0
Friday 17 Feb 2012 22:12

اسرائیلی سفارتکار پٹاخوں کی زد میں

اسرائیلی سفارتکار پٹاخوں کی زد میں
تحریر: ثاقب اکبر 


پیر 13 فروری 2012ء کو عالمی میڈیا پر ایک بریکینگ نیوز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس کے مطابق نئی دہلی میں ہائی سکیورٹی زون میں ایک کار میں بم دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں دو افراد زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں ایک اسرائیلی سفارتکار کی بیوی بھی شامل تھی۔ اس کے ساتھ ہی دوسری خبر جارجیا کے شہر تبلیسی سے بھی ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہونا شروع ہو گئی۔ اس کے مطابق تبلیسی میں ایک کار میں بم رکھا گیا تھا جس کا مقصد اسرائیلی سفارتکاروں کو نقصان پہنچانا تھا، اس بم کو ناکارہ بنا دیا گیا۔ 

ان حملوں کی خبر کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے بیان جاری کر دیا کہ ان حملوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے، کیونکہ ان کے بقول دنیا میں وہی دہشتگردی کو سب سے زیادہ فروغ دینے والا ملک ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ اس میں ایران اور لبنان کے گروپ حزب اللہ کا ہاتھ ہے۔
دوسرے روز اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ بنکاک میں بھی پیش آ گیا۔ اس واقعے میں ایک کار پر بم پھینکے جانے کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بم مبینہ طور پر ایک ایرانی نے پھینکے اور وہ خود بھی زخمی ہو گیا۔ بم پھٹنے کے نتیجے میں اس کی ٹانگیں ضائع ہو گئیں۔ اس دھماکے کا الزام بھی اسرائیل کے وزیر دفاع ایہود باراک نے ایران اور حزب اللہ پر عائد کیا ہے اور اس کے بقول وہی علاقے اور دنیا کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
 
امریکی صدر نے تبصرہ کرتے ہوئے NBC ٹیلی ویژن پر کہا کہ ایران کے معاملے میں وہ اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ ان واقعات پر مغربی میڈیا نے بھی ایران کو ملوث کرنے کے لیے دھماکا خیز خبریں اور تبصرے شروع کر دیئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی چینلز میں سے بیشتر نے بھی وہی لائن اختیار کی جو اسرائیل اور امریکہ نے اختیار کی تھی، جبکہ بھارتی حکومت نے اس مسئلہ میں خاصا محتاط طرز عمل اختیار کیا ہے۔ وزیر داخلہ چدامبرم نے کہا کہ اس حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اس کے لیے ہم نے ابھی کسی گروپ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ ایک اور بیان میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ہم اس واقعے میں ایران کو ملوث قرار نہیں دیتے، اس مسئلہ پر تحقیقات جاری ہیں۔
 
ایران نے واقعے پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب کچھ اسرائیل کا کیا دھرا ہے اور وہ ایسا کر کے ان ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل نے ایران کے ساتھ جنگ کا ماحول بنانے کے لیے یہ حملے کروائے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ایران دہشتگردی کی مخالفت کرتا ہے اور وہ خود اس کا شکار رہا ہے۔
 
حزب اللہ کے راہنما حسن نصراللہ نے بھی اسرائیل کی طرف سے عائد کئے جانے والے حالیہ الزام کے جواب میں کہا کہ اپنے لیڈر (عماد مغنیہ) کا بدلہ لینے کے لیے عام اسرائیلی شہری، سفارتکار یا عام فوجی کو مارنا تنظیم (حزب اللہ) کے لیے شرمناک کام ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ بیان اس لیے دینے پر مجبور ہوئے کہ اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کو ان دھماکوں میں ملوث ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ ہمارا ان حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل جانتا ہے کہ حزب اللہ اپنے عظیم راہنما (عماد مغنیہ) کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے کیا اقدامات کرے گی۔
 
دہلی میں پیش آنے والے واقعے کے بعد اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کے اعلٰی سطحی وفد نے دہلی میں بھارتی حکام سے ملاقات کی۔ انھوں نے بھارتی حکام سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو تحقیقات میں شامل کیا جائے اور مشترکہ طور پر تحقیقاتی عمل کو انجام دیا جائے۔ بھارت نے اسرائیل کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کے اس اقدام کو مبصرین نہایت اہم قرار دے رہے ہیں کیونکہ ماضی میں متعدد امور میں بھارت اور اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بعض امور میں مشاورت اور ہم آہنگی سے کام کرتی رہی ہیں۔
 
بعض مبصرین کی رائے میں بھارت نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات نیز ایران کی طرف سے اس واقعے کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرائے جانے کے بعد اس طرح کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر واقعاً اس میں موساد کا ہاتھ ثابت ہو گیا تو امکانی طور پر اسرائیل اور بھارت کے مابین تعلقات پہلے کی سطح پر باقی نہیں رہیں گے، کیونکہ بھارت یہ اجازت نہیں دے سکتا کہ اسرائیل ایران کے خلاف اپنی عالمی جنگ کو اس کی سرزمین پر لے آئے۔
 
مبصرین کی رائے میں امریکی سربراہی میں ایران کے خلاف عالمی پابندیاں لگانے کا جو عمل جاری ہے وہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا، جب تک جاپان اور بھارت جیسے ممالک ان پابندیوں میں اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ حال ہی میں بھارت اور ایران کے مابین تیل کی ترسیل کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کو نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق جنوری میں بھارت نے ایرانی خام تیل کے حصول کا ایک بے نظیر معاہدہ کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ ایرانی تیل کا چین سے بھی بڑا خریدار بن گیا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق آئندہ لین دین ڈالرز کے بجائے مقامی کرنسی میں ہو گا۔
 
اس معاہدے کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ناپسندیدگی کا اظہار سفارتی سطح پر کیا جاچکا ہے۔ نئی دہلی کا اس معاہدے کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ تجارت ہماری ضرورت تھی۔ اس وقت بھارت اپنی ضرورت کا 11 فیصد خام تیل ایران سے خرید رہا ہے۔ ان حالات میں یہ قرین قیاس نہیں ہو سکتا کہ ایران بھارت یا کسی اور ملک میں اس طرح کی کارروائی کرے کہ جس سے اس کے مفادات کو سخت زک پہنچنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
 
علاوہ ازیں موساد کی بھارت کے بعض امور میں بھارتی حکومت سے بالا بالا مداخلت پر پہلے ہی بہت سی باتیں سامنے آ چکی ہیں۔ اس سلسلے میں ممبئی کے واقعے میں دو اسرائیلی انٹیلی جنس اہلکاروں کے ملوث ہونے کی خبریں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ بھارت میں موساد کے بعض اہلکار تبلیغی جماعت کے بھیس میں مصروف عمل بھی پائے گئے ہیں۔ ہندوستان کی بعض ویب سائٹس نے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹیں بھی شائع کی ہیں۔
 
اگر مختلف ممالک میں ہونے والے مذکورہ واقعات کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل نے پٹاخے چلا کر میڈیا کے شور کے ذریعے ان سے بموں کا کام لینے کا منصوبہ بنایا تھا جو کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا انجام بھی امریکہ میں سعودی سفیر کو قتل کرنے کے ایرانی منصوبے کے افشاء جیسا ہو گا۔ جیسے اس غبارے کے اندر سے ہوا نکل گئی اسی طرح مذکورہ منصوبے کے اندر سے بھی ہوا نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اسرائیل اور امریکا ایشیا کے اہم ممالک کو ایران کے خلاف اپنے منصوبوں میں شریک کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
 
جاپان نے بھی حال ہی میں اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا خطرناک انجام ہو گا۔ مذکورہ واقعات کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک سے 16 فروری کو اپنی ایک ملاقات کے موقع پر جاپانی وزیراعظم نے کہا کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی انتہائی خطرناک ہو گی اور وہ خطے کے استحکام کو تباہ کر دے گی۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ اگر ایران کے خلاف مغربی پابندیاں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں تو پھر ایران کے خلاف فوجی کارروائی کو ایجنڈا میں شامل کرنا ہو گا۔ جاپان کے علاوہ خطے کے ایک اور اہم ملک ترکی نے بھی امریکا کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
 
اس سارے پس منظر میں شاید سب سے اہم پاکستانی صدر آصف علی زرداری کا بیان ہے، جو انھوں نے 17 فروری کو اپنے ایرانی ہم منصب ڈاکٹر محمود احمدی نژاد سے ملاقات کے موقع پر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر حملہ ہوا تو ہم نہ فقط پاکستان میں امریکا کو اڈے نہیں دیں گے بلکہ ایران کا ساتھ دیں گے۔ 

گذشتہ سوموار اور منگل (13 اور 14 فروری) کے واقعات کے بعد ایران کی حمایت میں خطے کے نہایت اہم ممالک میں اس طرح کی پیش رفت اور اس طرح کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا اسرائیلی سفارتکاروں پر پٹاخے چھوڑے جانے کی خبر کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں اور شاید بہت جلد یہ بات ثابت ہو جائے کہ جیسے لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل میں خود اسرائیل ملوث تھا ان واقعات میں بھی اس کا اپنا ہی ہاتھ ہے۔
خبر کا کوڈ : 138537
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش