0
Saturday 10 Nov 2012 23:40

بین الاقوامی سیاسی نظام میں "استکبار" کی پیدائش

بین الاقوامی سیاسی نظام میں "استکبار" کی پیدائش
تحریر: منوچہر محمدی

اسلام ٹائمز- عالمی نظام سیاست میں "استکبار" جیسے عارضے کا ظہور ایک لمبی تاریخ پر مشتمل ہے۔ عالمی استکباری قوتیں مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان عظیم فاصلے اور چپقلش کا باعث بنی ہیں۔ مغربی قوتوں کی جانب سے مستکبرانہ رویے نے مسلم دنیا میں انکی نسبت شدید نفرت اور دوری کو جنم دیا ہے۔ لہذا اس مقالے میں ہماری کوشش ہے کہ بین الاقوامی سیاسی نظام میں استکباری قوتوں اور مستکبرانہ رویوں کے ظہور کا مختصر جائزہ لیا جائے۔

استکبار اور وسٹ فالیا معاہدہ:
مغرب پر مسلم دنیا کے عدم اعتماد کی وجوہات جاننے کیلئے ضروری ہے کہ ہم 300 سال قبل پلٹ کر دیکھیں جس وقت وسٹ فالیا معاہدے کے تحت رومن ایمپائر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی اور نیا ریاستی نظام معرض وجود میں آیا۔ اس معاہدے میں مختلف قسم کے سیاسی مسائل پر اظہار نظر کیا گیا۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ ایک انسان پر دوسرے انسان کا تسلط اور استعماری نظام کی بنیاد پر اسے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا مکمل طور پر طبیعی عمل ہے اور یہ کام ممکن بھی ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ تھا کہ مغرب ایک غالب طاقت ہے اور چونکہ طاقتور ہے لہذا اسے یہ حق حاصل ہے کہ دنیا کے دوسرے حصوں پر اپنا قبضہ جما سکے۔

استعمار کی اصطلاح کا بھی "طاقت کے بل بوتے پر تعمیراتی اور ترقیاتی کام" کے طور پر معنا کیا گیا۔ لہذا استعماری نظام کی بنیاد اسی معاہدے میں ڈال دی گئی۔ خاص طور پر جب عالم اسلام ایک عالمی طاقت کی حیثیت رکھتا تھا اور مغرب قرون وسطی کے دور سے گزر رہا تھا اور دنیا میں اسکی کوئی اہمیت نہ تھی۔

مغرب میں نشاۃ ثانیہ یا renaissance period کے بعد وسٹ فالیا معاہدے میں وقت کی ضروریات کے پیش نظر مناسب تبدیلیاں لائی گئیں۔ اس دوران پہلے درجے کے شہری اور دوسرے درجے کے شہری والی اصطلاحات متعارف کروائی گئیں اور نسل پرستی اپنے عروج تک جا پہنچی۔ حتی یہاں تک کہا گیا کہ ایک اچھا ریڈ انڈین وہ ہے جو مر چکا ہو۔ اسکے بعد مغربی دنیا نے توہین، قید اور غلام پروری کو اپنی سرگرمیوں کی بنیاد بناتے ہوئے دنیا میں بسنے والی باقی اقوام کے دل میں رعب و وحشت جمانے کو اپنی سیاست کا نصب العین بنا لیا۔

اس سیاست کا مرکزی خیال اس سوچ پر استوار تھا کہ ہم اعلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمیں دوسری اقوام پر حکومت کرنے اور ان پر اپنا تسلط قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔
لہذا جب مغربی دنیا اس قسم کے تصورات اور مفاہیم کی بنیاد پر پروان چڑھی تو اسکے نتیجے میں انتہائی شدید قسم کی مادہ پرست، استعمار گر اور تسلط پسند مغربی دنیا معرض وجود میں آئی۔ لہذا دوسری اقوام خاص طور پر مسلمانوں کا جو قرون وسطایی کے دور میں ہی انتہائی اعلی اور غنی ثقافت کے مالک تھے ان تفکرات کی حامل مغربی دنیا سے متنفر ہو جانا ایک قدرتی عمل تھا۔

ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب اقوام عالم مغربی دنیا کی برتری اور طاقت کو ایک ناقابل اجتناب حقیقت تصور کرتی تھیں لہذا مغربی ممالک کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں پاتی تھیں۔ اگر ایران میں برپا ہونے والی اسلام انقلاب سے ماقبل تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران سمیت عالم اسلام کے دوسرے ممالک حتی لاطینی امریکہ اور ایشیا کے ممالک میں بھی اسی قسم کی فضا حکمفرما تھی اور یہ سوچ حاکم تھی کہ مغرب کی حاکمیت اور فرمانروایی کو تسلیم کئے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ موجود نہیں اور جسکی لاٹھی اسکی بھینس والی منطق کا راج تھا۔

معروف مغربی دانشور "مورگنٹا" کہتا ہے: "انسان اقتدار کا پیاسا ہے اور جب تک وہ قبر میں آرام سے سو نہیں جاتا اسکی یہ پیاس نہیں بجھ سکتی"۔

مغربی دنیا کی یہ اقتدار طلبی گذشتہ 300 سال اور حتی دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی جاری ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اسکی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سوویت یونین دنیا کی بڑی طاقتوں کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں۔ جنگ عظیم سے قبل سپر پاور کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ بڑی بڑی پاورز موجود تھیں لیکن سپر پاور موجود نہ تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ دو سپر پاورز آئیں اور یہ دعوی کیا کہ دنیا پر حکومت کا حق صرف ہم دونوں کو حاصل ہے۔ تاریخ میں وہ پہلا شخص جو میدان میں آیا اور ان دونوں سپر پاورز کو للکارا امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے علاوہ کوئی نہ تھا۔

دلچسپ نکتہ یہ ہے خود ایران میں بھی اسلامی انقلاب سے قبل جو تحریکیں جنم لیتی تھیں انہیں دو سپر پاورز کے تابع ہوتی تھیں۔ مشروطہ کی تحریک میں سوویت یونین ایران کے بادشاہی نظام کی حمایت میں مصروف تھا جبکہ امریکہ مشروطہ میں شامل افراد کی حمایت کر رہا تھا۔ قدرتی تیل کو قومیائے جانے کی تحریک میں بھی صورتحال ایسی ہی تھی۔ چین کا انقلاب بھی سوویت یونین کی حمایت سے کامیاب ہوا۔ کیوبا میں بھی انقلاب کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی جبکہ امریکہ اسکی مخالفت میں مصروف تھا اور اصل جنگ انہیں دو سپر پاورز کے درمیان جاری تھی۔

لیکن ایران میں اسلامی انقلاب نے اس 300 سالہ قانون پر خاتمے کی مہر لگا دی۔ حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے 1962ء میں دو اہم اور تاریخی نکات بیان کئے۔ ایک یہ کہ امریکہ برطانیہ سے بدتر اور برطانیہ امریکہ سے بدتر ہے اور سوویت یونین دونوں سے بدتر ہے، یہ سب ایکدوسرے سے زیادہ برے اور ایکدوسرے سے زیادہ پلید ہیں۔ دوسرا نکتہ جس پر امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے تاکید فرمائی وہ یہ تھا کہ ہمارا مقابلہ دونوں قوتوں سے ہے، مغربی سرمایہ دارانہ نظام سے بھی اور مشرقی کمیونسٹ نظام سے بھی۔ آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کی جنگ پیسے اور طاقت کی جنگ ہے، ان دونوں کی بنیادیں مادہ پرستی پر استوار ہیں، یہ دونوں قوتیں اقتدار کی پیاسی ہیں اور استکبار جہانی کو پروان چڑھانا چاہتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ "استکبار جہانی" کی اصطلاح کو امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے دنیا والوں کو متعارف کروایا۔ لہذا قدرتی بات ہے کہ عالم اسلام خاص طور پر ایرانی مسلمان بالخصوص ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مغربی دنیا خاص طور پر امریکہ جو آج استکبار جہانی کی علامت بن چکا ہے سے نفرت کرنے لگیں اور اس سے بدظن ہو جائیں۔

اگر ہم قرآن کریم میں موجود بعض آیات کا جائزہ لیں تو جانیں گے کہ ان میں بھی خدا کے علاوہ ہر قوت کی حاکمیت اور برتری کو قبول کرنے سے انتہائی شدت سے منع کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 1 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
"یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِیاءَ"
"اے ایمان والو، میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا سرپرست مت بناو"۔


اسلامی مزاحمت کا قیام:

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تاریخ کا ایک نیا اور سنہرا باب شروع ہوتا ہے۔ یہ سنہرا دور عالمی استعماری طاقتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور خدا کے علاوہ ہر وقت کی حاکمیت اور تسلط کو چیلنج کرنے کا دور ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے فورا بعد سے ہی امریکہ نے جو اس وقت عالمی استعماری نظام کا سب سے بڑا لیڈر تصور کیا جاتا ہے اور شاید اسی وجہ سے حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے اسے "شیطان بزرگ" کا لقب عطا کیا ہے اس عظیم اسلامی تحریک کو ختم کر دینے یا کم از کم دنیا کے دوسرے حصوں تک اسکے اثرات کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا تھا۔

لیکن امام خمینی رحمہ اللہ علیہ جیسی بابصیرت اور خدا شناس لیڈرشپ اور ایرانی عوام کی بے مثال ثابت قدمی نے آج تک ہونے والی امریکہ کی ان تمام سازشوں کو بری طرح شکست اور ناکامی سے دوچار کیا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران نے مغربی دنیا کی جانب سے قائم کردہ عالمی تسلط پسندانہ نظام کو حقیقی معنوں میں چیلنج کر رکھا ہے۔ ایرانی قوم کی ثابت قدمی اور بیدار دل روحانی پیشوا کے ساتھ مکمل وفاداری اور اطاعت کا نتیجہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی استعمار مخالف تحریکوں جیسے حزب اللہ لبنان اور حماس کے جنم لینے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد بیرونی شیطانی طاقتیں اور انکے اندرونی چیلے اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ اب تو اسلامی انقلاب کی چھٹی ہونے والی ہے لیکن حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ دو عشروں کے دوران یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے صحیح معنوں میں جانشین ہیں اور انہیں کے راستے کو آگے بڑھانے کا عزم راسخ لئے ہوئے ہیں۔

اسی طرح ایران کی باایمان اور مخلص قوم نے بھی ان دو عشروں کے دوران ہر مشکل اور حساس مرحلے پر اپنے روحانی پیشوا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ ثابت کر دیا ہے کہ زندہ اور بیدار قومیں اپنی عظیم شخصیات کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد بھی انکے پیش کردہ اصولوں پر پابند رہتے ہوئے انکی راہ پر ثابت قدم رہتی ہیں اور اپنے لائق اور شایستہ لیڈر کو کسی مرحلے پر اکیلا نہیں چھوڑتیں۔ لہذا یہ دو عوامل اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی شدید مایوسی کا باعث بنے ہیں۔

اس وقت عالمی استعماری نظام کے خلاف دو محاذ پر مزاحمت جاری ہے۔ ایک اسلامی ممالک میں اسرائیل اور امریکہ کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کی صورت میں ہے اور دوسری خود مغربی ممالک کے اندر جنم لیتی ہوئے تحریک ہے۔ اسکی ایک مثال گذشتہ کئی ماہ سے خود امریکہ میں جاری وال اسٹریٹ تحریک کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے استکبار جہانی اور عالمی استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد اور مبارزے کا علم بلند کر رکھا ہے۔ لیکن اس جنگ میں آج ایران تنہا نہیں رہا بلکہ عالمی برادری کا بڑا حصہ اور خود مغربی اقوام بھی ایران کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔

آج امریکہ میں وال اسٹریٹ تحریک اور یورپی ممالک میں حکام کی بے انصافیوں اور اخلاقی بے راہروی کے خلاف اٹھتی آوازیں ظاہر کرتی ہیں کہ مغربی اقوام بھی اپنے اوپر مسلط کردہ سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سے مزید ظلم و ستم برداشت نہیں کر سکتیں۔ انقلاب اسلامی ایران نے عالمی استعماری نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ وہی چیز ہے جسے قرآن کریم میں مستکبرین اور مستضعفین کے درمیان نزاع کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

خدا نے قرآن کریم میں وعدہ کیا ہے کہ اس ٹکراو میں کامیابی یقینی طور مستضعفین کو ہی حاصل ہو گی۔ آج ایران ترقی کی جن راہوں پر گامزن ہے یہ قرآن کریم کے اس وعدے کا ہی تحقق ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ روس اور امریکہ آپس کے جھگڑوں کو بھلا کر ایران کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔

آج مغربی استعماری دنیا انتہائی کٹھن دور سے گزر رہی ہے اور انکی اپنی اقوام انکے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ حتی اسرائیل میں عوام حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے میں مصروف ہیں۔ مغربی اقوام اپنی استعماری حکومتوں کی حامی نہیں رہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد شروع ہونے والی جنگ جو ایک روایتی جنگ نہیں بلکہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں ایک طرف اقوام عالم اور دوسری طرف عالمی تسلط پسندانہ نظام اور استعماری حکومتیں ہیں افقی جنگ نہیں بلکہ ایک عمودی جنگ ہے۔ یعنی ایک مثلث کا قاعدہ اسکے بالائی نقطے کی جانب متحرک ہے۔

لہذا ہم چاہیں یا نہ چاہیں استعمار سے دشمنی کا پرچم ہمارے ہاتھوں میں ہے اور صلح کا بھی کوئی امکان نہیں کیونکہ ہمارے مطالبات استعماری نظام کے مطالبات سے ٹکرا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا پر اپنے تسلط کو قائم رکھیں اور ہمارا مشن دنیا سے انکے تسلط کا خاتمہ ہے۔ پس انکی پوری کوشش یہ ہو گی کہ وہ اپنے مقابلے میں ہر قسم کی مزاحمت کو کچل ڈالیں جبکہ ہمارا کام استقامت اور جدوجہد کرنا ہے۔ ہمارا بھروسہ خدا پر ہے اور قرآن کریم کا حتمی وعدہ ہماری کامیابی پر مشتمل ہے۔
خبر کا کوڈ : 210214
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش