا امکان ظاہر نہیں کیا جا رہا، البتہ پاکستان اور سعودی عرب کی قربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ دونوں ممالک کے مابین دستخط کیے گئے معاہدوں کے نصف پر بھی عمل ہوگیا تو پاکستانی معیشت کو آکسیجن میسر آجائے گی اور مشرق وسطیٰ میں پاکستانیوں کے ذرائع روزگار میں مزید اضافہ ہوگا۔

معروف کالم نگار نسیم حیدر کا تبصرہ
سعودی وزیر خارجہ کے دورے کے فوری بعد ایرانی صدر کی آمد پاکستان کا بڑی حد تک نیوٹرل امیج اجاگر کرنے کا موقع بن گئی ہے، ساتھ ہی یہ دورہ مؤثر خارجہ پالیسی کے اظہار اور پاکستان کے تنہائی کا شکار ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کی بھی علامت ہے۔ یران کے صدر ایسے وقت میں پاکستان آئے ہیں، جب سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد نے 15 اور 16 اپریل کو پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ سعودی وفد نے ایس آئی ایف سی کے تحت توانائی، معدنیات، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعمیرات، رینیوایبل انرجی، ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ اور برآمدی شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تجاویز پر بات کی ہے۔ ایران کو بھی سرمایہ کاری کی اس فضا سے فائدہ اٹھانا چاہیئے، پاکستان اور ایران کے درمیان ترجیحی تجارت کا معاہدہ سن دو ہزار چھ سے نافذ ہے۔ پاکستان نے 338 اور ایران نے 309 اشیاء پر رعایتیں دی ہیں، تاہم آزاد تجارت کا معاہدہ تاحال نہیں کیا جاسکا ہے۔ سفارتی سطح پر کوشش کی جا رہی ہے کہ صدر رئیسی کے دورے میں اس حوالے سے ٹھوس پیشرفت ممکن بنائی جائے۔

دونوں ملکوں کے درمیان تین تجارتی گزرگاہیں ہیں، تفتان کے بعد رمدان گبد سرحدی گزرگاہ کا افتتاح چار برس پہلے اپریل میں کیا گیا تھا۔ یہ کراسنگ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے 120 کلومیٹر اور گوادر سے صرف 70 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اس طرح گوادر سے ایران تجارت کو فروغ دینے میں بہت معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ تیسری بندرگاہ مند پشین کا افتتاح سن دو ہزار اکیس میں اپریل ہی کے مہینے میں کیا گیا تھا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اپریل میں اس دورے کے موقع پر ایک اور مقام پر سرحد کھولنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ صدر رئیسی اور وزیراعظم شہباز شریف پچھلے برس ایران سے سو میگاواٹ بجلی کی فراہمی کیلیے ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح بھی کرچکے ہیں۔ ایران نے بجلی کی فراہمی مزید بڑھانے کی پیشکش بھی کی ہے۔ پاکستان کیلئے یہ ڈیل اس لیے اہم ہے کہ رقم کی ادائیگی ڈالر میں کرنا نہیں پڑتی۔

دونوں ملک باہمی تجارت کا دائرہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، بجلی و توانائی اور دیگر سیکٹرز میں مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں ایران کے سفیر ڈاکٹر رضا امیری مقدم کے بقول دونوں ملک ایک دوسرے کی ضروریات کا ستر فیصد پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باہمی تجارت کا حجم اڑھائی ارب ڈالر سے بڑھا کر 10 ارب ڈالر کرنے کی کوشش ہے۔ تاہم باہمی تجارت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنکنگ چینلز کا نہ ہونا ہے، فی الوقت یہ تجارت بارٹر یا دیگر کرنسیز میں کی جا رہی ہے، اس ضمن میں ایران، ترکیہ، ایران، بحرین اور ایران عراق بنکنگ ماڈلز کو دیکھ کر حکمت عملی بنائی جائے تو تاجروں کو سہولت مل سکتی ہے۔ بنکنگ چینل ہو تو غیر قانونی تجارت کی بھی حوصلہ شکنی کی جاسکے گی، جس سے چند افراد تو فائدہ اٹھاتے ہیں مگر حکومتیں نہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان پروازوں کی تعداد میں اضافے اور نئی ائیرلائنز کو آپریشن کی اجازت دینے کا معاملہ بھی حل طلب ہے۔

یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس دورے میں پاکستان ایران گیس پائپ لائن مکمل کرنے کے معاملے پر بھی بات کی جائے گی۔ 1990ء میں کیے گئے معاہدے کے تحت ایران کی جانب سے 2009ء میں ایک ارب ڈالر مالیت سے بچھائی گئی پائپ لائن پاکستان کے دروازے پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنی جانب پائپ لائن بچھا بھی لے تو اسے جوڑ کر ایران سے گیس خریدی کیسے جائے گی، کیونکہ اس کے لیے امریکا کی اجازت درکار ہے۔ 10 برس پہلے ایک امریکی سفارتکار نے اس نمائندے کو بتایا تھا کہ اقتدار میں ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلکنز، ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی مخالفت ترک نہیں کی جائے گی۔ روس اور جرمنی کے درمیان زیر سمندر نارڈ اسٹریم گیس پائپ لائن کو بم دھماکے سے تباہ کیا گیا ہو تو 27 سو کلومیٹر طویل ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی سکیورٹی کس قدر نازک ہوگی، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاہم ایرانی حکام کو توقع ہے کہ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف اس مسئلہ کا حل تلاش کرلیں گے۔ عالمی صورتحال کے تناظر میں اس دورے کی اہمیت اپنی جگہ، علاقائی سطح پر بھی اس دورے کو کئی لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔
 
تجزیہ نگار اطہر قادر حسن لکھتے ہیں:
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کا دورہ پاکستان آج کے عالمی حالات کے تناظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے، وہ اس اہم موقع پر پاکستان پہنچے ہیں، جب غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری ہے۔ ایران نے اسرائیل کی فوجی تنصیبات پر حملہ کرکے شام میں اپنے قونصلیٹ پر حملے کا جواب دے دیا ہے، اسرائیل نے بھی ایران پر جوابی میزائل فائر کیے ہیں، جنھیں ناکام بنا دیا گیا ہے۔ ایران دنیا، امریکا اور یورپی یونین کے لیے ناپسندیدہ ملک ہے، خصوصاً گذشتہ کئی دہائیوں سے ایران اور امریکا کے درمیان تعلقات خراب ہیں۔ امریکا بہادر نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ایران کو معاشی طور پر دنیا سے علیحدہ کر رکھا ہے۔ لیکن ایرانی قیادت بھی ڈٹی ہوئی ہے۔ایران نے ان عالمی پابندیوں کو اپنے حق میں یوں استعمال کیا ہے کہ مقامی مصنوعات تیار کرنا شروع کیا اور آج یہ عالم ہے کہ عوام اپنی ایرانی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ ان مصنوعات میں سے کچھ اسمگل ہو کر ادھر سرحد پار پاکستان بھی پہنچ جاتی ہیں۔

ان کی قیمتیں کم جب کہ کوالٹی بہت بہتر ہوتی ہے، لیکن چونکہ باقاعدہ تجارت کا کوئی چینل موجود نہیں ہے، اس لیے پاکستان کے عوام تک ایرانی مصنوعات کی رسائی بھی محدود پیمانے پر ہے۔ ایران پاکستان کے ان اولین دوست ممالک میں شامل ہے، جنھوں نے پاکستان کے وجود کو سب سے پہلے تسلیم کر لیا تھا۔ پاکستان اور ایران کے مشترکہ کاروباری مفادات اور جنوبی ایشیاء میں تجارت کی راہیں کھولنے کی بات کی جائے تو مستقبل میں دونوں ممالک کا اس سلسلے میں اہم ترین کردار ہوگا۔ اسرائیل اگر کسی اسلامی ملک سے خوفزدہ ہے تو وہ ایران ہے، جس کے پاس عوامی طاقت کا ایک سمندر ہے اور وہ بطور ایک قوم اپنے ملک کی قیادت کے فیصلوں کے ساتھ ہمیشہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے اقتصادی پابندیوں نے ایرانی عوام کے درمیان اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا ہے اور وہ اپنی قیادت کا ساتھ دیتے ہیں۔

اسرائیل اور ایران تنارعہ میں امریکی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اگر امریکی مدد و تعاون سے اسرائیل نے ایران پر جنگ مسلط کی اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔ تیل کی قیمتوں میں استحکام رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا اسرائیل کو للکار مارنے کی اجازت تو دے سکتا ہے، لیکن اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کی اجازت نہیں مل سکتی۔ اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایرانی اور پاکستانی قیادت نے اس اہم موقع پر مل بیٹھنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ ٹائمنگ کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات وقت کی ضرورت اور اس بات کے متقاضی ہیں کہ دونوں ممالک کی سرحدیں ایک دوسرے کے لیے محفوظ ہوں، تاکہ دہشت گردوں کو تعلقات خراب کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
 
تجزیہ نگار چودھری فرخ شہزاد لکھتے ہیں:
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب انڈیا اور چائنہ امریکی مخالفت کے باوجود ایران سے سستا تیل خرید رہے ہیں تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کرسکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان نہ چائنہ ہے اور نہ انڈیا کہ وہ امریکہ کے آگے مزاحمت کرسکے۔ اگر پاکستان ایسا سوچے گا تو سب سے پہلے آئی ایم ایف جس میں سب سے بڑا شیئر امریکہ کا ہے، وہ پاکستان کو قرضہ دینے سے انکار کر دے گا۔ ہمیں حقیقت پسندی سے معاملات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سارے معاملے میں ایک بات طے ہے کہ ایرانی صدر کے دورے سے ایک طرف تو اسرائیل کے اندر بے چینی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، دوسری طرف پاکستان نے اس دورے کی میزبانی کے ذریعے اپنی bargaining power میں کئی گنا اضافہ کر لیا ہے اور امریکہ کو خاموش پیغام دے دیا ہے۔ تیسرا عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں مزید بہتری اور اعتماد سازی کا عنصر مضبوط ہوا ہے۔ اس دورے کی سب سے زیادہ ٹینشن انڈیا کو ہے کہ پاکستان ایک دفعہ پھر میچ میں واپس آرہا ہے۔

ہمارے قومی میڈیا حتیٰ کہ عالمی میڈیا میں بھی اس دورے کے جو محرکات بیان کیے جا رہے ہیں، ان میں ایک اہم ترین پیش رفت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ پتہ نہیں کیوں کسی کا اس طرح دھیان ہی نہیں جا رہا۔ اس دورے سے زیادہ اس کے پس منظر اور پیش منظر پر نگاہ رکھنا بڑا ضروری ہے۔ پاکستان کے سعودیہ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اتنی گہری اور ہمہ گیر ہے کہ پاکستان کو اگر سعودیہ اور ایران میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو بلاشبہ قرعۂ فال سعودیہ کے حق میں آئے گا، لیکن اس وقت سعودی عرب اور ایران میں چائنہ نے صلح کرا دی ہوئی ہے، لہٰذا اب ان کی ریاستی تلخی ختم ہوچکی ہے۔ ایران اسرائیل معاملے میں سعودی عرب خاصا غیر جانبدار ہوچکا ہے۔ اسرائیل اور سعودیہ کو قریب لانے کی ساری امریکی کوششیں 7 اکتوبر کے حماس حملے اور بعد کی صورتحال کی وجہ سے ان پر پانی پھر چکا ہے۔

سعودی عرب، امارات اور سارے عرب ممالک نہیں چاہتے کہ مشرق وسطیٰ، ایران اور اسرائیل کے درمیان میدان جنگ بنے، کیونکہ اس سے انہیں براہ راست نقصان ہوگا، تیل کی ترسیل کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور گلف میں جہاں جہاں امریکی اڈے موجود ہیں، جب وہاں سے ایران پر میزائل حملے ہوں گے تو ایران جوابی طور پر امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا، جو کہ عرب ممالک کی سرزمین پر ہیں۔ اس طرح یہ سارے ممالک جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ ہمارے تجزیہ کار یہ نقطہ نظر انداز کر گئے کہ ایرانی میزائل حملوں کے فوراً بعد سعودی عرب کا اعلیٰ سطحی وفد وزیر خارجہ فیصل بن فرحال السعود کی سربراہی میں اسلام آباد پہنچ گیا، جس کے غالباً 3 دن بعد ایرانی صدر اسلام آباد لینڈ کرچکے تھے، ان دو واقعات کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔
 
بی بی سی کا تجزیہ
کیا پاکستان پر ایرانی صدر کے دورے کے نتیجے میں کوئی بیرونی دباؤ آسکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سابق سفیر رفعت مسعود کا کہنا تھا کہ "مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان اور ایران قریب آئیں اور جو بھی ملک ایران کے قریب جاتا ہے، اس پر امریکہ کی طرف سے دباؤ آتا ہے۔" سابق سفیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومتیں ہمیشہ ہی امریکہ اور مغربی دنیا کو بتاتی ہیں کہ "ایران ہمارا پڑوسی ہے اور اس سے ہمارے تاریخی تعلقات ہیں۔"، "ہم انھیں یہ باور کرواتے ہیں کہ ایران کے ساتھ تجارتی، اقتصادی اور تعزویراتی تعلقات رکھنا ناصرف ہماری خواہش ہے بلکہ مجبوری بھی ہے۔" ان کے مطابق مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ کو سوچنا چاہیئے کہ اس خطے میں عوامی جذبات ان کے خلاف ہیں اور وہ یہاں تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ "مغربی طاقتوں کو اپنی پالیسیوں پر نہ صرف نظرِثانی کرنی چاہیئے بلکہ انھیں خود بھِی اس خطے کے ممالک کے ساتھ انگیجمنٹ بڑھانی چاہیے۔" لیکن پاکستان اور ایران کے تعلقات پر نظر رکھنے والے دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کے سبب پاکستان پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں آئے گا۔

کوئنسی انسٹٹیوٹ فار رسپانسبل سٹیٹ کرافٹ کے مشرقِ وسطیٰ پروگرام کے ساتھ بطور ڈپٹی ڈائریکٹر منسلک ایڈم وینسٹائن کہتے ہیں کہ "پاکستان کے اوپر صدر رئیسی پر کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنے کے لیے کوئی بیرونی دباؤ نہیں آئے گا، کیونکہ پاکستان اور ایران کے تعلقات اس وقت کوئی مثالی نہیں۔"، "اگر پاکستان اس کشیدگی کے پسِ منظر میں خود کو ایک ثالث کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے تو بات الگ ہے، لیکن اگر ایسا ہوتا بھی ہو تو پاکستان کوئی متاثر کُن ثالث نہیں بن سکتا۔" ایڈم وینسٹائن کے مطابق صدر ابراہیم رئیسی کے دورے کا مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ ایران مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کے باوجود یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ سب کچھ نارمل ہے۔

واشنگٹن میں نیو لائنز انسٹٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ پالیسی سے منسلک ڈاکٹر کامران بخاری بھی دیگر تجزیہ کاروں سے متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "میرا نہیں خیال کہ مغربی دنیا خصوصاً واشنگٹن میں صدر ابراہیم رئیسی کے دورۂ پاکستان پر کوئی زیادہ توجہ دے رہا ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس وقت ایران کے ہر قدم پر دُنیا کی نظر ہے۔"، "یہاں پر زیادہ تر لوگ ایرانی فوج، پاسدارانِ انقلاب، وزیرِ خارجہ اور رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔" انھوں نے اس تاثر کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی کہ ایران اس وقت اسرائیل کے ساتھ بڑھنے والی کشیدگی کے سبب تنہائی کا شکار ہے۔ ڈاکٹر کامران بخاری کہتے ہیں کہ "اسرائیل نے ایران کے حملوں کے جواب میں کم سے کم ردِعمل اس لیے ہی دیا، کیونکہ اس پر امریکہ کا دباؤ تھا اور اس وقت ایران اور امریکہ کا درمیان بیک چینل بات چیت جاری ہے۔

وائس آف امریکہ کا تبصرہ
بدھ کو ایرانی صدر کے دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں نے فری ٹریڈ معاہدے کو حتمی شکل دینے، سیاسی اور تجارتی کمیٹیوں کے اجلاس اور جوائنٹ اکنامک کمیشن کے 22 ویں جائزے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت باہمی تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔ جس میں سے 1.4 ارب ڈالر کی مصنوعات ایران پاکستان کو بھجواتا ہے، جبکہ پاکستان کی برآمدات 8.8 ملین کے قریب ہیں۔ کیا دس ارب ڈالر کی باہمی تجارت کا ہدف حقیقت پسندانہ ہے اور دونوں ملکوں کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔؟ ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے معاشی ماہرین اور حکومتی ذمے دار سے بات کی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی پابندیوں کے شکار ملک ایران کے ساتھ تجارت کے لیے حکومتِ پاکستان کو روایتی عمل سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کہتے ہیں، سنجیدہ کوششوں سے ایران کے ساتھ تجارت کو بڑھا کر دس ارب ڈالر کا باہمی تجارت کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک چین، ایران اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت کو بھی فروغ دیا جائے۔ لیکن سابق سیکرٹری تجارت و خزانہ یونس ڈاگھا کہتے ہیں، ایران کے ساتھ تجارت میں تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا۔ ان کے بقول ایران کی برآمدی اشیاء اسٹیل، پلاسٹک اور پٹرولیم مصنوعات کے مقابلے میں پاکستان صرف زرعی اجناس اور ٹیکسٹائل ہی برآمد کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خطے میں تجارت محدود ہے، لیکن تجارت کے فروغ کے وسیع مواقع اور ذرائع موجود ہیں۔ ان کے بقول خطے کے ممالک کے ساتھ تجارت میں ٹیرف عائد نہیں ہوتے اور نقل و حمل کی لاگت بھی کم آتی ہے۔ یونس ڈاگھا نے کہا کہ ایرانی صدر کے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران پاک ایران سرحد پر اکنامک زون بنانے پر اتفاق ہوا ہے، جس سے پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ پاکستان سرحدی علاقے میں موجود معدنیات کو ایران کی سستی توانائی کی مدد سے فائدہ اٹھا کر برآمدی مصنوعات بڑھا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ برس وزیرِاعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہمراہ پاکستان ایران سرحدی گزرگاہ مند، پشین تجارتی منڈی اور بجلی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
 
"بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا ہوگا"
تاجر رہنماء مرزا اختیار بیگ کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا حجم 10 ارب ڈالر تک لے جانا ایک بڑا ہدف ہے، جس کے لیے بینکنگ چینل کا آغاز، غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا ہوگا۔ مرزا اختیار بیگ کے مطابق ایران سے غیر قانونی تجارت سے مقامی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ پر کام نہیں کیا، جبکہ بھارت اور ترکی ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے ذریعے اپنی دوطرفہ تجارت کو بڑھا رہے ہیں۔ پابندیوں کے باوجود ایران اور پاکستان دو طرفہ تجارت کیسے بڑھائیں گے۔؟ تاجر رہنماء نے مزید کہا کہ حکومتِ پاکستان کو بھی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا چاہیئے اور ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے لیے اشیاء کی فہرست کو بڑھانا چاہیئے۔ سابق سیکرٹری خزانہ یونس ڈاگھا کے مطابق ایران کے ساتھ غیر قانونی تجارت کا حجم بھی دو ارب ڈالر کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے، جسے قانونی ذرائع میں منتقل کرنے سے موجودہ تجارتی حجم (دو ارب ڈالر) کو دگنا کیا جاسکتا ہے۔ بھارت و ترکی ایران سے تجارت کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں۔؟

امریکی محکمۂ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان پر تبصرے کرتے ہوئے کہا تھا کہ "اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایران سے تجارت کرنے والے ممالک پر ممکنہ پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ تاہم پاکستان خارجہ پالیسی کے تحت ایران کے ساتھ معاملات دیکھ سکتا ہے۔" پاکستان کی حکومت پرامید ہے کہ تجارتی پابندیوں کے باوجود ہمسایہ ملک کے ساتھ تجارت میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ دوطرفہ تجارتی حجم کو دس ارب ڈالر تک لے جایا جاسکتا ہے۔عالمی پابندیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ احسن اقبال نے کہا کہ ایران جن بین الاقوامی ضابطوں کے تحت دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کر رہا ہے، اسی قسم کی گنجائش پاکستان کو بھی حاصل ہوگی۔ ایران گیس پائپ لائن، کیا پاکستان امریکی مخالفت مول لے کر منصوبہ مکمل کرے گا۔؟ سابق سیکرٹری تجارت یونس ڈاگھا کے مطابق ایران کے ساتھ تجارت کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکہ سے تجارتی پابندیوں پر چھوٹ حاصل کی جائے۔

ان کے بقول پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارت کے لیے عائد عالمی تجارتی پابندیوں کو سفارتی اور مرکزی بینک کی سطح پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جس طرح بھارت، ترکی اور آذربائیجان پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت کر رہے ہیں، اسلام آباد کو بھی واشنگٹن سے چھوٹ حاصل کرنی چاہیئے۔ لیکن مرزا اختیار بیگ کہتے ہیں کہ بارٹر ٹریڈ پر تجارتی پابندیاں عائد نہیں ہوتیں۔ اس لیے دونوں ملکوں کو چاہیئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اشیاء کو بارٹر ٹریڈ کی فہرست میں شامل کریں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اور ترکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کرسکتے ہیں تو پاکستان کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن اس کے لیے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 1131512
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش