3
0
Wednesday 5 Jun 2013 01:30

خورشیدِ انقلاب

خورشیدِ انقلاب
تحریر: سید قمر رضوی 

مجھے عرصہ دراز سے یہ حسرت تھی کہ مقاماتِ مقدسہ کے علاوہ ان جگہوں کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھوں جو چند افراد کے اٹھائے گئے اقدام کے باعث عام ترین مقامات ہوتے ہوئے بھی اتنے اہم ہوئے کہ تاقیامت تاریخ کا انمٹ حصہ بن گئے۔ یوں تو اب تک میں جہاں جہاں بھی گیا تھا معلومات حاصل کرنے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ یہ تمام مقامات کتنی اہمیت کے حامل تھے مگر اب جو ہماری منزل تھی وہ یقیناً ایک ایسا مقام تھا جو اہلِ عشق کے لئے داستانِ عشق کی ایک اور اہم یادگار تھی اور اس یادگار کا نام ہے بیتِ حضرت امام خمینی (رہ)۔ مسجدِ فاطمہ والی گلی سے اٹھ کر ہم امام خمینی (رہ) کے تاریخی گھر کی جانب چل پڑے جو وہاں سے بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ گلیوں اور سڑکوں پر نصب معلوماتی تختوں کو پڑہتے ہوئے اور راہگیر حضرات سے پوچھتے پوچھتے ہم پندرہ منٹ میں وہاں پہنچ ہی گئے۔ جہاں یہ گھر واقع ہے، اس گلی کی نکڑ پر اسکے بارے میں ایک معمولی سا معلوماتی بورڈ نصب تھا۔ میں یہاں تک پہنچنے کے دوران اپنے ذہن میں محلوں کے نقشے بنا چکا تھا ۔ میرے خیال میں ہم جہاں جا رہے تھے، وہ کسی بادشاہ کی رہائشگاہ کی مانند نہ سہی، ایک وسیع و عریض عمارت تو ہوگی جہاں خوابگاہیں ہوں گی۔ عظیم الشان کتب خانہ ہوگا اور سرسبز و شاداب باغ بھی۔ مگر گلی تو کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔ یہ گلی خود بھی پختہ نہ تھی، بلکہ مٹی کی تھی جس میں موجود مکانات میں سے ایک مکان کے دروازے پر "بیتِ امام خمینی (رہ)" لکھا ہوا تھا۔ میری عقل اس بات کو تسلیم کرنے میں گریزاں محسوس ہوئی۔ میں نے زائرہ سے پوچھا کہ کیا ہم صحیح جگہ پر ہی ہیں یا ابھی کہیں اور جانا ہے۔ اس نے میرے تحیر کو مزید پروان چڑھاتے ہوئے بتایا کہ بالکل صحیح مقام ہے۔ یہی رہائشگاہ ہے اس عظیم بادشاہ کی، جسکی سلطنت زمین کے ٹکڑوں کی بجائے مظلوموں اور عشاق کے دلوں پر تھی۔ میں ابھی تک یہ سب ہضم نہیں کر پا رہا تھا۔ نہ کوئی دربان، نہ ہی محافظین۔ نہ کوئی گائیڈ اور نہ ہی کوئی استقبالیہ۔ ۔۔۔ یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کونسا دیار ہے؟؟؟ 

اپنے ملک میں میں نے شاہی قلعے سے لیکر آج کے ایوان صدر و وزیراعظم بہت اچھی طرح دیکھ رکھے تھے، جنکے رقبے کئی گاؤں کے رقبے کے مساوی ہیں۔ جو آہنی درودیوار اور خونخوار محافظین کے حصار میں ہیں۔ جہاں انسان تو درکنار، انکے آس پاس سے کسی پرندے کو بھی گزرنے کی اجازت نہیں۔ جبکہ یہاں پرانے دور کی ایک بوسیدہ سی عمارت تھی جسکا ویسا ہی بوسیدہ سا دو پٹ والا دروازہ۔ میں نے دستک دینے کے انداز میں دروازے کو سرکایا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ میں اب بھی یہ توقع کر رہا تھا کہ اندر سے کوئی فوجی نما دربان چیختا دھاڑتا برآمد ہوگا جو میری کسی دہشت گرد کی مانند سرزنش کرے گا اور دھمکاتا ہوا باہر نکال دے گا۔ مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں تھا۔دروازے پر کھڑے کھڑے ایک کھلے ہوئے پٹ سے جھانک کر میں نے دیکھا کہ بمشکل چند مرلوں پر مشتمل ایک مکان ہے جسکے کمرے بھی وہاں سے نظر آ رہے تھے اور ایک چھوٹے سے حوض پر مشتمل صحن تو نظروں کے سامنے تھا ہی۔ میں حیرت اور خوف کے عالم میں ایک قدم لیکر اندر داخل ہوا۔ ابھی بھی میں کسی محافظ کی گرجدار آواز کا منتظر تھا مگر کسی محافظ کی بجائے دو مزدوروں نے میرا استقبال کیا جو اس بوسیدہ عمارت کی مرمت میں مصروف تھے۔ یعنی یہاں بھی وہی کچھ ہو رہا تھا جو اب تک ایران میں ہر تاریخی مقام پر ہوتا ہوا دیکھا تھا۔ 

مزدوروں نے اپنے تئیں ہمیں خوش آمدید کہا اور میں نے اپنے انداز میں ان سے گھر کے معائنے کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے اشارے سے مجھے اندر کی جانب جانے کو کہا۔ مجھ پر سے اب ہر طرح کے خدشات کافور ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔ میں اب تک سو فیصد غلط سوچتا رہا تھا۔ یہاں نہ کوئی مخملیں خوابگاہیں تھیں اور نہ ہی وسیع و عریض کتب خانے۔ نہ ہی پھلوں اور پھولوں سے لدے باغات تھے اور نہ ہی خونخوار دربان و محافظین۔ یہاں تو فقط ایک صحن تھا اور دو کمرے جن پر دو مزدور گارے کے لیپ کرنے میں مصروف تھے۔ اس وقت اس احاطے میں ہم چار افراد کے علاوہ کوئی پانچواں موجود نہ تھا۔ چار قدم لیکر میں حوض کے کنارے جا کھڑا ہوا جسمیں چند مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ حوض کا ایک چکر لگا کر میں پھر سے ایک جگہ کھڑا ہو گیا اور اس کچے صحن اور اس سے متصل بوسیدہ درودیواروں کے ذریعے سے ماضی میں جا پہنچا جب یزیدی و فرعونی طاقتوں کو چاروں شانے چت کرنے والا ایک نحیف مجاہد یہاں قیام پذیر تھا۔ یہی تھا وہ صحن جہاں پر اس سرزمین کے چند نہتے مجاہدین بیٹھا کرتے تھے اور انکا رہنما کچھ آفاقی باتیں انکی عقلوں میں نفوذ کردیا کرتا تھا۔ نجانے ان باتوں میں کیا قوتِ حیدری ہوا کرتی تھی کہ ڈھائی سو سالہ بادشاہت کا خیبر اوندھے منہ جاگرا۔

میں بھی انہی مجاہدین کے درمیان اپنے جتنی جگہ بنا کر بیٹھ گیا اور امام خمینی (رہ) کے فکر و ولولہ انگیز خطابات سننے لگا۔ مجھ جیسے ایسے بہت سے ہوں گے جو یہ سوچ بھی نہ سکتے ہوں گے کہ چند گز کے اس صحن سے حق کا وہ بگولا اٹھے گا جو پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیکر باطل کو ایسا چکر کھلائے گا کہ ہوا میں معلق اسے کوئی سرزمین قبول تک نہ کرے گی۔ میں وہیں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ حاملانِ وحی کے اس غلام کی زبان میں بھی کیا تاثیر تھی کہ انسان تو متحرک تھے ہی مگر ایسا کیونکر ممکن ہے کہ خدا کا کوئی بندہ اپنی خودی کو اس قدر بلند کر لے کہ زیرِ آسمان جاکر سورۃ الفیل تلاوت کرے تو شیطانِ بزرگ کے ہاتھی نما جہاز ریت کے ذروں کے حملوں سے چبائے ہوئے بھوسے کی شکل اختیار کر جائیں۔ مجھے جواب ملا کہ بےشک ہر دور میں خدا کے کچھ ایسے بندے ضرور ہوتے ہیں جو ایمان کے اس درجے پر فائز ہوتے ہیں کہ انکی چاہت خدا کی منشاء بن جاتی ہیں۔ بلاشبہ امام خمینی (رہ) اپنے دور کے ایک ایسے ہی عارف تھے، جنکے بارے میں علامہ اقبال (رہ) نے برسوں پہلے فرمایا تھا، 
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی بُرہان

قہّاری و غفّاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

ہمسایۂ جبریلِ امیں بندۂ خاکی
ہے اس کا نشیمن، نہ بخارا نہ بدخشان

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن

قدرت کے مقاصد کا عیّار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو، وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں، وہ طوفان

فطرت کا سرود ازلی اسکے شب و روز
آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمٰن

بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم
لے اپنے مقدّر کے ستارے کو تو پہچان 

یہ دو منزلہ مکان جس میں تہہ خانہ بھی تھا، امام خمینی (رہ) کی واحد جائیداد تھا جو آپکی خوابگاہ بھی تھا اور کتب خانہ بھی اور یہی صحن اس محل کا وہ باغ تھا جہاں انقلاب کے پودے سے ایسے ایسے پھل اور پھول نکلے جنکی خوشبو اور رس سے ایک پوری مملکت کو توانائی ملی۔ آپکی جلاوطنی کے بعد یہ گھر تحریک آزادی کا محور و مرکز بن چکا تھا۔ جب خورشیدِ انقلاب کی ضوفشانیوں نے پوری مملکتِ ایران کا احصاء کر لیا اور امام خمینی (رہ) نے وطن واپسی کے بعد رہبرِ انقلابِ اسلامی کے طور پر باقاعدہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو مملکت کے آئین کے مطابق سب سے پہلے اپنے آپ کو عدالتِ عظمٰی کے روبرو احتساب کے واسطے پیش کیا۔ دنیا نے یہ دیکھا کہ عدالتِ عالیہ نے امام خمینی (رہ) کے تمام اثاثہ جات کی تفصیلی چھان بین کے بعد انکی فہرست شائع کی جس سے ظاہر ہوا کہ پہلے کی نسبت رہبرِ معظم بننے کے بعد آپکے اثاثوں میں اضافے کی بجائے تخفیف دیکھنے میں آئی۔ آپ کا یہ والا مکان تو آپکی ملکیت رہا، مگر زمین کا وہ قلیل ٹکڑا جو آپکو اپنے والدین کی جانب سے ترکے میں ملا تھا، اسے بھی غریب مؤمنین میں بانٹ چکے تھے جبکہ کہنے کو تو یہ گھر آپکا اپنا تھا، مگر یہ بھی دینی و انقلابی سرگرمیوں کے لئے وقف تھا جہاں دن کے چوبیس گھنٹے طلباء، علماء اور سپاہ اپنے فرائض میں مشغول رہتے۔

امام خمینی (رہ) کی رحلت کے بعد جب آپکے ورثہ کی فہرست جاری ہوئی تو اس میں فقط یہ مکان تھا، جس میں آپکی چند کتب تھیں۔ ضرورت کے چند برتن تھے جو آپکی زوجہ نے خریدے تھے۔ دو پرانے چٹائی نما قالین بھی برآمد ہوئے جنہیں آپ نے دو غریب سادات کو ہبہ کیا ہوا تھا۔ ذاتی نقدی صفر ریال تھی۔ جو تھوڑا بہت پیسہ سامنے آیا، وہ سو فیصد مذہبی و سماجی نوعیت کا چندہ تھا جو ازخود مستحقین کی امانت تھا اور اس رقم کے ایک ایک پیسے کا تمام حساب کتاب درج تھا۔ اسکے علاوہ نوے برس کے سن میں ارتحال کرنے والے اس مردِ قلندر کی ذاتی جائیداد میں ایک عبا تھی، ایک عمامہ تھا، ایک مصلی تھا اور ایک قرآن۔ اسکے ساتھ ساتھ ایک تسبیح بھی تھی اور ذاتی استعمال کی ایک عینک اور ایک ناخن تراش۔ یہ تھا کل اثاثہ ایک ایسے شخص کا جسکی تمام زندگی کروڑوں لوگوں کے دلوں پر حکمرانی میں گزری تھی۔ وہ اس ملک کا رہبر تھا جو تیل و دیگر معدنیات سے مالا مال تھا۔ مگر دراصل امام خمینی (رہ) کا اثاثہ تھا وہ علم و تدبر اور جذبہء جہاد جس سے سرشار خود آپ اور آپکی فوج آتشِ نمرود میں بےخطر کود پڑے اور اسکو ایک ایسے گلزار میں ڈھال دیا جو آج تمام دنیا میں مظلوم اور مسخ شدہ انسانوں کے دماغوں کو انقلاب کی خوشبو سے معطر کر رہا ہے اور انہیں وہ روشنی فراہم کر رہا ہے، جو انکے لئے پیغام نجات ہے۔

حوض کے اس کنارے پر بیٹھے بیٹھے میں تاریخ کا ایک طویل سفر کر گزرا تھا۔ اٹھ کر کمروں کی جانب گیا۔ وہاں بھی مرمت کا کام جاری تھا سو کمرے میں تو کچھ نہ نظر آیا بس اتنا دیکھ پایا کہ کمرے کا حجم اس قدر قلیل تھا کہ دو چارپائیاں ہی اپنے اندر سمو سکتا تھا۔ میں مسکرایا اور یہ سوچتے ہوئے پلٹا کہ فلک بوس اور عریض از بحر محلات میں سونے والوں کا آج نام بھی کسی کو نہیں یاد اور اس چھوٹے سے کمرے میں سونے والا نہیں، بلکہ عابدِ شب گزار تاقیامت عشاق کے دلوں میں اپنے محل تعمیر کرگیا۔ میں زمین کی جانب جھکا اور یک مشت خاک اٹھا کر مٹھی کو ڈھیلا کیا۔ ساری مٹی دوبارہ زمین میں جذب ہو گئی اور ہاتھ پر لگی رہ جانے والی خاک کو میں نے تبرکاً چہرے پر مل لیا۔ سالوں پر محیط تاریخ کا یہ سفر تمام کرکے میں اپنے آپ سے شرمندہ شکستہ قدموں سے باہر کی جانب پلٹا۔ ایک قدم دروازے سے باہر رکھ کر مڑ کر دیکھا اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی روح کی خوشنودی کے لیئے سورۃ فاتحہ کا ہدیہ پیش کیا اور باہر نکل آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 270667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جناب سید قمر رضوی صاحب!
اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ آپ کا یہ کالم پڑھ کر بہت کیف محسوس ہوا۔ خدا کرے ہم امام خمینی رح کے دیے ہوئے اصولوں کو اپنی زندگی میں لاگو کرسکیں جو کہ عین اسلام ہیں۔
Iran, Islamic Republic of
قمر بھائی آپ نے ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر دلوں میں اتر جانے والی تحریر لکھی، آپ نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ اس مردِ قلندر کی ذاتی جائیداد میں ایک عبا تھی، ایک عمامہ تھا، ایک مصلٰی تھا اور ایک قرآن۔ اسکے ساتھ ساتھ ایک تسبیح بھی تھی اور ذاتی استعمال کی ایک عینک اور ایک ناخن تراش۔ یہ تھا کل اثاثہ۔
کیا آج ہم میں سے کو ئی اس قابل ہے کہ جو اپنے آپ کو امام خمینی کا پیرو کہنے کے قابل ہو۔۔۔۔
حافی
United Kingdom
Zinda hae Khomeni Zinda hae
ہماری پیشکش