0
Friday 2 Oct 2009 11:51

کیری لوگر بل کے نقصانات

کیری لوگر بل کے نقصانات
لیاقت بلوچ
کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو ملنے والی سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی مشروط امداد قومی سلامتی اور آزادی و خود مختاری کے منافی ہے اور ملکی و بین الاقوامی میڈیا میں شرائط کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں اس سے بلاشبہ ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہو گیا ہے۔ امداد کے لیے عائد کی جانے والی شرائط خاصی توہین اور ذلت آمیز ہیں اوربلا مبالغہ انھیں قومی خودی اور خود مختاری کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان شرائط کے قبول کرنے سے حکمران طبقے کا احساس کمتری،قوم پر عدم اعتماد اور فوج سے خوف عیاں ہوتا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں آنے والی یہ بات بھی محل نظر ہے کہ اس بل کو انڈین لابسٹوں نے تحریر کیا ہے، اور رہی سہی کسر نیویارک کے پاکستانی سفارتخانے میں بیٹھے امریکی نمائندوں نے پوری کر دی ہے۔ بل کا مسودہ کیا ہے، پاکستان کے خلاف چارج شیٹ ہے جسے بخوشی قبول کر لیا گیا ہے۔بل کی منظوری پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور ان مکروہ شرائط پر عملدرآمد کا وعدہ کیا جا رہا ہے،اس کے باوجود کہ امریکہ حکومت پاکستان کو براہ راست امداد دینے سے انکاری ہے، ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ میں سے حکومت کو صرف سترہ کروڑ ڈالر ملیں گے جبکہ باقی رقم امریکہ اپنی مرضی سے تقسیم کرے گا اور اس کے لیے اسلام آباد سمیت پورے ملک میں انفراسٹرکچر قائم کیا جا رہا ہے۔ اس ”بے مثال“کامیابی پر ثنا خوانِ زرداری ان کو فاتح واشنگٹن کے لقب سے نواز رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں پاکستان کے گلے میں غلامی کا طوق ڈالنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔امریکی ضمانتوں اور این آر او کے ذریعے حکومت میں آنے والوں سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوں لیکن ان سے زیادہ افسوسناک کردار ان اتحادی جماعتوں کا ہے جو ایوان اقتدار میں اپنی جگہ بنائے رکھنے کے لیے امریکی غلامی کو گوارا کیے ہوئے ہیں، اور اسمبلی میں بیٹھی فرینڈلی اپوزیشن بھی دست ہالبروک پر بیعت کرکے بڑھتی ہوئی امریکی مداخلت اور غلامی کی اس دستاویز پر چپ سادھے ہوئے ہے اور فوجی آمر کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کے حوالے سے حکومتی کشتی میں سوار نظر آتی ہے۔ البتہ اپنی ذات کا معاملہ ہو تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور معاملہ احتجاج کی دھمکیوں اور الٹی میٹم دینے اور واپس لینے تک جا پہنچتا ہے۔
امریکی شرائط کو قبول کرتے وقت قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی ادارتی مشاورت کی گئی ہے۔ بل میں عائد کی گئی ہر شرط کے پورا ہونے پر امریکی وزیر خارجہ ایک سرٹیفکیٹ جاری کریں گے جس کے بعد امداد کی قسط جاری ہوگی۔ شرائط کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کے غیر قانونی نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں پاکستان امریکا کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا اور ضرورت ہوئی تو ایسے نیٹ ورک سے وابستہ کسی بھی پاکستانی تک امریکا کو رسائی فراہم کرنے کا پابند ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شق انھی کے حوالے سے خاص ہے۔ایک شرط یہ ہے کہ حکومت پاکستان ایسے عناصر کی حمایت نہیں کرے گی جو امریکا، افغانستان میں اتحادی افواج اور پڑوسی ممالک پر حملوں میں ملوث رہ چکے ہوں۔ پاکستان القاعدہ، طالبان یا اس سے منسلک دہشت گرد گروپس کو پڑوسی ملکوں پر حملوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دے گا۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے تربیتی مراکز ختم کیے جائیں گے۔ اور امریکا جب بھی ہائی لیول دہشت گرد ٹارگٹس کی معلومات دے گا تو پاکستان بروقت اطمینان بخش کارروائی کرے گا۔ پاکستان میں انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ قوانین بہتر بنائے جائینگے۔
یہ شرائط خود بول رہی ہیں کہ امریکہ کی نظروں میں پاک فوج اور اس کی انٹیلی ایجنسیوں کا کردار مشکوک ہے۔ یہ شاید  9 سال سے امریکی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بنے رہنے اور اپنی قوم کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کا صلہ ہے۔اسی طرح یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان بھارت میں مداخلت کر رہا ہے،اور کشمیر میں جاری تحریک آزادی دہشت گردی ہے۔حالانکہ بھارت فاٹا اور بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور امریکی ناک کے نیچے افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانے پاکستان میں فساد پھیلا رہے ہیں، پابندی تو ان پر لگانی چاہیے تھی۔
کیری لوگر بل کے تحت امریکا کے ذریعے پاک فوج کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ سیاسی اور عدالتی معاملات سے اپنے آپ کو دور رکھے گی،اور ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد صرف اسی صورت ملے گی جب ملک کی تینوں مسلح افواج کی جانب سے سیاسی اور عدالتی امور میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ فوج کے حوالے سے ایک خطرناک بات یہ ہے کہ امریکہ فوجی افسران کی ترقی کا جائزہ لے گا تاکہ امریکہ کے لیے ناپسندیدہ کسی افسر کو ترقی نہ مل سکے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کل کوئی آرمی چیف امریکہ کی مرضی کے برخلاف تعینات کیا جاتا ہے یا فوج کی اعلی قیادت میں موجود کوئی جنرل امریکہ کو پسند نہیں آتا تو امداد روکی جاسکتی ہے۔ یہ حیران کن شرائط تو وہ ہیں جواس معاہدے کی تحریر کے بعد سامنے آئی ہیں، معاہدے کی پس پردہ طے ہونے والی خفیہ ضمانتیں اور شرائط شاید جلد منظر عام پر نہ آسکیں جو حکومتی ذمہ داران نے نام نہاد ”سٹیک ہولڈرز“کو فراہم کی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق غیر تحریر شدہ خفیہ شرائط میں سے ایک امریکی سفارتخانے کی بلا مشروط توسیع اور اس توسیعی مرکز میں جاسوسی نیٹ ورک کی تشکیل ہے ، جس میں پاکستان کی تینوں مسلح افواج ،حساس ادارے، اور عدالتیں کوئی مداخلت نہیں کریں گی۔ سفارتخانے کے اس توسیعی پروگرام میں پاکستان کے تمام حساس مقامات کی مانیٹرنگ اور ان کا کنٹرول سسٹم موجود ہوگا، امریکہ کا یہ مرکز پورے ایشیا میں محفوظ ترین اور مضبوط ترین مرکز ہوگا۔ پاک فوج سمیت دیگر حساس اداروں اور ایٹمی اثاثوں کی اسلام آباد میں رہ کر مانیٹرنگ کی جائیگی۔
حکومت کی بزدلانہ اور غیرت و حمیت کا راستہ چھوڑ کر لالچ کی بنیاد پر اختیار کی جانے والی پالیسی سے قومی سلامتی اور آزادی و خودمختاری خطرے میں پڑ گئی ہے۔ فوجی آمر کی طرح سیاسی جمہوری حکومت کو بھی امریکہ نے اپنی ترجیحات کے شیشے میں اتار لیا ہے۔ امریکی شرائط کو تسلیم کرنے سے امریکہ کو پاکستان کی فوج ، سول اسٹیبلشمنٹ اور انتظامی و مالیاتی پالیسیوں میں بالا دستی مل جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان توہین آمیز شرائط کو پورا کرنا کسی ریاستی ادارے کیلئے ممکن نہیں ہے۔پاکستان کے غیور عوام اسے کسی طور پرقبول نہیں کر سکتے اور نہ وہ حکومت وقت کو اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ محض چند ڈالر وں کے عوض پاکستان کی سلامتی کو امریکہ کے ہاتھوں گروی رکھ کر قوم کو غلامی کی دلدل میں دھکیل دے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیری لوگر بل کا اصل مسودہ اور اس کی تمام پس پردہ شرائط کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ اور اسے پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیا جائے۔عوام کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس ذلت آمیزبل کے خلاف آواز اٹھائیں ۔
خبر کا کوڈ : 12524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش