17
0
Tuesday 26 Nov 2013 14:04

میرے شہید بابا

"شہید علی ناصر صفوی کی معصوم بیٹی کی اپنے بابا کی زندگی کی خوبصورت تصویر کشی"
میرے شہید بابا
تحریر: دختر شہید علی ناصر صفوی 

"ولا تحسبن الذین قتلوافی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عند ربّہم یرزقون"
"اور تم گمان بھی نہ کرو کہ کشتگان راہ خدا مردہ ہیں، نہیں وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔" مقتل میں بہنے والے شہید کے خون کے پہلے قطرے کو سلام جو "61ہجری" کی کربلا میں بہنے والے پاک خون سے متصل ہوا اور "ارجعی الی ربک" کی منزل پر فائز ہو کر ہر دور کے حسینیوں کو کربلائیں سجانے اور انقلاب برپا کرنے کا عزم دے گیا، جسکا خون نوجوان نسل کی رگوں میں دوڑتا ہوا استعمار وقت کے یزیدوں کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے اور اپنے بےگناہ قتل کا حساب مانگ رہا ہے۔ "بای ذنب قتلت" "شہید علی ناصر صفوی" جنہوں نے ایسی ماں کی آغوش میں تربیت پائی جہاں سختیاں تھیں، زندگی کی سہولیات میسر نہ تھیں مگر ان کا دامن کردار کی پاکیزگی اور حیا و عفت سے مالا مال تھا، ان غربت کدوں میں ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے سے پہلے دل کو ذکر خدا سے منور کر لیتی تھی۔ ایسی شخصیت جنہوں نے غربت، نامساعد حالات اور سختیوں کے ساتھ جنگ کرکے علم و دانش، ایمان و اخلاق اور کمالات کی چوٹیوں تک رسائی حاصل کی۔ جن کا سرمایہ ایمان، خدا پر توکل، پرہیزگاری اور سحر خیزی تھا۔ جن کی راتیں آہ سحر اور خالق کے ساتھ راز و نیاز سے بھری رہتی تھیں۔ جن کے دن، خلق خدا کی خدمت اور ان کے ہمدردی میں گزر جاتے تھے۔ وہ شخصیت جنہوں نے دشمنوں کے خلاف اس وقت "علم جہاد" بلند کیا جب مصلحت کی چادر اوڑھ کے اپنے مفادات کا بچاو بڑی چالاکی اور ہوشیاری سمجھا جاتا تھا اور دین و خلق خدا کے دشمنوں کے ساتھ پنجہ آزمائی حماقت مانی جاتی تھی، وہ شخصیت جن کی زندگی خلق خدا کے لئے شبنم اور ان کے دشمنوں کے لیے دل دہلا دینے والا طوفان تھی۔ وہ جو عظیم گفتار و کردار کے مالک تھے، وہ جو کہتے کم تھے اور کرتے زیادہ تھے، جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن سے بھی پنجہ آزمائی کے لیے تیار رہتے تھے لیکن زبانی نہیں، عمل و کردار سے اسلامی اقدار کی عظمتوں کا اعلان کرتے تھے۔ 

وہ جنہوں نے نرم بستر پر آرام کی بجائے میدان عمل میں اسلام کی ترویج اور خلق خدا کی ہدایت کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھائیں۔ یہ وہ خون جگر پینے والے تھے، جنہوں نے اسلام کے جیالوں کے حوصلے بلند رکھے، ان کی ہمتیں باندھیں اور ان کا عمل آج بھی ہمیں تاریکیوں میں روشنی دے رہا ہے اور ان کی روح آواز دے رہی ہے۔ "شہید علی ناصر صفوی" ایک عظیم شخصیت تھے، ہمارے بابا جان دنیا کے عظیم باپ تھے، دنیا میں کم ہی ایسی مائیں ہونگی جو ایسے عظیم اور انمول اشخاص کو جنم دیتی ہیں، خدا ان پر کرم کرتا ہے، خدا اس قوم پر اپنی رحمت نچھاور کرتا ہے۔ مائیں ان کی تربیت کرتی ہیں اور دنیا کو انمول تحفہ دیتی ہیں، یہ عظیم مائیں اپنی گود میں پلے ہوئے ہیروں کو تراش کے دنیا پر عظیم احسان کرتی ہیں، یہی نایاب اور انمول ہیرے دنیا میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں اور اپنے خون کی تاثیر سے دنیا کو جگمگا دیتے ہیں۔ 

ہماے بابا جان ایک عظیم باپ، ایک عظیم بیٹے اور ایک عظیم شوہر تھے۔ اگر بیٹے کے روپ میں دیکھا جائے تو ماں گھنٹوں اپنی ممتا کی پیاس کو بجھانے کے لئے سینے اور منور چہرے کے بوسے لیتی رہے۔ کبھی وقت کی قلت کے باعث اف تک نہ کہنا، کبھی ایسے الفاظ اپنی زبان پر نہ لانے جس سے ماں کی ممتا کو دکھ پہنچتا ہو، ماں نے بیشک کتنی ہی نایاب چیز لانے کو کہا تو بیٹے نے وہ چیز ماں کے قدموں تلے رکھی چاہے کتنی ہی مشقت سے لانی پڑے۔ ماں کی زیارت کرکے اپنے کام کو نکلنا، ماں کے ہاتھوں کا بوسہ لیکر اپنے مشن کا آغاز کرنا۔ حتی کہ ایسے عظیم بیٹے تھے کہ پڑوس کی ایک بوڑھی خاتون ہمیشہ نماز فجر کے بعد زیارت کے لیے دروازے پر سے جھاڑو دیتی کہ نورانیت کا عکس شہادت سے پہلے ہی چہرے سے جھلک اٹھتا۔ 

شاید دنیا والوں نے پہلے ہی سے چھپے ہوئے موتی کی شخصیت اور مستقبل کے چراغ کی جھلک محسوس کرلی تھی۔ اس لیے تو کبھی امام خمینی (رہ) جیسے عظیم رہبر بیٹا کہہ کر پکارتے تھے تو کبھی ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی جیسی عظیم ہستی نواب صفوی کا لقب "صفوی" دے کر بلاتے تھے اور فرماتے نظر آتے کہ میں نے جانا کہ شہید علی ناصر نے "نواب صفوی" سے متاثر ہو کر اپنا نام "صفوی" رکھا۔ اب جانا کہ حقیقت میں یہ صفوی کا لقب پانے کا مستحق ہے۔ شہید اسکول، کالج و مدرسے میں اپنی قابلیت کی وجہ سے اساتذہ اور طالب علموں کے درمیان محبوب اور مشہور تھے۔ تکبر اور گھمنڈ سے آپ دور تھے۔ تکبر اور گھمنڈ علم و دانش کی راہ میں رکاوٹ اور اس کو بےبرکت بنا دیتا ہے اور تواضع و انکساری علم میں نکھار اور برکت کا سبب بنتی ہے۔ اپنی قابلیت کی بنا پر اساتذہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ "اسے سونے اور چاندی میں تول کر ہمیں دے دو، ہم اس ہیرے کو ایسے تراش کر دنیا کے سامنے پیش کریں گے کہ یہ اپنی مثال آپ ہوگا، بھلا مائیں اپنے پیار کو دولت فانی سے تولتی ہیں، بھلا کون اپنے جگر گوشہ کے عوض دولت کو پانے کی تمنا کرے۔ ماں کے کہنے پر بھوک نہ ہوتے ہوئے بھی ماں کی خوشی کی خاطر ماں کے ہاتھوں سے کھانے میں سے روٹی کے نوالے کھانا، انکی معمول کی عادت تھی کہ وہ ماں کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھے، ماں کی خدمت ان کا فریضہ تھا، جسے وہ احسن طریقے سے سرانجام دیتے تھے۔ 

اگر ایک شوہر کے روپ میں دیکھا جائے تو بابا جان حضرت علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ازدواجی زندگی احسن طریقے سے گزارتے نظر آتے، تو کبھی کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں، گھر کے معاملات بغور سوچ مشورے سے سرانجام دیئے، بچیوں کی پرورش میں بخوبی دونوں کا کردار شامل حال تھا۔ ہماری ماما جان نے بھی حضرت فاطمہ الزہرا علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی گزاری۔ اس نیک بخت خاتون نے زندگی کے ہر مرحلے پر اپنے آپ کو ایک دیوار کے طور پر پیش کیا جو زندگی کے طوفان کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ہر مرحلے میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا۔ ہر کڑے وقت پر ان کا دامن نہ چھوڑا۔ ہر امتحان میں اپنے آپ کو ثابت قدم پایا۔ چاہے انہیں ویران راستوں پر، پتھریلی سرزمین پر سے گزرنا پڑا، چاہے پہاڑوں، پیچ و خم اور لاشوں کو عبور کرنا پڑا۔ ہر مقام پر حضرت زینب عالیہ (س) کی سیرت پر اپنے آپ کو پورا اتر کے دیکھایا۔ 

حضرت حسین علیہ السلام کا ساتھ بی بی زینب (س) نے دیا تھا، انہیں جب وقت پڑا ان شہزادیوں نے اس بات کی فکر تک بھی نہ کی کہ وہ بیبیاں جو باپ کے آگے آنے سے بھی جھجکتی تھیں، شرماتی تھیں، وہ بیبیاں شام کے بازاروں میں گھنٹوں یزیدی قوم کے آگے کیسے کھڑی رہیں۔ انہیں اس بات کی فکر تک نہ تھی، انہوں نے اللہ کے دین کو بچانے کے لیے صعوبتیں برداشت کرکے اپنے بھائی کے مشن کو کامیاب بنایا، اپنی ردائیں بھی لٹائیں اور شام کے بازاروں میں خطبے بھی دیئے۔ اسی طرح ہماری ماما جان نے اس بات کا خیال تک نہ کیا، علی ناصر کا سفر دین بہت کٹھن تھا، مگر انہوں نے ہماری ماں کو ہمیشہ ثابت قدم پایا۔ بلکہ بابا جان نے ماما سے پہلے ہی کہہ ڈالا تھا میرا راستہ اور ہے، میرا مشن اور ہے، اور وہ انہیں نہیں لے جانا چاہتے تھے، لیکن "ڈاکٹر محمد علی نقوی" کے کہنے پر وہ انہیں ساتھ لے گئے تو ہماری ماما جان نے ایسے عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا، حتی کہ اپنی جان کا نذرانہ تک پیش کر دیا۔ اپنے خون اور اپنے سانس کی آخری رمک بھی دین محمدی (ص) پہ بہا ڈالی۔ ہماری ماما جان نے حضرت فاطمۃ الزہرا علیہ السلام کی سنت پر عمل کرکے شہادت بھی ایسے حاصل کی، وہ اپنے پہلو سے زخمی ہوئیں، اپنے محسن کے ساتھ جام شہادت نوش کیا۔ 

وقت کے یزیدوں نے وہی باب دہرایا، وہی سلوک کیا، جو آج سے چودہ سال قبل روا ہوچکا تھا، تاریخ کے صفحات پر پھر ایک دفعہ ظلم کی داستان رقم کی گئی۔ ماما جان نے جب اپنے سسرال میں شادی کے بعد پہلا قدم رکھا تو انہیں دولت سے غرض نہ تھی، انہوں نے سب سے پہلے گھر والوں کی محبت و ہمدردی مانگی۔ انہوں نے کوئی نقدی رقم کچھ بھی تو نہیں مانگا۔ یہ اس علاقے میں پہلی شادی ایسی تھی کہ جس میں دلہن نے نقدی رقم کا مطالبہ نہ کیا بلکہ محبت و ہمدردی کا مطالبہ کیا۔ "دولہے سے یہ عہد کیا کہ مجھے کمال کا راستہ دکھائیں گے اور اہل بیت علیہم السلام اور اسلام کی طرف میری رہنمائی کریں گے۔ یہ دیگر گھر والوں اور دیگر لوگوں کے لیے باعث تعجب تھا کہ انہوں نے رقم کا مطالبہ نہ کیا۔" ماما جان کو بابا جان کی انہی خصوصیات نے اپنی طرف جذب کیا کہ وہ ولایت اور اہل بیت علیہم السلام کی عاشق تھیں۔ انہوں نے ماما جان کو جیسے روزمرہ کی تاریکیوں سے باہر نکال ڈالا انہیں درس دیا۔ ان پر اپنا ایسا رعب طاری کیا، ان کو اس قابل بنایا کہ وہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی سنت پر عمل کرسکیں۔ انہوں نے سکھایا: "کہ تم پہاڑ کی طرح مضبوط اور دریا کی طرح سیال و وسیع القلب بنو۔ تم روح ہو اور تمہیں معراج تک پرواز کرنی چاہیئے، میں سوچ سکتا ہوں کہ تاریکی میں بھی پرواز کرسکتی ہو"۔ 

اگر بابا جان کو باپ کے انداز میں دیکھا جائے تو کوئی ان کا ثانی نہیں۔ ہمارے بابا جان نے جہاں ہمیں شفقت و ہمدردی کا درس دیا، وہیں پہ شہادت کے عظیم رستے سے بھی آگاہ کیا۔ اپنی زندگی میں ہمیں تلقین کی جاتی رہی کہ بیٹا ہماری شہادت کی دعائیں مانگو۔ ہمیں ساتھ میں کھڑا کرکے نماز میں ہم سے یہ کہتے کہ میرے لیے دعا کرو کہ میں اپنی منزل کو پا لوں۔ اپنے معصوم ہاتھ اٹھا کر میں سچے دل سے دعا مانگتی۔ میں اتنی معصوم تھی کہ مجھے اس بات تک کی خبر نہ تھی کہ خدا کی بارگاہ میں میں جو دعا مانگ رہی ہوں وہ ہمارے بابا جان کی جدائی کی دعا ہے کہ اے میرے خدا مجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جام سے سیراب فرما۔ معصوم سچے دل سے کی جانے والی دعائیں رنگ لائیں۔ ان معصوم سے اٹھنے والے ہاتھ اور سچے دل سے کی جانے والی دعا کے ساتھ دل شہادت اور نصرت کے مفہوم و معنی سے بےخبر تھا۔ کہ شہادت ہماری زندگی میں کتنا بڑا انقلاب ہے، شہادت سے ہم بچپن میں ہی یتیم ہوجائیں گے۔ شہادت سے ہم اپنی زندگی کی دو عظیم ہستیوں کو کھو بیٹھیں گے۔ مجھے اس بات کا درس دیا جا رہا ہے کہ شہادت کتنا عظیم درجہ ہے، جس کو پانے کے لیے مجھے خدا کی بارگاہ میں حاضر و ناظر رکھ کر دعائیں منگوائی جا رہی ہیں۔ 

میرے بابا جان کو رات کی تاریکی میں آسمان و زمین کی پراسرار خاموشیوں کے درمیان مناجات و راز و نیاز کے لیے کھڑے ہونا بہت پسند تھا، تاکہ ستاروں کے ساتھ گنگنائیں اور آسمان کے ناگفتہ اسرار و رموز کے لیے اپنے دل کو کھول دیں۔ آہستہ آہستہ کہکشاوں کی گہرائی تک سفر کرسکیں۔ اس بےنہایت عالم میں محو ہوجائیں، عالم وجود کی سرحدوں سے گزر کر فنا کی وادیوں میں کھو جائیں اور خدا کے سوا کسی کو محسوس نہ کریں۔ رات کے اندھیرے میں جب لوگ آسمان اور اس کے ستارے محو ہوتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب دل کے بیدار لوگ موقع غنیمت جانتے ہیں اور ان نورانی دروازوں کو اپنی آہ و بکا کے ذریعے کھولنے کی کوشش کرتے ہیں،جن کے کھلنے سے انسان کو علم، الہام، نور، دل کا سکون، روح کی پاکیزگی نصیب ہوتی ہے۔ جو لوگ پاکیزہ ظرف کے ساتھ اس سناٹے میں خدا سے گڑگڑا کر بھیک مانگتے ہیں، خدا ان کے ظرف کو اس دولت سے بھر دیتا ہے جو ظاہری آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔ بلکہ وہی لوگ انہیں دیکھ سکتے ہیں جو خود بھی ان سے مالا مال ہوں۔ ہمارے بابا جان کو عشق تھا تو خدا اور اہل بیت (ع) سے تھا۔ ان کا جنون، ان کی لگن، ان کا شوق صرف اور صرف خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہونا تھا۔ ان کا مشن پاک و پاکیزہ تھا، اسی وجہ سے ان کے خون نے یہ ثابت کیا کہ وہ زندہ ہیں۔ 

نہ انہیں یہ خیال تھا کہ میرے سفر میں میری بیٹیوں کا کیا ہوگا جو اپنی زندگی میں ابھی تک دنیا کے تقاضوں سے بھی بےخبر ہیں۔ نہ انہیں ماں کی فکر تھی جن کا نور نظر، جگر کا ٹکڑا، گوشہ دل صرف اور صرف اکلوتا بیٹا تھا۔ جسے وہ کھونے پر بھی رضامند نہ تھیں، جن کی آنکھیں نم دار، محبت کی ماری، ممتا کی پیاس سے بلکتی، دیدار کو ترستی ہی رہ گئیں۔ ماں کی دنیا اور کل کائنات اسکی جان "بیٹا" تھا۔ بھلا کوئی پوچھے تو سہی کہ اس بوڑھی خاتون پر کیا غم کے پہاڑ ٹوٹے، لیکن اس ماں نے بہادر بن کر قادر مطلق کی رضا پر خوش رہ کر صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ بلکہ اس بات پر فخر کیا اور کہا کہ میں اس شہید کی والدہ ہوں، جس کا بیٹا دین کی راہ میں حق کا ساتھ دیتے ہوئے باطل کا مقابلہ کرتے ہوئے سینے پر حیدریوں کی طرح گولی کھا کر شہید ہوا اور قیامت کے روز میں اس بات پر فخر کروں گی کہ اے خدائے رحیم و کریم میں نے تیری رضا کی خاطر اپنے اکلوتے، جوان بیٹے کے خون سے دنیا کو سیراب کیا"۔
 
بابا جان کا مقصد، ان کا مشن ہی امام حسین علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دین کی سربلندی کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بھی اور اپنے آخری سانس کو خدا کی راہ میں پیش کر کے شہادت کو حاصل کرنا تھا۔ ان کو ہم سے ہمدردی و محبت، ماں سے محبت تھی، لیکن دین خدا کی خاطر انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان سب کو پس پشت ڈال دیا۔ ان کا جنون صرف شہادت میں پنہان تھا۔ ان کا راز زندگی صرف خدا سے لو لگانا تھا۔ ان کو کسی چیز کی فکر نہ تھی، انہیں ایک پروانے کی طرح روشنی کو حاصل کرنا تھا، چاہے اپنے آپ کو ختم کرنا پڑے۔ وہ ایک ایسے پروانے کی مانند تھے جس کے دل میں شہادت کی سرخروئی کا منور چراغ جل رہا تھا، وہ ایسے عقاب و شاہین کی مانند تھے جس کا مقصد بلندی کو حاصل کرنا تھا اور بلند پرواز کرنا تھا۔ انہوں نے اپنی منزل کو پانے کے لیے اس راہ کو اختیار کیا جو انہیں اپنی منزل تک پہنچائے۔ انہیں بس اپنی پرواز کو بلند کرکے رضائے الٰہی کو پانا تھا۔ ان کے دل میں جو تمنا پہرے ڈالے بیٹھی تھی وہ صرف اور صرف قوم و ملت کی خدمت کرنا تھا۔ اسلام کا بول بالا کرنا تھا۔ امام زمانہ علیہ السلام کے مددگاروں میں شمار ہونا تھا۔ شہید کو اپنی نماز سے بڑا عشق تھا، چاہے وہ تھکے ہوں نماز کے لیے حوصلہ نہ بھی ہو نماز پڑھنے کو اپنی اولین کوشش سمجھتے کیونکہ وہ ان کا اپنے محبوب سے ملاقات کرنے کا وقت ہوتا۔ پھر آہستہ آہستہ ان کلمات سے لذت محسوس کرتے اور اپنی تھکاوٹ کو بھول جاتے۔ دنیا میں ان کو نماز کے علاوہ کسی چیز سے اتنی لذت محسوس نہ ہوتی۔ 

سحر خیزی اور نماز شب سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ تھکاوٹ انہیں رات بھر بیداری سے نہ روک پاتی، سحر کے وقت خدا سے مناجات اور راز و نیاز کے لیے ضرور اٹھ بیٹھتے۔ ہر نماز کے بعد سجدہ میں جاتے اور اپنا چہرہ خاک پر ملتے تھے زار و قطار روتے تھے۔ وہ انسان عشق و روحانیت کے کس مرتبے پر فائز ہوگا جو نماز شب ترک کرنے کو اپنے لیے دیوالیہ سمجھے۔ جی ہاں دیوالیہ صرف وہ نہیں ہوتا جس کا مال و دولت ختم ہوگیا ہو، بلکہ وہ انسان دیوالیہ کہے جانے کا زیادہ مستحق ہے جس کا دل خدا کی یاد، عبادت کی لذت اور رات کی تاریکی میں خدا کے ساتھ راز و نیاز کرنے سے محروم ہو۔ اہل دنیا عالیشان محل اور نرم بستر میں سکون تلاش کرتے ہیں لیکن یہ مرد مجاہد نماز شب اور ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنے میں سکون پاتے تھے۔ بابا جان کے ماموں انہیں ایک کامیاب شہری بنانا چاہتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ یہ نوکری اختیار کرکے بڑے افسر بنیں، لیکن آپ نے جواب دیا "میں نہیں چاہتا میرے کام کا فائدہ رشوت خوروں، امریکیوں اور ان لوگوں کو پہنچے جو اسلام اور انسانیت کے خلاف سازشوں میں مشغول ہیں۔ بابا جان کہتے تھے "میں خطروں سے نہیں ڈرتا، میں موت سے نہیں بھاگتا ہوں، جب طوفان میرے تحمل کی طاقت سے بڑھ جاتے ہیں میں خدا کو یاد کر کے اپنے رنج و غم کو دور کر لیتا ہوں، مجھے سکون ملتا ہے اور جب کوئی راہ نجات نہیں ملتا تو شہادت کے دامن میں پناہ لیتا ہوں اور محکم قدموں اور فولادی ارادے کے ساتھ حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتا ہوں۔ 

شہید کی زندگی میں خوبصورت لمحات وہ ہوتے تھے جب وہ مکمل یقین کرتے کہ وہ موت کے پنجوں میں جا رہے ہیں اور کسی سے توقع نہیں رکھتے، نہ دامن خوف و ہراس سے بھرتے نہ ذہن میں کسی کی آرزو کو جگہ دیتے۔ ایسے ہی لوگ جرات، ہمت تلوار، ایمان و خوف خدا کے عظیم خنجر سے وقت کے شداد، نمرود، یزید و شمر کا غرور توڑ ڈالتے ہیں۔ ایک دفعہ بابا جان میرے ساتھ آم نوش فرما رہے تھے کہ مجھ سے انجانے میں آم بابا جان کے سفید ملبوس کپڑوں پر گرگیا۔ کچھ کہے بغیر ہی مجھے بہت بڑا درس دے گئے۔ ایک طرف بابا جان کی خاموشی نے اپنا خوف و دبدبہ اور باپ کا ڈر دکھایا تو دوسری طرف ایک دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پر لا کر پدر بزرگوار کی شفقت و ہمدردی میں اپنائیت کا احساس دلایا۔ بابا جان کی صبح صادق کے وقت تلاوت پر پورا گھر روحانیت کے عظیم مراحل طے کر لیتا تھا۔ بابا جان اس اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہ قرآن مجید کی تلاوت ہم پر لازم ہے، تاکہ دل کو روحانی سکون عطا کرے، وہ قرآن مجید جسکی تلاوت نوک نیزہ پر جگر گوشہ، نور العین حضرت فاطمہ الزہرا علیہ السلام کے دل کے چین نے پڑھا۔ 

بابا جان دعا کو بہت اہمیت دیتے تھے اور مولا علی علیہ السلام کے اس فرمان کے قائل تھے۔ "دعا سے تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل سکتے ہیں۔" دعا سے عرش کو فرش پہ جھکایا جاسکتا ہے۔ دعا ہی قلبی سکون اور خدا سے راز و نیاز کا ذریعہ ہے، دعا ہی کی بدولت بابا جان اپنے مقصد کی تکمیل کرسکے اور کہتے کہ: "اے میرے اہل خانہ میرے لیے دعا کرو کہ اللہ مجھے شہادت سے نوازے، مجھے خوف ہے کہ میرے سر پر ایک بال سفید آگیا اور میرے خدا نے مجھے ابھی تک اپنے پاس نہ بلایا کہ کیا میرے گناہ اتنے بڑھ چکے ہیں۔" اتنی پرہیز گاری ان میں پائی جاتی تھی جن کا دل حضرت علی علیہ السلام کی اذان پر کانپ اٹھتا کہ حضرت علی علیہ السلام اذان کے وقت سرخ ہو جاتے اور کہتے کہ اے خدا نہ جانے میں تیرے بلاوے پر پورا اتر بھی سکوں گا۔ 

شہید درس و تدریس میں کافی توجہ دیتے، شاید کہ میرے بابا جان کی شہادت کا سبب ہی ہمارے درس و تدریس کو آگے بڑھانا تھا۔ بابا جان ہمیشہ سے راستوں میں بیٹھے غریب و مفلس بےآسرا لوگوں کی مدد کرتے، بابا جان سادگی میں اتنے اعلٰی تھے کہ اپنے پاس صرف دو جوڑے کپڑوں سے زیادہ نہ رکھتے، ایک اتارتے تو دوسرا پہنتے، یہ نہیں کہ ان کے گھر میں کوئی بھوک اور غربت تھی بلکہ یہ سادگی اور حساب میں آسانی کے لیے ایک کوشش تھی۔ تقاریب کو منانے سے گریز کرتے، شادی بیاہ پر بھی اگر کبھی جاتے تو ہندوانہ رسوم سے پرہیز کرتے، بلکہ حدیث کساء اور دعائے کمیل کا خصوصی پروگرام رکھتے، مجالس شوق سے برپا کرتے، دنیا کی جھوٹی شان و شوکت چمک دمک سے ہمیشہ اپنے دامن کو بچا کر رکھتے کہ کہیں پرہیزگاری کے سفید دامن پر کوئی ایسا داغ نہ لگ جائے جو انہیں امام زمانہ علیہ السلام کے سامنے کھڑا ہونے پر شرمندہ کرسکے۔ ہمیشہ رشتہ داروں کی دل جوئی کرتے، غریبوں کی امداد کرتے، قہقہے اور فضول باتوں سے اجتناب کرتے بلکہ اہلخانہ نے اپنی زندگی میں انہیں کبھی قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا، ہمیشہ مسکراتے تھے۔ 

حتی کہ کئی بار دنیا کے عظیم مراتب "دنیا والوں کی نظر میں" میسر ہوئے لیکن ہمیشہ سے دنیا والوں کے عظیم مراتب فائز ہونے پر آئمہ معصومین علیہم السلام کی طرح منصب دنیا پر راضی نہ ہوتے بلکہ اجتناب کرتے۔ اس چیز سے اپنائیت اختیار کرتے جس کا اللہ عزوجل اور آئمہ معصومین علیہم السلام نے حکم دیا، اس سے ہمیشہ اجتناب کرنے کی کوشش کرتے جس سے آئمہ معصومین علیہم السلام نے کرنے سے منع فرمایا۔ شہید شادی کے بعد ہمیشہ یہ کہا کرتے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"بیٹی رحمت ہے"۔میری خدا سے یہ دعا ہے کہ میری پہلی اولاد بیٹی ہو۔ زیادہ تر آپ اپنے کام میں ہوتے تھے، اس لیے گھر بہت کم آتے تھے، جب انہیں خبر ملی کہ انہیں اللہ نے بیٹی سے نوازا ہے تو فوراً آسمان کی طرف رخ کرکے اپنے ہاتھ اٹھا دئیے اور کہا: "خدایا تیرا شکر ہے کہ تونے میری آرزو پوری کر دی۔" خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے، کبھی بیٹی کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے، کبھی چہرے پر سے بوسہ لیتے۔ اللہ تعالٰی جسے عظیم مرتبہ عطا فرمانا چاہے اس کی کرامات سے بچپن میں ہی لوگوں کو متاثر کر ڈالتا ہے، بابا جان بچپن ہی سے دنیا کے شور و شرابہ، فحش و عیاشی، مختلف ہنگاموں سے دور رہتے۔ 

بچپن میں وہ چونکہ گاوں میں مقیم تھے ایک دفعہ کرتب والا اس گاوں میں پہلی مرتبہ آیا اور اپنے مختلف کرتب سے گاوں کے بچوں کو حتی کہ بڑوں کو محظوظ کرنے لگا، لیکن بابا جان ایک طرف کتاب پڑھنے میں مشغول تھے، جیسا کہ بچے جلد ہی انوکھی چیز کی طرف راغب ہوجاتے ہیں اور ڈھول والے اور کرتب والے شخص کے گرد گروہ بنا لیتے ہیں خوشی سے اچھلتے کودتے ہیں، مگر شہید بھی ایک بچے تھے، بچے ہونے کی حیثیت سے وہ اس کی طرف راغب ہوسکتے تھے، لیکن ایسے محسوس کروایا کہ کچھ ہو ہی نہیں رہا، ایک طرف مستقبل کا ستارا کتاب پڑھنے میں مشغول ہے دوسری طرف ڈھول والا اپنے مختلف کرتب دکھانے میں مصروف ہے، کیا ہوتا ہے کہ وہ کرتب والا خود ہی آپ کی طرف راغب ہو جاتا ہے اور لوگوں سے پوچھتا ہے کہ یہ بچہ کس ماں نے جنم دیا ہے کہ میری توجہ کو مبذول ہی نہیں کر رہا، یہ انمول ہیرا کل کا ستارا ہوگا جو دنیا والوں کو اپنے کاموں سے روشن کرے گا۔ 

وہ بچپن میں ہی نفسانی خواہشات سے پرہیز کرتے نظر آتے تھے۔ وہ بچپن میں مولائے کائنات کے فرمان پر عمل کرتے، "تم دنیا میں رہو نہ کہ دنیا تم میں، کیونکہ جب تک کشتی پانی میں رہتی ہے خوب تیرتی ہے خوب چلتی ہے لیکن جب پانی کشتی میں آ جاتا ہے تو کشتی ڈوب جاتی ہے۔" بابا جان شہادت کے بعد بھی ہم سے غافل نہیں ہوئے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد بالکل حق پر ہے کہ شہید مرتا نہیں، بلکہ وہ زندہ ہوتا ہے، وہ ہم سے مسلسل رزق پا رہا ہوتا ہے، وہ دنیا کے عوامل سے بخوبی آگاہ رہتا ہے۔ بابا جان کبھی خواب میں تلقین کرتے نظر آتے ہیں کہ میرے مزار پر وہ لوگ آئیں جو پاک و پاکیزہ لباس میں ملبوس ہوں۔ میرے مزار پر تعظیم کے ساتھ آو، تو کبھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ میری تصاویر کو پلٹا کر مت رکھو انہیں الٹا مت کرو، میں شہید ہوں میں زندہ ہوں، تو کبھی اپنی بیٹیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے نظر آتے ہیں، کہ میری بیٹیوں کی طرف ٹانگیں کرکے مت سویا کرو، یہ مولا کے زائرین میں شامل ہیں، ان کی رگوں میں ایک نہیں دو دو شہیدوں کا خون رواں دواں ہے، تو کبھی اہلخانہ سے مخاطب ہوتے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کی خدمت، نگہداشت، دیکھ بھال کرو اللہ سے تمہاری شفاعت کروں گا، اللہ تمہیں اجر دے گا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا: "میں اور یتیم کی نگہداشت کرنے والا بہشت میں یوں ساتھ ساتھ ہونگے جیسے کہ میری شہادت کی انگشت اور درمیانی انگشت ساتھ ہیں۔"
 
گھر میں شہادت کے بعد بابا جان کو یاد کرتے کرتے رونا اور ضبط نہ کرنے پر عالم خواب میں اہل خانہ کو کہتے نظر آتے ہیں کہ: "صبر سے کام لو، اس میں خدا کی مصلحت ہے، یہ خدا کا امر ہے۔" اہل خانہ سے مخاطب ہوتے کہ میری بیٹیوں کی نگہداشت کرو، خواب کے ذریعے بیٹیوں سے ملاقات کرنا۔ اگر یاد کرنے پر ہمیں بخار ہو جاتا تو بیماری کے عالم میں خواب کے ذریعے سر پر ہاتھ پھیرنا، بوسہ لینا، پیار کرنا اور بیداری پر بخار کا اتر جانا، صحت یابی کا میسر ہونا، شہید کے کمالات میں شامل ہے۔ بابا جان بچوں سے تحفہ تحائف قبول کر لیتے، بابا جان ہمیشہ نئے کپڑے غریبوں کو دیتے، بعض علاقہ والوں نے شہادت کے بعد تسلیم کیا کہ شہید ہمارے گھر آتے تھے اور ہماری ضروریات پوری کرتے تھے۔ شہید درد و غم کے پروردہ تھے، وہ غم اور درد کے دریا میں غوطہ لگاتے، غموں کے پہاڑ کے نیچے اپنی مسلسل محرومیت کی آگ میں جلتے، دنیا و مافیہا سے اجنبیت محسوس کرتے۔ بابا جان کہتے کہ خدایا جتنا تجھے میں چاہتا ہوں اور جتنی عزت تو نے مجھے لوگوں میں دی ہے، اتنا ہی مجھے اپنی نظر میں حقیر بنا، تاکہ میں غرور و تکبر سے بچوں۔ شہید ایک ایسی شمع تھے جو راستہ میں روشنی پھیلانے کے لیے جلنا چاہتے تھے لیکن ان کے وجود کو اسی راہ میں فنا کر دیا گیا اور جلنے کی اجازت بھی نہ دی گئی ان کے وجود کا خاکستر بھی باقی نہ رہا۔ 

شہادت وہ عظیم اور انمول تحفہ ہے جو خدائے مطلق کی طرف سے دنیائے عظیم میں ہی کچھ لوگوں کو عنایت ہوتا ہے، یہ معجزہ شہادت ہمارے بابا جان کو عنایت خداوندی سے میسر ہوا تھا۔ یہ ان لوگوں کو عطا ہوتا ہے جنہیں جنون ہو صرف اللہ سے ملاقات کا۔ جن کی لگن خدا کی رضا میں وابستہ ہو، وہ پھر نہ فکر کرتا ہے اہل خانہ کی، نہ مال نہ دنیا کی، اسکی نظر میں صرف وہ ایک عکس سمایا ہوتا ہے جسکو پانے کی جستجو میں وہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے پر رضامند ہو جاتا ہے۔ وہ رواں دواں مشکلات کے پہاڑ عبور کرتا ہوا گزر جاتا ہے، اگر اسے خون کی ندیاں عبور کرنا پڑیں تو وہ ان سے بھی گریز نہیں کرتا۔ شہید کی عظیم روح کے اندر بھی عشق موجیں مار رہا تھا، آپ کی خدا سے راز و نیاز اور مناجات انسان کے دل کو عالم بالا، ملکوت اعلٰی کی پرواز سکھاتے، آپ کے کلمات عشق خدا کی لگن میں مست تھے۔ اس لیے شہید کے اپنے الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس شہید نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کم کھایا، کم پیا، کم سویا۔ راستوں کی ویرانی اور جلتی دھوپ سے گھبرانے والے کبھی اپنی منزل نہیں پاسکتے۔ 

بابا جان نماز میں کوتاہی نہ کرتے، نماز کو پانچ وقت میں ادا کرتے۔ اگر کوئی کہہ دیتا کہ ہمیں تو تین وقت میں نماز کو مکمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو کہتے: "آئمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے محبان کی آسانی کے لیے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، اگر ہمیں خدا کی بارگاہ میں پانچ وقت حاضر ہونے کا موقع ملتا ہے تو ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیئے، تو ہم اس سے استفادہ کیوں نہ حاصل کریں۔ نماز کے دورانیے میں بابا جان دعاوں اور ذکر الہی میں مشغول ہو جاتے، تعقیبات پڑھتے۔ بابا جان ہمیشہ بچوں سے شفقت سے پیش آتے۔ اگر وہ اہل خانہ میں سے کسی بچے کی تقلید کے بارے میں معلومات کا سنتے تو خوش ہو جاتے ۔آپ ہمیشہ نیکی کو دیکھ کر خوش ہوتے اور ان کی رہنمائی کی ہر ممکن کوشش کرتے اور برائی کو دیکھ کر غمگین ہو جایا کرتے اور اسے اس کی جڑ تک سے اکھاڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتے۔ بابا جان میں دلیری اور بہادری، مردانگی انتہا درجے کی پائی جاتی تھی۔ اس لیے ہی خود دشمن ان کے تعاقب میں رہتا ان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا اور ان کی آنکھ کے اشارے تک سے لرز اٹھتا۔ شہید کم گو، منکسر مزاج، عقلمند، اہل مطالعہ اور تحقیق کرنے والے تھے۔ 

ایک وقت تھا کہ گاوں میں بجلی کا انتظام تک نہ تھا۔ بس شروعات میں شہید کے گھر بجلی کا انتظام تھا، آپ نے بجلی کی تاریں قریبی گاوں میں رہنے والے اپنے دوست کو دی اور وہاں بھی بجلی کی سہولت پہنچائی۔ ایک دفعہ شہید اپنے ماموں جان کے ساتھ بازار سے کپڑے خریدنے گئے تو اپنے دوست کو بھی ساتھ لے گئے اور اس سے مخاطب ہوئے کہ کونسا سوٹ میں خریدوں۔ کس قسم کا سوٹ میں خریدوں تو دوست نے اپنی پسند بتائی۔ اس کے بعد خریداری کے بعد گھر آئے اور وہ کپڑے دوست کو تحفہ دے دیا۔ شہید دوسروں کے دکھ درد، مصیبت پریشانیوں میں شریک ہونا پسند کرتے۔ انکو لطف دوسروں سے محبت میں ملتا۔ ان کی روح کو تسکین اور راحت ہی محروموں، غمخواروں اور یتیموں کی مدد کرنے میں ملتی۔ شہید ہمیشہ اپنی گفتگو میں آئمہ معصومین علیہم السلام کا تذکرہ کرتے۔ ان کی ہر بات کی دلیل علی علیہ السلام کی احادیث سے پیش ہوتی۔ 

محروموں، مستضعفین کی خدمت، دشمنان اسلام کے خلاف جہاد، یتیموں کی کفالت، اسلام کے لیے اپنی ہر چیز قربان کرنا، رات کے سناٹے میں خدا کے ساتھ راز و نیاز اور سحر کے وقت نماز شب میں گریہ زاری، سادہ زندگی، سادہ لباس، عاجزی و انکساری، دنیوی زرق و برق سے دوری، وہ اسباق اور درس تھے جو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے سیکھے تھے۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، "جہاں میں نے قدم رکھے میری امت بھی وہاں رکھ سکتی ہے لیکن ہر شخص اپنی ظرفیت کے مطابق"۔ جی ہاں کتنا سادہ اور آسان ہے زبان سے علی علی کرنا اور کتنا مشکل ہے علی علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنا۔ کتنا آسان ہے علی علیہ السلام کے متعلق لکھنا اور تقریریں کرنا اور کتنا مشکل ہے حضرت علی علیہ السلام کی طرح اپنا پورا وجود اسلام و مسلمانوں پر قربان کرنا۔ کتنا آسان ہے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت خلق، مساکین و فقراء کی مدد کرنے کے فضائل بیان کرنا، کتنا مشکل ہے کہ اپنے گھر میں سے رات کے اندھیرے میں حضرت علی علیہ السلام کی طرح فقراء و مسکینوں کی حاجت روائی کے لیے نکلنا۔ لیکن مشکل ہے ناممکن نہیں۔ محال نہیں ہے، شہید نے حضرت علی علیہ السلام کے نقش قدم پر چل کر ہمارے لیے اور ہمارے قوم کے نوجوانوں کے لیے واضح کیا کہ ہمت ہو، حوصلہ ہو اور ایمان ہو تو آج بھی ان کے نقش قدم پر چل کر محروموں، کمزوروں کی خدمت کی جاسکتی ہے۔" 

خطروں، مشکل حالات میں وہی لوگ پائیداری، استقامت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کی تربیت سخت ماحول میں ہوئی ہو ، لیکن ناز و عزت اور عیش و آرام کی زندگی گزارنے والے لوگ سختیوں کی تاب نہیں لاتے اور فوراً دشمن کے پنجے تلے دب جاتے ہیں۔ وہ دشمن کے سامنے خود سپردگی کر دیتے ہیں، وہ دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، وہ پھر اپنے عیش و آرام کی بقا کے لیے ملت و قوم کا سودا کر لیتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام ناز و نعم میں پرورش پانے کے نقصانات اور سختیوں میں گزارنے والے زندگی کے دن کے فوائد کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں۔ "یاد رکھنا کہ جنگل کے درختوں کی لکڑی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور تروتازہ درختوں کی چھال کمزور ہوتی ہے۔ صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا بھی ہے اور اس کے شعلے دیر میں بجھتے بھی ہیں۔" 

وقت کے یزیدوں نے بابا جان کے ساتھ ایک معصوم اور بےگناہ بچے کی جان لے کر اپنی اصلیت کو سب پر آشکار کیا ہے، جیسے حضرت علی اصغر علیہ السلام کو یزیدی قوم نے شہید کرکے اپنی اصلیت کو خود دوسروں پر افشا کیا تھا۔ ظالم دنیا نے ہمارے بابا جان کو دہشت گرد کہا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دنیا پر واضح ہوگیا۔ وقت خود چیخ کر پکارا، زمین خود چیخ کر پکاری کہ یہ خون حق پر بہنے والا تھا خون نے خود اپنی شہادت پیش کی کہ میں سچ اور حق پر ہوں، شہادت کے بعد" ۴۸" گھنٹے کے بعد بھی خون رواں دواں رہنا، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ خون اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک قاتلان سے بدلا نہ لے لیا جائے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کو "نعوذباللہ" باغی قرار دیا گیا لیکن وقت پکارا، زمانے نے گواہی دی اور ثابت کیا کہ یہ حق پر بہہ جانے والا خون نواسہ رسول کا ہے، جو بیشک حق پر تھے۔ اب بھی یہ خون چیخ چیخ کر پکار رہا ہے۔
 بِاَیِ ذَنب قُتِلَت ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
خبر کا کوڈ : 259485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
اعظم اللہ اجورکم
اللہ آپ کے اجر میں اضافہ فرمائے
Allah behaqe Muhammamd w al e Muhammad ap ko hamesha khosah rakhay aur ap k sadaqe hamray gunha maf kray.
خدا شہید کے درحات اور بلند کرے اور ہمیں شہداء کی راہ پر چلنے کی توفیق دے۔
MshaALLAH
bohat khobsorat tahreer hy,mola salamat rkhay dukhtran shaheed ko ,salam bar shohada,
irshad h nasir
سلام ہو ایسے عظیم مجاہد اور پیرو خمینی (رہ) و شہید حسینی (رہ) پر۔۔۔اور لعنت ہو شہید کے قاتلوں بالخصوص امریکی چمچے مشرف و معین الدین حیدر اس وقت کے وزیر داخلہ پر ،جنہوں نے شیطان بزرگ کی خوشنودی کے لئے ظلم عظیم برپا کیا۔۔اور آج مشرف مکافات عمل سے دوچار ذلیل ہے۔
اللہ ہمیں شہید ڈاکٹر نقوی اور ان کے مخلص و باوفا ساتھی شہید علی ناصر صفوی کی راہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
ہماری بہن نے بہت اچھی تحریر لکھی ہے۔ شہید کے بارے میں بہت ساری نئی معلومات ملی ہیں۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شہید اور ان کی باوفا اہلیہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
عون علوی
شہید ناصر صفوی کی عظمت کو سلام۔
Sweden
بیٹی آپ سوچ بھی نہیں سکتی میں اس تحریر کا کب سے انتظار کر رہا تھا، اس وقت سے جب آپ بہت چھوٹی سی تھیں۔
Iran, Islamic Republic of
vip:.ہماے بابا جان ایک عظیم باپ، ایک عظیم بیٹے اور ایک عظیم شوہر تھے۔
United States
SubhanAllah!
Biyaan e Sadagi hai ya Biyaan e Azmat ?
Tehreer hai Ya dastoor e Zindagi ?
Shaheed ko Salam!
Germany
Salam aap ko andaza nahi myay kitnay arsay se is tehreer ka intizar kar rahi hoo.shaheed par mujhay kabhi koi kitab ya kuch bhi parhne koi nahi mila pls aap likhe unki zindagi or shahdat ke baray may ke kaisay hoi.
I will be very thankfull to u
MASHALLAH MAY GOD BLES YOU SISTER, AND IMAM ZAMANA AS PROTECT YOU _FROM EVILS,
United Arab Emirates
main ro b raha hon aor prh b raha hon iss tahreer ko , allaha ki zat shaeed k darjat baland kry ,aor hamain b un ko naqshy qadm pr chalny ki tofeeq dy.shaheed ki azmt ko salam.
United States
yeh dastan e zndge nhe likhe behn ap ny msaib lika. ak bar in donon ki kbr py any ka muka mla woh saman aj tak nhe bhola. khuda gwah hai anso nhe rukty ajeb tahrer hai. khuda un k darjat aur ap ko slamti ata farmaiy.
[m ilyas razaw f iran]
بہت خوبصورت مقالہ ہے۔ آپ کے دردمند اور عالمانہ الفاظ میں شہید کے خون کا اثر واضح ہے۔ اس گمنام مظلوم شہید پر مقالہ لکھنے کا حق ادا کیا ہے۔ خدا آپ کو سلامت رکھے۔
United States
شھید کی بیٹیاں شھید پرور بنیں گی، اپنے کردار اور افکار سے، انشاءاللہ
Serbia
salaam serf ronay say kuch neh hotha . khuda hum sub ko shaheed ki rah per chelnay ki tufeeq ata fermay . behen apne behooth acha leika. shayed kesi momen k soreth main ek or safvi humain mel jay
ہماری پیشکش