0
Friday 23 Jan 2015 18:12

گستاخانہ خاکے مسلمانوں کی دینی بصیرت کا امتحان

گستاخانہ خاکے مسلمانوں کی دینی بصیرت کا امتحان
تحریر: سید محمد سبطین شیرازی

فرانس کے ایک جریدے میں حالیہ گستاخانہ خاکوں کا چھپنا اسلام و مسلمین کے خلاف ایک سازش ہے، اس کے پس پردہ عوامل میں ایک بنیادی عامل خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰیؐ کی ذات باعظمت کو ایک ایسے استہزا کا نشانہ بنانا مقصود ہے جس کے تحت آپؐ کے وقار اور آپ کی حیثیت پر آنچ آئے اور آپ کی مقبولیت کا گراف کم ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ہستی کا نام دنیا میں سب سے زیادہ لیا جاتا ہے، جس کے ساتھ عقیدت رکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، جس پر جان نثار کرنے والے لوگ سب سے زیادہ ہیں، جس کا ذکر دنیا کے گوشے گوشے میں ہو رہا ہے، جو پندرہ سو سال سے مقبول عام ہستی ہے اور انسانوں کی ایک بڑی تعداد کے درمیان آپ کا وجود نقطۂ وحدت ہے، جو اس رسالت کا تسلسل ہے جس پر دنیا کی بیشتر آبادی ایمان رکھتی ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اس طرح کے گستاخانہ خاکے چھاپ کر اس اہمیت کو کم کیا جاسکے۔

اس طرح کی کارروائیوں سے آپؐ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور آپؐ کی ذات کے ساتھ لوگوں کی وابستگی اور گہری ہوگی۔ یہ کیسا آزادی اظہار ہے کہ ایک ایسی ہستی کے نام کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا جائے جس کے لئے کروڑوں دل دھڑکتے ہیں۔ اس عمل کا ایک ردعمل بھی ہوگا کہ مغربی عوام کے بارے میں مشرقی لوگوں کے دلوں میں نفرت بڑھے گی اور وہ خود کو دنیا میں غیر محفوظ سمجھنے لگ جائیں گے، جبکہ مشرق و مغرب کے درمیان دوریاں بڑھتی چلی جائیں گی اور یہ عمل پوری انسانیت کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ بلاشبہ شر کا نتیجہ ہمیشہ شر ہی ہوتا ہے، اس طرح کے اقدامات سے عالمی امن کو نقصان پہنچے گا۔ پوپ فرانسیس صاحب نے کیا خوب جملہ کہا کہ اگر آپ کسی کی ماں کو گالی دیں گے تو پھر اس کی طرف سے بھی مُکے کی توقع رکھیں۔

بلاشبہ وہ لوگ گستاخ رسول ہیں جنھوں نے یہ گستاخانہ خاکے چھاپے، ہم ان کی پرزور مذمت کرتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ کس زمرے میں آئیں گے جو قرآن و حدیث اور سیرت مصطفٰی سے منحرف قرآن و سنت سے جنگ کر رہے ہیں۔ جس طرح ایک بیٹا اگر والدین کی حکم عدولی کرے، اس کا عمل ان کی توہین کا باعث بنے، اپنے کردار کی وجہ سے لوگوں کو اپنے والدین پر انگلی اٹھانے کا موقع فراہم کرے تو وہ گستاخ والدین کہلائے گا اور اسی طرح اگر ایک شخص کسی عدالت کے فیصلے کی حکم عدولی کرے تو اسے توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا جائے گا، بعینہ ہی ایک امتی اگر اپنے نبیؐ کی سیرت سے منحرف ہو، آپؐ کی تعلیمات کے خلاف کمر بستہ ہو، آپؐ کے راستے سے لوگوں کو گمراہ کرے، آپؐ کی بعثت کے ہدف کو پاؤں تلے روندے، وہ مسلمان بھی گستاخ رسول ہی کہلائے گا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کی گستاخی رسولؐ کے خلاف بھی آواز اٹھائی جائے اور ایسے عناصر کو اپنی صفوں سے باہر نکال پھینکا جائے، جو قرآن و سنت اور دین اسلام کے لئے بدنامی کا سبب بن رہے ہیں، کیونکہ مغربی اقوام مسلمانوں کی یہ تصویر پیش کرکے کہ مسلمان دہشت گرد، قاتل اور انسانی اقدار کے دشمن ہیں، ہمارے نبیؐ اور ان کی تعلیمات کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور پھر اس طرح کے خاکے چھاپ کر خود کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ گستاخانہ خاکے ایسے وقت میں چھاپے گئے جب پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے، حکومت، تمام سیاسی جماعتیں، پاک فوج اور عوام ایک پیج پر ہیں، ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے عزم کے ساتھ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اگرچہ بعض مذہبی جماعتیں اس معاملے سے الگ نظر آرہی ہیں لیکن دہشت گردی کے خاتمے کے ایجنڈے پر وہ بھی متفق ہیں، ان کے لئے مسئلہ صرف یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے وہ جس صورت حال کا حصہ رہے ہیں، اب اس سے فوری طور پر باہر آنا ان کے لئے تھوڑا دشوار ہے، لیکن ان دینی جماعتوں کے اندر ایک سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ وہ ماضی سے توبہ کرکے آئندہ کے لئے اپنی سمت درست کرلیں تو یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔

مغربی ممالک ایک طرف دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالتے ہیں تو دوسری جانب جب حکومت پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف اقدام اٹھاتی ہے تو کوئی ایسا سازشی عمل سرانجام دے دیا جاتا ہے، جس سے براہ راست انتہا پسند مذہبی جماعتوں کو موقع ملتا ہے اور وہ دین کے نام پر ملک و ملت کے مفاد میں ہونے والی صورت حال کو خراب کرنے میں متحرک ہوجاتی ہیں، جیسا کہ اس دفعہ گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کے نام پر یہ جماعتیں اپنی افرادی قوت کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج کی آڑ میں اگر بعض انتہا پسند مذہبی جماعتیں اپنے ایجنڈے کی تقویت کے لئے عوام کو بطور ڈھال استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کرتی ہیں تو حکومت کو اس کا ضرور نوٹس لینا چاہیے۔ ان مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں میں دہشت گرد گھس کر ملکی فضا کو خراب کرسکتے ہیں۔

اسلام دین حکمت ہے، اس کا کوئی فعل بھی حکمت و بصیرت سے خالی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، ان مذہبی طالع آزماؤں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں کو مذہبی رنگ دے کر اپنے مفادات کے تکمیل کا کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ حضرت محمد مصطفٰیؐ یا اسلام کی دیگر اہم شخصیات اور اکابرین صرف ان مذہبی جماعتوں کے لئے ہی محترم اور مقدس نہیں اور نہ ہی ان مذہبی جماعتوں کو ان بڑی دینی شخصیات پر اجارہ داری قائم کرنے کا کوئی حق حاصل ہے۔ آج ان گستاخانہ خاکوں کے خلاف ہر مسلمان نفرت اور غم و غصہ رکھتا ہے، جس کی ایک مثال پاکستان کی پارلیمنٹ کے اراکین نے ان خاکوں کے خلاف احتجاج کرکے پیش کی۔ سول سوسائٹی کے افراد بھی سڑکوں پہ آئے، لیکن یہ احتجاج نہایت شائستہ اور پرامن رہا۔ چنانچہ اگر ہم ناموس مصطفٰیؐ کی خاطر احتجاج کرتے ہوئے تمام انسانی اور اخلاقی حدود پھلانگ جاتے ہیں تو یہ سیرت مصطفٰیؐ سے کھلا انحراف ہے۔

سانحہ پشاور کے بعد پاکستان ایک درست سمت پر چل نکلا ہے۔ دہشت گردوں کے حوصلے پست ہوئے ہیں اور پاکستانی عوام احساس عدم تحفظ سے باہر آئے ہیں، یہ اعزاز براہ راست پاک فوج کو جاتا ہے، جس نے پاکستان کو ایک خطرناک صورت حال سے بچا لیا۔ اس لئے افواج پاکستان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، لیکن وہ خطرہ ابھی موجود ہے جو بعض دینی جماعتوں کے زیر اثر عوام اور ان کے فہم دین سے متاثر ان کے کارکنان اور عقیدت مندوں کی صورت میں باقی ہے۔ جن کی سادگی اور حقیقت دین سے عدم شناسی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر اس بات کو دین سمجھتے ہیں جو ان کے راہنما کہیں، چاہے وہ قرآن و سنت کی روح کے منافی ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ ماضی میں توہین رسالت کے مسئلے پر اس قسم کی صورت حال سامنے آئی۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل یا اس طرح کا کوئی ایسا فورم تشکیل دے، جو اس طرح کی غلط فہمیوں اور نام نہاد دینی راہنماؤں کے ذاتی مفادات کے ایجنڈے سے عوام الناس کو چھٹکارا دلا سکے اور مذہبی بیداری اور دین فہمی کے حوالے سے پاکستانی عوام کا وژن بہتر کر سکے، ورنہ یہ انتہا پسند نام نہاد مذہبی گروہ عوام الناس کو اپنے مسلکی اور فرقہ وارانہ ایجنڈے کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے اور سیاست دان ان کے دینی اثر و رسوخ کے خوف سے ان سے صرف نظر کرتے رہیں گے اور اس صورت حال سے اسلام اور پاکستان دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ پہچانے میں کامیاب ہوتی رہیں گی۔
خبر کا کوڈ : 434547
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش