2
0
Saturday 16 Nov 2013 20:57

جنگ کی لکیر کھنچ چکی

جنگ کی لکیر کھنچ چکی
تحریر: یاسر پیرزادہ

محرم الحرام سن ۳۶ ھ، حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ منتخب ہو چکے تھے، خلافت سنبھالنے کے فوراً بعد آپ(ع) نے امیر معاویہ کو شام کی گورنری سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ حضرت سہل بن حُنیف کو گورنر مقرر کیا لیکن آپ کے ان احکامات پر عملدرآمد نہ ہوا اور حضرت سہل بن حُنیف بطور گورنر چارج نہ لے سکے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ امیر معاویہ مسلسل سولہ سترہ برس سے شام کے گورنر تھے اور اس طرح یہ صوبہ ایک طرح سے ان کی ریاست بن چکا تھا، ان حالات کو دیکھتے ہوئے حضرت علی (ع) نے شام پر چڑھائی کی تیاری شروع کردی۔ حضرت علی (ع) نے عراق اور امیر معاویہ نے شام کی جانب سے ایک دوسرے کی طرف پیش قدمی کی، فریقین کا سامنا صفین کے مقام پر ہوا جو فرات کے مغرب میں واقع تھا، اسی لئے اسے جنگ صفین کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے دوران حضرت عمارؓ بن یاسر کی شہادت ہو گئی جس کے بعد گھمسان کا رن پڑا، جب امیر معاویہ کی فوج شکست کے قریب پہنچ گئی تو اس موقع پر ان کی فوج نے قرآن نیزوں پر اٹھا لئے اور کہا کہ ’’اب یہ ہمارے اور تمہارے درمیان حَکَم ہے ۔‘‘ حضرت علی (ع) نے اپنی فوج کو بہت سمجھایا کہ اس چال میں نہ آئو اور جنگ کو فیصلہ کن مرحلے تک پہنچائو مگر پھوٹ پڑ چکی تھی، مجبوراً حضرت علی (ع) کو جنگ بندی کر کے اس بات پر راضی ہونا پڑا کہ طرفین میں سے دو اشخاص کو بطور حَکَم نامزد کیا جائے جو قرآن کے مطابق فیصلہ کریں گے۔(مولانا مودودی، خلافت اور ملوکیت)۔

اس تمام کشمکش کے دوران حضرت علی (ع) کی فوج میں سے ایک گروہ نے اپنے آپ کو علیحدہ کرلیا، یہ لوگ خارجی تھے، جنگ صفین کے دوران انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے تھے اور مطالبہ کیا تھا کہ حضرت علی (ع) امیر معاویہ کی قرآن کو حَکَم بنانے کی پیشکش قبول کرلیں، اور جب حضرت علی (ع) نے ایسا کیا تو انہوں نے آپ (ع) کو (معاذاللہ) گناہگار کہا، اس موقع پر یہ مکالمہ ہوا :’’اے علی، تم اپنے گناہ سے توبہ کرو اور اپنے قول و اقرار سے جو تم نے معاویہ کے ساتھ کیا ہے پھر جائو اور ہمارے ساتھ ہمارے دشمنوں کی طرف لڑنے کو چلو، جب تک ہماری جان باقی ہے ہم ان سے جنگ کریں گے۔‘‘

حضرت علی (ع): ’’میرا یہی قصد تھا لیکن تم نے اس کی مخالفت کی اور اب تو ہم اقرار نامہ لکھ چکے ہیں اس کے خلاف نہیں کر سکتے۔‘‘
خارجی: ’’یہی تو گناہ ہے جس کی بابت ہم توبہ کرنے کو کہتے ہیں ۔‘‘
حضرت علی (ع): ’’یہ گناہ نہیں ہے، یہ رائے لغزش ہے۔‘‘
خارجی: ’’اے علی (ع) اگر تم آدمیوں کے حَکَم کو نہ چھوڑو گے اور توبہ نہ کرو گے تو ہم تم سے محض اللہ کی مرضی حاصل کرنے کو لڑیں گے۔‘‘
حضرت علی (ع): ’’تف ہے تجھ پر، کیا تونے مجھے مردہ سمجھ لیا ہے کہ مجھ پر تو جس قدر چاہے گا دبائو ڈالے گا۔ جا میں اپنے قول سے نہیں پھر سکتا اگرچہ ایسا ہی ہو۔‘‘
یہ سن کر خارجی اٹھے اور لاحکم الاللہ لاحکم الاللہ (کوئی حکم نہیں سوائے اللہ کے حکم کے) چلاتے ہوئے چلے گئے۔ بعد میں مختلف مواقع پر جب خارجیوں نے یہی نعرے لگائے تو آپ (ع) نے اس بارے میں وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا : ’’ اللہ اکبر یہ ایک حق کلمہ ہے لیکن اس سے باطل مراد لیا جا رہا ہے۔‘‘  (تاریخ ابن خلدون)۔

بعد ازاں پے در پے کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ حضرت علی (ع) کو دوبارہ شام پر فوج کشی کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا، آپ نے اس مقصد کے لئے ایک مرتبہ پھر خارجیوں کو دعوت اتحاد دی مگر انہوں نے جواب میں کہا : ’’اگر تم اپنے کافر ہونے کا اقرار کرو اور توبہ کرو (معاذاللہ) تو ہم تمہارے ساتھ ہیں ورنہ ہم تم سے لڑنے کو تیار ہیں۔‘‘ اس جواب سے حضرت علی (ع) کو سخت مایوسی ہوئی تاہم انہوں نے شام پر لشکر کشی کا ارادہ ملتوی نہ کیا۔ اسی دوران خارجیوں کا حضرت عبداللہ بن خباب ؓ(صحابی رسول) سے نہروان کے قریب ٹاکرا ہو گیا، خارجیوں نے ان سے حضرت ابوبکر ؓ اور عمرؓ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ وہ دونوں بہت اچھے تھے۔ پھر حضرت عثمان ؓ کی بابت دریافت کیا، حضرت عبداللہ ؓ نے جواب دیا، وہ شروع سے آخر تک حق پر تھے۔ پھر خارجیوں نے حضرت علیؓ سے متعلق پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ وہ تم لوگوں سے زیادہ اللہ کے حکم کو سمجھنے اور جاننے والے اور دین حق پر چلنے والے ہیں۔ اس پر خوارج جھلا کر بولے ’’تم شخصیت پرستی کرتے ہو اور ان کے کارناموں کی وجہ سے ان کو اچھا کہتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر خارجیوں نے صحابی رسول کو ذبح کر ڈالا اور ان کی بیوی اور تین عورتوں کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔ حضرت علی (ع) تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ کو سخت صدمہ ہوا، آپ (ع) نے تحقیق کے لئے حرث بن مرۃ العبدی کو روانہ کیا، خوارج نے ان کو بھی مار ڈالا۔ اس موقع پر حضرت علی (ع) نے شام کی جنگ ملتوی کر کے فتنہ خوارج سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جنگ نہروان کہلاتی ہے۔ (تاریخ ابن خلدون)۔

حضرت علی (ع) یہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ خون خرابا ہو لہٰذا آپ (ع)نے خارجیوں کو عین جنگ سے پہلے متنبہ کیا: ’’میں تمہیں خبردار کر رہا ہوں کہ تم لوگ اس نہر کے موڑوں اور اس کے نشیب کی ہموار زمینوں پر قتل ہو ہو کر گرے ہوئے ہو گے، اس عالم میں کہ نہ تمہارے پاس اللہ کے سامنے عذر کرنے کے لئے کوئی واضح دلیل ہوگی نہ کوئی روشن ثبوت… تم ایک ایسا گروہ ہو جس کے افراد کے سر عقلوں سے خالی اور فہم و دانش سے عاری ہیں، خدا تمہارا برا کرے، میں نے تمہیں نہ کسی مصیبت میں پھنسایا ہے نہ تمہارا برا چاہا تھا۔‘‘  (نہج البلاغہ ،خطبہ نمبر ـ36)۔ اس کے بعد آپ (ع) نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امان کا جھنڈا دیا، انہوں نے خارجیوں سے کہا کہ تم لوگوں میں سے جو جنگ کئے بغیر اس جھنڈے تلے آ جائے گا اس کے لئے امان ہے۔ یہ سن کر خارجیوں میں سے فردہ بن نوفل اور کچھ  گروہ خوارج کا ساتھ چھوڑ گئے اور یوں ان کی تعداد چار ہزار سے گھٹ کر اٹھائیس سو رہ گئی، عبداللہ بن وہب ان کا سردار تھا۔ حضرت علی (ع) کی فوج پر حملہ کرتے ہوئے ان خارجیوں کا نعرہ تھا: ’’چلو جلدی سے جنت کی طرف چلو‘‘۔ جنگ کا نتیجہ حضرت علی (ع) کی فتح کی صورت میں سامنے آیا۔ (تاریخ طبری)۔

جنگ نہروان سے ہم تین نتائج اخذ کر سکتے ہیں: 
پہلا، جب کوئی فتنہ حد سے بڑھ جائے تو پھر اسے طاقت سے کچلنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا، حضرت علی (ع) نے خوارج سے آخری حد تک مذاکرات سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی، جب آپ (ع) نے دیکھا کہ ان سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں تو بالآخر آپ (ع) نے ان سے فیصلہ کن جنگ کی۔ 
دوسرا، جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہےکہ دشمن کی واضح نشاندہی کی جائے، جو لوگ اس دہشت گردی کی جنگ میں یہ کہتے ہوئے دہشت گردوں کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہیں کہ بہرحال یہ ’’اپنے لوگ‘‘ ہیں اور مسلمان ہیں تو انہیں جان لینا چاہیئے کہ خارجی بھی مسلمان تھے، یہ وہ لوگ تھے جو اپنے سوا ہر کسی کو کافر سمجھتے تھے، ان کی اپنی عبادت کا یہ حال تھا کہ ان کے امیر عبد اللہ بن وہب کا لقب ’’ذو الثفنات‘‘ تھا جس کا مطلب ہے گھٹنوں والا، یہ لقب اس لئے تھا کہ لمبے لمبے سجدے کرنے سے اس کے گھٹنے سیاہ پڑ گئے تھے۔ 
تیسرا سبق یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی (ع) نے خارجیوں کے خلاف جہاد کیا، اسی طرح ہماری فوج اور پولیس کے جوان بھی لڑ رہے ہیں، دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ میں اگر کوئی شہید ہے تو وہ ریاست کا وفادار جوان ہے نہ کہ بےگناہ مسلمانوں کے گلے کاٹنے والا۔ جنگ کی لکیر کھنچ چکی۔ جو لوگ اپنی فوج اور پولیس کے ساتھ نہیں، وہ گلے کاٹنے والوں کے ساتھ کھڑے ہیں!

بشکریہ: روزنامہ جنگ
خبر کا کوڈ : 320708
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

کمال کر دیا یاسر نے۔
yasir peerzada na boht khoob anzad ma nitaja nikala ha.........dashtgardi k khalif hum ko kalmi jehad jari rakhna chahiay
ہماری پیشکش