3
0
Wednesday 6 Mar 2013 20:11

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، زندگی کے چند پہلو

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، زندگی کے چند پہلو
تحریر: ارشاد حسین ناصر 

یہ 7 مارچ 1995ء کی ایک المناک صبح تھی، تقریباً پونے آٹھ بجے ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی رہائش گاہ حسین اسٹریٹ بھلا اسٹاپ سے ہسپتال جانے کیلئے نکلے۔ عید کی چھٹیوں کے باعث آپ نے اپنے حفاظتی عملہ کو چھٹیاں دے دی تھیں۔ فقط آغا تقی حیدر جو لاہور کے نواحی علاقہ امامیہ کالونی سے تعلق رکھتے تھے آپ کے ہمراہ تھے اور ہمیشہ کی طرح فرنٹ سیٹ پر الرٹ بیٹھے تھے، ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی منی پجارو جیپ جس کا نمبر QAD 3428 سلور کلر، کو خود ڈرائیو کر رہے تھے، ان دنوں یتیم خانہ چوک سے ساہیوال کیلئے ٹویؤٹا ہائی ایس گاڑیاں نکلتی تھیں، جس کی وجہ سے لاہور کا یہ مصروف ترین چوک ہمیشہ ٹریفک کے مسائل سے دوچار رہتا تھا۔ چوک سے تھوڑا پہلے ویگن اسٹینڈ کے پاس الٹے ہاتھ پر گلی مڑتی ہے، اور گلی کے عین نکڑ پر اخبارات اور کتابوں کا اسٹال لگا ہوتا تھا۔ 

گھر سے یہاں تک کا فاصلہ بمشکل دو کلومیٹر ہوگا، آپ کی گاڑی جیسے ہی اس ویگن اسٹینڈ کے سامنے پہنچی، بک اسٹال کے پاس کھڑے دہشت گردوں نے سامنے آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق ان کی تعداد پانچ تھی اور یہ دو طرف سے گاڑی پر فائرنگ کر رہے تھے، جبکہ ان میں سے دو دہشت گرد اندھا دھند ادھر ادھر بھی فائرنگ کر رہے تھے، تاکہ موقع پر موجود لوگ ان کی دہشت اور رعب میں آجائیں۔ کلاشنکوفوں سے کی جانے والی اس اندھا دھند فائرنگ سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے محافظ آغا تقی حیدر سنبھل ہی نہ پائے، اس کے باوجود دہشت گردوں کا ایک ساتھی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بھی نشانہ لے رہا تھا۔ جب دہشت گردوں کو یقین ہوگیا تو وہ فائرنگ کرتے ہوئے بڑے آرام سے فرار کر گئے۔ اس وقت پنجاب میں میاں منظو احمد وٹو وزیراعلٰی تھے۔
 
لاہور کے مصروف ترین چوک میں ہونے والی اس اندوہناک واردات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا زمانہ نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کی خبر لمحوں میں ہر سو پھیل چکی تھی، قائد شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد یہ ملت تشیع پاکستان کیلئے سب سے بڑا نقصان اور صدمہ تھا، جس کا اندازہ آج اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ ملت تشیع پاکستان کی اکثریت کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے بارے ان کی شہادت کے بعد علم ہوا کہ ان کی ملت کا ایک روشن، چمکتا ستارہ یتیم خانہ چوک میں ڈوب گیا۔ انہوں نے ایک گمنام مجاھد کی طرح زندگی گذاری، ان کی فکری پرواز بہت بلند اور مقام و مرتبہ ہر ایک سے اعلٰی تھا، مگر انہوں نے کبھی روایتی قائدانہ انداز اختیار نہ کیا اور نمود و نمائش، ذاتی تشہیر سے میلوں دور رہتے۔ شائد ان کا تقویٰ و خلوص ہی تھا جس کے باعث وہ پاکستان کے ہر شیعہ نوجوان کے دل میں گھر کرچکے تھے، ملت کے سیماب صفت نوجوان ہمیشہ ان کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔
 
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے ان گنت پہلو اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی لوگوں کے سامنے نہیں آسکے، جس شخص نے اپنی مکمل زندگی تنظیمی و قومی تشکیلات و تحریکات میں گذار دی، اس کی حیات و کارہائے نمایاں پر کئی کتب لکھی جاسکتی تھیں، مگر آج تک صرف دو کتب سامنے آئیں ہیں۔ ایک ان کی زندگی کے حوالے سے اور دوسری ان پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔ اول الذکر سفیر انقلاب محترم تسلیم رضا خان اور آخرالذکر پاسبان انقلاب برادر محترم ڈاکٹر سید راشد عباس نقوی نے تدوین کی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی اس قدر بڑی شخصیت جس نے مسلسل 30 برس قومی و اجتماعی زندگی میں گذار دیئے اور اپنا سب کچھ تنظیموں و تحریکوں کو دیا، ہم اس کے آثار ہی جمع نہیں کرسکے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے تمام پہلو، ہر لحاظ سے ملت کے نوجوانوں کیلئے مشعل رہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج کے نوجوانوں میں جس قدر جذبہ ایثار و قربانی ہے، ان کا آئیڈیل ڈاکٹر شہید کی ذات ہی تو ہے۔ 

ان کی برسی کے موقع پر اگر ہم اختصار کے ساتھ بھی ان کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہیں تو کئی صفحات بھر جائیں، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید ایک معروف عالم دین مولانا امیر حسین نقوی کے فرزند تھے، جن کی زندگی مکتب تشیع کی تبلیغ و دفاع میں گذری تھی، جبکہ محسن ملت جناب قبلہ سید صفدر حسین نجفی ان کے بےحد قریبی رشتہ دار تھے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی دینی تربیت میں قبلہ صفدر نجفی صاحب کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید بھی انہیں بے حد احترام دیتے تھے اور ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی نوجوانوں کی نشستوں اور تربیتی پروگراموں میں ان سے بھرپور رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ 

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید دیگر کئی ایک علماء جن میں مولانا قبلہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل، جناب مفتی جعفر حسین قبلہ اور آغا سید علی الموسوی بھی شامل ہیں، سے بہت زیادہ مربوط رہے، ان میں بھی آغا سید علی الموسوی کہ جنہوں نے ساری زندگی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ساتھ ایک مستقل رکن نظارت اور بانی رہنما کے طور پر گذار دی، سے بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ آغا سید علی الموسوی بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو علماء کی طرح احترام دیتے تھے، وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو صحیح معنوں میں پہچانتے تھے۔ ڈاکٹر شہید بھی دیگر نوجوانوں کی طرح آغا علی الموسوی کے انداز خطاب و گفتگو بالخصوص نوجوانوں کے سالانہ کنونشن میں نئے مرکزی صدر کے اعلان کی تقریب کو بے حد دلچسپی سے ملاحظہ فرماتے تھے۔ 

ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو حضرت امام خمینی (رہ) کی ذات سے عشق تھا اور وہ ان ہی کے عشق میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ذات میں بھی کھو چکے تھے۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو اگر پاکستان میں کسی سے اپنا درد بیان کرنا ہوتا تھا تو ان کا اعتماد شہید ڈاکٹر پر ہی تھا۔ حقیقت میں یہ دونوں شخصیات امام راحل خمینی بت شکن کی عاشق تھیں، جنہوں نے وقت کے طاغوت کو للکارا ہوا تھا اور پاکستان کے ہمسائے میں میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کرکے اسلامی انقلاب برپا کر دیا تھا۔ پاکستان کی یہ دونوں عظیم شخصیات اس مادر وطن میں دیگر امت مسلمہ کے ساتھ ملکر امام خمینی (رہ) کے پیغامِ انقلاب کو راسخ کرنے کیلئے کوشاں تھیں، تاکہ اس وطن کے مظلوم عوام بھی استعمار و طاغوت کے منحوس خونی پنجوں سے آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں۔

امت کو یکجا و متحد کرنے کیلئے انہوں نے اتحاد بین المسلمین کی تحریک چلا رکھی تھی اور اس کے اثرات بے حد مثبت دیکھے جا رہے تھے۔ دشمنان امت مسلمہ اتحاد کی اس فضا سے خاصا پریشان تھا۔ لہذا اس نے اپنے پالتو نمک خواروں کے ذریعے اس کے مخالف فرقہ وارانہ فضا کو ایجاد کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ایسے گروہ تشکیل دیئے جو پہلے سے افغان جہاد کے حوالے سے ان کے رابطے میں تھے۔ اصل میں اس کا مقصد پاکستان کی سرزمین سے انقلاب کی پھوٹتی کرنوں کا راستہ روکنا تھا۔ آج جو کچھ ہماری سوسائٹی اور ملک و معاشرہ میں دکھائی دے رہا ہے، یہ سب اسی کا حصہ ہے۔ فرقہ واریت کا جن آج طاغوت کا بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے، جسے جب چاہتے ہیں باہر نکال کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔ 

یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر شہید آخری ایام زندگی سے پہلے ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ ان کی تشکیل کردہ نہضت کا انداز، طریقہء کار اور نام کسی بھی طرح سے ملکی حالات اور ماحول کے حوالے سے آئیڈیل نہیں، بلکہ اس کے الٹ ہے اور باعث ضرر ہے، جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس کا اظہار انہوں نے کئی ایک دوستوں کے سامنے کیا اور اپنے طور پر اس کی کوشش بھی کی، مگر اس وقت تک شائد حالات ان کی گرفت سے باہر ہوچکے تھے، نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم استعماری و طاغوتی جال میں بری طرح جکڑے دکھائی دیتے ہیں۔ 

جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے نمونہء عمل اور رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا اخلاق، کردار، عمل، میل جول، برتاؤ، اٹھنا بیٹھنا، فلاحی امور کا نیٹ ورک، خدمت خلق سے سرشار معمولات، تعلیمی ترقی و پیشرفت کیلئے اسکول سسٹم کا نیٹ ورک، تنظیمی و تربیتی نشستوں کا احیاء، نوجوانوں کی مختلف میدانوں میں مکمل مدد و تعاون، ذاتی و نجی معاملات میں لوگوں کی درست رہنمائی، دختران ملت کی فعالیت و قومی اجتماعی امور میں ان کی شرکت، ملت کے دفاع و بقا کیلئے خدمات، الغرض ہر حوالے سے ان کی خدمات قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 

ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں امداد فاؤنڈیشن کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا تھا جو مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا تھا، اس کے تحت قوم کی بچیوں کی شادی کے اخراجات سے لیکر اسیران ملت و متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کا سلسلہ جاری تھا اور کئی ایک لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کروا کر ان کی مدد کی گئی۔ آج یہ ادارہ یا اس جیسا کوئی ادارہ کہیں نظر نہیں آتا، اسی طرح ڈاکٹر شہید نے ایک اسکول سسٹم المصطفٰے اسکول کے نام سے قائم کیا، جس کی کئی ایک برانچز ملک کے کئی ایک شہروں میں قائم کی گئی تھیں مگر صد افسوس آج یہ اسکول سسٹم بھی بند کر دیا گیا ہے۔
 
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید زندگی میں ایک ایسے محور کی حیثیت رکھتے تھے، جس کے گرد ملک بھر کے تنظیمی نوجوان کھنچے چلے آتے تھے، ان کی مقناطیسی شخصیت کی کشش سے ہر کوئی ان سے مربوط رہتا تھا اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا یہ کمال تھا کہ وہ ہر ایک سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتے تھے، کسی کو بیکار نہ رہنے دیتے تھے، گویا ان کی ذات کی شکل میں تنظیمی مسئولین و سابقین کا ایک نیٹ ورک موجود تھا، ان کی شہادت کے بعد ہم اس مقناطیسیت سے محروم ہوگئے اور سابقین کا کوئی نیٹ ورک بھی قائم نہ کرسکے، نہ ہی کوئی ایسی شخصیت ابھر کر سامنے آسکی، جس پر شہید ڈاکٹر کی طرح سب احباب و دوست اعتماد کرتے اور وہ شخصیت بھی اپنے مستقبل کی قربانی دے کر قومی اجتماعی جدوجہد اور اسلامی تحریک کو مضبوط کرتی۔ وقت آج بھی ہمیں پکار رہا ہے۔ آج بھی کام کرنے کی شدید ضرورت ہے، آج بھی سعادت و خوشبختی کا اور شہداء کا راستہ منتظر ہے کہ کوئی محمد علی نقوی بن کر آئے اور چھا جائے۔ آخر میں تعزیت و تسلیت عرض کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ
میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام، تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں
خبر کا کوڈ : 244804
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

وہ خوش کلام تھا اتنا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا تھا مختصر رہنا
Love this
Iran, Islamic Republic of
احسنت
ہماری پیشکش