0
Monday 16 Feb 2015 17:57
سانحہ امامیہ مسجد پشاور

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا

یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ابھی تو شکار پور کی مسجد کربلائے معلٰی میں کربلا کے پروانوں کے جسموں کے ٹکڑے اکٹھے کئے جا رہے تھے، ابھی تو چیتھڑوں میں تقسیم کئے گئے ماؤں کے لاڈلے بےحسی کے جنگل میں اپنے خون کا حساب مانگ رہے تھے، ابھی مسجد کربلائے معلٰی کی خون سے رنگین صفوں پر خدا کے مہمانوں کے لہو کا رنگ صاف نہیں ہوا تھا، ابھی تو شکار پور کی مسجد کربلائے معلٰی کے پینسٹھ نمازیوں پر بارود کی بارش کرنے والوں کے چہروں سے نقاب کھینچنا باقی تھا، ابھی تو شکار پور کے گھروں، گلیوں، محلوں سے نوحہ و ماتم اور درد بھرے نالہ و فریاد کی صدائیں نااہل، بےحس اور متعصب حکمرانوں کے اقتدار کی چولیں ہلا رہی تھیں کہ ایک اور قیامت برپا ہو گئی، ایک اور کربلا بنا دی گئی، ایک اور خانہ خدا کو اس کے نمازیوں کے خون سے رنگین کر دیا گیا، بقول شید محسن نقوی
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے


پھر وہی چیخ و پکار، پھر وہی نالہ و فریاد، پھر وہی آہ و بکا، پھر وہی خون آلود صفیں، پھر وہی آگ و بارود کی بارش، پھر وہی سجدہ میں پڑے نمازی اور ابن ملجم کا کنبہ، پھر وہی دردناک کہانیاں، پھر وہی المناک مناظر، پھر وہی غمناک چہرے، پھر وہی بےحس حکمران، بس اگر بدلا ہے تو صرف شہر کا نام، ایک سے منظر میں اگرکچھ تبدیل ہوا ہے تو صرف مسجد کا نام، امامیہ مسجد حیات آباد پشاور اور لکھی شکار پور کی مسجد کربلائے معلٰی، ایک ہی قبیلہ کے لوگوں کو ایک ہی قاتل قبیلہ کے درندوں اور وحشیوں نے اپنے ظلم کا شکار کیا۔ ہاں مگر جو فرق ہے وہ بھی سب جانتے ہیں، سب پہچانتے ہیں کہ قاتل اگر ابن زیاد کے قبیلہ سے ہونے پر فخر کر رہے ہیں تو مقتولوں کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ حسین ابن علی ؑ کے قبیلہ سے ہیں، قاتل امیہ کے چہیتے کہلانے پر نازاں ہیں تو مقتول ابو طالب ؑ کے فرزند علی علیہ السلام کو اپنا امیر المومنین ؑ تسلیم کئے ہوئے ہیں، قاتل یزید ابن معاویہ پر دل جان چھڑکتے ہیں تو مقتول جگر گوشہ رسول حسین ابن علی ؑ کے غمخوار ہونے پر اتراتے ہیں، قاتل اگر مسجدوں کو ویران کرنا چاہتے ہیں تو مقتول خانہ خدا سے آنے والی دعوت نماز پر لبیک کہتے ہیں، قاتل درسگاہوں کو مقتلوں میں بدلنا چاہتے ہیں تو مقتولوں نے علم و عمل کے چراغ جلائے رکھنے کی قسم اٹھائی ہے، قاتل اگر بزدلوں کے ٹولے سے ہے تو مقتول جرات حیدر کرار ؑ کے وارث ہیں۔۔۔!

امامیہ مسجد حیات آباد پشاور میں قاتل چھپ کر آئے، فورسز کی یونیفارمز اور بموں، بندوقوں سے لیس تھے، خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں مگر نمازی خالی ہاتھ تھے، بےسرو سامان تھے، حالت نماز میں تھے، بائیس کی تعداد میں شہید ہو گئے، پچاس زخمی ہوئے مگر ایک اور تاریخ رقم ہوگئی، قاتلوں کی بزدلی عیاں ہو گئی مقتولوں کی بہادری کے قصے مائیں لوریوں کی صورت بچوں کو سنائیں گی، کل شہید اعتزاز حسن کو اعزاز شجاعت و بہادری دیئے جا رہے تھے آج اسی کے قبیلہء سرکش سے تعلق رکھنے والے علی عباس کو جانثاری پر خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جا رہا ہے، موت کو آگے بڑھ کے گلے لگانے کی روایت ہر ایک نہیں دہرا سکتا۔ ہر ایک میں یہ حوصلہ ہمت کہاں، ایسے مواقع پر بڑے بڑے نامور جان بچانے کو ترجیح دیتے ہیں ویسے بھی جہاں یہ قومی سوچ بنا دی گئی ہو کہ خودکش کو روکنا ناممکن ہے وہاں کون خودکش کو گلے لگانے کیلئے آگے بڑھے گا؟ اور اگر کوئی ایسے موقعہ پر یہ جرات مندانہ کردار اداکر گزرے تو وہ تاجور کہلاتا ہے، اسے سلام پیش کرنا چاہیئے، اسے یاد رکھنا چاہیئے، ہم شہید علی عباس آف پاراچنار کو کبھی نہیں بھولیں گے جس نے مکتب کی پیروی کی، جس نے خودکش حملہ آور کو آگے بڑھ کے دبوچ لیا اور اعتزاز حسن ہنگو کی طرح اس کے ارادں کو خاک میں ملا دیا۔ اس کی جرات و شجاعت کے باعث کئی نمازیوں کی جان بچی اور سفاک دہشت گرد اس غیر مقبول روایت کے سامنے آنے پر گھبرا گئے، اصل بات یہ کہ علی عباس شہید نے اس قوم اور ملت کی عزت اور لاج رکھی، ہم اس ماں کے ممنون و شکر گذار ہیں جس نے اس بہادر و جری کو جنم دیا اور راہ خدا میں فدیہ کے لئے تربیت کیا۔
میرے قبیلہء سرکش کا تاجور ہے وہ شخص
بڑھے جو دار کی جانب پیمبروں کی طرح


شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے بہادر سپوتوں کی داستانیں پہلے ہی اس ملک و ملت پر گراں بہاں احسانات کی مانند ہیں، ایسی داستانیں جن کو سن کے انسان حیران و ششدر رہ جاتا ہے، یہ کیا کم ہے کہ پانچ برس تک مسلسل یہ خطہ عالمی دہشت گردوں کی یلغار کا شکار رہا ہے مگر ان کو اتنی بھی کامیابی نہ مل سکی کہ ایک انچ زمین پر قابض ہو جاتے حالانکہ ان لوگوں کی سفاکیت، بہادری اور اسلحہ کی طاقت نیز بڑی تعداد میں جاہل گنوار لڑاکوں کی بہتات کے قصے سنائے جاتے ہیں اور ایسا اس لئے بھی صحیح مان لیا جاتا ہے کہ امریکہ کی افغانستان میں ناکامی، روس کے فرار، نیٹو کی بربادی اور پاکستانی علاقوں میں افواج پاکستان پر ہونے والے پے در پے حملوں میں ہونے والے قیمتی نقصان کی مثالیں سامنے لائی جاتی ہیں، مگر کرم ایجنسی میں ان کی ناکامی کی مثال کوئی بیان نہیں کرتا، یہاں پانچ سال تک ہونے والی طالبان کی لڑائی میں ہزاروں طوری و بنگش اہل تشیع نے طالبان اور ان کے حامیوں کو سخت ہزیمت اور رسوائی سے دوچار کئے رکھا تھا۔

سانحہ حیات آباد پشاور اور سانحہ شکار پور جیسے مزید واقعات کیلئے ہمیں تیار رہنا ہو گا اس لئے کہ ان دہشتگردوں کے اصل سرپرستوں نے اب اس ملک کو میدان جنگ بنانے کی سازش بنا لی ہے۔ شام، عراق میں ان کی جو درگت بنائی گئی ہے اس کے بعد قرائن یہی کہتے ہیں کہ پاک سرمین کے دشمن اس کو میدان بنانے کیلئے بھرپور کوششیں کررہے ہیں، اگر ملکی سلامتی کے اداروں نے اس نکتہ پر توجہ نہ دی تو خدانخواستہ اس ملک کا نقصان ہو گا۔ فرقہ واریت کا کھیل کھیلنے کے عادی اور خواہش مند حکمرانوں کی گود میں بھی موجود ہیں یہ لوگ یقیناً اس سازش کا حصہ ہیں انہیں لگام دیئے بغیر قومی سلامتی کا ایجنڈا مکمل نہیں ہو سکتا نا ہی کسی قومی ایکشن پلان میں کامیابی سمیٹی جا سکتی ہے، عراق میں بھی ان لوگوں نے داعش اور اس کے جیسے دیگر گروہوں کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا جو حکومت میں موثر تھے، بلکہ طارق الہاشمی تو نائب صدر تھا، جو یہ راز سامنے آنے پر بھاگ گیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 440696
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش