0
Friday 10 Feb 2012 22:13

بہادر و شجاع اسلام

بہادر و شجاع اسلام
تحریر: سید رضا نقوی

انقلاب اسلامی کے بارے میں جب بھی کوئی جنبش قلم کے لئے سوچے گا اس کا آغاز امام خمینی رہ کی ذات اقدس سے ہی ہو گا، وہ مرد جری پیر جماران، شجاعت و استقامت کا پیکر جس کے بارے میں الفاظ جب صفحہ قرطاس پر ابھرتے ہیں تو اپنے آزادی دہندہ کے لئے گریہ کناں ہوتے ہیں، آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں اور زبان پر اس عظیم ہستی کیلئے کلمات تحسین کہ جس نے ہمیں آزادی اور اسلام کو سر بلندی عطا کی۔۔۔۔استعمار اور سامراج کے ہاتھوں تراشے گئے بتوں کو پاش پاش کر دیا اور گھٹن کے ماحول کو چاک کر کے ایک ایسی فضا مہیا کی جس میں اسلام نے اپنے رکے ہوئے سفر کو پھر سے شروع کیا۔۔۔۔

سچ ہے امام خمینی رہ نے عالم اسلام کے سوئے ہوئے افکار کو بیدار کر دیا اور ایک عالمی اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی، انقلاب کا سفر اپنے قلم و بیان سے بالکل صفر سے شروع کیا اور حکومت اور اسلامی نظام کے سلسلہ میں اپنے افکار کی کرنیں دنیا میں کچھ اسطرح پھیلائیں کہ ہر کوئی اس سے بہرہ مند ہونے لگا، مسلمان ہونے کی قید نہ تھی۔۔۔۔۔جو بھی ظلم کی چکی میں پس رہا تھا اور استعمار کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اس نے ان کرنوں کی تاب کو محسوس کیا اور توانائی حاصل کی۔ 

اگرچہ بیسویں صدی کے انقلابات اپنے اہداف اور اقدار کے ضمن میں انقلاب کے حوالے سے دنیا میں رائج قدیم نظریات میں سے کسی ایک نظریہ کے تابع نظر آتے ہیں لیکن انقلاب اسلامی کی روش اس سلسلے میں تمام انقلابات سے مختلف اور متفاوت ہے کیونکہ امام خمینی رہ بت شکن نے مذکورہ نظریات کی نفی کے ساتھ ساتھ ایک جدید روش کی بنیاد رکھی، جو ان تمام نظریات سے ماورا ہے، امام راحل رہ کے نظریے کے مطابق اسلام کی پر عظمت قدروں کے ساتھ وفاداری اور ان پر عمل پیرا ہونا اولیت رکھتا ہے، اسلام ان تمام انسانوں اور بشریت کا دین ہے، پس اسلامی قدروں پر یقین اور اعتقاد عالمی جامعہ کی نسبت ایک قسم کی ذمہ داری کے احساس کا ثبوت ہے۔ 

ان مادی قدروں اور ثقافتوں کی نفی جو مشرق و مغرب میں حکومت کیلئے نمونہ ہیں، کے خلاف نبردآذما ہونا اور تمام ملتوں کو اس قسم کی مضر ثقافتوں سے آگاہ کرنا عالمی جامعہ کی نسبت ایک قسم کی دائمی ذمہ داری کا احساس ہے، لہذا اس نظریہ میں تمام ملتوں کی سرنوشت پر توجہ کیے بغیر سرحدوں کا بند کرنا اور لازمی قیود میں اسیر ہونا، قومی رشد و توسعہ جیسے مسائل کی نفی کرنا ہے اور داخل میں ہر قسم کا رشد تمام ملتوں کے رشد کیلئے تلاش و کوشش کا مرہون منت ہے، اس طرز تفکر کی اصلی ماہیت اور حقیقت ظلم اور ظلم پذیری کے خلاف، تسلط اور تسلط گری کے خلاف، سکوت و خاموشی اور انفعالی رفتار و حرکت کے خلاف ہے۔ امام رہ کے مطابق صرف اسی صورت میں دوسری قوموں کیلئے نمونہ بن سکتے ہیں جب وہ (قومیں) یہ محسوس کریں کہ ان کے مسائل اور مشکلات کے متعلق انقلابی ذمہ داری کا احساس پایا جاتا ہے۔

امام خمینی رہ فرماتے ہیں:
ـ’’ ہم نے جو انقلاب برپا کیا ہے یہ اسلام کیلئے ہے، جمہوری، جمہوری اسلامی ہے، اسلام کیلئے جو انقلاب برپا ہو وہ کسی ایک ملک تک محدود نہیں ہو سکتا حتٰی اسلامی ممالک تک بھی محدود نہیں رہ سکتا، کیونکہ اسلام کیلئے تحریک و انقلاب، وہی انبیاء کے انقلاب کا تسلسل ہے اور انبیاء ع کا انقلاب کسی مخصوص جگہ کیلئے برپا نہیں ہوا تھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب کے رہنے والے تھے لیکن ان کی دعوت صرف عربوں کیلئے نہیں تھی اور صرف حجاز تک ہی محدود نہ رہی بلکہ انکی دعوت پوری دنیا کیلئے ہے۔‘‘

ایک اور جگہ امام راحل رہ فرماتے ہیں:
ــ’’ ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسلام اپنے تمام مفاہیم کے ساتھ جو ایک میٹھے پھل کی طرح ہیں کہ جو بھی اس پھل کو چھکے گا اس کی ابدی لذت کو پا لے گا، ہم چاہتے ہیں کہ تمام طبقات اور اسلامی ممالک میں اس حقیقت، اس نور اور اسلام عزیز کو بہت پیارے متن کے ساتھ عملی شکل دی جائے بلکہ خواہش یہ ہے کہ یہ نور اسلامی ممالک کی سرحدوں سے بھی نکل کر انشاءاللہ دوسری جگہوں تک پھیل جائے‘‘۔

امام خمینی رہ کہتے ہیں کہ:
اسلام صدیوں سے مظلوم رہا ہے اس لئے کہ مقصد اسلام پر پردہ پڑا ہوا تھا، منشور اسلام کبھی بھی رائج نہیں ہو سکا اور نہ ہی اسکے بارے میں بتایا گیا، ملتوں کو اصل اسلام سے بے خبر رکھا گیا اور تاریخ کے خائن اسلام کو پردے میں رکھنے کی کوشش میں مصروف رہے اور اس بات کی اجازت نہیں دی کہ اسلام جو ایک آزادی و استقلال بخش مکتب، ایک ایسا مکتب جو ستمکاروں کے خلاف بر سر پیکار رہا اور غریبوں اور مستضعفوں کا ہمنوا رہا، دنیا کے سامنے پیش کیا جائے‘‘۔


امام خمینی رہ کی سوچ کا دائرہ کار پوری دنیا کے مظلومین اور مستضعفین تک وسیع تھا، امام راحل رہ انکے لئے درد رکھتے تھے اور اس بات کے خواہش مند تھے کہ جس طرح ایران میں اسلام کی عظمت رفتہ کو حیات نو ملی ہے، اسلام حقیقی کو دنیا کے ہر کونے میں زندہ کیا جائے، تاکہ اسلام کا آفاقی نظام ظلمتوں کے اندھیروں کو چیرتا ہوا مظلوموں کو صبح نو کی نوید دے۔ استعمار نے امام خمینی رہ کے پختہ ارادوں کو دیکھ کر انقلاب اسلامی کے کامیاب ہونے کے فوراً بعد اپنی سازشوں میں تیزی لاتے ہوئے، نت نئ سازشوں کا آغاز کر دیا، عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ، جس میں تقریباً پورا عرب عراق کا مددگار اور پشت پناہ تھا اور مغرب بھی اس جنگ میں کامیابی کو اسلام کے خلاف کامیابی گردان رہا تھا لیکن پیر جماران رہ نے اس نوزائیدہ اسلامی مملکت پر مسلط کردہ جنگ کو نعمت قرار دیا۔۔۔۔۔اور اس نعمت کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ 

تمام تر سازشوں کے باوجود استعمار اس انقلاب کی نورانی شعاعوں کو دوسرے ممالک میں اجالا بکھیرنے سے نہ روک سکا اور انقلاب اسلامی نے پوری دنیا میں گہرے اور ان مٹ اثرات مرتب کئے۔۔۔۔۔۔تیس سال کے قلیل عرصے میں انقلاب اسلامی نے۔۔۔۔دنیا کی سیاست کا رخ موڑ دیا۔۔۔۔۔مظلومین اور مستضعفین کو امید عطا کی۔۔۔۔۔اور سالوں سے غلامی اور خوف کی زنجیروں میں جکڑی قوموں کو آزادی کا پیغام دیا۔۔۔۔۔استعمار کے پیر اکھڑ چکے ہیں اور اب استعمار اپنی پوری بچی کچھی طاقت کو اکٹھا کرکے انقلاب اسلامی کے مد مقابل کھڑا ہے۔۔۔۔۔

وقت کی نزاکت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے، سارے جہاں کی اسلام دشمن قوتیں اسلام کے خلاف متحد ہو گئی ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ اسلام پر کاری ضرب لگائیں، مسئلہ ایران کا نہیں۔۔۔۔مسئلہ اس اسلام کا ہے جو ایران میں انقلاب اسلامی کی صورت میں نافذ ہے۔۔۔۔۔۔کیونکہ یہ اسلام بہادر و شجاع ہے۔۔۔۔۔۔یہ اسلام با بصیرت ہے۔۔۔۔۔۔یہ اسلام یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ ملک و قوم کیلئے معاشی، معاشرتی، ثقافتی نظام زندگی فراہم کرے۔۔۔۔۔۔اسی اسلام سے تو ڈرتے ہیں۔۔۔۔۔کیونکہ جو اس اسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ پھر غلامی کی طوق و زنجیروں کو برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔وہ آزاد ہو جاتا ہے۔۔۔۔آزاد! کیا اپنی آزادی کا دفاع واجب نہیں۔؟ 

کل عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ میں عرب و غرب نے اس نوخیز پودے کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوا اور پیر جماران رہ نے اس جنگ کو نعمت الٰہی قرار دیا۔۔۔۔۔آج اب یہ ایک توانا، ثمر آور درخت بن چکا ہے اور دشمن طرح طرح کی پابندیاں لگا کر اسے کمزور کرنا چاہ رہا ہے، لیکن فرزند خمینی رہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے ان پابندیوں کو نعمت قرار دیا ہے۔۔۔۔۔دشمن سمجھتا ہے کہ پابندیوں سے ترقی و سرفرازی کے اس سفر کو روک دے گا۔۔۔۔۔جب اسلام حقیقی نافذ ہوتا ہے تو مشیت الٰہی کے مطابق خزانے خود ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔جب نصرت الٰہی شامل حال ہو اور توکل صرف خدا کی ذات پر ہو تو مشکلات نعمتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

ہمارا وظیفہ یہ بنتا ہے کہ ہم اسلام کی حفاظت کریں، اپنی آزادی کی حفاظت کریں۔۔۔۔۔ہماری ذمہ داری یہی بنتی ہے کہ ہم دفاع کیلئے اٹھ کھڑے ہوں۔۔۔۔۔نتیجے کی پرواہ کئے بغیر۔۔۔۔۔ہم دفاع کرتے ہوئے مار دئیے جائیں ۔۔۔۔۔یا مار دیں، دونوں صورتوں میں کامیاب ہیں۔۔۔۔اہم اپنے وظیفہ کی بجا آوری ہے۔۔۔۔۔اس وقت کل کفر اسلام کے مد مقابل ہے یہ وہی تعبیر ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ احزاب کے بارے میں مولائے متقیان علی ابن ابیطالب ع سے بیان کی تھی۔۔۔۔۔آج بھی کفر عالم اسلام کے مد مقابل آکھڑا ہوا ہے اور اسلام کا، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا، علی ابن ابیطالب ع کا فرزند ارجمند۔۔۔۔۔ڈٹا ہوا ہے۔۔۔۔۔ اپنے شرعی وظیفے پر عمل پیرا ہے۔۔۔۔۔یہ سربلندی و سرفرازی کی جنگ ہے۔۔۔۔۔یہ جنگ کسی فرد واحد کی نہیں ۔۔۔یہ ہماری جنگ ہے اور ہم پر اگر یہ جنگ مسلط کی گئی تو ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 136829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش