1
0
Tuesday 24 Feb 2015 00:40

کیا جنگ گروپ اور خوارج ایک ہیں؟

کیا جنگ گروپ اور خوارج ایک ہیں؟
تحریر: مفتی عثمان نورانی

قارئین کرام! کیا آپ کو حیرت نہ ہوئی کہ جیو اور جنگ گروپ جسے ملک کے آئین و قانون کا پابند ایک نجی ادارہ ہونا چاہیے، ایک ریاست کا کردار ادا کرتے ہوئے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوج کے حریف کے طور پر ابھر کر سامنے آچکا ہے؟ ریاست قانون بناتی ہے کہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کو لگام دی جائے اور جیو، ان کو بلا کر ان کی افکار کو نشر کرتا ہے، جیسے پورا پاکستانی معاشرہ اسی جنگ میں جل رہا ہو۔ جنگ جس کا نام ہی نحوست کی علامت ہے، اپنے نام کے مطابق ملک میں جنگ جیسا ماحول پیدا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ جنگ کوئٹہ میں 23 فروری 2015ء کو شائع ہونے والا آرٹیکل میری نظروں کے سامنے پڑا ہے۔ یہ اخبار اور میڈیا گروپ ملک کو کہاں لے جانا چاہتا ہے۔؟  مقدسات کی توہین ہو، جیو سب سے آگے، فوج کے خلاف ہرزہ سرائی ہو، جیو اور اس کے ملازمین پیش پیش، ہندوستان سے یارانے کی باتیں ہوں، جیو اور جنگ آگے آگے۔ کہاں ہے پیمرا۔؟

کیا اس درندے کو کوئی لگام ڈالنے والا نہیں، ہمارے سکیورٹی ادارے اور مسلح افواج ملک بھر میں جانیں دے رہے ہیں اور جیو اس ملک میں کام کرنے والا ادارہ آزادی اظہار کے نام پر شدت پسندوں اور فرقہ واریت کے سرخیلوں کو ٹی وی پر لاکر ان کے انٹرویوز نشر کر رہا ہے۔ ویسے تو اس نام نہاد صحافتی ادارے نے جب ملک کی اہم سکیورٹی ایجنسی سے الجھنے کی کوشش کی اور اس کے سربراہ کے خلاف گھنٹوں کی نشریات کی، اسی وقت اس ادارے کے ارادوں کا پتہ چل گیا تھا۔ اس ادارے کے کرتوں دھرتوں کے بارے میں اکثر سننے کو ملتا ہے کہ وہ بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، اب تو یہ بات جیسے روز روشن کی طرح واضح ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ملکی اداروں پر حملے، اہم شخصیات کی توہین، مقدسات کی توہین، بھلا کوئی اور چینل ایسی حرکتیں کیوں نہیں کرتا۔؟

قارئین کرام! اس نام نہاد صحافتی ادارے کی حرکات پر ذرا غور فرمایئے، جب اسے محسوس ہوا کہ ابھی میں اس قدر مضبوط نہیں ہوا کہ ملک کی سب سے اہم سکیورٹی ایجنسی کے خلاف ہرزہ سرائی کرسکوں تو اس نے اپنا وطیرہ بدلا اور ملک میں انارکی پھیلانے اور فساد برپا کرنے کی دیگر راہیں تلاش کیں۔ کبھی مقدسات دین پر حملے اور کبھی ریاست کے بنائے ہوئے قوانین کی دھجیاں۔ بغاوت اور بھلا کس کو کہا جائے گا۔ پیمرا کے قوانین سے بغاوت، نیشنل ایکشن پلان سے بغاوت، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بغاوت اور اس سب کے لئے بکاؤ صحافیوں کا استعمال۔

قارئین کرام! کتنے ہی صحافی اس منحوس گروہ کو خیر باد کہ کر دیگر چینلوں کا رخ کرچکے ہیں، لیکن اس منڈی میں بکاؤ مال کی کب کمی ہے، یا صحافیوں کی مجبوری کہیے، اس چینل کو کہیں نہ کہیں سے شہرت کا کوئی پجاری مل جاتا ہے۔ اس دفعہ طلعت حسین کی باری تھی۔ سید طلعت حسین اگر آپ کو یاد ہو فریڈم فلوٹیلا میں محصور رہ جانے والے صحافیوں میں سے ایک ہے۔ اس واقعہ میں اس شخص نے کافی شہرت پائی۔ اچھی صحافتی روایات کا حامل یہ صحافی نہ جانے کیسے ان لوگوں کے چنگل میں پھنس گیا۔ ملک کے سکیورٹی اداروں کو اس کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ طلعت مجبور ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی شخصیت بدل گئی ہو اور اس نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا ہی اپنے لئے مناسب سمجھا ہو۔

جیو والے کہتے ہیں کہ ہم نے یہ پروگرام تکفیری فکر کو ایکسپوز کرنے اور عوام کو اس فکر سے آگاہ کرنے کے لئے کیا، لیکن میرے خیال میں اس ایکسپوزئر میں بہت سے سقم تھے، یا تو طلعت حسین کو حالات و واقعات سے مکمل طور پر انفارم نہیں کیا گیا تھا یا وہ جان بوجھ کر بن رہا تھا۔ ادھورے سوالات، معلومات کی کمی اس پروگرام کی عیاں خصوصیات تھیں۔ ایسے نازک موقع پر جبکہ ملک فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہے، جیو گروپ کی جانب سے موضوع اور شخصیت کا انتخاب میری طرح ہر پاکستانی کے لئے حیران کن تھا۔ یہ تو یوں ہی ہے کہ پولیس چوروں کا صفایا کر رہی ہو اور کوئی ان کو اپنے چینل پر بلا کر صفائی کا موقع دے ڈالے۔

صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لئے پیسے کا بے بہا استعمال کیا گیا ہے، تکفیریت کے حامی بہت اثر و رسوخ کے حامل اور پیسے والے ہیں۔ انھوں نے ہر حربہ آزمانے کے بعد میڈیا کا چینل استعمال کیا اور قوم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے نکال کر فرقہ وارانہ مباحث میں الجھانے کی کوشش کی۔ یہ واقعہ دہشت گردی کے خلاف شروع ہونی والی جنگ کے بعد کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ واقعات کی ایک فہرست ہے، اگر آپ ان کی کڑیاں جوڑتے جائیں تو آپ خود بخود اس ہاتھ تک پہنچ جائیں گے، جو وطن عزیز میں یہ سب کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ملک میں تین امام بارگاہوں پر حملے، دسیوں انسانوں کا قتل، ایک خاص مکتب کی جماعتوں کے اتحاد اور ان کی جانب سے اکیسویں ترمیم نیز فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف اعلان جنگ اور اب میڈیا پر شدت پسندوں کی آمد، کیا یہ سب واقعات جدا جدا واقعات ہیں۔؟

مشرق وسطی کی جانب دیکھئے، وہاں بھی اسی انداز سے آگ جلائی گئی۔ ہم اکیسویں ترمیم کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے، دشمن ایسا نہیں ہے۔ اس کی جنگ کا آغاز تو اسی روز سے شروع ہوا جب اکیسویں ترمیم پر عملدرآمد شروع ہوا۔ یہ تو بھلا ہو ہمارے شیعہ بھائیوں کا ایک ایک روز میں دسیوں جنازے اٹھانے کے باوجود ماتھے پر ذرا سی بھی شکن نہیں لاتے۔ ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاتے، اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کرتے، انتقام کا نعرہ بلند نہیں کرتے، ورنہ دشمن نے ان کو بھڑکانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔

اے اہل سنت! کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے کہ ہم ان پرامن شہریوں کی پشت پر کھڑے ہوں، جو ہمارے ملک کے لئے فوج کے شانہ بشانہ اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ ہم کیوں اجازت دیتے ہیں ایسے گروہوں کو جو مٹھی بھر بھی نہیں ہیں کہ وہ ہماری نمائندگی کریں اور شیعوں کے خلاف کفر کے فتوے لگائیں۔ اے سواد اعظم کے پیروکارو خاموشی جرم ہے۔ ملک اور اس کی مسلح افواج نیز سکیورٹی اداروں کے دشمنوں کو شناخت کرو۔ انھیں اجازت نہ دو کہ وہ تمہاری نمائندگی کرتے ہوئے کسی کے خلاف ہرزہ سرائی کریں۔ آج اسلامیان پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تکفیری گروہ سے اظہار نفرت کرے، جو اہل قبلہ کو کافر قرار دیتا ہے اور ان کے قتل کے فتوے جاری کرتا ہے۔

کیا نواب زادہ محمود آباد شیعہ نہ تھے، جنہوں نے اپنی تمام پونجی پاکستان کے لئے وقف کردی۔ کیا مفتی جعفر حسین اور حافظ کفایت حسین شیعہ نہ تھے، جنہوں نے ملک کے اکتیس سر برآوردہ علماء کے ہمراہ معروف بائیس نکات پر دستخط کئے؟ کیا ہمارے قائد شاہ احمد نورانی انہی شیعوں کے ہمراہ نمازیں ادا نہ کرتے تھے۔؟ ہمیں انصاف کرنے کی ضرورت ہے۔  ڈاکٹر علامہ طاہر القادری سے خواہ کتنے ہی نظریاتی اختلافات ہوں، میں ان کی جرات کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے تکفیریت اور خارجیت کے خلاف ایک جامع فتویٰ مرتب کیا۔ آج بھی علمائے اہل سنت ان کا تعلق خواہ کسی بھی مکتب سے ہو، کی ذمہ داری ہے کہ وہ نکلیں اور مٹھی بھر فسادیوں سے اپنے دین، مذہب اور ملک کو بچائیں۔ خدا ہمیں حق کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خبر کا کوڈ : 442580
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نورسید
Pakistan
یہ پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف سازش ہے
اس کا مقصد پاکستان کے مسلمانوں کو تقسیم کرنا اور خانہ جنگی کروانا ہے۔
۱۔ لال مسجد والوں کا دشمن داعش سفاکوں کی بعیت اور ان کو پاکستان آنے کی دعوت
۲۔ تہذیبوں کی جنگ کو مغربی سازش کے تحت پاکستان درآمد کرنا
۳۔ ملک کو شیعہ و سنی بلاک میں تقیسم کرنا
۴۔ لال مسجد اور لدھیانوی کا مذہب اور ایجنڈا ایک ہے اور ان کا سپورٹڈ سورس بھی ایک ہی ہے۔ مملکت پاکستان کو بھی خانہ جنگی میں تبدیل کرنا ہے
۵۔ ملک میں خانہ جنگی سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر کمزور کرکے ایٹمی حیثیت ختم کروانا ہے۔ اس لئے یہ دشمن کا ایجنڈا ہے کہ ملک کے ۳۰ فیصد عوام کو مشتعل کرنا ہے۔
ہماری پیشکش