16
0
Monday 25 Nov 2013 23:08

کربلا کا حقیقی مجاہد

کربلا کا حقیقی مجاہد
تحریر: محمد علی نقوی

خداوند عالم نے انسان کو اپنی مخلوقات میں سے سب سے افضل قرار دیا ہے۔ انسان ایسی مخلوق ہے جس کو نہ صرف فرشتوں پر فوقیت حاصل ہے بلکہ بعض اوقات فرشتے بھی انسان کی تخلیق پر رشک کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ خداوند عالم نے جب انسان کو خلق کیا تو وہ احسن الخالقین قرار پایا اور اس نے اپنی اس تخلیق پر فخر و انبساط کا بھی اظہار کیا۔ انسان کو فرشتوں پر فضیلت حاصل ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے اسے "ارادے" اور "انتخاب" کی قوت سے نوازا۔ یہی انسان جو بہترین مخلوق ہے، جب اپنے ارادے کا غلط استعمال کرتا ہے تو اسفل السافلین میں سے قرار پاتا ہے، جبکہ ارادے کا صحیح استعمال اسے اعلی علیین کی صف میں لے آتا ہے۔ 

خداوند عالم نے اسی انسان کو اپنا خلیفہ بھی کہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان جسکا خلیفہ ہے، اس کی کچھ صفات اس میں ضرور جلوہ گر ہونی چاہیں۔ انسان اپنے خالق کی عطا کردہ نعمات کے پیش نظر ایسی صلاحیتوں کا مالک ہے جس کا اسے صحیح ادراک بھی نہیں۔ خداوند عالم نے اس ادراک کی قوت میں اضافے کے لئے بھی نسخہ تجویز کیا ہے اور اس نسخے کی باریکیوں کو سلجھانے کے لئے نبی و اوصیاء بھی بھیجے ہیں۔ جس انسان نے اس نسخہ کو صحیح سمجھ لیا اور اس نسخے کی تعلیم دینے والوں کی حقیقی معرفت حاصل کرلی، تو اسکے لئے ہدایت و رہنمائی کے راستے یکے بعد دیگر کھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ ایک ایسی منزل پر فائز ہو جاتا ہے کہ وہ خالق کی زبان اور اسکا کلام بن جاتا ہے، محمد و آل محمد (ع) اس عمل کے حقیقی مصداق ہيں۔ قرآن کی آیہ کریمہ "والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلنا" کی تفسیر میں بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جو خداوند عالم کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے اور خداوند عالم کی راہ میں کوشش و محنت کی روش اپناتا ہے تو خداوند عالم اسکے لئے ایک نہیں کئی راستے کھول دیتا ہے۔
 
انسانی تاریخ میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی گزری ہے، جس نے خدا کے راستے میں جدوجہد کے مفہوم کو سمجھا اور اس پر عمل کیا اور یقیناً یہی وہ لوگ تھے جو "فنفورافوزاعظیما" کی منزل پر فائز ہوئے۔ کامیابی اور کامرانی کی ایک منزل شہادت فی سبیل اللہ ہے، یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین امام المتقین حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت اپنے آپ کو کامیاب و کامران کہا جب ابن ملجم کی زہر آلود تلوار سے آپکی ریش مبارک خون سے خضاب ہوئی، ہمارے عزيز دوست علی ناصر صفوی بھی اپنے آقا و مولا کے فزت برب الکعبہ کے آسمانی شعار کے گرویدہ تھے، وہ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کب وہ بھی ایک ایسے واقعے اور سانحے سے دوچار ہوں کہ ان کی زبان سے بھی فزت برب الکعبہ کے کلمات جاری ہوں۔ 

ایک روایتی شیعہ گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ علی ناصر، مختلف تعلیمی مراحل طے کرکے گریجویشن کے لئے ڈگری کالج جھنگ میں داخلہ لیتا ہے، یہاں پر اسکی ملاقات اپنے جیسے ایک اور دوست ظفر اقبال سے ہوتی ہے، جنہیں تنظیمی حلقے مجتبٰی سعیدی کے نام سے جانتے ہیں۔ آئی ایس او کی انقلابی سرگرمیاں انہیں ایک ایسے حلقے میں لے آئیں جہاں "حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا" جیسے نعرے اور شعار عام تھے۔ آئی ایس او کا دائرہ انکے لئے تنگ ہونے لگا تو وہ حق و حقیقت کی جستجو میں پہلے ایک دینی مدرسہ میں علم دین کے حصول میں مشغول ہوگئے، خوب سے خوب تر کی تلاش میں کچھ دن ایک عالم دین کے باقاعدہ محافظ بن گئے، تاکہ زیادہ سے زيادہ علمی و معنوی استفادہ ہوسکے۔ 

یہاں بھی انکی بے چین روح کو قرار نصیب نہ ہوا اور وہ ایک نئے سفر پر روانہ ہوگئے۔ آئی ایس او میں شمولیت سے علماء کی خدمت تک کہ ہر مرحلے کو علی ناصر نے کامیابی و کامرانی کی طرف ایک زینہ و مرحلہ سمجھا۔ کامیابی و کامرانی کے اس سفر میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے بھی ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بہت جلد شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے قریبی ساتھی علی ناصر کو شہید ڈاکٹر نقوی کی جلوتوں اور خلوتوں کا جانثار ساتھی کہنے لگے۔ 

اسی دوران وہ کچھ عرصے کے لئے منظرعام سے پس منظر میں چلے گئے اور جب دوبارہ منظر عام پر آئے تو علی ناصر سے ناصر صفوی میں تبدیل ہوچکے تھے۔ ظاہری شخصیت میں ٹھہراؤ، بول چال میں پہلے سے زيادہ سنجیدگی اور قوت جاذبہ میں غیر معمولی اضافہ۔ جرات و بے باکی اور شجاعت و دلیری تو پہلے بھی کم نہ تھی، لیکن اب ان تمام صلاحیتوں کو چار چاند لگ گئے۔ ملکی مسائل کا تجزیہ کرنے لگتے تو ایسے لگتا ان سے بہتر کوئی حالات سے آگاہ نہیں ہے۔ عالمی حالات پر اتنی گہری نظر تھی کہ بعض اوقات آنے والے واقعات کی پیشگوئی کر دیتے۔
 
البتہ ان دنوں ان کے پاکٹ سائیز ریڈیو کی شہرت زبان زد خاص و عام تھی، جو انکے جسم کے ایک عضو کی طرح ہمیشہ ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کسی موضوع پر لکھنے کا بھی ذوق رکھتے تھے، لیکن خودنمائی یا ریا سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ ان کی یہ تحریریں یا باتیں منظر عام پر نہیں آسکیں۔ بعض قومی موضوعات پر انکے تفصیلی تجزیے اور اسکے ساتھ ساتھ مسائل کے حل کے لئے عملی منصوبے البتہ قریبی دوستوں کے ہاں زير بحث رہتے، وہ انتہائی کم وسائل کے باوجود اپنے بعض منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی بھی کوشش کرتے۔ جھنگ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے فرقہ واریت پر قابو پانا انکی خصوصی ترجیحات میں رہتا تھا، وہ جھنگ کے نوجوانوں کو اکھٹا کرتے، دفاع کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کے پائیدار حل کے لئے ان سے تبادلہ خیال کرتے۔ عوام میں مذہبی شعور کی بلندی، جاہلانہ رسم و رواج سے دوری، اتحاد بین المسلمین اور خاص کر سیاسی بیداری ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔
 
ہمارے ہاں ایک بڑی تعداد ملکی مسائل کو سمجھتی ہے، اسے قلم و زبان سے بیان بھی کرتی ہے، لیکن ان مشکلات کے حل کا جب موقع آتا ہے تو یہ بڑے بڑے دانشور اور تجزیہ نگار گفتار کے غازی کا کردار تو ادا کرتے ہیں، کردار کا غازی بننے کے لئے میدان عمل میں نہیں اترتے۔ شہید علی ناصر صفوی کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے استاد شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی طرح کردار کے غازی تھے، وہ ایک عملی انسان تھے، وہ مشکل کو بیان کرکے اور مسائل کو چھیڑ کر اس کا تجزیہ و تحلیل کرنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے، ان کا ذہن اسی وقت عملی اقدامات انجام دینے کے لئے مصروف عمل ہو جاتا تھا، جب دوسرے ابھی اسے تھیوری کی حد تک سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے۔ شہید علی ناصر صفوی نے ملت تشیع کی سربلندی کے لئے بلامبالغہ ہر شعبے میں اپنی خدمات پیش کی ہیں، وہ ماتمی انجمنوں میں نظم و ہم آہنگی سے لیکر پارلیمنٹ اور سینیٹ میں شیعہ حقوق کے لئے نہ صرف سوچتے تھا بلکہ اسکے عملی منصوبے بھی پیش کرتے تھا۔ 

جھنگ کی اس وقت کی مخصوص فرقہ وارانہ فضا میں جب بہت سے دوسرے شیعہ نوجوانوں اور نمایاں شخصیات کی طرح علی ناصر کو بھی پولیس نے تنگ کرنا شروع کر دیا اور انکی گرفتاری کے لئے ملک بھر میں چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع ہوا تو شہید علی ناصر صفوی ان گرفتاریوں اور چھاپوں سے ہرگز خوفزدہ نہ ہوئے، بلکہ بعض اوقات خود پولیس اسٹیشنوں میں جا کر اپنے دوسرے ساتھیوں کی رہائی اور انکے لئے قانونی اقدامات انجام دیتے۔ 

صدر اسحاق کے دور میں جب تحریک جعفریہ پاکستان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ملکر لانگ مارچ کا اعلان کیا تو شہید ناصر صفوی بھی شیعہ نوجوانوں کے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد میں متحرک ہوگئے۔ لانگ مارچ کے دوران جب پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں کا راولپنڈی کی سڑکوں پر سخت پہرہ تھا تو یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک کے پرچم تقسیم کرتے۔ شیعہ نوجوانوں کا گروپ پولیس کو چکمہ دیکر جب سڑک پر آتا تو خالی ہاتھ ہوتا، لیکن ناصر صفوی نے اس خوبصورت طریقے سے منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ آنا فاناً تحریک کے پرچم ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں پہنچ جاتے اور یوں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار ہکابکا رہ جاتے کہ یہ پرچم اور بینرز کہاں سے آگئے۔ اسی لانگ مارچ کے آخری دنوں میں پولیس بالآخر انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگی اور انہیں کئی دنوں تک جہلم کی معروف جیل میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ اسیری کے دن گزارنا پڑے۔ 

خلوص و وفا کا پیکر شہید علی ناصر صفوی دوست بنانے میں کمال کا ہنر رکھتا تھا، عالم دین سے لیکر فیشن ایبل نوجوان علی ناصر کی دلنشین گفتگو سے اتنا متاثر ہو جاتا کہ منٹوں میں علی ناصر کا ایسا دوست بن جاتا جیسے انکی برسوں پرانی دوستی ہے۔ شہید اپنے کسی دوست کے گھر اسے ملنے کے لئے جاتے تو اس دوست کا پورا خاندان علی ناصر کا گرویدہ ہو جاتا اور بعد میں بعض اوقات دوست کو بتائے بغیر اسکے گھر جاتے تو اہل خانہ پہلے سے زیادہ انکی عزت و تکریم کرتے۔ 

نماز میں توجہ اور تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ کئی علماء انکے پیچھے نماز پڑھنا سعادت سمجھتے۔ نصیحت کرنے پر آتے تو دکھ بھرے لہجے میں مخاطب کو گریہ و زاری پر مجبور کر دیتے، انتھک ایسے تھے کہ ملک بھر کے مسلسل دورہ جات اور سخت ترین حالات میں بھی چہرے پر تھکاوٹ کے آثار ظاہر نہ ہونے دیتے۔ انکی زندگی کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ گاڑی ضرورت سے زيادہ تیز چلاتے، یہی وجہ ہے کہ کئی بار حادثات کا شکار بھی ہوئے، انکے ایک دوست ان سے مذاق کیا کرتے اور کہتے تھے: "بھائی ناصر تم نے ایکسیڈینٹ میں شہید نہیں ہونا، کیوں اپنے آپ کو تیز رفتاری کے نذر کرنا چاہتے ہو۔
شہید علی ناصر صفوی کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ آخری دنوں میں وہ اپنے تمام امور کو جلد از جلد نمٹانا چاہتے تھے، وہ کسی جلدی میں نظر آتے تھے دوست اعتراض کرتے تو جھنجھلا کر کہتے وقت کم ہے، بہت سے کام رہ جائیں گے۔ 

 25 نومبر 2000ء نومبر کو ایسے ہی ہوا، ان کی بھرپور کوشش کے باوجود انکے بہت سے کام ادھورے رہ گئے، ان کے دوست نئے پراجیکٹ کے منتظر تھے کہ یہ افسوسناک خبر ملی کہ یزید وقت کے کارندوں نے ایک اور حسینی کو اسکی اہلیہ سمیت انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا ہے۔ شہید علی ناصر کا شمار ان شہداء میں ہوتا ہے، جنکے کارنامے شاید کبھی منظر عام پر نہ آسکیں۔ اسکی مثال ایسے دی جاسکتی ہس کہ اگر ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب نہ ہوتا تو آج شہید نواب صفوی اور شہید علی اندرزگو کے کارنامے کس کے علم میں ہوتے۔ 

علی ناصر ایک حقیقی حسینی تھا، وہ ھل من ناصر ینصرنا کی آواز پر لبیک کہہ چکا تھا، وہ اپنی باری کا منتظر تھا۔ شہید علی ناصر صفوی کے بارے میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ جہد مسلسل، تقویٰ و پرہیزگاری، شجاعت و دلیری، فرض شناسی و انضباط، قومی غیرت و حمیت کا پیکر اور سیدالشہداء کے اصحاب کی صفات کا حامل یہ شخص اگر کربلا میں ہوتا تو حبیب، زہیر، مسلم بن عوسجہ، وہب کلبی اور جون کی طرح اپنا سب کچھ سیدالشہداء پر نچھاور کر دیتا۔
خبر کا کوڈ : 216587
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
اے راہ کربلا کے حقیقی مجاہد تیری عظمتوں کو سلام، اور سلام اس شہیدہ باوفا و باصفا پر جو زینب سلام اللہ کی سچی پیروکار نکلی۔
اے شہید عظیم تیری عظمت کو سلام۔
Iran, Islamic Republic of
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
Iran, Islamic Republic of
یہ تحریر شہید کے ہر ساتھی کو خون کے آنسو رلائے گی
Iran, Islamic Republic of
علی ناصر ایک حقیقی حسینی تھا،
لا ریب
Pakistan
ہماری کتنی کوتاہ نظری ہے کہ ہم ان جیسے لوگوں کے مشن کو کماحقہ جاری نہ رکھ سکے۔
بہت اچھا آرٹیکل، جزاک اللہ،
اسلام ٹائمز کی اس محنت اور کاوش کو سلام۔
میں تو برداشت نہ کرسکا، اگرچہ اس کے کچھ پہلو تشنہ لب ہیں، تاہم دعا ہے کہ خدا مزید علی ناصر ہمیں نصیب فرمائے۔ یہ مضمون جوانوں کو علی ناصر بننے کا درس دیتا ہے۔
United States
اللہ شہید کے ساتھیوں کو اچھے دوست عطا فرمائے
pata nahi ham kahan han !!!!!!!!!!!!
Pakistan
Inkay karnamay manzeraaam per q nahee asaktay....?????????????????
Salam Shaheed pr!
ok
ok
Serbia
aaaaay kash hum serf pernay per ekthefaa ne kerthy
Pakistan
YA ALLAH IS PAK SHAHEED K PAK KHOON K SADQAY ME HAME IS K NAQSH E QADAM PAR CHALNAY KI TOFIQ ATA FARMA
AMEEN YA RABBALALAMEEN
ہماری پیشکش