0
Saturday 28 Jan 2012 19:04

فاٹا میڈیکل کالج اور پی پی قیادت کی سردمہری

فاٹا میڈیکل کالج اور پی پی قیادت کی سردمہری
تحریر:ساجد حسین 

پاک افغان بارڈر پر واقع وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات یا فاٹا جو سن اسی کے عشرے میں افغانستان پر روسی قبضے اور پھر نائن الیون اور دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بعد عالمی توجہ کا مرکز بنے ہیں، یوں تو مختلف حکمرانوں بالخصوص فوجی ڈکٹیٹروں نے فاٹا کو اپنے مقاصد اور زیادہ سے زیادہ ڈالرز کمانے کے لئے فاٹا کے عوام کو دنیا بھر کی نگاہ میں جنگلی و دہشتگرد کے روپ میں پیش کیا تو دوسری طرف فاٹا اور یہاں کے قبائل کے نام پر حاصل کردہ مراعات اور پیکج کو فاٹا کے عوام پر خرچ کرنے کی بجائےحکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات حاصل کئے۔ گذشتہ چند دنوں سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر فاٹا میڈیکل کالج کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے، اس حوالے سے قارئین اور حکمرانوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کہ جس میں صدر، وزیراعظم اور گورنر مسعود کوثر کے لئے یہاں زمینی حقائق دئیے جا رہے ہیں۔ 

فاٹا میڈیکل کالج کا منصوبہ سب سے پہلے سابق وزیراعظم اور شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو نے اپنے دورہ کرم ایجنسی کے موقع پر کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار میں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بے نظیر بھٹو اور اس کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے فاٹا کے عوام کو ہر ممکن وسائل فراہم کرنے کی کوششیں کیں، اور تمام  قبائلی علاقوں حتی کہ وزیرستان و پاراچنار جیسے دوردراز علاقوں کے دورے کرکے ترقیاتی کام اور نئے منصوبے شروع کرنے کے اعلان کیے، لیکن بدقسمتی سے سول و ملٹری اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے فاٹا کے عوام کے لئے نئے منصوبوں پر عمل درآمد تو کیا بلکہ پہلے سے جاری منصوبے بھی بغیر کسی معقول وجہ سے ظلم و جبر پر مبنی پالیسیوں کے تحت ختم کروائے، جس کی ایک مثال بے نظیر بھٹو کی طرف سے پاراچنار کے لئے منظور شدہ پی آئی اے پروازوں کو کئی سال کامیابی سے چلنے
کے باوجود بند کر دیا گیا، حالانکہ یہی پی آئی اے پروازیں چترال و گلگت جیسے دوردراز علاقوں کے لئے تاحال جاری و ساری ہیں۔ 

بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو پاک افغان بارڈر پر واقع اسٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کے حامل جنت نظیر وادی کرم پاراچنار کی اہمیت سے آگاہ تھے، انہوں نے اس علاقے کا بارہا دورہ کیا اور وہ اس علاقے کو سوئٹزرلینڈ سے تشبیہ دیتے تھے، چونکہ پورے فاٹا میں پاراچنار ہی واحد علاقہ ہے جو بیک وقت افغانستان کے چار صوبوں پکتیا، ننگرہار، خوست اور پکتیکا سے ملنے کے علاوہ افغانستان کے دارالحکومت کابل سے نزدیک ترین فاصلے پر واقع ہے، فاٹا میڈیکل کالج کا منصوبہ پاراچنار میں شروع کرنے کی وجہ بھی شاید یہی تھی کہ میڈیکل کالج نہ صرف تعلیمی ادارہ ہو بلکہ ماہر پروفیسرز، سپیشلسٹ ڈاکٹرز
اور سرجن کی آمد سے یہاں کے لاکھوں عوام کے ساتھ ساتھ سرحد پار افغانستان کے کروڑوں عوام بھی مستفید ہو سکیں۔ اور یوں پاکستان افغانستان کے درمیان بردارنہ تعلقات کے قیام کے علاوہ پشاور کے ہسپتالوں پر بڑھتے ہوئے رش کو کم کیا جا سکتا ہے،کیونکہ پاراچنار اور اس سے متصل افغانستان سے روزانہ سینکڑوں مریض ماہر ڈاکٹرز کی خاطر پشاور کے مختلف سرکاری اور پرائیوٹ ڈاکٹروں اور ڈبگری گارڈن کے پرائیوٹ کلینکس کا رخ کرتے ہیں۔ 

پاراچنار میں میڈیکل کالج کے قیام سے نہ صرف غریب قبائلی عوام کو سہولت میسر آ جاتی بلکہ سرحد پار افغانستان کے غریب عوام کو پشاور تک پہنچنے کے لئے جن تکالیف و مصائب کا سامنا کنا پڑتا ہے اسکا بھی خاتمہ ہو سکتا تھا، اسکے علاوہ ان کی مالی مشکلات بھی کم ہو جاتیں، حتی کہ ایمرجنسی کی صورت میں قیمتی جانوں کے ضیاع (پشاور تک طویل ترین و دشوار گزار راستے کی وجہ سے کئی مریض راستے میں دم توڑ جاتے ہیں) کو روکا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے بے نظیر بھٹو نے فاٹا میڈیکل کالج کے منصوبے کی جلد از جلد مطلوبہ جگہ پاراچنار میں تعمیر پر زور دیا، جس کے بعد آنے والے گورنروں نے اپنے اپنے دورہ پاراچنار میں اس منصوبے کا کریڈٹ لینے کے لئے باقاعدہ طور پر منصوبے کی جگہ پاراچنار شہر سے باہر اپنی اپنی نام کی تختی تک لگوائی اور حتی کہ پاراچنار شہر میں واقع سرکاری گیسٹ ہاؤس شلوزان ہاؤس میں ہنگامی کلاسز شروع کرنے کی نوید تک سنائی گئی، تاہم یہ اہم منصوبہ فاٹا میڈیکل کالج اب تک پاراچنار میں شروع نہ ہو سکا لیکن گذ شتہ چند دنوں سے ایک بار پھر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی خبروں اور شہ سرخیوں کی زینت ضرور بنا ہے۔ 

یہ بات پی پی کی موجودہ قیادت صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاق کے زیرانتظام فاٹا کے ذمہ دار پاکستان پیپلز پارٹی کے گورنر مسعود کوثر کے لئے ایک لمحئہ فکریہ سے کم نہیں کہ وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے سابق وزیراعظم اور شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو کو اپنی ہر تحریر و تقریر کا حصہ تو ضرور بناتے ہیں لیکن بے نظیر بھٹو کے اعلان کردہ منصوبے کو اسکی مطلوبہ جگہ پاراچنار میں شروع کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں، ایک وجہ شاید یہ ہو کہ پاراچنار کے باشعور طوری و بنگش قبائل نے طالبان کو پناہ نہ دے کر وزیرستان اور دیگر علاقوں سے حملہ آور طالبان کے
خلاف مزاحمت کی اس لئے طالبان کی سرپرست قوتیں پاراچنار کے عوام کو سزا دینے کی خاطر پی آئی اے پروازوں کی طرح میڈیکل کالج کی سہولت بھی چھیننا چاہتی ہیں۔ ایسی صورت میں پی پی پی کی اعلی قیادت صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاق کے زیرانتظام فاٹا کے ذمہ دار پی پی کے گورنر مسعود کوثر کے لئے چلو بھر پانی میں ڈوبنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں کیونکہ چند مہینے کی مہمان پی پی پی اگر اپنی لیڈر سابق وزیراعظم اور شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو کے خواب اور قبائل سے کئے جانے
والے وعدے کو پورا نہ کر سکیں تو پھر پی پی پی آنے والے انتخابات
میں فاٹا کی عوام سے کس منہ سے ووٹ کا سوال کرے گی۔
 
سابق وزیراعظم اور شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو کے نام پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے والی پی پی پی کی قیادت کو کم ازکم بے نظیر بھٹو کے روح سے تو وفا کرنا چاہیئے وگرنہ وقت گزرنے کے ساتھ پھر نوبت ۔۔۔اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئی کھیت ۔۔۔۔۔ کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ اسلئے پی پی پی کی قیادت فاٹا میڈیکل کالج کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی و سردمہری کا خاتمہ کرکے قبائل کو اپنا جائز حق اور سابق وزیراعظم اور شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو کی روح کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں، وگرنہ پھر بےاختیار حکومت کرنے کی بجائے مستعفی ہو کر عوام کی نظروں میں با ا ختیار بن جائیں۔
خبر کا کوڈ : 133744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش