2
0
Sunday 6 Jul 2014 12:55

لشکر امام زمان ؑ آمادہ باش

لشکر امام زمان ؑ آمادہ باش
تحریر: سید اسد عباس تقوی

داعش کو کس نے بنایا، کیسے بنے، کن عقائد کی حامل ہیں، کون ان کی حمایت کرتا ہے، وہ کون سے حالات تھے جس سے داعش وجود میں آئے، یہ سب باتیں قابل تحقیق اور بحث ہیں، تاہم اس وقت یہ امر ایک حقیقت ہے کہ داعش نام کا ایک گروہ اس خطہ زمین پر اپنی نہج کی ایک حکومت تشکیل دے چکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ حکومت مشرق وسطٰی کے عین قلب میں تشکیل دی گئی ہے۔ اس حکومت کے ساتھ ساتھ عراق میں ایک اور ریاست بھی عملی طور پر جنم لے چکی ہے۔ یہ ریاست پہلے ہی نیم خود مختار اتھارٹی کی حامل تھی، تاہم اب ان کا مصمم ارادہ ہے کہ وہ اپنے علاقے میں آزاد ریاست کے لیے ریفرنڈم کروائیں گے۔ یہ دونوں ریاستیں اگرچہ نومولود ہیں، تاہم تاحال انہیں کسی بھی معاشی، انتظامی یا بین الاقوامی مشکل کا سامنا نہیں۔ جب کرد حکومت کو اپنے معاملات چلانے کے لیے تیل کی فروخت کی ضرورت پڑی تو ترکی نے اس کی مدد کی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کردوں سے تیل خریدا۔ اسی طرح امریکہ بہادر کا وزیر خارجہ جب عراق کے دورے پر آیا تو اس نے کردستان کی قیادت سے ملاقات اور ان کی حمایت کو ضروری سمجھا۔ اسرائیل نے بھی کردوں کی آزاد ریاست کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی۔

داعش ظاہری طور پر اگرچہ دنیا سے کٹا ہوا گروہ ہے، تاہم اس گروہ کے پاس بھی وسائل کی کمی نہیں۔ دیر الزور اور رقہ کے اہم معاشی مراکز داعش کے کنڑول میں ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں عرب ممالک سے بھی خطیر مدد ملتی ہے۔ داعش کے ہاتھوں موصل اور تکریت پر قبضے کی داستان کو بغور دیکھا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس خطے کے معاشی، دفاعی اور افرادی وسائل کو بھی ایک سازش کے تحت اس گروہ کی گود میں پھینکا گیا۔ نیٹو کی تربیت یافتہ عراقی فوج اور انتظامیہ کا چند گھنٹوں میں ہتھیار پھینکنا، اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس ریاست کا قیام ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کا آغاز یقیناً داعش کے عراقی امیر ابوبکر البغدادی کی 2005ء میں امریکی قیدکے دوران کیا گیا۔

عراق کے موجودہ حالات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افواج عراق سے اپنا کام ختم کئے بغیر نہیں نکلیں۔ انہوں نے اگرچہ عراق کو ایک نیا آئین دیا، جس کے تحت حکومت کی تشکیل کا فارمولا طے کیا گیا، تاہم انہیں معلوم تھا کہ یہ فارمولا زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ زیر زمین وہ نئے مشرق وسطٰی کی تشکیل کے لیے کام کرتے رہے، جس کے نتائج آج ہمارے سامنے ظہور پذیر ہو رہے ہیں۔ میری نظر میں عرب بہار کا وقوع پذیر ہونا اور چند ہی سالوں میں اس بہار کا خزاں میں بدل جانا بھی نئے مشرق وسطٰی کی تشکیل کے پس منظر میں تھا۔ عرب نوجوان جمہوری طریقے سے حکومت کی تبدیلی کا عمل اور اس عمل کو یرغمال بنانے کا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے۔ مصر، تیونس، لیبیا، الجزائر میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد کوئی بھی عرب نوجوان جمہوری عمل پر یقین کرنے کی غلطی نہیں کرسکتا۔ اس صورتحال میں خلافت کا قیام عرب نوجوانوں بالخصوص سلفی فکر کے حامل افراد کی امیدوں کا مرکز ہے۔

قارئین کرام! خلافت مسلمانوں کے مابین ایک مقدس طرز حکومت ہے، اس طرز حکومت کی رومانوی حیثیت ہے۔ القاعدہ اور اس سے متعلق گروہ بہت عرصے سے اس کے قیام کے لیے کوشاں تھے۔ اس کا ایک تجربہ افغانستان میں کیا گیا جو چند سال کے بعد عالمی جارحیت کا شکار ہوا۔ خلافت کے قیام کا دوسرا تجربہ عراق اور شام میں کیا جا رہا ہے۔ یہ گروہ فی الحال مغرب اور اس کے علاقائی حواریوں کے مقاصد پورے کرتا ہے، اگر مغرب کو اس گروہ سے کوئی حقیقی خطرہ لاحق ہوا یا اس کے خلاف کارروائی کو بہانہ بنانا مقصود ہوا تو یقیناً اس کا انجام بھی افغانستان سے مختلف نہ ہوگا۔

داعش کی جانب سے خلافت کے قیام کے اعلان کو اسلامی دنیا مختلف انداز سے دیکھ رہی ہے۔ القاعدہ کے سابق سربراہ ابو مصعب الزرقاوی کے استاد شیخ ابو محمد المقدسی کا کہنا ہے کہ اسلام میں جائز نہیں کہ کسی مسلمان کا خون بہایا جائے۔ اسی طرح اردن کی حزب تحریر نے اس حکومت کے قیام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس گروہ کے پاس اختیار نہیں کہ وہ خلافت کا اعلان کرے۔ ان کے مطابق اس گروہ کو اندرونی اور بیرونی طور پر کوئی حقیقی تحفظ حاصل نہیں ہے اور جب تک یہ تحفظ حاصل نہ ہو خلافت قائم نہیں کی جاسکتی۔ حزب تحریر کا کہنا ہے کہ داعش کا خلافت کا قیام صرف زبانی عمل ہے، جس میں کوئی حقیقت نہیں۔ یاد رہے کہ حزب التحریر 1953ء سے خلافت اسلامیہ کے قیام کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ قطر میں مقیم معروف عالم دین شیخ زرقاوی کے مطابق اس گروہ نے شرعی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کی جانب سے خلافت اسلامیہ کے قیام کا اعلان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
 
شام میں داعش کے خلاف برسر پیکار ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ دھماکوں، اغواء اور قتل و غارت کی بنیاد پر خلافت کا قیام کسی صورت قابل قبول نہیں، تاہم دوسری طرف بہت سی تنظیمیں اور گروہ داعش کے امیر کی بیعت کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اردن کے ایک شہر میں داعش کے حق میں مظاہرہ کیا گیا۔ بہت سے عالمی شہرت کے حامل افراد اس نومولود حکومت کی مدد کے لیے شام اور عراق کا رخ کر رہے ہیں۔ داعش سے متعلق ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤ نٹس کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ فلوجہ، تکریت، موصل، الانبار، رقہ، دیالیہ کے عوام اس خلافت کے قیام سے خوش ہیں اور اس نئی حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں۔ وہ لوگ جو اس حقیقت کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتے تھے وہ پہلے ہی علاقہ چھوڑ کر اربیل، سامرہ اور عراق کے پرامن علاقوں کی جانب ہجرت کرچکے ہیں۔

داعش نے اپنی حکومت کے قیام کے پہلے ہفتے میں ہی اپنے عقائد کے مطابق عمل شروع کر دیا ہے۔ موصل، تلعفر اور اپنے زیر قبضہ دیگر علاقوں میں داعش نے بہت سے مزارات اور تاریخی مقامات کو منہدم کیا۔ ان مزارات میں خلیفہ ثانی کے پوتے کے علاوہ شیخ ابراھیم، شیخ رفاعی، شیخ فتحی کے مزارات قابل ذکر ہیں۔ داعش نے بہت سے عیسائی گرجوں پر بھی قبضہ کیا اور باقی رہ جانے والی عیسائی آبادی کو جزیہ دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس گروہ کا اگلا ہدف یقیناً سامرہ، بغداد، کربلا اور نجف ہے۔ عراقی افواج اگرچہ مختلف محاذوں پر داعش سے برسر پیکار ہیں اور کئی ایک مقامات پر انہیں کامیابیاں بھی ملی ہیں، تاہم اس فوج کی تربیت اور جنگی تجربہ داعش کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

قارئیں کرام! میری نظر میں امت مسلمہ بالعموم اور ملت عراق بالخصوص اس وقت ایک ایسی جنگ کے دہانے پر ہے، جس سے بچنے کی بہتیری کوشش کی گئی، تاہم زمینی حقائق اس امر کے آئینہ دار ہیں کہ یہ جنگ بدیہی ہے اور امت کے دو احزاب ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہونے والے ہیں۔ ان میں ایک گروہ جارح ہے اور دوسرا دفاع کرنے والا۔ اسلامی تعلیمات کی ایک خاص تشریح کرنے والا یہ گروہ دیگر مسلمانوں کے مدمقابل آکھڑا ہوا ہے۔ یہ گروہ اپنے عقیدے کے خلاف عمل کرنے والے ہر فرد کو مرتد، مشرک اور قابل گردن زدنی سمجھتا ہے۔ اس گروہ کی نظر میں جہاں فرزندان رسول (ص) کے مزارات نعوذ باللہ شرک کے ٹھکانے ہیں، وہیں ان کی نظر میں دیگر اولیائے خدا کے مزارات بھی قابل انہدام ہیں۔ اس گروہ کی دشمنی فقط مزارات اور عبادت خانوں سے نہیں بلکہ یہ اسلام کے دیگر مسالک کو قبول ہی نہیں کرتا اور ان مسالک کے پیروکاروں کی جان، مال اور حرمت کو اپنے لیے مباح تصور کرتا ہے۔ اس گروہ سے نمٹنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مدافعین باہم مجتمع ہوں اور اس گروہ کے خلاف سرحدوں سے ماورا، ایک اتحاد تشکیل دیں، تاکہ ہر محاذ پر ان کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 397644
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Mashallah achi tehrir thi, mujhy aisa laga k ap shia hilal ko arabo ki taraf se khatam karny ki taraf ishara kr rahy hen, kya men sahi sMjha?
شیعہ ہلال کا نظریہ مغرب اور اس کے حواریوں کا وضع کردہ ہے۔ شیعہ بالخصوص انقلاب اسلامی ایران کے بعد چیزوں کو حق و باطل اور ظالم و مظلوم کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔۔۔۔۔ فلسطین اس شیعہ ہلال میں کہیں بھی نہیں آتا، تاہم آج دنیا میں اگر کوئی فلسطینیوں کا حقیقی ہمدرد ہے تو یہی شیعہ ہیں۔ عراق کی جنگ بھی جارح اور مدافع کی جنگ ہے، جس میں شیعہ و سنی کا کوئی مسئلہ نہیں۔
اسد عباس
ہماری پیشکش