1
0
Thursday 2 Feb 2012 02:44

انقلاب اسلامی کے عالمی اثرات (حصہ اول)

انقلاب اسلامی کے عالمی اثرات (حصہ اول)
تحریر:سید ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ 

انقلاب اسلامی ایران انقلابوں کی تاریخ میں ایک اچھوتا انقلاب ہے۔ زمانے کا تغیر و تبدل اس کی آب و تاب میں کمی نہیں کرسکا بلکہ ہر آنے والے دن اس انقلاب نے نئے اذہان کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور نئے قلوب کو تسخیر کیا ہے۔ اس انقلاب کو جہاں حیرت انگیز طور پر ایسی رہبریت میسر آئی جس نے بعد از کامیابی اس انقلاب کو نئی جہتوں سے آشنا کیا وہاں رہبر انقلاب امام خمینی (رح) کی رحلت کے بعد آیۃ اللہ سید علی حسینی خامنہ ای کی قیادت نے اسے بام عروج پر پہنچا دیا ہے۔ عقل دنگ رہ جاتی ہے جب انسان ان حقائق کا مطالعہ کرتا ہے کہ دنیا میں شاید ہی کسی اور انقلاب کے اثرات کو روکنے، انحراف کا شکار کرنے اور اس کی وسعت پذیری کی رفتار کو سست کرنے کیلئے اتنے زیادہ وسائل اور قوتوں کا استعمال کیا گیا ہو جتنا کہ انقلاب اسلامی ایران کے خلاف وسائل کا استعمال کیا گیا ہے۔ 

10سال قبل امریکہ نے سرکاری سطح پر 20 ملین ڈالر مخصوص کئے جبکہ غیر اعلانیہ کی حد معین نہیں کی جا سکتی۔ تمام عرب ممالک نے اپنے وسائل انقلاب کو روکنے یا ناکام کرنے میں صرف کر دیئے۔ پوری یورپی یونین تمام تر ریاستی و غیر ریاستی مشینری کے ساتھ حرکت میں رہی۔ ایشیاء، افریقا میں ان کے پٹھوؤں نے انقلاب کو ہر ممکنہ زک پہنچانے کی کوشش کی لیکن یہ کلمہ لا الہ الا اللہ مزید سر بلند ہوتا گیا اور آج اگر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ حالیہ عالمی سیاست میں انقلاب اسلامی نمایاں ترین عنصر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انقلاب کے پر لاطینی امریکہ تک وسعت پذیر ہو چکے ہیں اور آج کی عالمی سیاست میں ایران ایک بڑے محور کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ انقلاب اسلامی نے دنیا بھر میں بعض بنیادی تبدیلیاں متعارف کرا کے مروجہ سیاست اور عالمی استکبار کے مدّمقابل بعض نئی روشوں اور خطوط کو آشنا کرایا ہے جس کے نتیجہ میں محروم اور پسے ہوئے طبقات کو نہ صرف اُمید کی کرن نظر آئی بلکہ اس اُمید کے حصول کے عملی رستہ کی شناخت بھی ہوئی۔ عالمی سیاست کی تھیوریاں بدلتی نظر آئیں اور دنیا بعض نئے حقائق کو جاننے اور ماننے لگی۔ ذیل کی سطور میں چند نئی جہتوں کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کیسے انقلاب اسلامی ایران نے عالمی منظر نامہ میں بنیادی تبدیلیاں کرکے عالمی استعمار اور اس کے حواریوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ 

دین محور زندگی:
قبل از انقلاب دنیا دو سیاسی قطبوں میں تقسیم تھی۔ ایک امریکی جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا پرچارک تھا اور اس بلاک میں مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دیا جا چکا تھا۔ مذہبی معاملات کا سیاست اور اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جبکہ روس کی سرپرستی میں کمیونزم بلاک مذہب کو افیون قرار دیتے ہوئے انفرادی و اجتماعی زندگی کیلئے خطرہ قرار دے چکا تھا۔ یوں عملاً ہر دو بلاک دین کے خلاف متحد تھے۔ غیر جانبدار ممالک کی تحریک عملاً بے اثر تھی۔ ایسے میں انقلاب اسلامی نے "لاشرقیہ لا غربیہ" کا نعرہ بلند کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ یعنی دین کے سائے میں زندگی کو اپنا شعار قرار دیا۔ یوں عملاً پہلی مرتبہ دنیا نے ایک ملک کو دیکھا جس نے سیاست کو عملاً دین کا حصہ قرار دیتے ہوئے ملک کے داخلی اور خارجی تمام تر نظام کی اساس دین کو قرار دیا۔ حقیقی دینی سیاست کا قیام عالمی سیاست میں بڑی تبدیلی لے کر آیا۔ علماء کے بارے میں مغرب کا دیا گیا تاثر زائل ہونا شروع ہوا کہ علماء کارِ حکومت کو انجام نہیں دے سکتے۔

ایک ایسی ہی دینی حکومت کے قیام نے خطے میں نئے رجحانات کو متعارف کرایا جو انتہا پسند نہیں تھی بلکہ کاملاً جمہوری تھی لیکن جمہوریت کے اسلامی تصور کے ساتھ کہ جسے عوام کی غیر معمولی اکثریت کی تائید حاصل تھی۔ جمہوریت اس حد تک راسخ تھی کہ 8 سالہ بدترین جنگی دور میں بھی الیکشن میں ایک روز کا تعطل نہیں کیا گیا تھا۔ اس حکومت کی نمایاں ترین بات یہ تھی کہ یہ حکومت کامیاب طرز حکمرانی کا عملی اظہار تھی۔ معاشرے کے ہر شعبے میں نمایاں ترقی ہوئی جس نے ان ناقدوں کے منہ بند کر دیئے جو اسلام کو ناکام دین کہتے تھے یا دین کو سیاست سے جدا گردانتے تھے۔ خطے میں بارش کا یہ وہ پہلا قطرہ اور عملی نمونہ تھا کہ جس سے سبق لیتے ہوئے آج اسلامی دنیا بیداری کی لہر سے آشنا ہوئی ہے۔ یوں بجا طور پر جدید دنیا میں اسلام کی بنیاد پر آنے والی مثبت تبدیلیوں کو انقلاب اسلامی کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

اسلامِ حقیقی کی شناخت:

معرکہ کربلا میں بھی اسلام کے دشمنوں نے بظاہر اسلام کا لبادہ اُوڑھ رکھا تھا اور حکمران بھی خود کو مسلمان کہلانے پر مصر تھے۔ سید الشہداء (ع) کی عظیم الشان قربانی اور جناب زینب (ع) و امام سجاد (ع) کے طرز عمل نے حکمرانوں کا یہ نقاب اتار پھینکا اور ان کی اصلیت دنیا کو دکھا دی۔ یوں اُس وقت کی اسلامی دنیا ایک تبدیلی سے دوچار ہوئی تھی۔ اسی روشِ کربلا سے استفادہ کرتے ہوئے رہبران انقلاب نے بھی اسلام امریکائی کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا اور اسلام محمدی (ص) کی روح سے دنیا کو آشنا کرنے کیلئے سیر ت سیدالشہداء (ع) پر چلتے ہوئے عظیم الشان قربانیاں دیں لیکن ان سخت ترین مراحل میں بھی اسلام کے پاک و پاکیزہ اُصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

یوں دنیا کے سامنے اسلامی دنیا کے دو گروہ سامنے آئے۔ ایک وہ جو امریکہ کی سیاست پر چلتا تھا۔ امریکہ نوازی میں اعلیٰ مقام رکھتا تھا۔ خطے میں امریکی مفادات کا نگران و ترجمان تھا اور اسلام کا مسخ شدہ چہرہ دنیا کے سامنے پیش کر رہا تھا اور بظاہر اسلام کے مقدس ترین مقامات کا خدمت گزار ہونے کا دعویدار بھی تھا اور دوسرا گروہ جو بظاہر مشکل ترین حالات سے دوچار تھا لیکن امریکہ اور اس کے حواریوں کے مد مقابل ایستادہ تھا اور وقت کے یزید کے خلاف مقاومت میں ہر دشواری برداشت کرنے کیلئے آمادہ و تیار تھا۔ 

ایران نے مشکل ترین لمحات میں جب عراق کیمیائی ہتھیاروں سے بمباری کر رہا تھا، عراق کے مسلمان بھائیوں کے خلاف کیمیکل اسلحہ استعمال نہیں کیا۔ دوران جنگ عوامی مقامات پر حملے سے پہلے باقاعدہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر وارننگ جاری کی جاتی تھیں تاکہ عوامی مقامات کو خالی کرا دیں اور سویلین کی جانوں کا زیاں نہ ہو۔ جنگوں کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ تمام عرب ممالک کی طرف سے بدترین منافقت کے باوجود اسلامی بنیادوں پر ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اسرائیل کے مقابلہ میں حماس، حزب اللہ اور مقاومت اسلامی کی بھرپور مدد کی اور اس عمل کی قیمت ادا کرتے ہوئے تمام یورپی دنیا کی مخالفت مول لے لی۔ بدترین اقتصادی پابندیاں برداشت کیں لیکن عالم کفر کے مد مقابل سرتسلیم خم نہ کیا، یوں دنیا کو پہلی مرتبہ اسلامِ حقیقی کی طاقت و قدرت سے آشنائی ہوئی۔

امام خمینی (رح) اور بعدازاں آیت اللہ سید علی خامنہ کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی سیاست اور دوسری طرف امریکی پٹھو حسنی مبارک، قذافی، سعودی بادشاہان وغیرہ کی شکل میں اسلام امریکی کے طرز عمل نے تیزی سے زندہ ضمیر دنیا کا جھکاؤ انقلاب اسلامی کی طرف کیا اور یوں انقلاب کا پیغام تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ پہلی مرتبہ دنیا اس اسلام سے آشنا ہورہی تھی جو حقیقی تھا، اسی لئے اتنا انسان دوست، اتنا جازب و پرکشش اور اتنا عملی تھا کہ ہر آزاد انسان اس کی طرف بڑھنا شروع ہوگیا۔ آج افریقا سے ایشیا اور یورپ سے امریکا تک میں انقلاب کے اثرات دراصل حقیقی اسلام کے اثرات ہی ہیں۔ 

مثالی جمہوریت __مثالی اثرات:
اقبال نے مغربی جمہوریت کی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا۔ 
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
 
انقلاب اسلامی نے جو جمہوریت متعارف کروائی وہ اسلامی جمہوریت تھی جس میں بندوں کو تولا پہلے جاتا ہے اور گنتی کی بات بعد میں ہوتی ہے۔ انقلاب اسلامی کے نتیجہ میں رائج جمہوریت کو 85%سے زیادہ ووٹوں کی عوامی تائید حاصل رہی ہے اور تاحال یہ اسی سطح پر برقرار ہے جبکہ خود یورپ میں سکینڈے نیوین(ناروے، سویڈن وغیرہ) ممالک کے علاوہ یہ شرح ناپید ہے جبکہ دیگر دنیا میں اس سطح کی عوامی تائید ناقابل تصور ہے۔ دوسری طرف الیکشن سے پہلے سکریننگ کے باقاعدہ مراحل ہیں جبکہ الیکشن کے دوران اور بعدازاں بھی چیک اینڈ بیلنس کا متوازن نظام موجود ہے۔ رہبریت اور اس کی ذیل میں کام کرنے والے اداروں سمیت تمام اداروں کی روح جمہوری ہے اور یہ جمہوریت ہی ہے کہ جس نے مغرب کے منافقانہ جمہوری نعرے کا بھانڈا پھوڑا اور عوام کو انقلاب اسلامی کا پشت پناہ بنایا ورنہ جتنے وسائل انقلاب اسلامی کے خلاف استعمال ہوئے، دنیا کی کسی بڑے سے بڑی اقتصادی قوت کا دیوالیہ نکالنے کیلئے بھی کافی تھے۔ دنیا نے امریکی استعمار کا یہ چہرہ بھی دیکھا کہ جو پوری دنیا میں جمہوریت کے دعویدار بننے تھے وہ اسلامی ممالک میں بدترین ڈکٹیٹر حکمرانوں کے پشت پناہ تھے اور ہیں یوں ان کی دو عملی اور حقیقی چہرہ دنیا کیلئے آشکار ہوتا گیا جبکہ دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ایران کی جمہوری حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کیلئے کئی ملین ڈالر امریکہ نے بجٹ میں مختص کئے اور اس عمل کو کرنے میں خطے کے ڈکٹیٹروں کا سہارا لیا لیکن اسلامی جمہوریت کی عطا کردہ قوت نے انقلاب اسلامی کو توانا تر کیا جبکہ مغربی استعمار کا سہارا بننے والے خطے کے ڈکٹیٹر ایک کے بعد ایک کرکے عوامی غیض و غضب کا نشانہ بنتے رہے اور بن رہے ہیں۔ 

انقلاب اسلامی کی عطا کردہ جمہوریت کے ثمرات کا عوام مشاہدہ کرتے ہیں ۔ آج دنیا ایرانی صدر، ایرانی رہبراعلیٰ اور ایرانی مسؤلین کے طرز زندگی کی مثالیں دیتی ہے اور پوری دنیا میں ایسے عوام سے مربوط، منسلک اور عوامی زندگی گزارنے والے حکمران دکھانے سے قاصر ہے۔ ایرانی معاشرہ بہرحال ایک ایسا معاشرہ بن چکا ہے جہاں گناہ کے اسباب کم اور نیکی کے اسباب و ماحول زیادہ میسر ہیں جس معاشرے میں بدی کرنا مشکل اور تگ و دو والا کام ہو اور نیکی آسان اور ہر جگہ ممکن ہو، وہی معاشرہ ارتقاء کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ انقلاب اسلامی ایسے ہی معاشرے کو جنم دے رہا ہے جبکہ دیگر ممالک اس کے برعکس طرز زندگی کی طر ف بڑھ رہے ہیں جن کا منطقی انجام تباہی ہے۔ ایرانی جمہوریت نے مضبوط فوج، قوی سپاہ پاسداران انقلاب اور منظم ترین بسیج کے نظام کے ذریعہ اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر کر دیا ہے اور آج کسی امریکہ کی جرأت نہیں کہ وہ ایران کی حدود میں کسی ڈرون کو بھیج سکے۔ ( کاش پاکستان بھی ایسی حقیقی جمہوریت کی طرف پیش رفت کر سکے)۔
خطے میں ایسی مثالی جمہوریت اور مثالی حکمرانوں کا یہ ماڈل ہی عرب عوام کو غیض و غضب میں لانے کا موجب بنا ہے اور ایک کامیابی دینی حکومت نے تمام امت مسلمہ کے دلوں کو گرما دیا ہے اور وہ اپنے اپنے مناطق میں ایسی ہی دینی حکومت کے قیام کیلئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ (جاری ہے) 

خبر کا کوڈ : 134893
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
An excellent article.
ہماری پیشکش