0
Friday 3 Dec 2010 13:38

امریکی سرپرستی میں وکی لیکس کے روح فرسا انکشافات اور ہماری قیادت

امریکی سرپرستی میں وکی لیکس کے روح فرسا انکشافات اور ہماری قیادت
وکی لیکس کی طرف سے جاری کردہ خفیہ دستاویزات کی مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں،جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملک میں سیاسی بحران حل کرنے کیلئے صدر آصف زرداری کو عہدے سے ہٹانے اور جلاوطن کرنے پر غور کیا تھا۔اس سلسلہ میں سابق امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جنرل کیانی صدر زرداری کو جتنا ناپسند کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ انہیں نواز شریف کے بارے میں بداعتمادی ہے۔
ان خفیہ دستاویزات کے مطابق معزول ججوں کی بحالی کیلئے میاں نواز شریف کی تحریک کے دوران جنرل کیانی نے امریکی سفیر سے مسلسل چار ملاقاتیں کیں اور اشارہ دیا کہ اگر صورتحال مزید خراب ہوئی تو انہیں مجبوراً صدر زرداری کو مستعفی ہونے پر قائل کرنا پڑیگا۔ انہوں نے صدر زرداری کی جگہ اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کو صدر کے منصب پر فائز کرنے اور سید یوسف رضا گیلانی کو بطور وزیراعظم برقرار رکھنے کا عندیہ بھی دیا تھا جبکہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے نومبر 2007ء میں امریکی سفیر کو اپنے عشائیہ میں مدعو کر کے ان پر زور دیا تھا کہ امریکہ انہیں وزیراعظم بننے کیلئے مدد دے۔ 
وکی لیکس کی جاری کردہ ان خفیہ دستاویزات میں سابق امریکی سفیر سے جنرل کیانی کے علاوہ صدر زرداری،میاں نوازشریف،ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا اور متعدد دیگر شخصیات کی ملاقاتوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کے چھ ہفتے بعد صدر زرداری نے این ڈبلیو پیٹرسن سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف پر الزام لگایا تھا کہ وہ جماعت الدعوہ کو پیشگی اطلاع دے چکے ہیں کہ امریکہ اس پر پابندی لگانے والا ہے جس کے باعث جماعت الدعوہ نے اپنے بینک اکائونٹس سے ساری رقوم نکلوالیں۔
یہ طے شدہ امر ہے کہ امریکی نجی ویب ادارے ’’وکی‘‘ نے امریکی دفتر خارجہ اور دیگر محکموں کی ٹاپ سیکرٹ دستاویزات میں موجود جن رازوں سے پردہ اٹھایا ہے وہ امریکی حکام کی آشیرباد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوسکتا تھا جبکہ یہ راز زیادہ تر مسلم ممالک کے سربراہوں،دیگر حکومتی عہدیداروں اور سرکاری حکام سے متعلق ہیں اس لئے ان رازوں کے افشاء کا مقصد مسلمان ممالک میں غلط فہمیاں پیدا کر کے آپس میں لڑانے اور اس صورتحال سے امریکہ کو فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
اسکی تصدیق امریکی افواج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کے اس بیان سے بھی ہو رہی ہے کہ وکی لیکس کی جانب سے معلومات کے افشاء سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ بہتری کیلئے کام کر رہا ہے جبکہ پاکستان میں تعینات نئے امریکی سفیر کیمرون منٹر کا دعویٰ ہے کہ وکی لیکس کی جاری کردہ معلومات سے پاکستان امریکہ تعلقات متاثر نہیں ہونگے۔گویا امریکہ اپنے مقاصد کیلئے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو چاہے جیسے بھی استعمال کرتا اور انہیں ادھیڑتا رہے، ’’مردِ ناداں‘‘ پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ہی رہے گا۔
وکی لیکس کے انکشافات میں جس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں امریکی ڈرون حملوں کی اجازت سمیت ہمارے حکمرانوں کی تابعداری کو فوکس کیا گیا ہے اور ہماری عزت مآب سیاسی حکومتی شخصیات کی حرص و ہوس کو بے نقاب کیا گیا ہے اس پر پوری قوم سخت تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ بعض سیاسی شخصیات سے متعلق انکشافات کی براہ راست یا بالواسطہ تصدیق بھی ہو گئی ہے۔قوم کو بجا طور پر یہ فکر لاحق ہے کہ اپنے اقتدار کے تحفظ یا اپنے اقتدار کی خاطر اسکی نمائندہ سیاسی شخصیات امریکی تابعداری کی جس انتہا تک پہنچتی رہی ہیں،ان سے ملکی اور قومی مفادات کے تحفظ کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ 
وکی لیکس کے انکشافات میں موجود یہ بات اگر درست ہے کہ امریکہ کی خصوصی فورسز القاعدہ اور طالبان کیخلاف کارروائی کیلئے پاکستان میں موجود ہیں جن کے یہاں قیام کا ایک مقصد ڈرون حملوں کیلئے رابطہ کار کے طور پر کام کرنا بھی ہے تو کیا ایک غیرت مند،آزاد، خودمختار اور ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کی قیادتوں کیلئے یہ ڈوب مرنے کا مقام نہیں؟کوئٹہ میں امریکی افواج کی موجودگی کی خبریں تو وکی لیکس کے اجراء سے بھی پہلے آ گئی تھیں،جن کی پاکستانی حکام نے تردید اور امریکی حکام نے اس حوالے سے تصدیق کی کہ جب کسی آپریشن میں معاونت کیلئے ضرورت محسوس ہوتی ہے تو امریکی دستوں کو بھجوایا جاتا ہے۔ 
وکی کے انکشافات کے مطابق پاکستانی فوج نے کمانڈ 11 کور کے لیفٹیننٹ جنرل مسعود اسلم کی درخواست پر امریکی خصوصی فورسز کی تعیناتی کی منظوری دی تھی،جبکہ 2008ء میں وزیر داخلہ رحمان ملک نے ایک اجلاس میں باجوڑ آپریشن کی تکمیل تک ڈرون حملے روکنے کی تجویز پیش کی،جس پر وزیراعظم گیلانی نے اٹل انداز میں جواب دیا کہ ’’یہ حملے جاری رہتے ہیں تو بھی مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ہم قومی اسمبلی میں احتجاج کرینگے اور پھر اسے نظرانداز کر دینگے‘‘۔
ڈرون حملوں پر متعلقہ حکومتی سرکاری حکام کی جانب سے جو رسمی ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے اور ان حملوں کو روک نہ پانے کی مجبوری ظاہر کی جاتی ہے،اس سے وزیراعظم سے منسوب وکی کے انکشافات کی ہی تصدیق ہوتی ہے جبکہ خود امریکی حکام بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈرون حملے پاکستانی سرزمین سے حکومت پاکستان کی منظوری سے ہو رہے ہیں۔
وکی کی جاری کردہ امریکی دستاویزات میں موجود اس انکشاف پر تو ہماری عسکری قیادتوں کو بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ اگر بھارت پاکستان کو ممبئی حملوں کی سزا دینے کیلئے اپنی کولڈ سٹارٹ کی پالیسی پر عمل کرتا ہے تو اسکے نتیجے میں ہیروشیما،ناگاساکی کے بعد پہلی مرتبہ جوہری بم کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔سابق بھارتی آرمی چیف دیپک کپور پہلے ہی یہ دعویٰ کرچکے تھے کہ بھارت اپنی ایٹمی جنگی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسلام آباد اور بیجنگ کو 96 گھنٹے میں بیک وقت ٹوپل کر سکتا ہے۔
ہمارے حکومتی اور عسکری قائدین کو وسیع تر قومی اور ملکی مفادات میں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ اگر ہم اپنی عسکری قوت اور وسائل امریکی مفادات کی جنگ میں اپنے ہی شہریوں کیخلاف استعمال کر کے ضائع کرتے رہیں گے تو چاروں جانب سے خطرات میں گھرے پاکستان کے دفاع کے تقاضے کیسے پورے ہوپائینگے۔ 
باوصف اسکے کہ امریکی ویب ادارے وکی نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی درپردہ سیاسی امور میں مداخلت کی سچی جھوٹی کہانیاں بیان کی ہیں،وہ بطور آرمی چیف اپنی دوسری ٹرم کے آغاز پر بھی ایک پروفیشنل جرنیل کی حیثیت سے فوج کو سول معاملات سے دور رکھنے اور سیاسی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت سے گریز کے عزم کا اعادہ کر چکے ہیں،اس لئے ملکی اور قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی توجہ صرف اور صرف دفاع وطن پر ہی مرکوز ہونی چاہئے اور بے شک وہ آئینی طور پر سول حکومت کے احکام کی تعمیل کے پابند ہیں،مگر امریکہ،بھارت اور اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کی جانب سے ملک کی سالمیت اور اس کے ایٹمی پروگرام کو لاحق خطرات کی روشنی میں کیا ڈرون حملوں اور ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے نیٹو ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کا فوری اور موثر جواب دینا اور بروقت توڑ کرنا ضروری نہیں؟اور اپنے ہی علاقوں میں فوجی آپریشن جاری رکھنا اور اسے وسعت دینے کا سوچنا کیوں ضروری ہے جبکہ امریکی مفادات کی اس جنگ میں ہم اپنے ہزاروں شہریوں کی قیمتی جانوں سے ہی محروم نہیں ہوئے،ملکی معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا بیٹھے ہیں۔
 اس موقع پر تو سیاسی،حکومتی اور عسکری قیادتوں کو باہم مل بیٹھ کر دفاع وطن کی ٹھوس پالیسی مرتب کرنی اور قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا سازگار بنانی چاہئے،چہ جائیکہ ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل اور جاہ و حشمت کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے اور اسے ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے والی مسلم دشمن طاغوتی طاقتوں کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کا موقع فراہم کیا جائے۔
وکی کی جانب سے بے شک یہ راز امریکی مفادات کے تابع ہی افشا کئے گئے ہیں،تاہم ہمارے حکمرانوں،سیاستدانوں اور عسکری قائدین کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئے ماضی میں جو ہو چکا سو ہو چکا۔ہماری محترم قیادتیں اب ہی سنبھل جائیں اور ان غلطیوں کا اعادہ نہ کریں جو سسٹم کیلئے ہی نہیں،ملک کیلئے بھی ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنتی رہی ہیں۔
"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 45789
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش