0
Tuesday 28 Apr 2015 12:59

یمن کا عوامی انقلاب اور سلامتی کونسل کی قرارداد

یمن کا عوامی انقلاب اور سلامتی کونسل کی قرارداد
تحریر: سعداللہ زارعی

یمن کے خلاف شروع ہونے والی فوجی جارحیت تین ہفتے کی تباہی مچانے کے بعد عرب ممالک کی جانب سے سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد نمبر 2216 پر منتہی ہوئی۔ خطے کی گذشتہ چند جنگوں کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ان کے اختتام پذیر ہونے کا باعث بنیں۔ یہ قراردادیں اکثر اوقات ایسے مواقع پر منظور کی جاتی رہی ہیں جب فوجی کاروائی اپنے مطلوبہ فوجی اور سیاسی اہداف کے حصول میں ناکامی کا شکار ہو جانے کے بعد بے نتیجہ ہونے کی جانب گامزن ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر لبنان کے خلاف 33 روزہ اسرائیلی جنگ، غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی 22 روزہ، 8 روزہ اور 51 روزہ جنگیں وغیرہ۔ لہذا سیاسی و فوجی تجزیہ نگاران کی نظر میں سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 کی منظوری بذات خود یمن کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں انجام پانے والی فوجی کاروائی کے بے نتیجہ ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

اگرچہ سلامتی کونسل کی "عربی قرارداد" اصل میں انصاراللہ یمن کے خلاف منظور کی گئی ہے لیکن اس میں کافی حد تک احتیاط برتی گئی ہے۔ اس قرارداد میں نہ صرف یمن کی نئی حکومت میں انصاراللہ یمن کی شراکت اور اس کا اسلحہ یا ملٹری ونگ رکھنے کے حق کا انکار نہیں کیا گیا بلکہ ایک طرح سے اسے رسمی طور پر قبول بھی کیا گیا ہے۔ یہ قرارداد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سلامتی کونسل کے اراکین اور اسے پیش کرنے والے عرب ممالک انصاراللہ یمن نامی گروہ کو ایک ناقابل انکار حقیقت سمجھتے ہیں۔ لہذا ان کی جانب سے ایک طرف انصاراللہ یمن کے مرکزی رہنما کا نام بلیک لسٹ میں شامل کئے جانا اور دوسری طرف انہیں قومی مذاکرات اور سیاسی سیٹ اپ میں شرکت کی دعوت دیئے جانے کا اصل مقصد انصاراللہ یمن کو کنٹرول کر کے اسے خاص حدود کے اندر رہنے پر مجبور کرنا ہے۔ سلامتی کونسل سے منظور شدہ قرارداد میں ضمنی طور پر انصاراللہ یمن سے کہا گیا ہے کہ ہم اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ آپ لوگ یمن کے بڑے حصے پر قابض ہیں لیکن ہماری طرف سے آپ کو رسمی طور پر قبول کرنے کی شرط یہ ہے کہ آپ "خلیج تعاون کونسل" کی جانب سے وضع شدہ قواعد و ضوابط کی پیروی کریں اور ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کی پالیسیوں پر نہ چلیں۔

عرب ٹی وی چینلز کی جانب سے ایران کے خلاف شدید ترین پروپیگنڈے کے باوجود اس قرارداد میں واضح یا ڈھکے چھپے الفاظ میں ایران کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قرارداد کا مقصد خلیج تعاون کونسل کی مشکلات کو حل کرنا ہے اور انہیں مزید شدت بخشنے سے پرہیز کی گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگرچہ اس قرارد کو پیش اور منظور کرنے والے ممالک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ یمن کی انقلابی تحریک سب سے زیادہ انقلاب اسلامی ایران سے متاثر ہے، لیکن انہوں نے ایران سے براہ راست ٹکراو سے بچنے کی کوشش کی ہے اور نہ فقط انتہائی محتاطانہ رویہ اپناتے ہوئے ایران کے کردار سے چشم پوشی کی گئی ہے بلکہ نام کا اظہار کئے بغیر ایران سے اپیل کی ہے کہ وہ یمن میں پیدا شدہ بحرانی صورتحال سے نمٹنے میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی مدد کرے۔ جیسا کہ سلامتی کونسل میں اس قرارداد کی منظوری سے ایک روز قبل اس قرارداد کو پیش کرنے میں مرکزی کردار کے حامل ملک اردن کے فرمانروا نے اپنے بیان میں واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا کہ یمن میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اثرورسوخ اور موثر کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا لہذا یمن کے بحران کے حل کیلئے ایران سے گفتگو اور مذاکرات انتہائی ضروری ہیں۔

دوسرا اہم نکتہ یہ کہ اگرچہ اس قرارداد میں مجموعی طور پر یمن میں مطلوبہ سیاسی تبدیلیوں میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کی مدد کو قدردانی کی نظر سے دیکھا گیا ہے لیکن اس میں مخصوص طور پر یمن کے خلاف جاری جنگ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا۔ دوسری طرف اس قرارداد کے بعض حصے میں یمن میں جاری جنگ کے خاتمے پر زور دیا گیا ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنی تین ہفتے کی خاموشی اور یمنی عوام کے خلاف تھونپی گئی جنگ سے چشم پوشی کے باعث سعودی عرب کے جنگی جرائم میں برابر کی شریک تصور کی جاتی ہے اور اس وجہ سے اس کے وجود کا فلسفہ مخدوش ہو چکا ہے، لیکن وہ اس جنگ میں سعودی عرب کی حقیقی مشکل یعنی ایک خودمختار ملک کے خلاف اس کی فوجی جارحیت کا قانونی جواز فراہم کرنے میں بری طرح ناکامی کا شکار رہی ہے، لہذا سلامتی کونسل کی یہ قرارداد یمن کے خلاف سعودی عرب کے جارحانہ اقدامات کو قانونی مدد فراہم نہیں کر سکتی۔

سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی قرارداد میں گذشتہ چند ماہ کے دوران انصاراللہ یمن اور اس کے اتحادی گروہوں کی جانب سے پیش کردہ مطالبات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ قرارداد کی شق نمبر 5 اور 6 میں قومی مذاکرات کے انعقاد، اقوام متحدہ کی ثالثی میں مخالف گروہوں کے درمیان مذاکرات انجام پانے، عبوری حکومت کے قیام اور عام شہریوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ قرارداد نمبر 2216 میں یمن میں سرگرم گروہوں اور جماعتوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم پر زور دینے اور اس ضمن میں فعال کردار ادار کرنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ خلیج تعاون کونسل کے پیش کردہ راہ حل کو محور بنانے، ریاض کو قومی مذاکرات کا مرکز بنانے اور سابق یمنی صدر منصور ہادی کو قانونی صدر کے طور پر قبول کرنے پر بھی تاکید کی گئی ہے۔ جبکہ یمن میں رونما ہونے والی دوسری انقلابی تحریک خلیج تعاون کونسل کی جانب سے پیش کردہ راہ حل کو بے فائدہ قرار دیتی ہے اور سعودی عرب کو یمن کے قومی مذاکرات کی میزبانی کیلئے مناسب نہیں سمجھتی۔ اسی طرح سابق یمنی صدر منصور ہادی کی جانب سے مستعفی ہو جانے اور اس کے بعد عدن فرار کر جانے کے باعث ان کیلئے کسی قانونی حیثیت کی بھی قائل نہیں۔ مزید برآں، یمن کے انقلابی گروہ، سابق صدر منصور ہادی کو ملک کے خلاف جاری جنگی جرائم اور 3000 بے گناہ یمنی عوام کے بہیمانہ قتل میں آل سعود رژیم کا شریک جرم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسی نے سعودی عرب سے یمن کے خلاف فوجی کاروائی کی درخواست کی تھی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 میں نہ صرف یمن میں جاری بحران کا مفید راہ حل پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس ملک میں موجود زمینی حقائق کا انکار کرتے ہوئے یمن کی سیاسی صورتحال کو ستمبر 2014ء کے انقلاب سے پہلے واپس لے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ امر بذات خود اس قرارداد کے ناقابل عمل ہونے کی واضح دلیل ہے۔ قرارداد کا یہ حصہ درحقیقت خلیجی ریاستوں کو قانونی سپورٹ فراہم کرنے کی ایک کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔ یمن کے خلاف فوجی پابندیاں بھی اس قرارداد کا اہم حصہ ہے جو شق نمبر 14، 15، 16 اور 17 میں ذکر ہوئی ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت انصاراللہ یمن، یمنی فوج اور عوامی رضاکار کمیٹیوں کو ہر قسم کے اسلحہ کی فراہمی ممنوع قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح یمن کے ہمسایہ ممالک کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ ہوائی اڈوں یا بندرگاہوں پر ایسے کسی بھی ایسے ہوائی جہاز یا کشتی کو روک کر اس کی تلاشی لے سکتے ہیں جس پر انہیں شک ہو کہ اس میں کسی قسم کا اسلحہ موجود ہے۔ لیکن یمن کے خلاف جاری جنگ میں سعودی عرب کا اصلی مسئلہ جنگ کو آگے بڑھانا، انصاراللہ یمن کو کنٹرول کرنا اور اس تک اسلحہ کی فراہمی کو روکنا نہیں بلکہ جارح آل سعود رژیم کا حقیقی مسئلہ انصاراللہ یمن کے اقدامات کو قومی حمایت اور قانونی جواز حاصل ہونا جبکہ یمن کے خلاف اس کی فوجی کاروائی کا قانونی جواز سے بے بہرہ ہونا ہے۔ لہذا سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 کے اس حصے میں ایک طرف تو انصاراللہ یمن کے داخلی قانونی جواز کو بین الاقوامی قانونی جواز سے متصادم ظاہر کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ انصاراللہ یمن قانونی جواز کے دو اہم پہلووں میں سے ایک پہلو سے محروم ہے لہذا اگر وہ صنعاء میں نئی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کرتی ہے تو اسے کافی حد تک قانونی جواز کے فقدان کی وجہ سے بحران سے روبرو ہونا پڑے گا، اور دوسری طرف سعودی حکام کی جانب سے اقوام متحدہ کے رکن ہمسایہ ملک پر فوجی جارحیت کو "بین الاقوامی قانونی جواز" کا حامل ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی پابندیاں اور بین الاقوامی سطح پر اس سے تعلقات قائم کرنے کو ممنوع قرار دیے جانا ایک طرح سے انصاراللہ یمن کو درپیش ممکنہ سکیورٹی اور تشخصی خطرہ بھی جانا جا سکتا ہے۔ بایں لحاظ کہ اس عربی قرارداد کے ذریعے سلامتی کونسل نے انصاراللہ یمن کے سیاسی تشخص کو تو قبول کیا ہے لیکن اس کے حقیقی تشخص اور اقتدار کی نفی کی ہے۔ سلامتی کونسل نے اس قرارداد کے ذریعے انصاراللہ یمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر وہ اپنے اندر اس قرارداد کے مطابق مطلوبہ تبدیلیاں ایجاد نہیں کرتی تو اس صورت میں اس کے سیاسی تشخص کا بھی انکار کر دیا جائے گا اور اسے اپنے قدرتی حقوق سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یمنی عوام انہیں ممالک کو اپنے مسائل کا اصلی سرچشمہ سمجھتے ہیں جو خود بین الاقوامی قانونی جواز کے دعوے دار بنے پھرتے ہیں۔ یمن کے عوام کی نظر میں خطے سے متعلق امریکی پالیسیاں ہمیشہ سے یمن کے بنیادی حقوق کے انکار پر استوار رہی ہیں۔ اسی طرح 1961ء میں یمن میں سیاسی تبدیلی آنے کے بعد سے خلیج تعاون کونسل اور سعودی عرب کی پالیسی بھی یمنی عوام کو ان کے دریائی، فضائی، زمینی اور خاص طور پر سیاسی حقوق جس کا اہم ترین مصداق اپنی مرضی کے سیاسی نظام کا نفاذ ہے، سے دور کرنے پر مبنی رہی ہے۔ یوں یمن کی عوام کے مطابق امریکہ اور سعودی عرب نے کبھی بھی یمن کے بین الاقوامی قانونی جواز کو قبول نہیں کیا ہے چہ جائیکہ اس وقت یمنی حکومت کے قانونی جواز کو درپیش خطرات کے باعث پریشان ہو جائیں۔ یمنی عوام بخوبی آگاہ ہیں کہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر انہیں درپیش مشکلات کی اصل وجہ ملک کے اندر ایک مقتدر اور عوامی حکومت کا نہ ہونا ہے اور ان مشکلات کا حل بھی ایک مضبوط اور عوامی حکومت کی تشکیل میں ہی مضمر ہے۔ لہذا ان کی پہلی ترجیح بین الاقوامی قانونی جواز کا حصول نہیں بلکہ ایک ایسی باصلاحیت اور طاقتور حکومت کی تشکیل ہے جو داخلی قانونی جواز سے بہرہ مند ہو۔

سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216 میں 2011ء سے 2015ء تک یمن سے متعلق سلامتی کونسل کی دوسری 5 قراردادوں پر عملدرآمد پر بھی زور دیا گیا ہے اور اس طرح ضمنی طور پر اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ان قراردادوں پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے یہ قراردادیں زیادہ موثر ثابت نہیں ہو سکیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلامتی کونسل کی وہ قراردادیں جو زمینی حقائق، دنیا کے ممالک اور اقوام کے حقوق سے متعلق قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منظور کی جاتی ہیں ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ قرارداد نمبر 2216 کی ابتدا میں 24 مارچ 2015ء کو یمن کے سابق صدر منصور ہادی کی جانب سے سلامتی کونسل کے نام لکھے گئے خط کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یمن کے خلاف فوجی کاروائی ایک قانونی درخواست کی بنیاد پر انجام پائی ہے لہذا اسے قانونی جواز حاصل ہے۔ جبکہ تھوڑا سا غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ایک طرف تو پرامن عوامی تحریک کو بیرونی فوجی طاقت کے ذریعے کچلنے کی درخواست بذات خود غیرقانونی ہے اور دوسری طرف جس شخص نے یہ درخواست دی ہے یعنی یمن کے سابق صدر منصور ہادی، وہ خود 22 جنوری 2015ء یعنی سلامتی کونسل کو درخواست دینے سے تقریبا اڑھائی ماہ قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہو چکا تھا۔ یوں سلامتی کونسل کی جانب سے ایسے شخص کی درخواست کو بنیاد بنانا ہی انتہائی نامعقول امر ہے۔

مختصر یہ کہ یمن میں جاری سیاسی تبدیلیوں کا سلسلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے نہ تو رک سکتا ہے اور نہ ہی اپنے صحیح راستے سے منحرف ہوسکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ابھی تک جارح قوتوں کی جانب سے فضائی اور زمینی حملے بھی یمنی عوام کے انقلابی جذبے اور ارادے کو ختم یا کمزور کرنے سے قاصر رہے ہیں اور یمنی عوام مغربی طاقتوں اور ان کی پٹھو حکومتوں کے مجرمانہ اقدامات سے شدید متنفر ہیں۔ یمن کے انقلابی عوام اپنے ہمیشگی مطالبے یعنی ملک میں ایک طاقتور جمہوری سیاسی نظام کے نفاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 457052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش