1
0
Wednesday 7 Mar 2012 23:18

تیری قربت کے لمحے پھول جیسے

تیری قربت کے لمحے پھول جیسے
 تحریر: تسلیم رضا خان
 
"میری آنکھوں نے سفیر انقلاب کو تین بار دیکھا، پھر وہ آنکھوں کے راستہ سے دل میں اُترے اور ہمیشہ کیلئے آباد ہو گئے" (تسلیم رضا خان)
میں 1984ء سے 1988ء تک گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان میں زیر تعلیم رہا۔ یہی دورانیہ میری تنظیمی وابستگی کا آغاز تھا۔ اسی دوران مجھے تنظیم (آئی ایس او) کو پڑھنے، سمجھنے اور خدمت کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ یہ زمانہ تنظیم اور تحریک جعفریہ کے عروج کا زمانہ تھا۔ حالات کے تقاضوں، سفیر نور علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کی ولولہ انگیز قیادت، قوم کی بیداری اور آئی ایس او کے نوجوانوں کی شعوری تڑپ نے میرے اندر بھی ایک ایسا ارتعاش پیدا کیا کہ سالوں کا سفر مہینوں میں طے ہونے لگا اور مجھے تنظیمی اور تحریکی شخصیات کی قربتوں کے لمحات میسر آنے لگے۔
 
میں جس حلقہ میں گیا، جس تنظیمی اور تحریکی شخصیت سے ملا، جہاں ملت و مذہب کا ذکر ہوا وہاں ڈاکٹر محمد علی نقوی (سفیر انقلاب) کا تذکرہ ضرور ہوا۔ میرے اندر ایک فطری تجسس پیدا ہوا کہ سفیر انقلاب کو قریب سے دیکھا جائے کہ آخر اس شخصیت میں وہ کونسے کمالات ہیں جو علماء کرام، دانشور حضرات اور باشعور طلباء میں انہیں ممتاز رکھتے ہیں اور ہر زبان ان کی عظمت کی گواہی دے رہی ہے۔۔۔۔؟
 
پہلی بار مجھے سفیر انقلاب کو آئی ایس او کی مجلس عاملہ منعقدہ لاہور میں دیکھنے اور سننے کا موقع ملا اور میں نے آپ کو اپنے ذہن میں تیار مصنوعی خاکہ سے بالکل منفرد پایا۔ میرا خیال تھا کہ آپ ظاہری سج دھج کے حوالہ سے ممتاز ہونگے اور خطابت میں سحر انگیز شخصیت ہونگے۔ مگر ایک نحیف جسم، بےحد سادہ لباس، پاؤں میں نیم پرانے جوگر اور کندھوں کے اوپر لٹکائے ہوئے سبز کوٹ جس کے بازو لٹک رہے تھے، میں نیم ملبوس شخص کو دیکھ کر تھوڑی دیر کیلئے حیران بیٹھا رہا، پھر خطاب سننے کا موقع ملا۔ نہ لمبی چوڑی تقریر نہ خطبہ، نہ لفاظی، نہ ہاتھوں کی خطیبانہ ادا اور نہ جسم میں مصنوعی جنبش۔
 
بس میز پر کہنیاں ٹیک کر آپ نے بیس پچیس منٹ خطاب فرمایا اور اسی دوران کئی باز عزیز دوستو! کہہ کر ہمیں متوجہ کیا، خطابت کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ تنظیم کو شعوری طور پر اختیار کرو، حالات، واقعات، جذبات فرقہ واریت، علاقائیت یا لسانیت کی بنا پر تنظیم میں شمولیت نہ کرو، بلکہ اس الٰہی تنظیم کے نصب العین اور اغراض و مقاصد کو بہت غور سے پڑھو۔ جب اس کے اہداف سے متفق ہو جاؤ تو تنظیم کے کاررواں میں شامل ہو جاؤ۔ یہ ایک ایسا کاررواں ہے جس کی سرپرستی حضرت امام زمانہ ع فرما رہے ہیں۔ محمد و آل محمد ع ہمارے ہادی و رہبر ہیں، خداوند عالم کی خوشنودی کا حصول ہماری منزل ہے۔ قرآن پاک ہمارا منشور ہے، کربلا ہماری درسگاہ ہے۔ 

عزیز دوستو! میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے دوست تنظیم میں آتے ہیں مگر تنظیم ان میں نہیں آتی، ایسے برادران بے حد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، بادلوں اور طوفانوں کی طرح آتے ہیں، بجلی کی طرح چمکتے ہیں، مگر ہوا کی طرح گزر جاتے ہیں۔ عزیز دوستو، عزیز بھائیو! میرا تجربہ یا مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ ایسے تمام دوستوں نے شعوری طریقہ سے تنظیم کو اختیار نہیں کیا تھا۔ پس تنظیم کو حیات اور نجات کیلئے اختیار کرو۔ جب تم تنظیم میں آؤ تو تنظیم کو آپ کی شمولیت کا احساس ہو اور جب تنظیم تمہارے اندر آجائے تو تمہارے قول و فعل سے معاشرے کو تنظیم کا احساس ہو۔
 
دوسری بار مجھے 30 ستمبر 1988ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں آپ کو قریب سے دیکھنے اور تھوڑا بہت سمجھنے کا موقع نصیب ہوا۔ (آپ برادران 30 ستمبر سانحہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ سے واقف ہونگے، جب ملت جعفریہ کے عزاداری کے جلوسوں کے روٹ بند کر دیئے گئے تھے اور ملت 5 اگست1988ء کو اپنے محسن قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد یتیم ہو چکی تھی)۔ قوم کے دل زخمی تھے، جذبات مجروح، آنکھیں اشکبار، سرخاک آلود اور ماتمی سینے چاک چاک تھے۔
 
پہلے روز میں نے سفیر انقلاب کو دیکھا تو یہی سوچا کہ یقیناً آپ بطور ڈاکٹر اپنی خدمات سرانجام دینے آئے ہیں، کیونکہ حالات ناخوشگوار تھے، پھر جب میں نے آپ کا مذہبی جذبہ، ملت کی حوصلہ افزائی و رہنمائی کا انداز، ظالم و قاتل حکومت سے حق حاصل کرنے کی تڑپ، ملی غیرت، اسلامی حمیت اور عزاداری کی بحالی کیلئے منصوبہ بندی کے انداز دیکھے تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ شخصیت مکمل تنظیم ہے، جسے سمجھنے کیلئے ایک عرصہ درکار ہے۔ ایسی شخصیت کو سمجھنے کیلئے صرف آنکھیں کافی نہیں ہیں بلکہ بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی لازم ہے۔
 
تیسری بار 1989ء میں مجھے تلاش روزگار کیلئے لاہور آنے کا اتفاق ہوا، یہاں مجھے آپ کی قربت کے چھ سال میسر آئے اور یہی چھ سال میری زندگی کا اثاثہ ہیں، میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ "سفیر انقلاب" نے میری انگلی پکڑ کر تنظیمی آنگن میں چلنا سکھایا، مجھے بولنے کیلئے عنوانات دیئے، مجھے زندگی کے اطوار بخشے اور مجھے تنظیم میں رہنے اور معاشرہ میں جینے کا انداز سکھایا۔۔۔۔!
آپ نے یہی کچھ میرے ساتھ نہیں کیا بلکہ ایسا ہی ہر اُس تنظیمی بھائی کے ساتھ کیا جو میری طرح پردیسی تھا اور آئی ایس او کے مرکزی دفتر کو آشیانہ سمجھ کر پناہ لیتا تھا۔ آپ نے ہر اس دوست کو بولنا سکھایا جو بولنے کی صلاحیت رکھتا تھا مگر انجانے خوف سے بول نہیں سکتا تھا، آپ نے ہر تنظیمی دوست کو شعورِ زندگی بخشا اور احساس دلوایا کہ!
عمر جسے جینا نہیں آتا اُسے مرنا نہیں آتا
 
میں کس کس ادا کا ذکر کروں، اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ "سفیر انقلاب" ایک ادارہ تھے، ایک مکتب تھے، ایک نڈر رہنما تھے، ایک تربیت گاہ تھے، میں آپ سے پوچھتا ہوں، آپ ایسے شخص کو کیا نام دیں گے۔۔۔۔؟ جو آئی ایس او جیسی اسلامی، محب وطن، محور تعلیم و تربیت، مہذب و منظم ملک گیر تنظیم کا بانی اور سرپرست ہو۔۔۔۔۔جو تحریک جعفریہ کے روح رواں کا دست راست ہو، جو ملت کے جسم میں مانند قلب ہو۔۔۔۔علماء جس کا احترام کرتے ہوں، طلباء جسے رہنما اور سرپرست سمجھتے ہوں۔۔۔۔۔ملت جسے محسن و مسیحا تصور کرتی ہو۔۔۔۔اور دشمن جسے ملت جعفریہ کی روح اور ریڑھ کی ہڈی سمجھتا ہو؟ بلا شبہ سفیر انقلاب، شاعر انقلاب علامہ اقبال رہ کے نظریہ کے مطابق مومن تھے، وفاق تھے، آفاق تھے۔
بقول علامہ اقبال:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم وہ
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں طوفان
 
بزرگ بجا فرماتے ہیں کہ پانی کی قیمت اور ضرورت کا اندازہ پیاسے یا روزہ دار کو ہوتا ہے۔۔۔۔زندگی کی نعمتوں کا اندازہ بستر مرگ پر سوئے ہوئے مریض کو ہوتا ہے۔ آج جب "سفیر انقلاب" ہمارے درمیان موجود نہیں، تو ہم پیاسوں کو احساس ہوتا ہے کہ آپ ہماری ملی تنظیموں کی زندگی کیلئے کتنے اہم تھے۔ میں وثوق سے کہتا ہوں اگر آپ آج ہمارے درمیان ہوتے تو نہ آئی ایس او پہ یتیمی کی شام غریباں ہوتی اور نہ تحریک جعفریہ یوں مفلوج اور اپاہج ہوتی۔ ہمارے درمیان اختلافات اور بد اعتمادیوں کا خلاء اس لئے ہے کہ درمیان میں ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسی بھاری کم، وفاقی، آفاقی اور بااعتماد شخصیت نہیں ہے۔ یہ بات بھی نہیں کہ ان کا زمانہ بہادروں کا زمانہ تھا، آپ کا دور امریکہ کی مداخلت، مارشل لاء، فرقہ واریت اور دہشتگردی کا عروج تھا۔ فرق یہ تھا کہ:
وہ ہم سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اُسے بھی تھی 

دوستو، بھائیو، راہ حق کے ساتھیو!
سفیر انقلاب کو ہم سے بچھڑے ہوئے 17 سال ہو گئے، آج ان کی یاد منانے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے مشن کو سمجھا جائے اور جو کام وہ ادھورے چھوڑ گئے انہیں مکمل کیا جائے۔ اگر خدانخواستہ مکمل نہیں ہو سکتے تو کم از کم وہ اثاثے اور سرمائے ضائع نہ ہونے دیئے جائیں جو آپ تنظیمی وراثت کے طور پر چھوڑ گئے۔
 
جہاں تک میں انہیں سمجھ سکا، ان کا مشن تھا کہ آئی ایس او کا پودا جو ایک تناآور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس پر لازم ہے کہ سامراج کے طوفان، غیر اسلامی تہذیب کی تپش، جہالت کی حبس اور فرقہ واریت کی چلچلاتی دھوپ میں ملت جعفریہ کے ہونہاروں کیلئے ٹھنڈی چھاؤں کا احساس فراہم کرے اور تحفظ کا ماحول دے۔ آپ فرماتے تھے کہ علماء کرام کی قیادت میں امامیہ نوجوانوں کا سفر ہمارے اسلامی تشخص کا آئینہ دار ہے۔ آپ کی خواہش تھی کہ علماء کرام بھی خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا فرمائیں اور قومی توقعات اور اعتماد پر پورا اتریں۔ 

آپ شب و روز اسی جہت میں مصروف تھے کہ قوم کے سرمایہ سے ارضِ پاکستان پر صحت و تعلیم، معاشی اور سماجی اور جدید علوم سے آراستہ مذہبی ادارے قائم ہوں، تاکہ ہماری ملت استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان مضبوط اداروں کی بنیاد پر وطن عزیز پاکستان میں ایک تعمیری اور معاون قوم کا کردار ادا کر سکے اور پاکستان کا ایک اہم ستون سمجھی جائے۔ اگر خدانخواستہ اندرونی یا بیرونی دشمن ہماری قوم پر حملہ آور ہو تو پاکستان کو اپنی بقا خطرے میں نظر آئے۔ آپ فرقہ واریت کو ارض پاکستان سے سامراج کی اُگلی ہوئی زہر سمجھتے تھے اور اسلام کی ترویج میں حائل لعنت تصور کرتے تھے۔ آپ بار بار فرماتے تھے کہ فرقہ واریت، جہالت کا شاخسانہ ہے، ظلمت کی اندھیری رات ہے، سامراج کی گہری سازش کا نتیجہ ہے، لہٰذا اس کا علم و شعور کی روشنی، صبر کی ڈھال اور محب وطن منصوبہ بندی کے تحت مقابلہ کرنا چاہیے۔
 
آپ اکثر جماعت اسلامی کی مثال دے کر ہمیں سمجھایا کرتے تھے کہ آج اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم یا تربیت یافتہ نوجوان تعلیم سے فارغ ہو کر ان کے مضبوط اداروں میں کام کرتا ہے، مگر ہمارا مرکزی عہدیدار، بے روزگاری کا شکار ہے، فائلیں اُٹھا کر پھرتا ہے، گورنمنٹ یا کوئی پرائیویٹ ادارہ چند ٹکوں کے بدلے اُسے خرید لیتا ہے اور یوں ہمارا اثاثہ ضائع ہو جاتا ہے، ہمارا کوئی ادارہ نہیں جو اُسے تحفظ اور روزگار دے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا دامن ان لوگوں سے خالی ہے جن کی صلاحیتوں سے قوم نے عروج پایا تھا۔ ایسے اداروں کا قیام قائدین ملت کی ذمہ داری ہے۔ 

دوستو ،بھائیو ،راہ حق کے ساتھیو!
میں نے امام خمینی رہ، محمد علی جناح ، علامہ اقبال جیسی شخصیات کا تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے، میں نے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی جیسے ملکوتی انسان کے ساتھ زندگی کے چند لمحات گزارے ہیں۔ میں نہایت دیانتداری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے امام خمینی رہ کی اسلامی تڑپ و غیرت، قائداعظم کی فولادی ہمت، مفکر اسلام علامہ محمد اقبال رہ کا فکری و نظریاتی عکس اور شہید قائد سفیر نور کی شجاعت اور ملی درد کی حقیقی جھلک اگر کسی انسان میں نظر آئے ہیں تو وہ سفیر انقلاب ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی ذات ہے۔ خدا آپ کے مرقد کو منور رکھے، خدا آپ کے احساس کو زندہ رکھے، خداوند قدوس ہمیں شہداء کے ذکر سے وابستہ رکھے۔
عمر خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را
خبر کا کوڈ : 143699
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
آپکا مضمون پڑھ کر بہت سی یادیں اور بہت سے زخم تازہ ہو گئے کاش برادر راشد نقوی کی طرف سے بھی کوئی تحریر ان دنون سامنے آتی
ہماری پیشکش