0
Thursday 11 Oct 2012 13:13

جدید جیوپولیٹکل نظام کی تشکیل

جدید جیوپولیٹکل نظام کی تشکیل
تحریر: پروفیسر ابراہیم متقی

اسلام ٹائمز- مغربی دنیا کے شہری اور سیاسی ماہرین 1919ء سے 1991ء تک سیکورٹی کی صورتحال کو نارمل اور درپیش سیکورٹی چیلنجز کو عارضی قرار دیتے رہے ہیں اور انکی پوری توجہ اس نکتے پر مرکوز رہی ہے کہ کس طرح مکمل سیکورٹی کے حصول کو ممکن بنایا جائے۔ امریکہ کے سیکورٹی تھنک ٹینکس نے اس عرصے کے دوران جنگ، طاقت اور سیکورٹی سے متعلق اپنی تحقیقات میں تمامتر توانائیاں اس سوال کا جواب دینے پر مرکوز کر رکھی تھیں کہ کس طرح کم مدت کیلئے درپیش چیلنجز پر قابو پایا جا سکتا ہے، درمیانی مدت کیلئے درپیش چیلنجز کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور لمبی مدت کیلئے درپیش چیلنجز کو مینیج کیا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں معروف سیاسی ماہر "آرنلڈ ولفئرز" نے سیکورٹی سے متعلق مسائل کو مغربی دنیا کے عالمی تفکر اور سوچ کی شکل میں بیان کیا ہے۔ ولفئرز کہتا ہے کہ سیکورٹی صرف اس صورت میں قابل حصول ہے جب عالمی سیاست پر مسلط ممالک کسی چیلنج سے روبرو نہ ہوں یا اگر انہیں کوئی چیلنج درپیش بھی ہو تو وہ اسے دور کرنے کیلئے جنگ کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ یہ سوچ ظاہر کرتی ہے کہ ولفئرز سمیت دوسرے مغربی سیکورٹی تھنک ٹینکس کی نظر میں "نفوذ" اور "اعتبار" کو خاص اہمیت حاصل تھی۔

ان حالات میں مغربی ممالک یہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ طاقت، نفوذ اور اعتبار کی اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ ہر قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ سوچ مغربی دنیا کے سیاسی ڈھانچے اور عالمی رویے میں "غالب ہونے کا احساس" پیدا ہونے کا باعث بنی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد والے کچھ سالوں کے دوران مغربی دنیا کے سیاسی تفکر اور طاقت کے سیٹ اپ میں "غالب ہونے کا احساس" انتہائی سنجیدہ قسم کے چیلنجز سے روبرو ہوا۔ مشرق وسطی پر مغربی دنیا کے تسلط پسندانہ رویے اور یکے تازی کو کھلے چیلنجز کے سامنے کو انقلاب اسلامی ایران کے اہم ترین اثرات کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

1. عالمی استعماری نظام کی تشکیل میں کارفرما اہم عوامل:
عالمی استعماری نظام کی جڑیں مغربی دنیا پر حکمفرما مادی تفکر اور طاقت کے اصلی منابع پر قبضے کی ہوس میں پوشیدہ ہیں۔ یہ سوچ اور تفکر باعث بنا ہے کہ دنیا کے وہ مختلف خطے جو اقتصادی منابع سے مالا مال تھے 16 ویں صدی کے بعد آہستہ آہستہ مغربی قبضے تلے چلے جائیں۔ 19 ویں صدی کے بعد سے اب تک عالمی استعماری نظام کئی تبدیلیوں کا شکار ہوا ہے۔ عالمی تسلط پر مبنی یہ استعماری نظام خود مغربی دنیا کے اندر سے ہی شدید تنقید کا نشانہ بنا۔ اس دوران مغربی سرمایہ دارانہ نظام پر حکمفرما اقتصادی قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں معرض وجود میں لائی گئیں۔

امریکہ کے سیکورٹی اور اقتصادی ماہرین کا نظریہ تھا کہ عالمی نظام پر قبضہ صرف طاقت پر حکمفرما قواعد میں اسٹریٹجک تسلط کے حصول کی روشنی میں بنیادی تبدیلیاں لائے جانے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس رویے کے معاشرتی اور اقتصادی اثرات "ترقی" کے نام پر سرمایہ، ٹیکنولوجی، ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ایگزیکٹو مینجمنٹ کے انتقال کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ لہذا وہ "ترقی" یا ڈیولپمنٹ کو ایک نیا استعماری ہتھکنڈہ قرار دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ہتھکنڈہ تھا جو تیسری دنیا کے ممالک کو انکے اندر سے کنٹرول کرنے کو ممکن بنانے میں انتہائی مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔

امریکہ کے سیاسی لیڈران دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی استعماری نظام کے اندر دو بڑے چیلنجز سے روبرو ہونے کے بارے میں پریشان نظر آتے تھے۔ فرنکلین روزویلٹ نے اپنی یادداشتوں میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد امریکہ کے سامنے دو بڑے چیلنجز برطانیہ کی استعماری میراث اور سوویت یونین کے سوشلسٹک محرکات کو کنٹرول کرنا تھا۔ یہ وہ دوران تھا جب ترقی یافتہ ممالک کے اقتصادی سیٹ اپ میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کرنے کیلئے اقتصادی، ثقافتی اور علمی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کی سوچ پیدا ہوئی اور اسے "ترقی" کا نام دیا گیا۔ یہ نقطہ نظر ایک ایسے متحد المرکز نظام کے معرض وجود میں آنے کا باعث بن رہا تھا جس میں ہر ملک سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام سے وابستگی کی شدت کے تناسب سے اس عالمی نظام میں مخصوص مقام کا حقدار قرار پاتا تھا۔

اگرچہ امریکی سیاسی رہنماوں
نے بیسویں صدی کا آغاز ولسن ڈاکٹرائن سے کیا جسکے تحت عالمی سیاست میں دنیا کے تمام ممالک کو آرگنائزیشنل اور انسٹیٹیوشنل برابری حاصل تھی اور اسکا تسلسل روزویلٹ ڈاکٹرائن سے دیا جو علاقائی اور بین الاقوامی توازن پر مبنی تھی لیکن سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد والے سالوں میں امریکہ کے خفیہ محرکات اور مقاصد مزید واضح ہو کر سامنے آئے۔ جب برجینسکی نے 1997ء میں اپنی کتاب "عالمی شطرنج کا میدان: امریکہ کی برتری اور اسکے جیواسٹریٹجک آثار" شائع کی تو یورپی ممالک کے اکثر سیاسی رہنماوں نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔

برجینسکی نے اپنی اس کتاب میں عالمی لیڈرشپ کیلئے امریکہ کی بہ نسبت لیاقت اور شائستگی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی وجہ سے یورپی سیاسی رہنماوں اور انٹرنیشنل ریلیشنز سے متعلق ماہرین نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ مثال کے طور پر فرانس کے اس وقت کے وزیر خارجہ جناب اوبر ودرین نے اس سوچ کو امریکیوں کی "بے قرار طاقت" کا شاخسانہ قرار دیا۔ "بے قرار طاقت" سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکی سیاست کے بارے میں ایک طنز آمیز مفہوم جانا جاتا ہے۔ جرمنی کے سابق صدر جناب ہلمٹ اسمتھ نے بھی اس نظریے کو ایسے امریکی مفکرین کی سوچ قرار دیا جو عالمی سطح پر تسلط اور قبضے کو توازن، تعاون اور پارٹنرشپ کی جگہ قرار دینا چاہتے ہیں۔

موجودہ حالات میں حتی وہ ماہرین اور تھنک ٹینکس جو عالمی سیاست، اقتصاد اور سیکورٹی کے میدانوں میں امریکہ کی لیڈرشپ کے حامی جانے جاتے ہیں بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ عالمی تسلط کی کوشش میں امریکہ کو پہنچنے والا نقصان اسکے اندرونی ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی مسائل سے براہ راست منسلک ہے۔ بیرونی خطرات اور اندرونی کمزوریوں کے درمیان رابطہ اور تعلق امریکہ کیلئے ہمیشہ بدامنی اور عدم استحکام کا باعث بنا ہے۔ اس وقت امریکہ کی ٹیکنولوجیکل پاور عالمی برادری کی فلاح و بہبود کے راستے میں استعمال ہونے کی بجائے ایسے پیشرفتہ ہتھیار بنانے میں استعمال ہو رہی ہے جو امریکہ نے 1991ء میں صدام حسین کے خلاف جنگ، 1999ء میں کوسوو کی جنگ، 2001ء میں طالبان کے خلاف جنگ اور 2003ء میں عراق پر فوجی قبضے کے دوران استعمال کئے ہیں۔

اسلحہ اور ہتھیار بنانے میں جدیدترین ٹیکنولوجی کا استعمال عالمی نظام پر تسلط قائم کرنے کیلئے فوجی طور طریقوں کو بروئے لانے کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ نقطہ نظر دنیا کے مختلف حصوں میں امریکی جنگوں کے پیچھے کارفرما سوچ کو واضح کر دیتا ہے۔ جب بھی کسی ملک کے سیاسی قائدین دنیا کے مختلف حصوں میں فوجی طاقت کے استعمال کے وسیع محرکات رکھتے ہوں تو انکے مقابلے میں مزاحمت کا وجود میں آنا ایک قدرتی امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید عالمی نظام میں تسلط پسندانہ نظام کے مرکز اور محور کے طور پر امریکہ کے خلاف مختلف قسم کی سیاسی، معاشرتی اور اپنی شناخت کی خواہاں قوتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں۔

2. عالمی استعمار کے خلاف مزاحمت کے بین الاقوامی اسباب:
تمام بین الاقوامی تھنک ٹینکس اس نکتے پر تاکید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جب بھی بین الاقوامی سطح پر طاقت کا توازن بگڑتا ہے اور کوئی ملک اپنی حد سے پھلانگ کر زیادہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دنیا کے باقی ممالک اور سیاسی کھلاڑی اسکے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مزاحمت کسی خاص جغرافیائی حدود کے ساتھ مختص نہیں۔ مزاحمت کے آثار اور علامات خود امریکہ کے اندر وال اسٹریٹ موومنٹ کی صورت میں اور یورپ کے اندر یا جنوب مغربی ایشیائی ممالک کے اندر اسلامی بیداری کی تحریک کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

لہذا نئے جیوپولیٹیکل نظام میں عالمی تسلط کا امریکی خواب کئی قسم کی رکاوٹوں اور مزاحمتوں کا شکار ہو چکا ہے۔ امریکہ اپنے عالمی تسلط کی راہ میں رکاوٹ بننے والی قوتوں کے درمیان موجود اختلافات کو ہوا دے کر ان میں ٹکراو کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف ان قوتوں میں موجود اسلامی تشخص کو بھی کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ اس طرح سے ان میں موجود مزاحمت کے جذبے کو کم کر سکے۔

اگر اگست 2012ء میں امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے دہشت گردی کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹ کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ امریکہ کے خلاف مزاحمتی تحریک دنیا کے تمام
حصوں تک پھیلی ہوئی ہے اور اس میں وسیع پیمانے پر اجتماعی قوتیں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ "مزاحمت" ایک ایسی ناقابل انکار حقیقت میں تبدیل ہو چکی ہے جو امریکہ کی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے مقابلے میں تشکیل پائی ہے۔

کوئی سیاسی ماہر دنیا کے مختلف حصوں خاص طور پر شمالی افریقہ، مشرقی مڈیٹرینین اور جنوب مغربی ایشیا میں موجود انٹی امریکن مزاحمتی تحریکوں سے چشم پوشی اختیار نہیں کر سکتا۔ اگرچہ یہ مزاحمتی تحریکیں عالمی استعماری قوتوں کی مانند وسیع اور جدید وسایل سے لیس نہیں لیکن اسکے بدلے ان میں جذبہ شہادت جیسا عظیم سرمایہ پایا جاتا ہے۔ جدید پولیٹیکل نظام میں معاشرتی سرمایہ مغربی دنیا کے پاس موجود مادی سرمایہ کے مقابلے میں قرار پایا ہے۔

3۔ جدید عالمی پولیٹیکل نظام کی خصوصیات:

اگرچہ جدید پولیٹیکل نظام میں امریکہ کو اقتصادی اور فوجی برتری حاصل ہے لیکن اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ کسی میدان میں برتری کا مطلب سپرپاور ہونا نہیں۔ امریکہ چاہے جو روش بھی اختیار کر لے اسکے باوجود اسکو دنیا کے مختلف حصوں میں سیکورٹی چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ ان چیلنجز نے امریکہ کے اندرونی سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے سے جنم لیا ہے اور جدید پولیٹیکل نظام کا ایک بڑا حصہ ان چیلنجز پر مشتمل ہے۔ عالمی استعماری نظام کے خلاف جنم لینے والی وسیع اور گوناگون قسم کی مزاحمتی تحریکیں ظاہر کرتی ہیں کہ عالمی سیکورٹی کی برقراری میں امریکہ کی جانب سے طاقت کا استعمال انتہائی غیرموثر اور بے نتیجہ ثابت ہوا ہے۔ اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ انٹی امریکن مزاحمت کسی ایک شکل، تشخص یا قومیت تک محدود نہیں۔

عالمی استعماری نظام کے خلاف پائی جانے والی مزاحمت سے مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ کے پٹھو اور نوکر عناصر بھی اپنا کردار ادا کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ عناصر دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ ان عناصر کا ہدف دنیا پر عالمی استعماری نظام کے نفاذ کیلئے زمینہ فراہم کرنا ہے۔ امریکہ اپنے ان پٹھو اور نوکر عناصر کو پراکسی وار میں استعمال کرتا ہے۔ لہذا دنیا کے مختلف حصوں میں پائی جانے والی بدامنی کا بڑا حصہ امریکہ کے ان پٹھو اور نوکر عناصر کی جانب سے پیداکردہ ہے۔

عالمی سطح پر امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی اس پراکسی وار کا اصل ہدف ایران ہے کیونکہ یہ سارا منصوبہ "شیعہ کریسنٹ" نظریے کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔ امریکہ کے ان پٹھو اور نوکر عناصر کی کوشش ہے کہ مزاحمتی فرنٹ کا محور ہونے کے ناطے ایران کے خلاف مختلف قسم کے سیکورٹی اور ڈپلومیٹک ہتھکنڈوں کو بروئے کار لائیں۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ خطے میں امریکی فوجی اڈوں کے قیام کے ساتھ ساتھ مزاحمت والے علاقوں میں امریکہ کے سیکورٹی مراکز بھی تیزی سے منظم ہو رہے ہیں۔ امریکہ کی پراکسی وار کے سپاہی اس وقت شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو سرنگون کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ قوتیں صرف اس صورت میں دنیا کے مختلف حصوں میں فعال ہو سکتی ہیں جب پوری طرح منظم کر دی گئی ہوں۔ لہذا یہ امریکی پٹھو عناصر صرف شام میں ہی سرگرم عمل نہیں بلکہ انہیں اس انداز میں منظم کیا گیا ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں موجود انٹی امریکن مزاحمتی تحریکوں کے خلاف بیک وقت برسرپیکار ہو سکیں۔

امریکہ کی فوج کا کام اپنے ان پٹھو عناصر کی حمایت اور پشت پناہی کرنا ہے۔ یہ کردار ادا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ امریکی فوج مزاحمتی تحریکوں والے علاقوں کے قریب موجود رہے تاکہ ضرورت پڑنے پر فورا میدان میں اتر سکے۔ ان فورسز کا اصل مقصد علاقائی تنازعات میں مداخلت کرنا ہے۔
امریکہ کے اسٹریٹجک پالیسی ساز حلقوں میں "ریپڈ ریسپانس" اور "فیصلہ کن آپریشن" جیسی اصطلاحات وافر مقدار میں بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ ان اصطلاحات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے اپنی فوجی یونٹس کو اس انداز میں منظم کر رکھا ہے کہ ایک وقت میں دنیا کے مختلف حصوں میں جنگ شروع کرنے کی صلاحیت رکھ سکے یا مزاحمتی تحریکوں والے علاقوں میں اپنے پٹھو عناصر کی فوری مدد کر سکے۔

عالمی استعماری نظام کے خلاف جاری مزاحمت کا ایک اور اہم حصہ پرامن سیاسی تبدیلیوں کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ اسلامی بیداری کی تحریک نے شمالی افریقہ، جنوب مغربی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے ممالک کی سیاست اور سیکورٹی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ اثرات انڈونیشیا
سے لے کر بحرین، تیونس، مراکش، مصر اور ترکی جیسے ممالک تک قابل مشاہدہ ہیں۔ اس وقت مختلف ممالک میں اسلام پسند عناصر ایک موثر سیاسی قوت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان تمام ممالک میں موجود مذہبی عناصر تشخص سے مربوط مفاہیم سے مدد حاصل کر رہے ہیں۔
اسلامی تشخص کی جانب جھکاو "مزاحمتی تشخص" اور "جواز بخش تشخص" جیسے جلووں کے ایجاد ہونے کا باعث بنتا ہے۔ مزاحمتی تشخص اجتماعی انقلابات کیلئے سیاسی جدوجہد کا زمینہ فراہم کرتا ہے جبکہ جواز بخش تشخص قومی حکومت کی تشکیل میں انتہائی اہم کردار کا حامل ہے۔ مزاحمتی تحریکوں والے ممالک میں موجود تشخص پسند گروہ اجتماعی سرمایہ کا تحفظ، دینی جمہوریت اور بین الاقوامی سطح پر ہمہ جہتی پالیسیاں اپنائے جانے پر تاکید کر رہے ہیں۔

عالمی استعماری قوتوں کے خلاف برسرپیکار مزاحمتی گروہ جو سیاسی تبدیلیوں کیلئے کوشاں ہیں صرف طاقت پر تکیہ نہیں کر رہے بلکہ وہ توازن ایجاد کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسلامی بیداری کی تحریک میں شامل گروہ نہ فقط جمہوریت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں بلکہ انکی پوری کوشش ہے کہ جمہوری اداروں کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔ اسی وجہ سے ان ممالک میں سیاسی تنوع بڑھتا جا رہا ہے اور اس تمام سیاسی عمل کی بنیاد اسلامی ثقافت اور تشخص پر استوار کی گئی ہے۔

نتیجہ گیری:
1. عالم اسلام میں تشخص کی بنیاد پر جنم لینے والی تبدیلیوں کا عالمی نقطہ نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں مغربی ایشیا، مشرقی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ممالک میں ایک قسم کا ریجنلزم دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کیونکہ یہ ریجنلزم خطے کی حکومتوں کیلئے مناسب اور موثر حکمت عملی فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لہذا شناخت کی بنیاد پر عمل عالم اسلام میں حقیقی نقطہ نظر تصور کیا جا رہا ہے اور اجتماعی گروہ جدید عالمی اور علاقائی جیوپولیٹکل نظام میں سیاسی عمل کا حقیقی محور سمجھے جاتے ہیں۔

2. عالم اسلام میں تشخص کی جانب جھکاو کا عمل جیوپولیٹکل اور تھیولوجیکل نوعیت کا حامل ہے۔ جدید جیوپولیٹکل نظام کی تشکیل میں تشخص پسند گروہوں کی کوشش ہے کہ وہ استعماری قوتوں کی برتری، تسلط اور قبضے کے خلاف مزاحمت کریں۔ یہ گروہ دنیا کے مغربی حصے سے شروع ہو کر مشرقی ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں اگرچہ مزاحمتی فرنٹ کا مرکز اور محور ایسے خطے میں معرض وجود میں آیا ہے جسے "گلوبل بلقان" کا نام دیا جاتا ہے۔

3. گلوبل بلقان اس جیوپولیٹکل خطے کو کہا جاتا ہے جہاں دنیا کے 68 فیصد تیل اور 41 فیصد گیس کے مسلمہ ذخائر موجود ہیں۔ گلوبل بلقان میں اقتصادی منابع شناخت سے متعلق مفاہیم، علامات اور خصوصیات سے مرتبط ہیں۔ مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں موجود انرجی کے ذخائر کی نسبت سرمایہ دارانہ نظام کی شدید ضرورت نے اس خطے میں عالمی استعماری نظام کا محور ہونے کے ناطے امریکہ کی مداخلت کا زمینہ فراہم کر دیا ہے۔ لہذا اس امریکی مداخلت کے مقابلے میں ایسی جدید مزاحمتی قوتیں وجود میں آ رہی ہیں جنہوں نے استعماری نظام سے مقابلے اور اقتصادی و اجتماعی ترقی کی راہ طے کرنے کیلئے اسلام پسندی کو اپنی تکیہ گاہ کے طور پر انتخاب کیا ہے۔

4. اقتصادی مفادات اور سیاسی محرکات جنوب مغربی ایشیا میں امریکی مداخلت کی شدت میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ اقتصادی ذخائر اور سیاسی و نظریاتی تشخص وہ دو بڑے عوامل ہیں جو امریکی مداخلت کا زمینہ فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ عالمی استعماری نظام کی مرکزیت اور مزاحمتی فرنٹ کے درمیان اسٹریٹجک تضاد کے بڑھ جانے کے واضح شواہد نظر آ رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عالمی استعماری نظام اپنی فوجی طاقت اور پراکسی وار کے سپاہیوں کو استعمال کر رہا ہے۔ اسکے مقابلے میں مزاحمتی قوتیں بھی جذبہ شہادت جیسے اجتماعی سرمایہ سے سرشار ہیں اور اسکی بنیاد پر دشمن سے درپیش خطرات کے مقابلے میں جدوجہد اور اپنے تشخص اور ثقافت کی حفاظت کی کوشش میں مصروف ہیں۔

عالمی استعماری نظام کے تحت اجتماعی، سیاسی اور سیکورٹی قوتوں کی تشکیل اور انکے مقابلے میں مزاحمتی فرنٹ کا قیام ایسے انداز میں موجود ہے جس سے سرد جنگ کی علامات ظاہر ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ واضح ہے کہ اس صورتحال کے طویل مدتی آثار موجودہ بحران کی تشدید اور براہ راست ٹکراو کی صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 198811
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش