0
Monday 14 Nov 2011 22:39

نئے امکانات،بہتر مستقبل کی امید

نئے امکانات،بہتر مستقبل کی امید
تحریر:زاہد مرتضٰی
 
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو جنگ و جدل، کرپشن، بے چینی اور نااہل قیادت کا حامل ہے۔ معرض وجود میں آنے سے لے کر اب تک 64 سال کا طویل وقت اور بے شمار قومی وسائل اس ملک کے برسراقتدار طبقات نے اپنی ناعاقبت اندیشی کے باعث برباد کر دئیے اور معاشی عدم استحکام کی منزل دور کر دی گئی، آج صورتحال یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو بے پناہ گھمبیر خطرات نے گھیر رکھا ہے، جس کی وجہ سے ملکی سلامتی داؤ پر لگ چکی ہے۔ چہ جائیکہ کہ یہ مسائل ایک عرصہ کی پیداوار ہیں، لیکن موجودہ حکومت نے بھی اپنے 3 سالہ دور میں معاشی بگاڑ کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
 
ان دنوں موجودہ حکومت نے ملک کو درپیش مختلف مسائل کے حل کیلئے کئی دہائیوں پر مشتمل پرانے جھگڑوں کو ایک طرف رکھ کر انہیں حل کرنے کی طرف پیش رفت کی ہے، جو بلا شبہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی، جو روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں منعقد ہوا۔ اس وقت پاکستان کو شنگھائی کی تعاون تنظیم میں ایک مبصر کی حیثیت حاصل ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی یہ حیثیت جلد تبدیل ہو جائے گی اور وہ اس تنظیم کا مستقل رکن بن جائے گا، کیونکہ اس تنظیم کے انتہائی اہم ملک روس نے پاکستان کو رکنیت دینے کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ 

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے خطے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے 5 نکاتی ایجنڈا پیش کیا، جس میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اس خطے کو فری ٹریڈ زون قرار دے کر تجارت کو بڑھایا جائے۔ توانائی کے معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون، اپنے علاقوں میں موجود انفراسٹرکچر کو بہتر کیا جائے، نئے منصوبے شروع کیے جائیں، وسائل کی شیئرنگ ہو، سفارتکاروں، تاجروں اور حکام کیلئے ویزوں میں آسانی پیدا کی جائے، بلاشبہ یہ تجاویز علاقائی ممالک کے ساتھ روابط مزید مضبوط کر کے بہتر اقتصادی مواقع ڈھونڈنے کی عمدہ کوششیں ہیں۔ حکومت امید کرتی ہے کہ یہ سب کرنے سے وہ زبانی طور پر ایک تیر سے دو شکار کرنے کے قابل ہو گئی ہے۔ 

روس نے اس موقع پر پاکستان کو 1 ارب ڈالر کے دو منصوبوں کیلئے قرض کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔ روس نے پیشکش کی کہ وہ پاکستان سٹیل ملز کی استعداد بڑھانے اور توانائی کے شعبوں میں 50،50 کروڑ ڈالر قرض دے گا۔ روس کی طرف سے پاکستان کے دو اداروں کو سپورٹ فراہم کرنے کی یہ آفر یقیناً قابل قدر ہے، یہ منصوبے اگلے تین سال میں مکمل ہونگے، جو پاک روس دوستی کی عمدہ مثال بن سکتے ہیں۔ پاکستان سرد جنگ کے زمانے میں روس کے خلاف جنگ میں عالمی استعمار کا آلہ کار تھا۔ لیکن گزرتے وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ علاقائی طاقتوں کے خلاف بیرونی استعمار کی حمایت خطوں کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ کوئی نتائج مرتب نہیں کرسکتی۔
 
بدقسمتی سے اس وقت بھی پاکستان کے بارے میں ایک عام تاثر یہی ہے کہ وہ امریکہ کی ذیلی ریاست ہے۔ پاکستان اگر اپنے آپ کو تنازعات سے نکال کی خطے کی طاقتوں بلکہ بڑی اقتصادی طاقتوں کے ساتھ جوڑ دیتا ہے تو اس اقدام سے پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر لاتعداد فوائد ملنے کی بھی توقع ہے، کیونکہ تجارت کو ایک وسیع پلیٹ فارم یا زون ملنے سے اس کی معیشت کی رسائی انتہائی سستے وسائل تک ہو جائے گی، چہ جائیکہ علاقائی اقتصادی طاقتوں سے روابط کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ثمرات حاصل کرنے میں کچھ وقت لگے گا، لیکن اس کے باوجود تعاون کے یہ اقدامات پاکستان کی دن بدن کمزور ہوتی ہوئی معیشت کیلئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔
 
اس تعاون سے یہ بات بھی یقینی ہو جائے گی کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بننے والی تیل و گیس پائپ لائنیں بھی مکمل ہو جائیں گی۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ منصوبہ انتہائی سست روی کا شکار ہے کیونکہ امریکہ اس کی مخالفت کر رہا ہے کہ کوئی بھی ملک ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات مضبوط نہ کر سکے۔ یہ بات ذہن نشین رکھی جائے کہ معاشی استحکام کی منزل اس وقت تک ممکن نہیں جب ہم اپنے فیصلے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر نہ کریں گے۔ پاکستان کو اس وقت توانائی کی شدید قلت کا سامنا ہے، ایران ایک برادر ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے اپنے وسائل سے استفادہ کرنے کیلئے ہماری منتیں کر رہا ہے، لیکن ہمارے حکمران امریکہ کے دام میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ اپنے سامنے کے مفادات سے بھی استفادہ کرنے میں تامل کر رہے ہیں، جو ملکی مفادات کے انتہائی منافی ہے۔ لہٰذا اگر ہمارے حکمرانوں کو اپنے ملک و قوم کے مفادات سے ذرا بھر بھی لگاؤ ہے تو وہ ایران گیس پائپ لائن پر امریکہ کا دباؤ مسترد کر دیں۔
 
وسطی ایشیائی ریاستیں تاجکستان، ازبکستان، کرغیزستان اور قازقستان سے انتہائی قریبی تعلقات پاکستان کی دیرینہ خواہش رہی ہے، ان ممالک میں توانائی کے بہت سے ذخائر موجود ہیں، ان ذخائر پر خود امریکہ کی لالچی نگاہیں گڑی ہوئی ہیں اور وہ ان وسائل تک پہنچنے کیلئے خطے میں اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ نئے سلک روٹ کا منصوبہ شروع کرنے سے متعلق امریکہ کے زور کا مقصد بھی یہی ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کی جائے، تاکہ وہاں کے توانائی کے ذخائر کو استعمال میں لایا جا سکے، تاہم وسطی ایشیائی ریاستوں، چین اور روس کے درمیان تعلقات کی نوعیت کے باعث اس منصوبے کو اس حد تک کامیابی نہ ہو سکی تھی۔
 
شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے نہ صرف پاکستان کو فائدہ ہو گا بلکہ روس اور چین کیلئے بھی بہت زیادہ فائدہ مند ثابت ہو گا۔ اس وقت چین کی سرتوڑ کوشش ہے کہ روس کے ساتھ موثر اقتصادی پارٹنر شپ قائم کی جائے اور علاقے میں سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تعاون کو بڑھایا جائے، کیونکہ امریکہ کے خطے میں بڑھتے ہوئے مفادات سے کوئی بھی طاقت مستقبل میں اپنے لئے خطرات محسوس کرے، یہ بجا طور پر درست ہے۔ اقتصادی تعلقات بڑھنے سے روس اور چین کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں تک رسائی ملے گی۔ اس وقت ان دونوں ممالک کو بہت محدود حد تک جنوبی ٹریڈ روٹ کیلئے ان بندرگاہوں تک رسائی حاصل ہے۔ یہاں یہ بات ثابت کرنا انتہائی اہم ہے کہ اب تک اس تنظیم کی صلاحیت کو صحیح پیمانے پر دیکھا ہی نہیں گیا۔ جب تک اس خطے کی تمام پارٹیاں علاقائی صلاحیت بڑھانے کی کوشش نہیں کریں گی اور سیاسی قیادت ان منصوبوں پر عملدرآمد کیلئے جامع منصوبہ بندی نہیں کرے گی یہ تمام فوائد محض خواب ہی رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 113822
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش