0
Sunday 26 Feb 2012 22:39

اسرائیلی اخبار ہارتیز کی خبریں اور تجزیے

اسرائیلی اخبار ہارتیز کی خبریں اور تجزیے
تحریر: سید اسد عباس تقوی 
 
باراک اوباما کے مشیر برائے مشرق وسطی”ڈینس راس“ نے گزشتہ دنوں اسرائیلی اخبار ہارتیز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا؛ ایران پر پابندیوں کا اثر ہونا شروع ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق ایران کی کرنسی کی قیمت گزشتہ چھ ماہ میں آدھی ہو چکی ہے۔ یورپ نے بھی ایرانی تیل کا بائیکاٹ شروع کر دیا ہے، چائنہ والے جو پابندیوں کے معاملے میں تعاون نہیں کر رہے تھے نے بھی اپنی درآمدات آدھی کر دی ہیں اور وہ ان سے تیل کی خریداری کے معاملے میں رعایت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہندوستان جو کہ ان پابندیوں کا مخالف ہے، نے بھی اپنے 45% تیل کو روپے میں خریدنے کی حامی بھری ہے۔ ایران مجبور ہے کہ اس پیسے سے وہ چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے انڈیا میں ہی خریداری کرے۔ ڈینس راس کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں وہی تباہ کن پابندیاں ہیں جن کا اسرائیل نے تقاضا کیا تھا۔ ان پابندیوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایران کو مجبور کریں کہ وہ اپنا رویہ تبدیل کرے۔ جب ایرانیوں کو محسوس ہو گا کہ وہ کافی دباﺅ کے تلے آ چکے ہیں تو وہ اس کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔
 
اسی طرح ہارتیز اخبار کی اسی اشاعت میں ایک کالم کی سرخی کچھ اس طرح سے ہے ”اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو اس کی ذمہ داری باراک اوباما پر ہو گی جو کہ ایران کو روکنے میں ناکام رہا ہے“۔ کالم کا لکھاری ”آری شاوت“، نیتن یاہو کے مختلف کارناموں کو گنوانے کے بعد لکھتا ہے کہ مذاکرات کا وقت ہاتھوں سے نکلتا جا رہا ہے۔ اگر اوباما کسی بھی انہونی سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں نیتن یاہو کو یقین دہانی کرانی ہو گی کہ امریکہ 2012ء کے انتخابات کے بعد ایران کو کسی بھی قیمت پر روکے گا۔ اگر اوباما ایسا نہیں کرتے تو نیتن یاہو حق بجانب ہے کہ وہ 2012ء کے انتخابات سے قبل ایران پر حملہ کر دے۔
 
ہارتیز کی اسی اشاعت میں ایک خاتون نامہ نگار امریکی صدارتی امیدوار ”مٹ رومنی“ کے حوالے سے ایک خبر دیتی ہیں ”ہمارے صدر کی جانب سے آج تک جو بھی بیانات سامنے آئے ہیں ان میں ہمیشہ یہی کہا گیا کہ اسرائیل کو ایران پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں تو ایران سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ ہم تیار ہیں اور فوجی آپشنز ہمارے میز پر نہیں بلکہ ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔“ اسی مکالمے میں ریپبلکن پارٹی کے سیاست دان نیوٹ گنگرچ نے امریکی افواج کے سربراہ کے اس بیان پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ ہمارے چیف نے کیسے کہا کہ ”ایران ہمیشہ دانشمندی سے قدم اٹھانے والا ملک ہے۔“ نیوٹ گنگرچ کا کہنا تھا کہ درحقیقت ایران میں آمریت ہے جہاں کا سربراہ حکومت احمدی نژاد یہ اعلان کرتا ہے کہ اسے ہولوکاسٹ پر یقین نہیں۔ اسی مکالمے میں شریک سابق سینیٹر رک کا کہنا تھا کہ ایران کے معاملے میں اوباما کی پالیسی تسلی بخش نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی اس گفتگو کے دوران اپنے، ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے بل کا بھی حوالہ دیا اور طنزاً کہا کہ ”جس کے بارے میں ان کے خفیہ اداروں کا خیال ہے کہ اس کا کوئی وجود نہیں۔“
 
امریکی اخبارات اور جرائد میں اس قسم کی خبروں کے برعکس ایسی خبریں بھی منظر عام پر آ رہی ہیں جس میں کہا جا رہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی قسم کی ایک خبر امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز میں شائع ہوئی، جس میں نیشنل انٹیلی جنس کے ادارے (این آئی ای) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر بتایا گیا کہ ایران کسی قسم کا جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
 
اسرائیلی صدر شیمون پیریز نے بھی اسرائیلی حکومتی عہدیداروں کو متنبہ کیا کہ ایران کے خلاف بیان بازی سے گریز کریں، ایران کا معاملہ عالمی طاقتوں پر چھوڑ دیں، کیونکہ اس قسم کی بیان بازی اسرائیل کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ شیمون پیریز کی دیکھا دیکھی اسرائیلی لیبر پارٹی کے امیدوار بن الیزر کہتے ہیں کہ اسرائیل کو ایران پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔ ایران اپنے جوہری پروگرام کو ہر حال میں جاری رکھے گا، کسی قسم کی بھی پابندیاں اسے ایسا کرنے سے روک نہیں سکتیں۔ میرے خیال میں اسرائیل کو ایران کے مدمقابل نہیں آنا چاہیے۔
 
اسرائیل میں تعینات امریکی سفارت ”کار ڈین شیپرو “ نے گزشتہ دنوں اسرائیل میں کسی حکومتی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”یہ تو واضح ہے کہ ایران شدید دباﺅ میں ہے، تاہم یہ پابندیاں اپنا اصل ہدف (جوہری پروگرام کا خاتمہ) حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لیے تمام تر مقاصد حاصل کرنے کے لیے پابندیاں ہی بہترین حکمت عملی ہے۔
 
جبکہ دوسری جانب ایرانی جنرل احمد وحیدی کا بیان بھی ہارتیز کی 24 فروری کی اشاعت کے پہلے صفحے پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، جس میں انہوں نے واضح طور پر متنبہ کیا کہ ایران پر کسی بھی قسم کا حملہ اسرائیل کی نابودی پر منتہج ہو سکتا ہے۔ روس، جاپان اور چین بھی ایران پر کسی بھی حملے کو تباہ کن قرار دیتے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن نے تو واضح الفاظ میں کہا کہ مغرب ایران کے جوہری پروگرام کے نہیں بلکہ وہاں کے نظام حکومت کے درپے ہے۔
 
میرے استاد محترم اکثر کہتے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر کی آزادی سے پہلے آپ امریکا اور یورپ کی آزادی کی دعا کیا کریں۔ مندرجہ بالا خبروں کو ملاحظہ کریں تو کچھ اسی قسم کی تصویر صفحہ ذہن پر ابھرتی ہے۔ اسرائیلی اخبار اور ذرائع ابلاغ کے رویے سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اوباما کی ایران کے بارے میں پالیسی سے کسی طرح بھی خوش نہیں۔ جبکہ اس کے برعکس امریکی صدارتی انتخابات میں شامل اوباما مخالف امیدوار اس مسئلے کو اسرائیلی اور صیہونی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے خوب اچھال رہے ہیں۔ ریپبلیکن پارٹی کے امیدواروں کے مذاکرے اور ٹی وی پر آ کر کھلے عام اسرائیل اور صیہونیت کی حمایت اسی غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے۔ نیوٹ گینگرچ کا یہ کہنا کہ احمدی نژاد ہی وہ آمر ہے جس نے ہولوکاسٹ کا انکار کیا، کس سوچ کی عکاسی کر رہا ہے۔
 
ہارتیز کی خبریں اور تجزیے پڑھنے کے بعد تو مجھے بےچارے اوباما پر ترس آنے لگا، کہ اتنے اہم عہدے پر متمکن ہونے کے باوجود، یہ شخص کتنا لاچار اور بے کس ہے۔ وہ اچھی طرح سے جانتا ہے کہ اگر اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو مجھے صیہونی لابیوں کو خوش اور مطمئن کرنا ہو گا، جبکہ دوسری طرف اپنی عوام، افواج، معیشت اور وال اسٹریٹ تحریک کی جانب دیکھتا ہے تو اس کی دانش بینش کسی بھی نئی مہم جوئی سے منع کرتی ہے۔
 
دنیا کے نقشے پر امریکی حکومتوں کی آشیرباد، وسائل اور طاقت سے وجود میں آنے والے ملک اسرائیل کا وزیراعظم جو مارچ کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں امریکی صدر سے ملاقات کے لیے امریکا جانے والا ہے، سیر سپاٹے کے لیے نہیں بلکہ حقیقی یقین دہانیوں کے لیے جا رہا ہے، کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ہمارے سرمائے اور حمایت سے کرسی صدارت تک پہنچنے والا سپر پاور کا سربراہ ایران کو روکنے کے لیے سخت سے سخت اقدامات کرے۔
 
اسرائیلی حکومتی عہدیدار جس انداز میں چڑھ چڑھ کر حملوں کی باتیں کر رہے ہیں، کو دیکھا جائے تو ایک انوکھا منظر نظر آتا ہے۔”تم کچھ کرو نہیں تو ہم حملہ کر دیں گے۔“ ”2012ء کے انتخابات سے قبل اگر تم نے ایران کو روکنے کی ٹھوس یقین دہانی نہ کرائی تو ہم انتخابات سے پہلے ہی ایران پر چڑھ دوڑیں گے۔“ ان بیانات کو پڑھ کر پیٹ میں بل نہ پڑیں تو اور کیا ہو۔ ہمارے لیے تو شاید یہ بات مضحکہ خیز ہو، لیکن امریکیوں کا سب کچھ یہاں داﺅ پر لگا ہوا ہے، تبھی تو کبھی ان کی ایجنسیاں کہتی ہیں کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا، تو کبھی ان کا چیف آف آرمی سٹاف ایران پر ممکنہ حملے کے مضمرات سے امریکیوں کو آگاہ کرتا نظر آتا ہے۔ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر کی تقریر بھی اسی مفہوم پر مشتمل تھی کہ صبر کریں ایران، عراق یا افغانستان نہیں ہے۔ جب سے ایران نے امریکہ کا ڈرون اتارا ہے اس وقت سے امریکا کو تو "چاننڑ“ ہو چکا ہے کہ”ایڈا سوکھا نہیں۔“
خبر کا کوڈ : 141056
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش