1
0
Thursday 14 May 2015 13:34

یمن پر حملہ۔۔۔باغی کون؟

تصویر کا ایک رُخ یہ بھی ہے
یمن پر حملہ۔۔۔باغی کون؟
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

یمن اس معمورۂ کائنات پر آباد قدیم ترین تہذیب کا مظہر خطہ ہے۔ یمن کے مقام و مرتبہ کا قرآن حکیم میں ذکر کیا گیا ہے۔ ’’بلدۃ طیبۃ‘‘ یمن کے بارے میں ہی فرمایا گیا ہے۔ قدیم عرب یمن کے باشندے تھے۔ یمن سے ہی حمیری تہذیب نے جنم لیا ہے۔ قحطانی قبائل یمن سے ہی تعلق رکھتے تھے۔ عہد رسالت مآبؐ میں آجائیں تو یمن کے لئے حضور اکرمؐ کی خصوصی دعائیں ملتی ہیں۔ حضرت اویس قرنیؑ کا تعلق یمن سے ہی تھا جنھیں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مقام دیا تھا کہ صحابہؓ سے فرمایا تھا کہ جب اویس قرنیؓ سے ملاقات ہو تو ان سے امت محمدیہؐ کی بخشش کی دعا کی درخواست کی جائے۔ یمن کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس معمورۂ کائنات کا پہلا ڈیم "مآرب" انھوں نے ہی بنایا تھا۔

حضورؐ نے یمن کے لئے حضرت علیؓ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ یمنی اسلام کے اولین عہد سے ہی خصوصی طور پر خانوادۂ رسولؐ سے گہری عقیدت کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ خانوادۂ رسولؐ سے تعلق ہی کے باعث وہ حضرت امام زید بن علی رضی اللہ عنہ کے عقیدت مند بنے اور زیدیہ کہلائے، لیکن باقی اہل تشیع سے مختلف۔ وہ حضرت علیؓ کو افضل ترین صحابئ رسول مانتے ہیں لیکن دیگر صحابہ کرامؓ سے بھی گہری محبت رکھتے ہیں۔ وہ حضرت علیؓ کے عقیدت مند اور دیگر صحابہ کرامؓ کے در اقدس کے خوشہ چین ہیں۔ وہ لغوی معنوں میں شیعہ ہیں، لیکن درحقیقت اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، عربی زبان میں شیعہ کا مطلب حمایتی ہوتا ہے۔ گذشتہ 900 سال سے یمن پر زیدیہ کی حکومت چلی آرہی ہے۔ اس لئے کہ ان میں اور عام مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فقہی امور میں زیدیہ بھی حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے پیروکار ہیں۔

حوثی کون ہیں؟
یمن کے قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام حوثی ہے، جن کی اکثریت مذہب زیدیہ کی پیروکار ہے۔ مختلف حکومتوں کے ادوار میں حوثیوں کو بحیثیت مجموعی پسماندہ رکھا گیا ہے۔ بلاشبہ حکمرانوں میں سے کئی ایک زیدی رہے، لیکن حوثی قبائل کی حالت نہ بدلی، حتی کہ علی عبداللہ صالح کے دور حکومت میں ہی حوثیوں کے سربراہ سید حسین بدرالدین الحوثی کو حکومت کے اہل کاروں نے قتل کر دیا۔ حوثیوں میں شدید احساس محرومی پایا جاتا تھا، اس سے نجات کے لیے انھوں نے پہلے شباب المومنین اور پھر انصاراللہ نام کی تنظیمیں قائم کیں۔ بدرالدین الحوثی کے بیٹے نے انصار اللہ کی بنیاد رکھی اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی راہ اپنائی۔ یمن پر علی عبداللہ صالح کے بعد ہادی منصور حکمرانی کرنے لگے، حالانکہ ان کی ذمہ داری آزادانہ انتخابات کا انعقاد تھا۔

ہادی منصور اپنی مقررہ مدت میں انتخابات نہ کروا سکے اور اپنے آپ کو یمن کے عوام کی قسمت کا مالک خیال کرنے لگے۔ اس سے عوام میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی۔ انصاراللہ کی اسی تحریک کو بغاوت کا نام دیا گیا۔ ہادی منصور نے ریاض میں پناہ لے لی اور دس عرب ممالک کی مشترکہ فضائی کارروائی میں یمن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ یمن پہلے ہی غربت کی عالمی لکیر سے بھی نیچے تھا۔ عرب ممالک کے حملے نے ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والی بات کی۔ فضائی حملوں میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ ہزاروں زخمی ہوگئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ یہی کہ عرب ممالک کی مشترکہ افواج کو آگے بڑھنے کے لیے پاکستان اور ترکی سے درخواست کرنا پڑی۔ اس لیے کہ یمنی عوام مظلوم ہیں اور ظالم ہمیشہ مظلوم سے ڈرتا رہتا ہے۔ اس کا مظاہرہ دنیا کے کئی ممالک میں ہوچکا ہے۔

1945ء میں امریکا نے جاپان کو ایٹم بموں سے تباہ کر دیا، لیکن اب تک اسے آزاد نہیں کیا۔ وہاں اپنی فوج رکھی ہوئی ہے۔ کیوبا ایک چھوٹا سا ملک ہے، وہاں مداخلت کا امریکا نے ہر حربہ آزمایا، ملک پر حملے کی کوششیں بھی کی، لیکن کیوبا کے عوام سے شکست فاش کھائی۔ افغانستان اور عراق کی مثال بھی ہمارے سامنے ہیں۔ لبنان اور غزہ کو اسرائیل نے بموں سے چھلنی کر ڈالا، لیکن مظلوم کے آگے اس کی ایک نہ چل سکی۔ لبنان اور غزہ آج بھی موجود ہیں۔ کشمیر کو لیجیے۔ بھارت کی سات لاکھ مسلح فوج وہاں موجود ہے، لیکن کشمیری پھر بھی زندہ ہیں۔ مظلوم ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ ظالم تباہ ہوجاتا ہے۔

یمن پر سعودی عرب کی قیادت میں حملہ کیا گیا۔ مشورہ کس نے دیا ہوگا؟ پوری دنیا اچھی طرح جانتی ہے۔ پہلے حوثیوں کی تحریک کو یمنی عوام سے الگ دکھایا گیا۔ پھر حوثیوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا گیا۔ عالم اسلام کو سنی اور شیعہ بلاکوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کو یہ راہ دکھائی گئی کہ وہ دو غیر عرب ممالک ترکی اور پاکستان سے فوجی امداد طلب کریں، تاکہ دنیا کو باور کرایا جاسکے کہ سنی اور شیعہ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان اور ترکی دھوکے میں نہ آئے، بلکہ الٹا وہ غیر جانبدار ہوگئے تو یمن پر حملہ کرنے والے بلاک میں شامل عرب ممالک مایوس ہونے لگے۔ متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر خارجہ اور اسلام آباد میں مقیم سعودی سفیر کے دھمکی آمیز بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ امریکا نے یہ سب کچھ کیوں کروایا؟ تاکہ اسرائیل مضبوط ہوجائے اور ایران جوہری معاہدے سے روگردانی نہ کرسکے اور امریکا اور اس کے اتحادی معاہدے سے ایران کے دانت نکال سکیں۔

کیا سعودی عرب یمن پر قبضہ کرلے گا؟
پوری دنیا کے تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ قبضہ تو دور کی بات ہے، خود سعودی عرب کئی خطوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ سعودی عرب دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ سعودی پائلٹوں کو قیمتی کاریں دی جا رہی ہیں کہ وہ بمباری جاری رکھیں۔ سعودی عرب کی فوج کو ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دی گئی ہے کہ وہ زمینی کارروائی کرے، لیکن جرأت کہاں سے آئے گی؟ بمباری کرنا آسان کام ہے، زمین پر لڑنا دوسرا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی اور پاکستان سے فوج کی بھیک مانگی جا رہی ہے، لیکن کیا مانگے تانگے کی فوج بھی لڑ سکتی ہے؟

سعودی عرب کے اندر اقتدار کی کشمکش
گذشتہ کئی سالوں سے سعودی عرب کے شاہی خاندان میں اقتدار کی کشمکش جاری ہے۔ سعودی شاہی خاندان 21ویں صدی کی دنیا میں پتھر کے دور کے طرز حکمرانی پر عمل پیرا ہے۔ ملک میں عوامی نمائندگی نام کی کوئی شے نہیں۔ پورا ملک جیل خانہ بنا ہوا ہے۔ سعودی شاہی خاندان خادم حرمین شریفین کے نام سے عوام کی دولت کو لوٹ رہا ہے بلکہ عالمی سامراج کے لیے ملکی وسائل کے منہ کھولے ہوئے ہیں۔ پیرس اور مونٹی کارلو میں جواخانے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے افراد کے پیسے سے چل رہے ہیں۔ خادم حرمین شریفین کے نام سے پوری مسلم دنیا کو دھوکا دیا جاتا ہے۔ ان اعلٰی حضرت نے عراق کو تباہ کروایا۔ افغانستان پر حملہ کروایا۔ شام اور عراق میں القاعدہ اور داعش کو مدد دی۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں بدترین قسم کی منافرت کی فضا کو جنم دیا اور سنی شیعہ تقسیم کو گہرا کیا۔

یہ کیسے خادم حرمین ہیں؟ کیا انھوں نے کبھی اسرائیل پر ایک گولی بھی چلائی؟ 1967ء سے پہلے یہ جمال عبدالناصر کے خلاف استعمال ہوئے اور ایک مذہبی تنظیم کو استعمال کرکے مصر کو کمزور کیا۔ اسرائیل نے 1967ء میں مسجد اقصٰی، جی ہاں مسلمانوں کے قبلۂ اول پر قبضہ کر لیا اور سعودی حکمران ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ایک استثنٰی شاہ فیصل کی صورت میں نمودار ہوا تو اسے اپنے بھتیجے کے ذریعے شہید کروا دیا گیا اور لیاقت علی خان کے قاتل سعید اکبر کی طرح شاہ فیصلؒ کے قاتل کو بھی منظر سے غائب کر دیا گیا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اصل سازش کیا تھی؟ شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد جس شخصیت کو ولی عہد مقرر کیا گیا تھا، یمن کی صورت حال کے پس منظر میں اسے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ شاہ فیصل کے فرزند سعود الفیصل کو وزیر خارجہ کے عہدے سے ہٹا کر امریکا میں سعودی سفیر عادل الجبیر کو سعودی عرب کا وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔ یہ خادم حرمین نے خود کیا۔ رہ گئے عوام تو ان کی کیا حیثیت ہے؟ ان کا کام سمع و طاعت کے سوا کچھ نہیں۔ جی ہاں، سعودی شاہی خاندان کے بیانات میں کہا جاتا ہے کہ بیعت توڑنے والوں کو کڑی سزا دی جائے گی۔ سمع و طاعت سے سرتابی نہیں کی جاسکتی۔

لیکن یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟
یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک سعودی عرب سے تیل نکلتا رہے گا۔ اگر وہاں جمہوریت آجائے تو عوام اپنے مال کی چوری پر سوال کرسکتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کی پارلیمینٹ نے یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہنے کی قرارداد منظور کر ڈالی۔ اگر سعودی عرب میں پارلیمینٹ ہو تو وہ رخنہ ڈال سکتی ہے۔ امریکا کو دنیا بھر میں جمہوریت عزیز ہے لیکن عرب ممالک خصوصاً تیل والے ممالک میں نہیں، اس لیے کہ پارلیمینٹ چوری کو روکنے کی کوئی کوششیں کر سکتی ہے۔

الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔اصل باغی کون ہے؟
سعودی عرب کی قیادت میں یمن پر حملہ کرنے والے ممالک مسلسل حوثیوں کو باغی قرار دے رہے ہیں۔ یہ تو دراصل الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات ہوئی۔ حوثی یمن پر مسلط حکومت کے خلاف نکلے اور ہادی منصور کو نکال باہر کیا۔ یہ بغاوت کیسے ہوگئی؟ انھوں نے سعودی عرب کی جانب ایک فائر بھی نہیں کیا۔ وہ حرمین شریفین پر حملے کے مرتکب کیسے ہوئے؟ یمنیوں خصوصاً حوثیوں کے پاس اتنی طاقت کہاں کہ وہ سعودی عرب جیسے ملک پر حملہ کرسکیں، جس کے پاس 70 ارب ڈالر کا جدید ترین اسلحہ موجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سعودی عرب کے حکمران عقل اور جرأت دونوں سے ’’پاک‘‘ ہیں۔ وہ عقل مند ہوتے تو اپنی دولت یوں تباہ نہ کرتے۔ وہ عقل مند ہوتے تو اپنے ہمسایہ ملک کو یوں تباہ کرکے اپنے لیے جگ ہنسائی کی راہ نہ ہموار کرتے اور اگر جرأت مند ہوتے تو امریکا کی انگیخت اور شرارت کے آگے ڈٹ جاتے۔ وہ جرأت مند ہوتے تو اپنی فوج پر بھروسہ کرتے اور پاکستان اور ترکی سے فوج نہ مانگتے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب کی اپنی فوج اگر کہیں ہے تو اس میں 30 فیصد یمنی شامل ہیں۔ وہ زمین پر یمنی قبائل کے خلاف کارروائی کیسے کریں گے؟ یہی تو وہ خوف ہے جو سعودی عرب کے حکمران طبقے کو کھائے جا رہا ہے۔

عثمانی خلافت کو کس نے ختم کیا تھا؟
خلافت مسلمانوں کے اجتماعی شعور کا نام ہے۔ خلیفہ سے مسلمانوں کا تعلق ہمیشہ اس لیے رہا ہے کہ بہرحال اس کے ذریعے اجتماعی شعور کی عکاسی ہوتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے نام سے دنیا میں ایک خلیفہ موجود تھا۔ چاہے کمزور سہی ایک خلافت موجود تھی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اور بعد میں ترکی میں قائم عثمانی خلافت کے خلاف عالمی سازشیں ہوئیں اور کرنل لارنس آف عربیہ نے عرب قومیت کے نعرے کو ہوا دے کر عربوں کو ترکوں کے بالمقابل کھڑا کر دیا۔ شریفِ مکہ کو خلیفہ بنانے کا لالچ دیا گیا اور مکہ و مدینہ میں ترکوں کو ذبح کر دیا گیا۔ شریف مکہ کو تو حکومت نہ مل سکی، البتہ سعودی شاہی خاندان کو سامنے لایا گیا، جس نے موجودہ سعودی عرب کی صورت میں ایک مملکت قائم کی۔ اردگرد کے علاقوں میں امارات عربیۃ، کویت، بحرین، قطر، اومان طرز کی حکومتیں قائم کی گئیں اور وہاں سامراجی اڈے بنا دیئے گئے۔ جی ہاں۔ اندھا بھی یہ دیکھ سکتا ہے اور عام آدمی بھی یہ جان سکتا ہے کہ خلیج کے ممالک کی حیثیت کیا ہے۔؟

موجودہ ایران سے کیا جھگڑا ہے؟
1979ء سے قبل ایران پر امریکی پٹھو رضا شاہ پہلوی کی حکومت قائم تھی، جو امریکا کے لیے خطے میں ایک پولیس مین کا کردار ادا کرتی تھی۔ ایرانیوں نے انقلاب کے ذریعے اس حکومت کو ختم کر دیا تو امریکا اور اس کے تمام اتحادی ناراض ہوگئے۔ وہ دن اور آج کا دن، وہ خواب میں بھی ایرانی عوام سے ڈرتے ہیں۔ امریکا کئی بار ایرانی عوام سے ٹکرا چکا ہے اور ہمیشہ منہ کی کھائی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایرانی عوام اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور حکمران اور عوام ایک ہیں۔ اس کی مثال پہلے بھی دی ہے کہ کیوبا کی صورت میں چھوٹا سا ملک امریکا سے صرف 90 کلو میٹر دور رہ کر بھی برقرار ہے۔ اس لیے کہ کیوبا کے حکمران اور عوام ایک ہیں۔ جب حکمران اور عوام ایک ہوں تو انھیں شکست نہیں دی جاسکتی۔ چین 1949ء میں آزاد ہوا۔ عوام چیئرمین ماؤ سے شدید محبت کرتے تھے۔ امریکا نے کئی بار رخنہ ڈالنے کی کوششیں کیں لیکن چین مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ چینی عوام اور حکمران ایک تھے اور اب تک ایک ہیں۔ 1965ء میں پاکستانی عوام متحد تھے تو بھارت کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔ 1971ء میں عوام ایک نہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان دولخت ہوگیا تھا۔ اس ساری بحث سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ایرانی عوام کے اتحاد کے باعث امریکا کو نقصان ہوا۔ اب وہ ایران سے اس نقصان کا بدلہ لینا چاہتا ہے اور اسے علاقائی مسائل میں الجھا رہا ہے۔

امام کعبہ۔۔۔لیکن کس کے؟
حال ہی میں خانہ کعبہ کے امام کے نام سے معروف ایک شخصیت نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کعبہ اور روضۂ رسولؐ سے ہر مسلمان کو بالخصوص پاکستانیوں کو بے پناہ عقیدت و محبت ہے۔ امام کعبہ کے نام سے دورہ کرنے والی شخصیت نے اس عقیدہ و محبت کو سعودی عرب کے شاہی خاندان کے حق میں استعمال کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ پاکستان سعودی عرب نہیں ہے، جہاں عوام کو دانستہ بے شعور رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کے عوام باشعور ہیں۔ وہ ’’خادم حرمین‘‘ اور حرمین شریفین کے مابین فرق کو سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے عوام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امام کعبہ ان سب کے ہیں اور ہونے چاہئیں، لیکن امام کعبہ کے اردگرد کون تھے؟ بلاشبہ اہل حدیث اور دیوبندی حضرات قابل احترام ہیں، لیکن پاکستان میں صرف اہل حدیث اور دیوبندی ہی نہیں، کچھ اور لوگ بھی بس رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کا تعلق اہل حدیث اور دیوبندی مسالک سے نہیں بلکہ بریلوی مسلک سے ہے۔ ملک میں ایک قابل ذکر تعداد اہل تشیع کی بھی ہے، لیکن امام کعبہ کس کے قبضے میں رہے؟ وہ یا تو اہل حدیث حضرات کے ہاں گئے یا دیوبندی حضرات کے ہاں اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ ملک ریاض حسین کو بھی راضی کرتے رہے۔ رہ گئے بریلوی اور شیعہ حضرات تو وہ امام کعبہ کے نام سے دورہ کرنے والی شخصیت کی راہ تکتے رہ گئے۔ دراصل امام کعبہ نے سفارت کاری کی بھونڈی روایت قائم کر دی ہے اور امام کعبہ کے مقدس ادارے کو متنازعہ بنا کر واپس چلے گئے ہیں۔ اے کاش کوئی سمجھے کہ زمانہ کیا چال چل رہا ہے؟ قارئین مندرجہ بالا حقائق کو پڑھ کر خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 460782
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Muzammil
Pakistan
I read your article It gave good information. Thanks
ہماری پیشکش