0
Tuesday 30 Jul 2013 19:39

شہادتِ امیرالمومنین حضرت علی (ع)

شہادتِ امیرالمومنین حضرت علی (ع)

تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
ولایت کا وہ آفتاب جسے شہرِ علم کا در ہونے کا شرف حاصل ہے، 13رجب المرجب کو کعبۃ اللہ میں طلوع ہوا، اور یمین و یسار میں نور کی خیرات بانٹنے لگا۔ آپ (ع) کے والد گرامی حضرت ابو طالب (ع) بن عبدالمطلب تھے۔ آپ (ع) کی والدہ گرامی کا نام فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم بن عبد مناف تھا۔ اہلِ دانش پر پوشیدہ نہیں کہ حضرت علی (ع)کے فضائل و مناقب قالبِ بیان میں نہیں آسکتے، بلکہ ملائکہء سمٰوات بھی آپ کے درجات کا ادراک نہیں کرسکتے۔ حضرت ابنِ عباس (رض) راوی ہیں کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا: ’’اگر تمام دریا سیاہی اور درخت قلم اور انسان کاتب اور جن محاسب بن جائیں تو اے ابوالحسن! تمہارے فضائل نہ شمار ہوسکیں۔‘‘ 

علامہ محمد ابنِ یوسف کنجی شافعی، اپنی کتاب ’’کفائتہ الطالب‘‘ میں جنابِ ابو طالب (ع) کا یہ شعر لکھتے ہیں
سمیتہ بعلی کی یدوم لہ عز العلو فخر العزا دومہ
(میں نے ان کا نام علی اس لیے رکھا تاکہ سربلندی کی عزت ان کے لئے ہمیشہ رہے اور عزت کا فخر ان کو ہمیشہ اپنے ساتھ لئے رہے)۔
تمام تذکرہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت علی (ع)، نبی اکرم (ص) کے بعد اسلامی تاریخ میں ہر اعتبار سے ممتاز و مثالی شخصیت تھے۔ 
حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ
 حضرت علی (ع) اپنے عہد کے روئے زمین پر افضل ترین انسان تھے۔ آپ (ع) بیک وقت شجاع، جنگجو، خطیب، عالم، شاعر، مصنف، ولی، مدبر اور حاکم تھے۔ آپ (ع) کی منصفی، تدبر و فکر، عزم و ارادہ، حکمت و دانشمندی، احکامِ شریعت کی پابندی، فصاحت و بلاغت، اخلاق کی بلندی، دستگیری اور شجاعت و بہادری جیسے اوصافِ حمیدہ کی مثال دینے سے تاریخِ عالم قاصر ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو؟ اس لیے کہ خود نبی اکرم (ص) نے اپنی اولاد کی طرح آپ (ع) کی تربیت فرمائی۔ 

حضرت علی (ع) فرمایا کرتے تھے کہ 
’’میں نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے آپ (ص) کے چہرہء انور کی زیارت کی۔ میں نبوت کی روشنی اپنی آنکھ سے دیکھتا تھا اور رسالت کی خوشبو سونگھتا تھا۔ آپ (ص) ہر دن میرے لیے اپنے اخلاق سے ایک مینارہء نور بلند کرتے تھے۔ دس برس تک آپ (ص) کی گود میں پرورش پائی۔ رسول اللہ (ص) نے مجھے ایسے پالا جیسے ایک پرندہ اپنے بچے کی چونچ میں چونچ ڈال کر خوراک دیتا ہے اور میں نے رسول اللہ (ص) کی ایسے پیروی کی جیسے ایک اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے‘‘
 
حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت علی (ع) کے فضائل کا شمار کرنا ایسا ہی ہے جیسے دریا کے پانی کو مٹھی میں لینا۔ آپ (ع) کی شجاعت و بہادری اور علم و فضل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بدر ہو یا احد، خندق ہو یا خیبر، ہر میدان میں اسلام کی نصرت آپ (ع) کے ہاتھوں ہوئی۔ یوم الخندق میں دشمنِ اسلام عمر و عبدود کو جب آپ (ع) نے قتل کیا تو رسولِ اکرم (ص) نے اس موقع پر ارشاد فرمایا کہ یومِ خندق میں علی ؑ کی ایک ضربت، جن و انس کی عبادات سے افضل ہے۔ 

اسلامی تاریخ کا ایک اور باب قلعہء خیبر ہے۔ جو مسلمان جنگجوؤں سے فتح ہی نہیں ہو رہا تھا، تو نبی اکرم (ص) نے فرمایا کہ ’’یہ علم کل ایسے شخص کو دوں گا جو خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے اور اس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں اور خداوندِ عالم اس کے ہاتھ پر خیبر فتح کرے گا۔‘‘ دوسرے دن اصحاب جمع ہوئے اور تمام کے تمام یہ خواہش رکھتے تھے کہ کہ یہ اعزاز ہمیں نصیب ہو۔ مگر اللہ کے رسول نے فرمایا کہ علی کہاں ہیں؟عرض کیا گیا کہ وہ آشوبِ چشم میں مبتلا ہیں اور اٹھ نہیں سکتے۔ آپ (ص) نے فرمایا انھیں لے آؤ۔ حضرت سلمہ بن اکوع گئے اور حضرت علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر پیغمبرِ اکرم (ص) کے پاس لے آئے۔ رسول اللہ نے آپ کا سر اپنے زانوں پر رکھ کر لعابِ دہن آپ ؑ کی آنکھوں میں ڈالا، اسی وقت آپ ؑ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔ پس علم امیر المومنین ؑ کو دیا گیا۔ آپ (ع) میدانِ جنگ میں تشریف لے گئے اور مرحب و عنتر کو قتل کر دیا۔ پھر قلعہء خیبر کا انتہائی بھاری دروازہ اکھاڑ پھینکا اور اسے خندق پر بطورِ پل استعمال کروا کے تمام مجاہدینِ اسلام کو قلعے کے اندر لے گئے۔ 

حافظ شیرازی خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں
مردی ز کندہء درِ خیبر پرس
اسرارِ کرم ز خواجہٗ قنبر پرس
گر تشنہٗ فیضِ رحمتی اے حافظؔ
سر چشمہ آں ز ساقیء کوثر پرس
غدیر میں آپ (ع) کے حق میں رسالتمآب(ص) نے فرمایا کہ
 ’’جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کا دشمن ہو جا جو علی سے دشمنی کرے اور اس کی مدد فرما جو علی کی مدد کرے اور اس کو چھوڑ دے جو علی کو چھوڑ دے۔‘‘ علی (ع) کو دامادِ رسول (ص) ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اور آپ (ع) کی زوجہ خاتونِ جنت کے لقب سے ممتاز ہوئیں۔ حضرت علی (ع) کو اللہ نے حضرت امام حسن ؑ اور حضرت امام حسین ؑ جیسے فرزند عطا کیے، جنھیں رسول اللہؐ نے جوانانِ جنت کا سردار قرار دیا، اور یہ فضیلت علی (ع) کے علاوہ صبحِ قیامت تک کسی کو نصیب نہ ہوگی۔ 

آپ (ع) کا علم درجہء کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ آپ (ع) کا اعلان تھا کہ ’’مجھ سے پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو، قبل اس کے میں تم میں نہ رہوں، میں زمین سے بہتر آسمانوں کے راز جانتا ہوں۔‘‘ مگر صد حیف کہ دامادِ رسول (ص) کو تریسٹھ سال کی عمر میں شہید کر دیا گیا۔ روایات میں منقول ہے کہ انیسویں رمضان المبارک کی سحر کو عبدالرحمن ابنِ ملجم نامی ایک خارجی نے امیر المومنین حضرت علی(ع) پر اس وقت تلوار کا وار کر دیا جب آپ (ع) حالتِ سجدہ میں تھے۔ ضرب لگی تو آپ (ع) نے فرمایا ’’ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا‘‘ آپ (ع) کی آواز بلند ہوئی کہ یہودی عورت کے بیٹے ابنِ ملجم نے مجھے قتل کر دیا، اسے پکڑ لو۔ اہلِ مسجد نے یہ آواز سنی تو اس ملعون کو ڈھونڈنے لگے۔ لوگوں کی حالت دگرگوں ہوئی۔ پس سب لوگ محراب کی طرف دوڑے، دیکھا کہ آپ (ع) محراب میں گرے پڑے ہیں اور اس آیت کی تلاوت فرما رہے ہیں۔ ’’زمین سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور زمین میں تمھیں پلٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ نکالیں گے‘‘

پھر آپ (ع) نے فرمایا کہ حکمِ خدا آگیا ہے اور رسول اللہ کا فرمان مبارک سچ ہوا۔ لوگوں نے دیکھا کہ آپ (ع) کے چہرہ اور ریش مبارک پر خون جاری ہے اور ریش مبارک خون سے خضاب ہے اور فرما رہے ہیں
’’یہ وہی وعدہ ہے جو خدا اور رسول (ص) نے میرے ساتھ کیا تھا‘‘
جب ابنِ ملجم کو امام حسن (ع) کے سامنے لایا گیا تو حضرت علی(ع) نے حضرت امام حسن (ع) کو وصیت کی کہ ’’اے بیٹا، اپنے قیدی کے ساتھ مدارات و نرمی کرنا اور شفقت و رحمت کا راستہ اختیار کرنا۔‘‘ امام حسن (ع) نے عرض کی، اس ملعون نے آپ (ع) کو زخمی کیا ہے اور ہمارے دلوں کو تکلیف پہنچائی ہے باوجود اس کے آپ (ع)ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اس سے نرمی کریں۔ 

آپ (ع) نے فرمایا ’’اے بیٹا، ہم اہلِ بیت رحمت و بخشش ہیں، پس وہ کھانا اسے کھلانا جو خود کھانا ہے اور وہ اسے پلانا جو خود پینا۔ اگر میں دنیا سے چل بسوں تو اس سے قصاص لینا اور اسے قتل کرنا، لیکن اس کے جسم کو آگ میں نہ جلانا۔ اگر میں زندہ رہا تو میں بہتر جانتا ہوں کہ اس سے کیا سلوک کروں اور میں زیادہ حق رکھتا ہوں کہ اسے معاف کر دوں کیونکہ ہم وہ اہلِ بیت ہیں کہ گنہگار کے ساتھ سوائے عفووکرم کے اور کچھ نہیں کرتے۔‘‘
ابنِ ملجم کے لگائے ہوئے زخم نے آخر کار آپ (ع) کی جان لے لی اور آپ (ع) نے اکیس رمضان المبارک کو جامِ شہادت نوش کیا۔ آپ (ع) کی نمازِ جنازہ حضرت امام حسن (ع)  نے پڑھائی۔ آپ (ع) کا مزارِ اقدس نجف اشرف میں ہے۔
کسے را میسر نہ شد ایں سعادت
بہ کعبہ ولادت، بہ مسجد شہادت

خبر کا کوڈ : 288274
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش