4
0
Saturday 4 Apr 2015 01:56

یمن کا حالیہ بحران اور اِسکا پس منظر (1)

یمن کا حالیہ بحران اور اِسکا پس منظر (1)
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com 

یمن کا جغرافیہ اور جیو اسٹریٹیجک اہمیت
سرزمین یمن دنیا کے نقشے پر براعظم ایشیا کے جنوب مغرب اور جزیرۃ العرب و مشرق وسطی کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کی آبادی مسلمان اور تعداد میں لگ بھگ 2 کروڑ 40 لاکھ ہے۔ اس کا رقبہ 527229 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یمن کے مغربی کنارے پر بحر احمر اور جنوبی کنارے پر بحر عرب واقع ہے۔ یمن کے مغربی کنارے پر واقع تنگ بحری راستہ باب المندب جیو اسٹراٹیجی کے اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، اور مشرق وسطٰی سے نکلنے والا تیل اپنی منزل یورپ کے لئے پہلے آبنائے ہرمز (جو ایران اور عمان کے درمیان واقع ہے) سے ہوتا ہوا، اسی تنگ بحری راستے پر پہنچتا ہے اور پھر اگلے مرحلے پر نہر سویز سے نکل کر یورپ کی طرف جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس تنگ بحری راستے سے سالانہ 20,000 بحری جہاز گزرتے ہیں۔ یمن کے شمال میں اس کی 1800 کلو میٹر طویل سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے جبکہ اس کی مشرقی سرحد پر عمان واقع ہے۔ یہاں کی آبادی میں تقریباً 30 فیصد آبادی زیدیہ شیعہ اور 12 فیصد شیعہ اثناء عشری اور اسماعیلی شیعہ مسالک پر مشتمل ہے۔ گویا یمن کی کل آبادی کا تقریباً 40 فیصد شیعہ مسالک پر مشتمل ہے، بقیہ آبادی سنی مسالک پر مشتمل ہے۔ جس میں اکثریت شافعی اہلسنت مسلمانوں کی ہے۔ ملک کی زیادہ تر زیدیہ مسلک کی آبادی شمالی حصے صعدہ میں آباد ہے، جس کی سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے اور سرحد کے اُس پار سعودی عرب کا علاقہ نجران (جو پہلے یمن کا حصہ تھا، نجران اورجا زان کے علاقے پر سعودی عرب نے 1934ء میں قبضہ کیا تھا) ہے، جس کے لگ بھگ 300 دیہاتوں میں بھی شیعہ زیدیہ مسلمان بستے ہیں۔ گویا سرحد کے دونوں اطراف شیعہ زیدیہ مسلک کے لوگ آباد ہیں۔ یمن کی 85فیصد آبادی قبائل کی صورت میں رہتی ہے اور ان کا مسلح رہنا معمول کی بات ہے۔ زیدیہ شیعہ مسلمانوں کی اکثریت کا تعلق حوثی قبائل سے ہے اور یمن پر لگ بھگ ایک ہزار سال تک انہی زیدیہ کی حکومت رہی ہے۔ 

بیداری اسلامی اور یمن کی تحریک:
2011ء میں خطے میں اسلامی بیداری شروع ہوئی اور اس کے نتیجے میں تیونس، مصر اور لیبیا کی حکومتیں گریں، تو یمن میں بھی یمنی عوام صدر علی عبداللہ صالح (جوکہ امریکہ اور سعودی عرب کا پٹھو تھا) کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔ ان مظاہروں میں حوثی شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اہلسنت شافعی مسلمانوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ مظاہرے پر امن تھے اور لاکھوں افراد دارالحکومت صنعا اور صعدہ کی سڑکوں پر بدستور نکل کر ایسی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ دہراتے رہے، جس کی بدعنوانی کی وجہ سے یمنی عوام کی زندگی دوبھر ہو چکی تھی۔ علی عبداللہ صالح ان مظاہروں سے تنگ آ کر فروری 2013ء میں اپنے آقا سعودی عرب روانہ ہوگیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کے نائب عبدالرب منصور ہادی کو عبوری صدر بنا دیا۔ لیکن منصور ہادی نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں پر عمل جاری رکھا اور عوامی مطالبات کو پس پشت ڈال دیا۔ 2014ء کے آخر میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا، جس سے عوامی بے چینی بڑھی۔ اسی دوران وزارت داخلہ اور دفاع کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں القاعدہ جو مغربی یمن میں پچھلے کئی سال سے موجود تھی، اس نے پیش قدمی شروع کر دی۔ ان حالات میں حوثی شیعہ مسلمانوں کی تنظیم انصار اللہ فعال ہوئی اور اس نے دو محاذوں پر کام شروع کیا۔ ایک تو القاعدہ کے خلاف حکومتی سکیورٹی فورسز کو پسپا ہوتا دیکھ کر انصاراللہ کے مجاہدین میدان میں آگئے اور یمن کے دفاع کی جنگ شروع کر دی اور نتیجتاً القاعدہ کو واپس دور افتادہ علاقوں میں دھکیل دیا۔ 

اس عمل کے نتیجے میں یمنی عوام میں یہ شعور بیدار ہوا کہ جس میدان میں ہماری کٹھ پتلی حکومت ناکام ہو گئی ہے، اس میدان میں انصاراللہ یعنی حوثی شیعہ مسلمانوں کی تنظیم نے ملکی دفاع کو یقینی بنایا ہے، ورنہ القاعدہ کے درندے یمن میں بھی وہی داستان رقم کرتے جو شام اور عراق میں آج داعش کے درندے رقم کر رہے ہیں۔ دوسرا حوثی شیعہ عوام نے صفا میں حکومت کے خلاف مظاہروں کو شدید تر کر دیا، چونکہ یمن کے اہلسنت عوام دیکھ چکے تھے کہ القاعدہ کے ناسور کے خلاف حکومتی ناکامی کے بعد انصاراللہ کے جوانوں نے ملکی دفاع کیا ہے لہٰذا ان کا اعتماد بھی انصاراللہ یعنی حوثی تحریک پر بڑھ گیا اور یمن کے اہلسنت عوام بھی ان مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر شامل ہو گئے۔ پھر اس تحریک کے مطالبات بھی عوامی تھے، یعنی کسی موقع پر انہوں نے حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کی بلکہ عوامی مطالبات کو بھرپور طریقے سے اٹھایا۔ ان کے مطالبات یہ تھے۔
۱۔ پٹرول کی قیمت میں اضافے کو واپس لیا جائے
۲۔ چونکہ حکومت بدعنوان ہے لہٰذامستعفی ہواور ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جائے۔
۳۔ قومی مذاکرت کے نتیجے میں ہونے والی سفارشات کی روشنی میں آئینی اصلاحات کی جائیں۔
مندرجہ بالا مطالبات میں سے کوئی مطالبہ بھی مسلکی نہیں تھا بلکہ تمام مطالبات قومی تھے۔ 


یمنی حکومت کی مکمل ناکامی:
شدید ترین مظاہروں کے بعدستمبر 2014ء میں ہونے والے معاہدے میں حکومتی کمیٹی نے یہ تسلیم کیا تھا، کہ ایک مہینے کے اندر اہلیت کی بنیاد پر حکومت قائم کرے گی اور انصاراللہ اور جنوبی یمن کی پر امن تحریک سے سیاسی مشیر مقرر کرے گی۔ اور مشاورت کے ساتھ یمن کے تمام حلقوں کی نمائندگی والی اچھی ساکھ کی حامل کابینہ نامزد کی جائے گی۔ ملک میں قائم ہونے والی دستوری کونسل میں توسیع کی جائے گی اور انتخابی اصلاحات عمل میں لائی جائیں گی۔ لیکن ایک ماہ کی ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد 7 نومبر 2014ء کو منصور ہادی نے تاخیر کے ساتھ 36 رکنی کابینہ کا اعلان کیا تو اس میں جانبدار اور بری ساکھ کے حامل افراد کو وزارتوں کاقلمدان سونپا گیا تھا۔ اس اعلان پر عوامی رد عمل اتنا شدید تھا کہ اگلے ہی روز خود منصور ہادی کی پارٹی نے منصور ہادی کو General Peoples Congress کے جنرل سیکرٹری کے عہدے سے فارغ کر دیا۔ اس 36 رکنی کابینہ میں حوثی مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے صرف 6 وزراء کا کوٹہ مقرر کیا گیا، جبکہ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو 36 رکنی کابینہ میں ان کے 14 سے 15 وزراء ہونے چاہیے تھے۔ دوسری طرف یمن میں شدت پسندوں نے عراق کی طرح یہاں بھی بم دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ نتیجتاً حوثیوں کی قیادت میں دیگر سنی مسلمانوں نے all out جانے کا فیصلہ کیا اور صدارتی محل کا گھیراؤ کر لیا۔ صدر منصور ہادی نے استعفٰی دے دیا اور اپنے محل میں محصور ہو گئے۔ چند روز محاصرے میں رہنے کے بعد حوثیوں نے انہیں فرار کا پراُمن راستہ مہیا کر دیا۔ اب منصور ہادی نے اپنی کابینہ کے ساتھ یمن کے جنوب میں موجود شہر عدن میں پہنچ کر اعلان کیا کہ وہ اپنا استعفٰی واپس لیتے ہیں اور عدن میں متوازی حکومت تشکیل دے دی۔ سعودی عرب سمیت دیگر عرب کٹھ پتلی حکومتوں نے اپنے سفارت خانے صنعا سے عدن منتقل کرلئے۔ اب ملک انتشار کا شکار ہونے لگا۔ 

منصور ہادی کے حمایت یافتہ مسلح جتھے صنعا کی طرف کاروائیاں کرنے لگے اور حکومت نام کی کوئی چیز یمن میں نہ رہی۔ ایسی حالت میں انصار اللہ نے ملکی دفاع کی خاطر فیصلہ کیا کہ وہ ملک کو منصور ہادی (جوکہ قانونی طور پر مستعفی ہوچکے تھے) کے مسلح گروہوں سے آزاد کرائے گی۔ لہٰذا انصار اللہ نے پہلے تعزّ اور پھر عدن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور عملی طور پر یمن کی حکومت خود سنبھال لی۔ انصاراللہ کی پیش قدمی دیکھ کر منصور ہادی اپنے پیشرو کی طرح سعودی عرب کے شہر ریاض فرار ہو گیا۔ اگلے ہی روز سعودی عرب کی قیادت میں GCC کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ منصور ہادی کی درخواست پر ہم یمن پر فضائی حملے شروع کرتے ہیں۔ اس فیصلے کی تائید کے لئے امریکہ سے رابطہ کیا گیا اور تائید ملنے کے بعد واشنگٹن میں مقیم سعودی سفیر نے اپنی پریس کانفرنس بھی اس شہر یعنی اپنے سیاسی قبلہ واشنگٹن میں کی اور حملوں کا اعلان کر دیا۔ اگلے دن سعودی عرب کے 100 جنگی طیارے اور ڈیڑھ لاکھ فوجی یمن کی سرحد پر تعینات کر دئیے گئے اور تقریباً ایک ہفتے سے غریب یمنی عوام پر سعودی اتحاد میں شامل ممالک آگ برسا رہے ہیں۔ اب تک بیسیوں بچے، خواتین، اور عام شہری ان حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ لیکن انصار اللہ کے سربراہ عبدالمالک حوثی نے اعلان کیا ہے کہ وہ سعودی جارحیت سے خوفزدہ نہیں ہو نگے اور اپنی مقاومت اور سرزمین یمن کا دفاع جاری رکھیں گے۔ سعودی جنگی جنون اپنی سفاکیت میں اتنا آگے نکل چکا کہ پناہ گزیں کیمیوں اور فیکٹریوں پر حملہ کرکے نہتے شہریوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 451666
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Rafique Hussain butt
Pakistan
بہت خوب، لیکن یہ واضح نہیں ہوسکا کہ موجودہ حوثی تنظیم انصاراللہ اور اس کی قیادت زیدیہ شیعہ ہے یا اثناء عشری؟؟؟؟ یا دونوں متحد ہیں؟؟؟ اگلی قسط کب آئے گی؟؟؟ مزید یہ کہ سعودی اتحاد کی یمن پر جارحیت کے بعد کیا شافعی مسلمان تحریک میں شامل ہیں یا چھوڑ گئے؟؟؟ ان کا کیا مؤقف ہے؟؟؟ شمالی اور جنوبی یمن کے انضمام اور زیدیہ کے ہزار سالہ دور اقتدار پر تھوڑٰا مفصل بات کریں۔
شکریہ
salman raza
Pakistan
Dear Brother,
The Houthi leader Abdul Malik Houthi is Zaidia Shia. But since the 2006 Israel hizbollah War and later on after the Saudi aggression, they are getting close to Iranian institutions.
The next episode is on the mark.
Shafai Muslims are along with Shia Muslims against the Saudi aggression and they have more close to each other, also to be noted that Shafai muslims have also groups among them and some groups are not with Houthis and they are moving independently.
Regarding the Zaidia Imamat in Yemen its a long topic and various phases in it, and the merger of South and East was in 1990.
Regards
Salman
asad
Pakistan
v good
Ahsan Shah
United Kingdom
Very informative one
ہماری پیشکش