0
Monday 12 Oct 2009 13:39

امام جعفرصادق علیہ السلام کی شخصیت کا مختصر جائزہ

امام جعفرصادق علیہ السلام کی شخصیت کا مختصر جائزہ
اسم گرامی: جعفر (علیہ السلام )
والد ماجد اور اجداد: محمد الباقر (علیہ السلام ) بن علی زین العابدین (علیہ السلام ) بن امام حسین سید الشہداء (علیہ السلام )بن امیر المومنین علی (علیہ السلام ) بن محسن خاتم النبین ابی طالب علیہ السلام
مشہور القاب: صادق ۔ صابر ۔ فاضل ۔ طاہر ۔ مصدق
کنیت: ابو اسماعیل، ابو عبداللہ، اصول کافی میں آپ کا ذکر ابو عبداللہ ہی سے فرمایا گیا ہے۔
مادر گرامی: محترمہ معظمہ ام فروہ بنت جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر۔
تاریخ ولادت:
۱۷ربیع الاول پر اتفاق کیا گیا ہے مگر سال ولادت میں مورخین کا اختلاف ہے۔ امام بخاری اور علامہ حسن الامین کے نزدیک سن پیدائش ۸۰ ہجری بمطابق ۲۴ مئی ۶۹۹ء ہے۔ تہذیب الاسماء میں علامہ نوری نے اور وفیات الاعیان میں ابن خلکان نے اسی تاریخ کو اختیار کیا ہے۔ نیز العجالی اور الخشاب کے نزدیک بھی یہی زیادہ صحیح ہے۔ لیکن ثقتہ الاسلام جناب یعقوب کلینی اور شیخ مفید علیھما الرحمہ کے مطابق ۱۷ ربیع الاول ۸۳ھ بمطابق ۲۶ اپریل ۷۰۳ء زیادہ صحیح ہے۔
تاریخ شہادت:
۱۴۸ھ مطابق ۷۶۵ء میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے مگر یوم وفات پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔ بعض نے ۱۵ رجب اور اکثر نے ۱۵ شوال کو تاریخ شہادت قرار دیا ہے۔
سبب شہادت: عباسی بادشاہ منصور دوانیقی نے عداوت کے باعث انگوروں میں زہر دے کر شہید کیا ۔ مدفن:
جنت البقیع مدینہ منورہ میں اپنے والد ماجد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام، اپنے دادا سید سجاد امام زین العابدین علیہ السلام اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کے مزارات کے قریب دفن ہوئے مگر عہد سعودیہ میں یہ تمام روضہ ہائے آل رسول ص منہدم کر دیئے گئے اور آج یہ قبور حسرت و یاس کی تصاویر بنی امت کی غیرت کا منہ دیکھ رہی ہیں۔
دودھیال و ننھیال:
یقینا امام جعفر صادق علیہ السلام کے دودھیال بے مثل و بے نظیر تھے۔ خانوادہ رسالت و امامت کا ثانی کون ہو سکتا ہے مگر ننھیال بھی کم نہ تھے مادر گرامی جناب ام فروہ علمی معدن کا درنایاب تھیں۔ آپ کے نانا قاسم اسلام کے عظیم فقیہ تھے اور فرزند اسلام جناب محمد بن ابی بکر کے نور چشم تھے جن کو باب مدینتہ العلم علی المرتضی کی آغوش تربیت نصیب ہوئی تھی اور علی علیہ السلام ان کو اپنا بیٹا کہتے تھے۔ آپ کے ماموں جناب عبدالرحمن بن قاسم کا علمی مرتبہ بھی بہت بلند تھا اور فقہائے مدینہ میں انتہائی ممتاز مقام کے حامل تھے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام خانوادہ رسالت اور سلسلہ ائمہ اہل بیت رسول ص کے چھٹے امام ہیں۔ اور وہ سلسلہ امامت حقہ ہے جس کی خلیل خدا جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے تمنا و آرزو کی تھی اور پروردگار نے لا ینال عہدی الظالمین کی شرط کے ساتھ یہ خواہش پوری کر کے امامت منصوص من اللہ اور عصمت کی طرف بلیغ اشارہ کیا تھا۔
عہد امامت:
فرزند رسول ص امام جعفر صادق علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جن کو امامت حقہ کے دونوں دشمن خاندانوں سے واسطہ پڑا۔ یعنی بنی امیہ اور بنی عباس سے سابقہ ہوا۔ آپ نے اموی شوکت و جبروت اور عباسی شہنشاہیت کا قہر و قبلہ دونوں کو دیکھا۔ اموی خون آشامیوں کو بھی ملاحظہ فرمایا اور عباسی سفاکیوں کا بھی نظارہ کیا۔ آپ نے اموی عہد کی آخری ہچکیاں سنیں اور ان کے اقتدار کو دم توڑتے ہوئے دیکھا کہ استبدادی تخت و تاج کس طرح ٹھوکروں کا کھلونا بن گئے۔ ۴۰ھ سے قائم اموی سلطنت کا چراغ آخرکار گل ہوا اور ظالم حکومت اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ جابر حکمران اپنے ظلم و جور اور جبر و استبداد ختم کر کے خود تو زمینی کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن گئے مگر اپنی چیرہ دستیوں کے بدلے اپنی نسلوں کو گروی رکھ گئے۔ کعبة اللہ کی تاراجی، مدینتہ الرسول کی تباہی و بے حرمتی، امام حسین مظلوم کا بے خطا قتل، اسلامی آئین کی پامالی اور شرعی قوانین کی توہین وغیرہ ایسی شنیع باتیں تھیں جو ملت مسلمہ کے ضمیر کو لخطہ لخطہ جھنجھوڑ رہی تھیں۔ جلدی یا دیر سے بہر حال امت کی غیرت بیدار ہوئی۔ مسلمانوں پر اثر ہوا اور بھر پور ہوا کہ مردہ بولے تو کفن پھاڑے۔ اب امویوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ سر چھپانے کا ٹھکانا ملنا تو بڑی بات ہے لوگوں نے پرانے مردے اکھاڑنے شروع کئے اور قبروں تک کو کھدوا دیا گیا۔ بنی عباس جنہوں نے موقع کی نزاکت سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور آل رسول ص کے نام اور ثارات الحسین علیہ السلام کے نعرہ پر انقلاب کو ہوا دی، اپنے کرتوت میں بنی امیہ سے بھی بازی لے گئے اور اموی و عباسی دونوں کے انداز حکمرانی میں کوئی فرق باقی نہ رہا۔ جس طرح بنی امیہ کے زمانے میں اہل بیت رسول ص پر ظلم وتشدد ہوتا رہا اسی طرح بنو عباس کے عہد کی سفاکیاں جاری رہیں۔ ائمہ اہل بیت علیھم السلام پہلے بھی نشانہ ستم بنے رہے اور اب تو جور و جفا میں اور اضافہ ہو گیا۔ دونوں ادوار میں قانون کی بالا دستی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ حاکم کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات گویا حرف آخر ہوتے تھے۔ مفتیان دین اور قاضیان شرع متین اپنی عزت و ناموس اور جانوں کا تحفظ اس بات میں محسوس کرتے تھے کہ سلطان وقت کے اشارہ ابرو کو سمجھیں اور اس پر بلا حیل و حجت عمل کریں۔ جابر بادشاہ کے احساسات اور جذبات کے موافق فتوے جاری کریں ورنہ کوڑے کھانے کیلئے تیار رہیں۔ کسی صاحب دستار عالم فاضل کے سر کو پھوڑ دینا اور معزز شہری کو بلا قصور قید و بند کی صعوبت میں مبتلا کر دینا تو معمولی واقعات تھے۔ کیا ایسے فتنہ انگیز دور میں رسول صادق صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسند شریفہ پر بیٹھ کر اسلام کی صحیح ترویج اور دین کے محکم فیصلوں کا صادر کرنا آسان کام تھا؟۔ یہی وجہ تھی کہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام کو کام کرنے کا موقع ہاتھ نہ لگ سکا کیونکہ ان کی تو خصوصی طور سے کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ البتہ صرف امام جعفر صادق علیہ السلام کو غنیمت کے طور پر تھوڑا سا وقت مل گیا۔ وہ بھی اس لئے کہ امویوں کو اپنے اقتدار کے جانے کی پڑ گئی اور عباسیوں کو اپنی کرسی بچانے کی۔ جب دونوں کو اپنی پڑی تو امام برحق کو موقع مل گیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشن "کتاب و حکمت کی تعلیم" کو فروغ اور وسعت دیں۔ یون تو ہر امام نے اپنے وقت میں اپنے فرائض امامت کما حقہ انجام دیئے بالخصوص واقعہ کربلا سے۔ امیر المومنین امام علی علیہ السلام اور جوانان جنت کے دونوں سردار حضرات حسنین شریفین علیھما السلام کے کارہائے نمایاں اور مسند علم و فقہ پر متمکن رشد و ہدایت کے فیوض سے کون واقف نہیں ہے۔ ان کا تو ذکر ہی بلند ہے۔ ان سے وابستہ ہو جانے والے غلام و کنیزیں علمی مراتب میں اپنی مثال نہیں رکھتی ہیں۔ کربلا کے مصائب اور خونچگاں حادثات کو برداشت کرنے کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کا دین اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو جانا بھی انوکھی نظیر ہے۔ صحفیہ سجادیہ جسے زبور آل محمد کہا گیا ہے حضرت سجاد علیہ السلام کے علمی آثار کا ایک ممتاز نمونہ ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام وہ کوہ علم ہیں جس کی بلندیوں تک انسانی نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ وہ ایسی ذی وقار شخصیت ہیں جن کے در پر بڑے بڑے عالم اور نابغہ روزگار جبہ رسائی کئے بغیر اپنے آپ کو نامکمل اور ادھورا تصور کرتے تھے۔ آپ کا لقب " باقر" اسی لئے ہے کہ آپ بات سے بات پیدا کرتے اور علم کو شگافتہ کر کے اس کی کنہ اور حقیقت سے دنیا کو روشناس کراتے اور ایسے مسائل بیان فرماتے جو وارث قران الحکیم ہی بیان کر سکتا ہے۔ آپ کا شریعت کدہ علم کا مرکز اور حکمت کا عظیم منبع اور سر چشمہ تھا جس سے ایک عرصہ تک دنیا فیض حاصل کرتی رہی اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے بھی اپنے والد معظم کے مکتب میں حاضری دی جن کو دوسرے اماموں کے مقابلے میں نشر علوم کا زیادہ موافق وقت مل گیا۔ جسٹس امیر علی اپنی تاریخ عرب میں لکھتے ہیں کہ:
"اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس دور میں علم کا انتشار (پھیلاؤ) اس حد تک ہوا کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہو گیا اور فلسفی مسائل ہر محفل میں زیر بحث آنے لگے۔ لیکن یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اس پوری علمی تحریک کے قائد اکبر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فرزند امام جعفر صادق علیہ السلام تھے جن کی فکر وسیع، نظر عمیق اور جنہیں ہر علم میں کامل دستگاہ حاصل تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکر کے موسس اور بانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کی مجلس بحث و درس میں صرف وہی حضرات نہ آتے تھے جو بعد میں امام مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے کیلئے حاضر ہوتے تھے"۔
رفیقہ حیات:
امام جعفر صادق کی صرف ایک زوجہ تھیں جن کا اسم گرامی " فاطمہ " تھا۔ ایک روایت ہے کہ آپ (فاطمہ) حضرت حسین بن علی ابن امام حسین علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں اور شیخ مفید علیہ الرحمہ کے نزدیک یہی صحیح ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ فاطمہ بنت حسین الاثرم بن حسن تھیں۔
اولاد:
آپ کے سب سے بڑے فرزند حضرت اسماعیل تھے جن کا آپ کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تھا، دوسرے عبداللہ اور بیٹی ام فروہ، تیسرے فرزند امام موسی کاظم علیہ السلام، چوتھے اسحاق، پانچویں محمد۔ ۳,۴,۵ کی والدہ حمیدہ خاتون تھیں جو بربریہ تھیں۔ ان کے علاوہ عباس، علی، اسماء، فاطمہ مختلف البطن تھیں۔ گویا سات بیٹے اور تین بیٹیاں۔
مشہور اصحاب اور شاگرد:
چار ہزار سے زیادہ عظیم ترین افراد اور ہستیاں آپ کے حلقہ علم و ارادت سے منسلک تھیں۔ ان کی فہرست باقاعدہ موجود ہے۔ چند مشہور شخصیتوں کا تذکرہ اور اسماء درج ذیل ہے جو علم و فضل میں ممتاز تھے۔
ابن تغلب اسحاق ابن عمار، ابو القاسم برید بن معاویہ، عجلی ثابت بن دینار، ابو حمزہ ثمالی،
مالک ابن انس، سفیان ثوری، سفیان بن عینیہ، فضل بن عیاض، شعبہ بن حجاج، حاتم بن اسماعیل،
حفص بن غیاث، ا براہیم بن محمد، ابو المنذر زہیر بن محمد، حماد بن زیاد، زرارہ بن اعین، شیبانی ابو محمد صفوان بن مہران، ہشام بن الحکم، معلی بن خنیس، مفضل بن عمرو، بکر الشیبقی، جابر بن حیان، امام اعظم ابو حنیفہ وغیر ہم۔
بادشاہان وقت:
اموی عبدالملک ولید بن عبدالملک، سلیمان ابن عبدالملک، عمر ابن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک، ہشام بن عبدالملک، ولید بن عبدالملک ثانی، یزید ناقص، ابراہیم بن ولید، مروان بن محمد، عباسی ابوالعباس السفاح، ابو جعفر منصور۔
شعراء:
السید الحمیری، الکمیت، ابوہریرہ، الابار، اشجع السلمی البعدی۔
دربان: محمد بن سنان، مفضل بن عمرو۔
تصانیف و تالیفات:
رسالہ عبداللہ ابن النجاشی، رسالہ مروی عن الاعمش، توحید مفضل، کتاب مصباح الشریعہ، مفتاح الحقیقہ، رسالہ الی اصحاب، رسالہ الی اصحاب الرائے والقیاس، رسالہ بیان غنائم وجوب الخمس، وصیت العبد اللہ ابن جندب، وصیت لابی جعفر بن النعمان الاحول، نثر الدررر، کلام دربیان محبت اہل بیت، توحید، ایمان، اسلام، کفر و فسق، وجوہ معالیش العباد و وجوہ اخراج الاموال، رسالہ فی احتجاج علی الصوفیہ، کلام در خلق و ترکیب انسان، مختلف اقوال حکمت و آداب، نسخہ (اس کا ذکر نجاشی نے اپنی کتاب الرجال میں کیا ہے)، نسخہ (جس کو عبداللہ ابن ابی اولیس بن مالک بن ابی عامر الاصبحی نے بیان کیا ہے)، نسخہ (جو سفیان بن عینیہ سے مروی ہے)، نسخہ (جو ابراہیم بن رجاء الشیبانی سے مروی ہے)، کتاب (جو جعفر بن بشیر البجلی کے پاس تھی)، کتاب رسائل جو آپ کے شاگرد جابر بن حیان الکوفی سے مروی ہے، تقسم الرویاء۔ (مزید تفصیل کیلئے اعیان الشیعہ کا مطالعہ کیا جائے )۔
اسلام محوہونے لگا جب دروغ سے
جب گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے
کب یہ گوارہ کرتا محمد کا ورثہ دار
اٹھا کہ تھا وہ دیں کی حفاظت کا ذمہ دار
کرنے لگا جہاد قلم سے زبان سے
بد اصل فلسفے کے پرخچے اڑا دیئے
جس طرح کربلا میں بچا دین مصطفی
آل نبی کی سعی سے اسلام پھر بچا
جب وار علم جعفر صادق کا چل گیا
مردود ناصبی کا جنازہ نکل گیا
(عزم جونپوری)


خبر کا کوڈ : 13073
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش