0
Thursday 1 Oct 2009 12:05

کیا امریکہ ہمارا دوست ہو سکتا ہے؟

کیا امریکہ ہمارا دوست ہو سکتا ہے؟
مشتاق احمد قریشی
افغانستان اور پھر عراق پر قبضے کے بعد امریکہ جس صورت حال میں پھنس چکا ہے وہ ایسی ہی ہے جیسے سانپ کے منہ میں چھچھوندر پھنس جائے،نہ اگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت کا شکار امریکہ،افغانستان اور عراق کے میدانوں میں ہے۔ ایک طرف امریکہ عراق سے جہاں سیال سونا حاصل کر رہا ہے وہیں اس کی قیمت سے کہیں ذیادہ اپنے فوجی اور کرائے کے فوجیوں پر خرچ کر کے اپنے منہ پر سیاہی مل رہا ہے۔ اس کی نیک نامی (جو پہلے بھی نیک نہیں تھی) روز بروز بدنامی بنتی جا رہی ہے۔ دونوں جگہ لاکھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے جواب میں ان کے اپنے ہزاروں فوجی مارے گئے ہیں جن کی ہلاکت ان کے امریکی پیاروں سے برداشت نہیں ہو رہی۔ حالانکہ دیکھا جائے تووہ بھی امریکی عینک سے تو وہ سارے مارے جانے والے امریکی یا کرائے کے فوجی جو تمام کے تمام غیر مسلم،عیسائی یا یہودیوں پر مشتمل ہیں،خاص مذہبی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جسے مسلمانوں کی زبان میں جہاد اور امریکیوں کی زبان میں کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ کہا جاتا ہے۔ امریکہ ویت نام کی طرح یہاں بھی پھنس چکا ہے۔ اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق وہ اپنی جھلاہٹ پاکستان پر نکالنے کے درپے ہو گیا ہے۔ کنٹریکٹرز کے نام پر کرائے کے قاتلوں کو پاکستان میں داخل کر دیا ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے راضی خوشی انہیں پاکستان میں نہ صرف داخل ہونے کی بلکہ مستقل قیام کے لیے کرائے کے گھر حاصل کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے وہ بھی کوئی دوچار یا دس بیس نہیں پورے ڈھائی سو گھر صرف اسلام آباد میں فی الحال کرائے پر حاصل کریں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر کرائے پر نہ ملے تو وہ خرید ہی لیں۔ اب انہیں یہیں جو مستقل رہنا ہو گا۔ پھر پشاور میں تو پورا ہوٹل جو فائیو اسٹار ہوٹل خرید لیا ہے۔ صرف ان ہی دو جگہوں کے بارے میں اگر اندازہ کیا جائے تو ان میں کتنے امریکی سماسکتے ہیں۔ اس کا مقصد ہے کہ کئی ہزار کرائے کے قاتل جو بظاہر نجی کنٹریکٹر کے روپ میں تربیت یافتہ کمانڈوز ہیں،پاکستان کے تمام اہم شہروں میں داخل کر دیں گے جو ہر طرح سے امریکی مفادات کا تحفظ کریں گے یا دوسرے الفاظ میں امریکہ نے غیر اعلانیہ اپنی فوجیں پاکستان میں داخل کر دی ہیں۔ جو امریکی قبضے کو مضبوط کرنے کا کام سرانجام دیں گی۔ ان کرائے کے کمانڈوز یا بلیک واٹر یا بلیک کیٹ یا ڈاگ سب کے سب امریکی اس لیے داخل کیے گئے ہیں کہ بظاہر ان کا کام دہشت گردوں کا خاتمہ ہوگا لیکن درحقیقت وہ ایسے تمام افراد اور تنظیموں کا صفایا کریں گے جو ذرا بھی امریکہ مخالف ہوں گے۔ چاہے وہ سیاسی ہوں،غیر سیاسی ہوں یا مذہبی ہوں اور ایسے حکمرانوں،سیاست دانوں کو مضبوط کرنا جو امریکی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے میں فخر محسوس کریں گے اور امریکی احکام پر سرتسلیم خم کرنے والے ہوں گے۔
دراصل امریکہ افغانستان میں پسپا ہو رہا ہے کیونکہ سوات،مالاکنڈ آپریشن کے بعد تمام غیر ملکی دہشت گرد یا طالبان نے افغانستان کا رخ کرلیا ہے۔ اس طرح افغانستان میں مزاحمت بڑھ رہی ہے۔ پاک فوج کی کامیابی کے بعد افغانستان میں اتحادی افواج پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ ان کے فوجی جو صرف مارنا جانتے ہیں اور مرنے سے ڈرتے ہیں وہ ان طالبان"جو مذہبی جنون میں مبتلا ہیں"جو لڑتے ہی مرنے مارنے کے لیے ہیں،کا مقابلہ کرنے سے بھاگ رہے ہیں۔ امریکہ اپنی سازشوں اور مذموم حرکات کے باعث پاک فوج کو ایک نادیدہ جنگ میں الجھانا چاہ رہا ہے۔ پاک فوج پہلے ہی سوات آپریشن کے حوالے سے اپنے ہی معصوم و بے گناہ اہلِ وطن کو دہشت گردوں کی آڑ میں کافی نقصان پہنچا چکی ہے جس کا انہیں شدید احساس بھی ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ مقابلے میں بے گناہ شہری بھی شہید ہو جاتے ہیں۔ امریکی اپنے کمانڈوز ذیادہ سے زیادہ پاکستان میں داخل کر رہا ہے۔ اگر پاکستانی قونصل جنرل امریکہ میں کچھ لوگوں کو ویزے نہیں جاری کر رہا تو وہ بھی ایک ڈرامہ ہے پاکستانی عوام اور دنیا کو دکھانے کے لیے۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان کے ساحلوں سے امریکی اسلحہ فوجی ساز و سامان افغانستان پہنچایا جاتا ہے جو بڑے بڑے چالیس فٹ کے کنٹینرز میں بند ہوتا ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ جب کنٹینرز ساحل سے چلتے ہیں تو راستے میں جہاں انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ کنٹینرز سے مطلوبہ ساز و سامان اور افرادی قوت اتار لیتے ہیں اور کنٹینرز حسب معمول افغانستان پہنچ جاتے ہیں۔ راستے میں کیا تبدیلی آئی اس کا پتہ صرف امریکی حکام کو ہی ہوتا ہے۔ پھر ایک اور ذریعہ جب خالی کنٹینرز واپس جانے کے لیے آتے ہیں تو افغانستان میں موجود امریکی کمانڈوز ان کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ امریکی ساز و سامان لانے لے جانے والے ٹرکوں کی کوئی جانچ پڑتال تو ہوتی نہیں۔ نہ کوئی ایسا کرنے کی جرات کر سکتا ہے ورنہ مائی باپ ناراض ہو سکتے ہیں۔
اب امریکیوں نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ جب ان کی بلیک واٹر اسکیم منظر عام پر آگئی اور حکومت پر سیاست دانوں اور عوام کا دباؤ محسوس کیا جانے لگا تو امریکیوں نے کوئٹہ پر یعنی سرحد کے قبائلی علاقوں سے نکل کر بلوچستان کے قبائلی علاقوں کو اپنا ہدف بنانے کا اعلان کر دیا ہے تاکہ پاکستانی عوام اور حکمرانوں پر دوطرفہ دباؤ ڈالا جاسکے اور امریکی کمانڈوز بلا روک ٹوک اپنی کارروائیوں میں مصروف ہو کر اپنے ٹارگٹ حاصل کرسکیں جو پاکستان کے ایٹمی سائنس دان عبدالقدیر خان اور پاکستان کے دیگر ایٹمی سائنس دانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات بھی ہیں جو امریکہ اور اس کے حواریوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ امریکہ نے بہت بڑی تعداد میں اپنے مسلح کمانڈوز پاکستان کے ہر بڑے اور اہم شہر میں نہ صرف پہنچا دیئے ہیں بلکہ ان کے مستقل ٹھکانے بھی بنا لیے ہیں۔ اس طرح سے وہ پاکستان پر بغیر اپنا خون بہائے قبضہ کرنے کی سازش کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرم عمل ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمارے اہل سیاست اور حکمرانوں کو سوچنے،سمجھنے اور حقیقت تک پہنچنے کی سمجھ عطا فرمائے۔ ایسا نہ ہو کہ جب پانی سر سے اونچا ہو جائے تب آنکھ کھلے اور تب کف افسوس ملنے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے اور ہم امریکی دوستی اور محبت کے اظہار میں یا اپنے خالی کشکول کے بھرنے کی امید پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھیں۔ اللہ ہماری،ہمارے وطنِ پاک کی حفاظت فرمائے،آمین۔


خبر کا کوڈ : 12460
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش