0
Friday 21 Dec 2012 13:26

انسانی حقوق کا ہتھیار

انسانی حقوق کا ہتھیار
تحریر: ڈاکٹر عامر عباس
 
عصر حاضر میں انسان دوستی پر مبنی نظریات پیش کئے جانے اور عالمی کنونشنوں میں ان کے تحریر کئے جانے کے باوجود بعض حکومتیں بڑی آسانی کے ساتھ انسانی حقوق کے منشور کی شق نمبر تین نیز 1966ء میں طے پانے والے سول اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی سمجھوتے کی شق نمبر چھ کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور اپنے اس اقدام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کے بہانے جائز ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب مذکورہ منشور کی رو سے کسی بھی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسری حکومت سے اپنی بات منوانے کے لئے اس پر اقتصادی، سیاسی یا کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالے۔ اس میں شک نہیں کہ ایران کے خلاف امریکہ کی یکطرفہ پابندیاں اقتصادی اور سماجی حقوق سے متعلق عالمی سمجھوتے کی کھلی خلاف ورزی اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کے بھی منافی ہیں۔ اس لئے اسلامی جمہوریہ ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں کا جائزہ بین الاقوامی معیارات کے تناظر میں نہیں بلکہ ملت ایران کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کے تناظر میں لیا جانا چاہیے۔ 

یورپی حکومتیں اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہیں اور جھوٹ کو حقیقت بنا کر پیش کرتی ہیں۔ مغرب والوں نے ماضی میں انسانی حقوق کی جو دھجیاں اڑائي ہیں، ان پر توجہ دیئے بغیر وہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور وہ انسانی حقوق کے دفاع کے بہانے اپنی پالیسیوں کے مخالف ممالک کے داخلی امور میں مداخلت تک کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار یورپی حکومتوں نے گذشتہ چھتیس برسوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کو اپنی دشمنی اور کینے کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب انہی حکومتوں نے ایران کے ڈکٹیٹر اور ظالم بادشاہ محمد رضا پہلوی کی حمایت کی تھی۔ 

ایرانی عوام نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اس ظالم شاہی نظام کے خلاف تحریک چلائی اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اس کے باوجود انسانی حقوق کا نعرہ بلند کرنے والی یورپی حکومتوں نے، جن میں امریکہ سرفہرست تھا، انقلاب اسلامی کی کامیابی کے فوراً بعد سے ایرانی عوام کے اس اسلامی نظام کو ضرب لگانے کے لۓ کوئی بھی سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ یورپی حکومتوں کا ایران مخالف ایک مخاصمانہ اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ یہ حکومتیں مختلف بہانوں سے اسلامی جمہوریہ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتی رہتی ہیں۔ یہ بہانے بھی ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کاالزام لگایا جاسکتا ہے۔ 

یورپی حکومتیں اسلامی جمہوریہ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اپنی ایران مخالف پالیسیوں کو جائز ظاہر کرنے کے درپے ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف الزام لگانے والوں کو اپنے ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں جوابدہ ہونا ہوگا۔ ان کا مقصد انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ وہ اسے ایران کے خلاف ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ایران کو نشانہ بنانے والوں نے خطے کی صورتحال کو نظر انداز کر دیا ہے اور ان کو مشرق وسطٰی میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر نہیں آتی ہے۔ "بحرین، اردن اور سعودی عرب جیسے مشرق وسطٰی کے بعض ممالک میں واضح طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی یورپی حکومت نے ان ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر موثر انداز میں تنقید نہیں کی ہے۔ 

سعودی عرب اور بحرین میں خاص خاندانوں کی حکومتیں قائم ہیں، جو کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی پابندی سے متعلق یورپی حکومتوں کے کسی بھی معیار پر پورا نہیں اترتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ حکومتیں مشرق وسطی میں امریکہ سمیت یورپی ممالک کی اسٹریٹیجک اتحادی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ممالک کی جانب سے ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام نہیں لگایا جاتا ہے۔ جنوبی خلیج فارس سے لے کر شمالی افریقہ تک کے علاقے میں یورپی حکومتوں کی حمایت یافتہ ڈکٹیٹر حکومتوں کے خلاف عوامی تحریکوں کے آغاز کو دو سال کا عرصہ گزر رہا ہے۔ یورپی حکومتوں نے جب یہ دیکھا کہ تیونس میں زین العابدین بن علی ، مصر میں حسنی مبارک اور لیبیا میں قذافی جیسے ڈکٹیٹروں کا کام تمام ہونے والا ہے تو انھوں نے اپنے آپ کو ان ممالک میں چلنے والی اسلامی تحریکوں کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اور انھوں نے ان ممالک میں عوامی مطالبات کی حمایت کی لیکن جہاں ان کو امید ہوتی ہے کہ شاہی ، موروثی اور غیر جمہوری حکومتوں کو کوئي خطرہ نہیں ہے تو وہ ان کی حمایت کرتی ہیں۔ اور ان ممالک میں عوام پر کۓ جانے والے تشدد پر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں۔
 
سعودی عرب اور بحرین میں آئے دن عوام اور سیکورٹی فورسز کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں جن کے دوران متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوتے ہیں اور متعدد کو گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ان ممالک کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ جبکہ ان ممالک کے عوام کا واحد مطالبہ جمہوریت کا قیام اور عوامی حکومت کی تشکیل اور کئی عشروں پر محیط امتیازی رویئے، ناانصافی اور عوام کی دولت کی لوٹ مار کی روک تھام ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بحرین، سعودی عرب اور یمن میں کئے جانے والے انسانیت مخالف جرائم کے جائزے کے لئے ابھی تک حتی تحقیقاتی کمیٹی تک تشکیل نہیں دی ہے جبکہ بعض بے بنیاد رپورٹوں کی بناء پر اسلامی جمہوریہ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ 

مسلمانوں، غیر ملکیوں اور تارکین وطن کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک، اسلام فوبیا اور پرامن مظاہرین پر تشدد، یورپ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی چند مثالیں ہیں اور امریکہ میں خواتین خصوصاً سیاہ فام خواتین پر ہونے والے تشدد، گوانتاناموبے جیل میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے تسلسل اور افغانستان اور پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں میں ہونے والے خواتین اور بچوں سمیت نہتے شہریوں کے قتل عام کو امریکہ کے ہاتھوں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی نمایاں مثالیں قرار دیا جا سکتا ہے، جبکہ کینیڈا میں مقامی لوگوں اور دوسری اقلیتوں کے حقوق کی منظم پامالی کو اس ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
 
ان تمام امور سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ جو حکومتیں انسانی حقوق کی مدعی ہیں، ان کے اپنے ممالک کی تاریخ ظلم و ستم اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالی سے بھری پڑی ہے اور مظالم کا یہ سلسلہ مختلف صورتوں میں جاری ہے۔ ان سے آگاہ ہونے کے لئے بس یہی کافی ہے کہ عراق اور افغانستان میں دہشتگردی سے مقابلے کے نام پر مارے جانے والے دسیوں ہزار بے گناہ انسانوں پر توجہ کی جائے یا گوانتانامو بے، ابوغریب اور دنیا بھر میں قائم امریکہ کی خفیہ جیلوں میں امریکیوں کے سیاہ کارناموں پر نگاہ ڈورائی جائے، یا فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث صیہونی حکومت کو مدنظر رکھا جائے۔ 

یورپ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی بنیاد کی وجہ یہی تھی کہ اسی خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جاتی تھیں، کسی دوسرے خطے میں نہیں۔ آج اگر انسانی حقوق ایک مسئلہ بن چکا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یورپ اس کو دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کے حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یورپی ممالک آج یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یورپ تہذیب وتمدن کے اس مرحلے تک پہنچ چکے ہیں کہ اب یورپ میں تمام انسانی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے اور غیر یورپی ممالک انسانی حقوق کے معیارات کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ یورپ انسانی حقوق کی پابندی کو ایک عالمگیر ویلیو کے طور پر دنیا کے دوسرے ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہے۔ یورپی حکومتیں نہ صرف ماضی میں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں، بلکہ برطانیہ جیسی بعض یورپی حکومتیں اپنی داخلی بحران اور خلفشار پر قابو پانے کے بہانے انسانی حقوق سے متعلق بعض قوانین کا دائرہ محدود کرنے کے درپے ہیں۔ یہ حکومتیں اپنی سرحدوں سے باہر انسانی حقوق سے متعلق قوانین کی ہرگز پابندی نہیں کرتی ہیں۔ یہ حکومتیں حتی دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت کی صورت میں اپنے فوجیوں کو ہر طرح کے ظلم اور تشدد کی اجازت دیتی ہیں۔
 
عراق اور افغانستان میں امریکی اور برطانوی فوجیوں کے مظالم کو فاش ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے۔ اگر یہ مظالم یورپی حکومتوں کی مخالف کسی حکومت نے انجام دیئے ہوتے تو اسے جنگی مجرم قرار دے دیا جاتا۔ لیکن عراق، افغانستان میں واقع ابوغریب اور بگرام جیلوں نیز دنیا کے مختلف ممالک میں قائم امریکہ کی خفیہ جیلوں میں امریکی اور برطانوی فوجیوں اور افسروں کے مظالم منظر عام پر آنے کے بعد حتی ایک بھی فوجی کو اس کے کیفرکردار تک نہیں پہنچایا گيا ہے۔ یہ حکومتیں اپنے اس سیاہ کارنامے کے باوجود اب اپنے آپ کو انسانی حقوق کی محا‌فظ قرار دے رہی ہیں اور وہ اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر ایرانی عوام کو اپنی پالیسیوں کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں، لیکن یورپی حکومتیں اس بات کا بارہا تجربہ کرچکی ہیں اور وہ جانتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس طرح کے دباؤ میں آکر ان کی تسلط پسندی کے آگے ہرگز سرتسلیم خم نہیں کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 223020
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش