3
0
Tuesday 19 Nov 2013 01:09

بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، انجام کیا ہوگا؟

بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، انجام کیا ہوگا؟
تحریر: ثاقب اکبر

راولپنڈی کے سانحہ جانکاہ اور پھر اس پر ہونے والے ردعمل نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اس امر پر سوچیں کہ دنیا میں جس انداز سے انتہا پسندی اور پھر دہشت گردی بڑھ رہی ہے اس کے نتیجے میں عالم انسانیت کا انجام آخر کیا ہوگا۔ لاؤڈ سپیکر پر تقریر کرنے والے مولوی صاحب، مسجد کی چھت سے پتھر پھینکنے والے نوجوان اور جلوس سے ردعمل کا اظہار کرنے والے افراد شاید نہیں جانتے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ آخر کار ہمیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔ ان میں تو ممکن ہے زیادہ تر افراد اپنی سطحی مذہبی وابستگی اور جذباتیت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہوں، لیکن دنیا میں جو کچھ مذہب کے نام پر بحیثیت مجموعی ہو رہا ہے وہ سب سطحی اور اتفاقیہ نہیں ہے۔

آئیے سوچتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ راولپنڈی کے سانحہ پر مذہبی راہنماؤں، مدارس کے ذمہ داران، مختلف مسالک کی جماعتوں اور ان سے وابستہ افراد نے کراچی، ملتان، کوہاٹ اور دیگر شہروں میں جو کچھ کیا اور جو بیانات سامنے آئے، کیا وہ سب حقائق سے آگاہی اور حق دوستی کی علامت کہے جاسکتے ہیں۔ سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کس قدر ردعمل فقط مسلکی وابستگی کا اظہار کہلا سکتا ہے اور کس قدر سنجیدہ پند و نصیحت اور اتحاد امت کی درد مندانہ آرزو کہلا سکتا ہے۔ افسوس بعض راہنماؤں نے دھمکیوں کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اس امر پر غور و فکر کریں کہ کیا کہیں ان کی دھمکیاں شدت پسندانہ ردعمل کا باعث تو نہیں بنیں۔ یوں لگتا ہے جیسے فرقہ وارانہ جذباتیت پورے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی پارٹیاں اور میڈیا بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ ان پارٹیوں اور اہل صحافت کی صفوں میں موجود مثبت فکر افراد کی موجودگی سے ہمیں انکار نہیں، لیکن انہی افراد کو اپنے اردگرد موجود فرقہ پرست عناصر پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔

اسی سانحہ کے پس منظر میں ہم نے ان گروہوں اور جماعتوں کے اکابرین کے ردعمل کا بھی جائزہ لیا جو نہ فقط شدت پسندی کا حصہ نہیں ہیں بلکہ وہ شدت پسندی کے مظاہر پر نالاں بھی ہیں، لیکن یہ امر باعث افسوس ہے کہ انھیں جس انداز سے کھل کر سامنے آنا چاہیے تھا اور دہشت گردی نیز انتہا پسندی کا راستہ روکنے کے لیے جس جرات اور فعالیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، ان کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اگر یہ امن پسند اور معتدل گروہ خاموش رہا تو معاشرہ آہستہ آہستہ دو انتہاؤں میں بٹتا رہے گا اور پھر گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جائے گا۔

پاکستان ہی نہیں عالم اسلام میں چند ہفتے پیشتر کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا تھا کہ جیسے شام میں فرقہ وارانہ جنگ جاری ہے۔ عراق میں جاری دہشت گردی کو بھی بہت سے لوگ فرقہ وارانہ عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں اور بھی کئی ملکوں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے جیسے شدت پسند گروہ دنیا میں طاقت حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ 9/11 کے واقعے پر مختلف آراء پیش کی جاتی رہی ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ القاعدہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اب چاہے آپ یہ کہہ لیں کہ القاعدہ سے یہ کام خود کسی اور قوت نے کروایا ہو۔ دنیا میں بہت ساری دہشت گردانہ کارروائیوں کو القاعدہ تسلیم کرچکی ہے۔ مغرب میں ہونے والے چند واقعات سے قطع نظر القاعدہ نے تمام تر کارروائیاں اب تک مسلمان ملکوں میں ہی کی ہیں۔ القاعدہ ایک چھوٹا سا گروہ ہو اور وہ زیر زمین چند کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو کوئی پریشانی کی بات نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی راہنما اور بعض مسلمان حکومتیں ان کے ساتھ اچھے مراسم یا ان کے لیے اچھے جذبات تو نہیں رکھتے۔

ایسا ہی سوال تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں بھی پیدا ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں گذشتہ دنوں گرما گرم بحث نقطہ عروج تک پہنچ چکی ہے۔ کیا طالبان کا تصور اسلام عصری دانش اور تہذیب انسانی کے موجودہ مرحلے سے ہم آہنگ ہے؟ قانون سازی کے لیے آج کا انسان اجتماعی، معاشرتی اور انسانی علوم میں جس قدر پیش رفت کرچکا ہے، کیا طالبان کی قیادت فکری طور پر اس قدر رشد کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟ ماضی میں انھوں نے بعض مذہبی ظواہر کے ساتھ اپنی جس سطح کی شدید وابستگی کا اظہار کیا اور اپنے سے مختلف مسالک کے گروہوں کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا، کیا یہ سب ان کی فکر کے نقطہ اعتدال پر ہونے کی حکایت کرتا ہے؟ شاید ان کے حوالے سے سب سے اہم مسئلہ عالم اسلام میں موجود بعض گروہوں کی ان کے ساتھ شدید قلبی اور فکری وابستگی کا ہے، جس کے اثرات عالم اسلام میں زیادہ وسیع ہوسکتے ہیں۔

مسئلہ عالم اسلام ہی کا نہیں مذہبی شدت پسندی دیگر ادیان اور مذاہب کے ماننے والوں میں بھی فروغ پذیر دکھائی دیتی ہے۔ ہندوستان ہی کو لے لیجیے، جہاں سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو انتہا پسندی کے فروغ کے ذریعے اقتدار میں آنے کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ اگر دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے ملک میں سیاست کا چلن یوں ہو تو پھر مذہبی انتہا پسندی کہاں جا کر دم لے گی۔

عام طور پر دنیا میں بدھ مت کے پیروکاروں کو امن اور شانتی کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن روہنگیا کے مسلمانوں کے خلاف دہشت و بربریت سے کام لے کر انھوں نے نہ فقط اپنی تاریخ کو مسخ کر دیا بلکہ عالمی رائے عامہ کو اپنے بارے میں نئے سرے سے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ برما کے یہ ہولناک حادثات ظاہر کرتے ہیں کہ بدھ مت کے پیروکاروں کے اندر بھی دوسروں کو برداشت نہ کرنے کی کیفیت پروان چڑھ رہی ہے اور یہ سلسلہ اگر مزید پھیلتا چلا گیا تو چین اور مشرق بعید کے اندر موجود بدھ مت کے پیروکاروں کی کثیر تعداد عدم برداشت اور جنون کی کیفیات میں مبتلا ہو جائے گی۔ اقلیتوں کو دبانے کے بعد ان کو آپس میں دست و گریباں کر دے گی۔

اگر اسرائیل کے وجود پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جرمنی میں یہودیوں پر ظلم ڈھا کر ایک یہودی ریاست کے قیام کا جو خواب یہودیوں کو دکھایا گیا، اس کے لیے یہودی مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو انگیخت کیا گیا اور انھیں ابھارا گیا کہ وہ تن من دھن کی بازی لگا کر فلسطین میں ایک یہودی ریاست کو قائم کریں۔ لہذا صدیوں سے اپنے خطوں سے ہجرت کرکے جانے والے یہودی خاندانوں کو آمادہ کیا گیا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں اور مختلف براعظموں سے رخت سفر باندھیں اور یہودی ریاست کے قیام کے لیے’’قربانی‘‘ دیں۔
 اس ریاست کو اسلامی سرزمینوں کے قلب میں خنجر کی طرح سے اتارا گیا اور یہودیوں جنھیں مغرب میں مسیحیوں نے قتل کیا تھا اور جس میں مسلمانوں کا ہرگز کوئی ہاتھ نہ تھا، کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کر دیا گیا اور ایک استعماری و سیاسی ہدف کو یہودی مسلم تنازع کی شکل دے دی گئی اور آج تک اس تنازع کی وجہ سے سرزمین فلسطین لہو لہو ہے۔ اس سارے واقعے کے پس منظر میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ کام ان ریاستوں نے کیا جو سیکولرزم کی دعوے دار ہیں۔

مغربی سرمایہ داری نے اپنے دفاع کے لیے دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ سیکولرزم کے نظریے پر استوار سوشلزم اور کیمونزم کے مقابلے کے لیے انھوں نے مسیحی مسلم اتحاد کا ڈول ڈالا اور مسلمانوں کو دہریت کے مقابلے کا عنوان دے کر اپنے استعماری مقاصد کے لیے استعمال کر لیا اور آج اپنے مقاصد کے لیے بنائے گئے مسلح گروہوں کے ساتھ کہیں آنکھ مچولی، کہیں آویزش اور کہیں دو تہذیبوں کے مابین ٹکراؤ کے عنوان سے بساط سیاست کے مہرے چلے جا رہے ہیں۔

ایسے میں ہم سوچتے ہیں کہ کیا دنیا مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کے نرغے میں آچکی ہے؟ کیا عقیدے اور رائے کی آزادی اور دوسروں کے عقیدے اور رائے کے احترام کی آرزو خاک و خون میں غلطاں ہوجائے گی؟ کیا انسانیت خوفناک تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے؟ کیا کہیں سے کسی امت وسط کا ظہور نہیں ہوگا؟ کیا دنیا میں ایسی قیادت سامنے نہیں آئے گی، جو انسانوں کو ظالم و مظلوم کے عنوان سے دیکھے؟ کیا ایسی لیڈرشپ ظہور نہیں کرے گی جو ہر مسلک اور ہر مذہب اور ہر خطے اور رنگ کے مستضعف کو ہر شکل و ہیئت، ہر علاقے اور خطے، ہر مسلک و مذہب اور ہر رنگ و نسل کے مستکبر سے نجات دلا سکے؟
 
اگرچہ دل سے آہ کے ساتھ یہ آواز آتی ہے’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ لیکن اگر اس کائنات کا کوئی مالک ہے اور اس نے کسی منصوبے کے تحت اس کائنات کو پیدا کیا ہے تو میری ناامیدی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ایمان کے تقاضے یاس و حسرت کی اس کیفیت پر غالب آجاتے ہیں۔ ایک دن ضرور آئے گا جب خون تلوار پر غالب آجائے گا اور حق کا سورج طلوع ہوگا۔ اگرچہ کافروں اور مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔ سوال فقط یہ ہے کہ ہر طرف نفرت اور جنونیت کے بلند بام شعلوں اور دہکتے الاؤں کو بجھانے کے لیے انسانوں کا کتنا خون درکار ہوگا۔
 اقبال یاد آتے ہیں
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
خبر کا کوڈ : 322291
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
Nice one
ماشاءاللہ بہت خوب اور عمدہ
بڑی حیرت کے ساتھ یہ کہنا پڑھ رپا ہے کے ملک خداداد کو توڑنے کی بہت بڑی سازش ہو رہی ہیں۔
میں اپنے دوستوں اور عزیزوں سے گزارش کرتا ہوں کے خدارا ان سازشوں کو بڑھانے کا جزء نہ بنیں!!!!
آپ کا درد دل قابل تحسین ہے۔
ہماری پیشکش