0
Tuesday 17 Nov 2009 13:20

برطانوی وزیراعظم ناراض یہودیوں کو منانے کے لیے بیتاب

برطانوی وزیراعظم ناراض یہودیوں کو منانے کے لیے بیتاب
آصف جیلانی
برطانوی وزیراعظم گورڈن براون آج کل اس بات پر سخت پریشان ہیں کہ برطانیہ کے یہودی ان سے شدید ناراض ہیں۔وجہ یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم کے بارے میں جنوبی افریقہ کے جج گولڈ اسٹون کی رپورٹ کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظوری کے وقت برطانیہ غیر جانب دار رہا اور اس نے اسرائیل کے موقف کی حمایت نہیں کی۔ اسرائیل،جج گولڈ اسٹون کی رپورٹ کو اسرائیل کے خلاف ایک سازش قرار دیتا ہے،حالانکہ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم کے ساتھ حماس کو بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا مورد الزام ٹھیرایا ہے۔ستم ظریفی یہ کہ جج گولڈ اسٹون خود یہودی ہیں اور اسرائیل کے زبردست حامی اور مانے ہوئے صہیونی ہیں۔برطانیہ کے یہودی اس مسئلے پر اس قدر چراغ پا ہیں کہ برطانوی دفتر خارجہ کے وزیر ایون لیوس نے یہودیوں کے اعلیٰ رہنماﺅں سے ہنگامی ملاقات کی ہے،لیکن اس ملاقات کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا اور اب وزیراعظم گورڈن براون نے یہودیوں کو منانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ وہ اگلے مہینے برطانیہ کے یہودیوں کی نمائندہ تنظیم بورڈ آف ڈیپیوٹیز آف برٹش جیوز کے وفد سے ملاقات کریں گے اور یہودیوں سے موجودہ کشیدگی ختم کرنے کے لیے باقاعدہ رابطہ مہم شروع کریں گے۔اس سال کے اوائل میں جب اسرائیل نے غزہ پر تباہ کن حملہ کیا تھا جس کے دوران اندھادھند گولہ باری اور بمباری سے اس چھوٹی سی پٹی کو کھنڈر بنادیا تھا اور آٹھ سو سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا تھا جن میں دو سو ننھے بچے شامل تھے،تو اُس وقت برطانیہ کے مسلمانوں نے برطانوی حکومت کی خاموشی پر سخت احتجاج کیا تھا،لیکن انہیں اس بات پر بے حد مایوسی ہوئی کہ وزیراعظم گورڈن براون اور برطانوی دفتر خارجہ نے اس احتجاج کو حقارت سے ٹھکرا دیا اور اسرائیل کے اس جنگی جنون کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی۔برطانیہ کے مسلمانوں کو برطانوی حکومت کے اس جانب دارانہ رویّے پر سخت تعجب ہے۔2001ء کی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں یہودیوں کی تعداد ڈھائی لاکھ،جب کہ مسلمانوں کی پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔کیا وجہ ہے کہ برطانیہ میں آباد مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کے احساسات اور جذبات کو یوں ٹھکرا دیا جاتا ہے جبکہ ڈھائی لاکھ یہودیوں کی ناراضی پر وزیراعظم براون اور ان کی حکومت اس قدر تشویش میں مبتلا ہوگئی ہے!
 اس کی دو وجوہات ہیں۔اول:برطانیہ میں یہودی اور صہیونی لابی بے حد مضبوط اور بااثر ہے جس میں ڈھائی سو سال پرانی تنظیم بورڈ آف ڈیپیوٹیز آف برٹش جیوز پیش پیش ہے۔دوم: برطانوی کابینہ میں یہودی وزیروں کی خاصی بڑی تعداد ہے،جن میں وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ اور ان کے بھائی ایڈ ملی بینڈ،عملی طور پر نائب وزیراعظم پیٹر مینڈلسن اور جیک اسٹرا نمایاں ہیں۔ پھر برطانوی سیاست،معیشت اور میڈیا پر یہودیوں اور صہیونیوں کی گرفت اتنی سخت ہے کہ ان کی مرضی کے خلاف کوئی دم نہیں مار سکتا۔یہ واقعی نہایت تعجب کی بات ہے کہ انگلستان میں جہاں سے 1290ء میں شاہ ایڈورڈ اوّل نے تمام یہودیوں کو ملک بدر کر دیا تھا اور ساڑھے تین سو سال قبل کرامویل نے انہیں دوبارہ انگلستان میں آباد ہونے کی اجازت دی تھی،یہودیوں کی اتنی چھوٹی سی تعداد نے برطانیہ کی سیاست اور معیشت پر اس قدر زبردست اثر حاصل کر لیا ہے۔برطانیہ میں صہیونی لابی کا اثر اُس وقت سے شروع ہوا جب ”عیسائی صہیونیت“ کے نام سے ایک تحریک ابھری جس کا مقصد ارضِ فلسطین میں فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال کر یہودیوں کی ”بحالی“ کے نام پر یہودی مملکت قائم کرنا تھا۔اسی تحریک کی کوششوں کے نتیجے میں اعلانِ بالفور منظور ہوا،جس کی بنیاد پر اسرائیلی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔برطانیہ کی سیاست پر صہیونی لابی کا اس قدر اثر ہے کہ ملک کی تمام جماعتوں میں ”فرینڈز آف اسرائیل“ کے گروپ قائم ہیں۔وزیراعظم گورڈن براون حکمران لیبر پارٹی میں اس گروپ کے رکن ہیں،اور ان سے پہلے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی اس گروپ کے رکن تھے۔بتایا جاتا ہے کہ اس گروپ میں حکمران لیبر پارٹی کے ایک سو سے زیادہ اراکین پارلیمنٹ شامل ہیں۔حال ہی میں دارالعوام کے اسپیکر کے عہدے پر ممتاز یہودی جان برکو منتخب ہوئے ہیں جو برطانوی پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلے یہودی ہیں جو اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔سیاسی جماعتوں میں فرینڈز آف اسرائیل کی تنظیموں کے علاوہ یہودیوں کی ایک بااثر تنظیم ”برٹش اسرائیل کمیونی کیشنز اینڈ ریسرچ سینٹر“ ہے جو خاص طور پر برطانوی صحافیوں میں سرگرم عمل ہے۔اس تنظیم کے پاس بے تحاشا فنڈز ہیں جو صحافیوں کو اسرائیل کی پالیسیوں کی حمایت پر آمادہ کرنے کے لیے خرچ کیے جاتے ہیں۔برطانوی میڈیا پر صہیونی لابی کے اثر کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ پچھلے دنوں ایک ممتاز صحافی جان پلجر نے فلسطینیوں کی حالت ِزار کے بارے میں ایک فلم ”فلسطین اب بھی مسئلہ ہے“ کے نام سے تیار کی تھی،جب یہ فلم نمائش کے لیے بی بی سی کو پیش کی گئی تو ”بورڈ آف ڈیپیوٹیز آف برٹش جیوز“ نے اس کی شدید مخالفت کی،اور نتیجہ یہ کہ بی بی سی نے یہ فلم دکھانے سے انکار کر دیا۔ لوگوں کو اب بھی یاد ہے کہ غزہ کی جنگ میں تباہ و برباد ہونے والے محصور فلسطینیوں کی امداد کے لیے بین الاقوامی امدادی اداروں نے بی بی سی پر ایک اپیل نشر کرنی چاہی تو بی بی سی کے سربراہ مارک ٹامسن نے یہودی لابی کے دباو میں آکر یہ اپیل نشر کرنے سے انکار کر دیا۔یہ معاملہ خالصتاً انسانی ہمدردی کا تھا لیکن مارک ٹامسن نے بہانہ یہ بنایا کہ یہ اپیل نشر کر کے بی بی سی اس جنگ میں کسی کی جانب دار نہیں بننا چاہتی۔ 1858ء تک یہودیوں کو برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بننے کی اجازت نہیں تھی۔لیکن چالیس سال کے عرصے میں پارلیمنٹ میں یہودیوں کی تعداد پندرہ تک پہنچ گئی اور اب یہ تعداد پچاس سے زیادہ ہے۔برطانوی معیشت کی شہہ رگ اِس وقت یہودیوں کے پنجے میں ہے۔معیشت پر یہودیوں کے اثر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔بارہویں صدی میں جب انگلستان کے بادشاہوں کو جنگوں کے لیے رقم درکار تھی تو یورپ کے یہودیوں نے،خاص طور پر جرمنی کے یہودی سرمایہ داروں نے بادشاہوں کو قرضوں کے جال میں جکڑ لیا۔ ان میں روتھس چائلڈ خاندان نمایاں تھا۔اب بھی اس خاندان کی برطانیہ کے مالی اداروں پر مضبوط گرفت ہے۔اسی خاندان سے سر جیمز گولڈ اسمتھ کا تعلق ہے جو پاکستان کی تحریک ِانصاف کے سربراہ عمران خان کے سسر تھے۔اِس وقت برطانیہ کے سرفہرست پانچ ارب پتیوں میں سے دو یہودی ہیں۔ایک چیلسی فٹ بال کلب کے روسی مالک رومن ابرامووچ اور دوسرے آرکیڈیا گروپ کے فلپ گرین۔ ان کے علاوہ برطانیہ کا بینکاری نظام بڑی حد تک یہودی سرمایہ داروں کے قبضے میں ہے۔برطانیہ کے ہر شعبہ زندگی پر جس طرح یہودی چھائے ہوئے ہیں اور حکومت کی پالیسیوں پر اثرانداز ہیں اس کے پیش نظر یہودیوں کی ناراضی پر وزیراعظم گورڈن براون کی تشویش سمجھ میں آتی ہے،اور وہ بھی اس وقت جب کہ اگلے سال انہیں عام انتخابات کا سامنا ہے جس میں انہیں یہودی سرمایہ داروں کی مالی امداد اور میڈیا میں بااثر یہودی صحافیوں کی مدد اور حمایت درکار ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 15248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش