6
0
Friday 5 Jun 2015 17:38
کون، کیوں جیت سکتا ہے اور کسی کی شکست کی وجوہات کیا ہیں

جی بی الیکشن میں بلتستان کے 9 حلقوں کی تفصیلی سروے رپورٹ

جی بی الیکشن میں بلتستان کے 9 حلقوں کی تفصیلی سروے رپورٹ
سروے ٹیم

گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں صرف چند دن باقی ہیں اور جی بی بھر میں سیاسی گہماگہمی، سیاسی جوڑ توڑ، ریلیاں، جلسے، جلوس اور ملاقاتیں عروج پر ہیں۔ بلتستان کے دونوں اضلاع میں ہماری ٹیم نے آئندہ انتخابات کے سلسلے میں ایک سروے کا اہتمام کیا۔ بلتستان کے تمام حلقوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے غیر جانبدار طور پر سروے کیا گیا اور الیکشن میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے بارے میں رائے لی گئی۔ سروے کے دوران سروے کے اصولوں کو مدنظر رکھا گیا، تاکہ اصل نتائج تک پہنچا جاسکے۔ ہر حلقے سے انٹرویوز کئے گئے، انہیں اخلاقی طور پر پابند بھی کیا گیا کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سوالات کا جواب دیں گے۔ ہماری ٹیم کی محنت شاقہ کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ سروے میں حصہ لینے والے اکثر افراد نے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر رائے دی ہے۔ سروے کے دوران امیدواروں کی کامیابی اور ناکامی کی وجوہات بھی جاننے کی کوشش کی گئی، تاکہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔ دوران سروے آنے والے فیڈ بیک میں ان تمام باتوں کو حذف کر دیا گیا جس میں کسی کی شخصیت کشی کا کوئی پہلو نکلتا ہو۔ یہ سروے خالصتاََ صحافتی اور تحقیقی بنیادوں پر کیا گیا ہے، اسکا مقصد کسی جماعت یا امیدوار کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی نہیں ہے۔ امید ہے قارئین اسے مثبت انداز میں لیں گے اور مناسب فیڈ بیک سے غلطیوں کی نشاندہی بھی کریں گے۔

اسلام ٹائمز کی سروے ٹیم کے مطابق اسکردو حلقہ1 میں سب سے زیادہ ووٹ راجہ جلال حسین مقپون کو پڑے گا جو کہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور نئے چہرے کے طور پر متعارف ہوئے ہیں، انکی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ انکے حلقے میں بڑی تعداد میں انکے مزارعین موجود ہیں جو کہ انکو ووٹ دینے کے بھی پابند ہے۔ ایک طرف انکی شخصیت دوسری طرف کاشتکار اور ہرکارے اور ساتھ ہی تحریک انصاف کے تبدیلی کے جاذب نعرے انکو کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔ انکی کامیابی کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سروے کے مطابق اسکردو حلقہ1 میں دوسری پوزیشن پر سابق وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ ہیں۔ اگرچہ انکا حلقہ احباب مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوگیا ہے اور انکی سابقہ کارکردگی بھی قابل ذکر نہیں ہے، اس کے باوجود سینکڑوں افراد ایسے ہیں جنہیں وزیراعلٰی گلگت بلتستان نے سرکاری ملازمتوں سے نوازا ہے اور پیپلز پارٹی کا نظریاتی ووٹ بھی انہی کے حق میں پڑے گا۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) اور مجلس وحدت مسلمین کی پوزیشن برابر نظر آتی ہے، مسلم لیگ اپنے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ایم ڈبلیو ایم کو سمجھتی ہے اور ایک ہی علاقے سے دونوں حریف جماعتوں کے نمائندوں کے میدان میں موجود ہونے کی وجہ سے دونوں کو پریشانی ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو حکمران جماعت ہونے کی حیثیت سے وفاق پرست افراد کے ووٹ پڑ سکتے ہیں، لیکن ہماری سروے رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کا حلقے میں بڑی تعداد میں خفیہ ووٹ موجود ہے۔ مذکورہ حلقے میں اسلامی تحریک کی پوزیشن واضح نظر نہیں آتی، کیونکہ عوام میں ایسا ماحول پیدا ہوا ہے کہ حلقے میں اسلامی تحریک کے پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ اتحاد کے امکانات بھی ہیں اور مذکورہ مذہبی جماعت کی سرپرستی مرکز انجمن امامیہ کرتی تھی، لیکن انکا جھکاو کہیں اور نظر آنے کی وجہ سے بھی اسلامی تحریک یا شیعہ علماء کونسل کو پریشانی لاحق ہے۔ مذکورہ حلقہ میں آل پاکستان مسلم لیگ، پاکستان عوامی تحریک اور متحدہ قومی موومنٹ کے ووٹ نہ ملنے کے برابر ہیں۔

حلقہ نمبر 2 اسکردو میں سب سے زیادہ رائے دہندگان نے مجلس وحدت مسلمین کی یقینی کامیابی کا عندیہ دیا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کے حق میں ووٹ دینے والوں میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے کارکنان بھی موجود تھے۔ وجوہات جاننے کی کوشش کی تو بتایا گیا کہ مذکورہ حلقہ مجلس وحدت مسلمین بلتستان کے سربراہ علامہ آغا علی رضوی کا حلقہ ہے اور انہوں نے عوامی حقوق کے لیے جو جدوجہد کی ہے، اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی یہ حلقہ بہت حد تک مذہبی حمیت والا حلقہ سمجھا جاتا ہے۔ عوام بھی دیگر جماعتوں کی نسبت مجلس وحدت مسلمین کی کارکردگی سے مطمئن نظر آتے ہیں۔ سروے میں بتایا گیا کہ آغا علی رضوی نے مظلوموں کی حمایت اور عوامی حقوق کے حصول کے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے اور جوانوں، خواتین کی بڑی تعداد انہیں روحانی پیشوا کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ عوامی سروے کے مطابق حلقہ نمبر2 اسکردو میں دوسری پوزیشن اسلامی تحریک پاکستان کے رہنما اور امیدوار آغا عباس رضوی کی ہے۔ سروے میں رائے دینے والوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ آغا عباس کی ذاتی شرافت اور دیانت کی وجہ سے لوگ انہیں پسند کرتے ہیں اور اس حلقے میں مرکز انجمن امامیہ کی حیثیت بھی غیر معمولی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے آغا عباس رضوی ایک طرف علامہ ساجد نقوی کے نمائندہ ہیں اور دوسری طرف مرکز انجمن امامیہ کے رکن رہے ہیں، اس وجہ سے عوام کی بڑی تعداد ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے۔ مذکورہ حلقے میں سیاسی اتحاد کے بارے میں جو بحث چلی ہے، اس میں اسلامی تحریک کا نواز لیگ کے ساتھ اتحاد ہے، اگر یہ اتحاد ہوتا ہے تو سب سے زیادہ فائدہ مجلس وحدت مسلمین کو ہوسکتا ہے کیونکہ اسلامی تحریک کے ووٹرز مذہبی بنیادوں پر انہیں ووٹ دینے کے لئے آمادہ ہیں جبکہ سروے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو پورے خطے میں فرقہ وارانہ جماعت سمجھا جاتا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نواز ضیاءالحق کی تربیت یافتہ جماعت ہے اور انہی کے دور میں گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کو ہوا دی گئی تھی، یہان تک کہ 1988ء میں دہشتگردوں نے سرکاری سرپرستی میں گلگت بلتستان پر باقاعدہ لشکر کشی کی تھی۔ حلقہ نمبر2 میں پاکستان پیپلز پارٹی سابقہ افسوسناک پالیسی کے نتیجے میں بہت کمزور ہوگئی ہے اور عوامی رائے انکے خلاف ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ، متحدہ قومی موومنٹ، قومی وطن پارٹی اور پاکستان عوامی تحریک کی پوزیشن بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔

حلقہ نمبر3 اسکردو میں دو حریف جماعتوں کا شدید ٹاکرا ہے، ایک طرف پرانے منجھے ہوئے سیاست دان اور مسلم لیگ نواز کے رہنما فدا محمد ناشاد ہیں تو دوسری طرف مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار اور بلتستان کے معروف سیاسی شہرت کے حامل خاندان کے چشم و چراغ وزیر محمد سلیم ہیں۔ سروے کے مطابق اس حلقے میں مجلس وحدت مسلمین فاتح جماعت قرار پائی ہے۔ فدا محمد ناشاد کے ہارنے کی وجوہات میں سابقہ ادوار میں انکے منصوبہ جات کو صرف اپنے ہی گاوں حسین آباد تک محدود رکھنا اور اپنے دوست ٹھیکیداروں میں ٹھیکے تقسیم کرنا بتایا جاتا ہے۔ سروے کے مطابق یہ بھی واضح ہوا کہ دہشتگردوں کے ساتھ مذاکرات اور یمن میں فوج بھیجنے کی نواز حکومت کی کوشش سے بھی مسلم لیگ نواز کا سیاسی گراف متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ہے، جبکہ مذکورہ حلقے کے نواحی علاقے والے اپنی غربت اور محرومی کا رونا روتے ہیں۔ علاقہ گلتری، کتی شو، نر، غوڑو اور گول کے عوام حاجی فدا محمد ناشاد سے نالاں ہیں۔ انکے مطابق فدا ناشاد کی وفاداریاں صرف حسین آباد کے لئے ہیں۔ مذکورہ حلقہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن ناقابل بیان حد تک کمزور ہے، جبکہ آل پاکستان مسلم لیگ کے بارے میں عوامی رائے ہے کہ آل پاکستان مسلم لیگ مجلس وحدت مسلمین کے حق میں دستبردار ہو جائے گی۔ اسکردو حلقہ نمبر تین میں اسلامی تحریک کا نمائندہ پاکستان مسلم لیگ نون کے حق میں دستبردار ہوچکا ہے۔

اسکردو حلقہ4 روندو میں ہمارے سروے کے مطابق انیس بیس کے فرق کیساتھ مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار راجہ ناصر علی خان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ انکے اپنے خاندانی ووٹ کے علاوہ ایم ڈبلیو ایم کے نظریاتی افراد کی حمایت کیوجہ سے راجہ ناصر علی خان سب سے مضبوط امیدوار ہیں، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار وزیر حسن اور اسلامی تحریک کے نمائندہ کیپٹن سکندر کی پوزیشن تقریباً برابر ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کی مقبولیت کے بارے میں بتایا گیا کہ آغا علی رضوی اور علامہ ناصر عباس جعفری کی قیادت سے لوگ مطمئن ہیں اور عوامی ایکشن کمیٹی کی گندم سبسڈی تحریک میں آغا علی رضوی کے کلیدی کردار کو عوام نہایت پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اسی حلقہ میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی پوزیشن ان چاروں جماعتوں سے کمزور ہے، اس سلسلے میں عوام کا کہنا ہے نواز لیگ تشدد کی سیاست پر یقین رکھنے والی جماعت ہے اور گلگت بلتستان سے مخلص نہیں کیونکہ انکو تیسرا سال شروع ہوگیا ہے، اس عرصے میں اس جماعت نے گلگت بلتستان کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ اسی حلقے میں آزاد امیدوار منظور حسین پروانہ کی پوزیشن بھی کمزور نظر آتی ہے۔ سروے کے مطابق منظور پروانہ ریاستی اداروں کو چیلنج کرتا رہتا ہے، اس وجہ سے اگر انکی حکومت آ بھی جاتی ہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔

اسکردو حلقہ5 کھرمنگ کے سروے کے مطابق مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار ڈاکٹر شجاعت حسین میثم اور پاکستان تحریک انصاف کے نمائندہ امجد زیدی کا ون ٹو ون مقابلہ ہے۔ سروے کے مطابق امجد زیدی ڈاکٹر شجاعت حسین میثم کو ٹف ٹائم دے سکتیا ہے، تاہم انکی سابقہ خدمات اور مجلس وحدت مسلمین کی فعالیت کے سبب سیٹ انکے حق میں جائے گی۔ سروے کے مطابق ڈاکٹر شجاعت حسین وہ امیدوار ہے جس نے سرکاری نوکری چھوڑ کر سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور عوامی خدمت شروع کی۔ انکے مطابق کھرمنگ کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں انہوں نے فری میڈیکل کیمپ نہیں لگائے ہوں، جبکہ اسکے مقابلے میں موجود امجد زیدی کی سیاسی بنیاد معرف سیاسی شخصیت شہید اسد زیدی کی جماعت پر ہے۔ کھرمنگ میں دو رخی سیاست تھی، ایک طرف معروف سیاسی شخصیت سید محمد علی شاہ اور دوسری طرف سید اسد زیدی جبکہ تیسری جماعت کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ یہاں پر برسوں سے متعصبانہ سیاست تھی اور دونوں پارٹیاں انہی شخصیات کے گرد گھومتی تھی۔ سید امجد زیدی نے شہید اسد زیدی کے نام پر جن افراد کو اپنے گرد جمع رکھا ہوا تھا، پی ٹی آئی میں جانے کے بعد ان میں سے اکثر منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور ان کی بڑی تعداد مجلس وحدت مسلمین میں چلی گئی ہے۔ اسی طرح آغا محمد علی شاہ معروف آغا فوکر کے مسلم لیگ (ن) میں اڑان بھرنے کے سبب انکے نظریاتی افراد نے بھی ایک پریس کانفرنس سے ذریعے ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ سروے کے مطابق ان حالات کے تناظر میں ایم ڈبلیو ایم کا امیدوار سب سے آگے ہے۔ تیسری جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے، جس کی پوزیشن سروے کے مطابق بہت کم ہے۔ کھرمنگ میں اسلامی تحریک کا امیدوار سید اکبر شاہ ہے، سروے کے مطابق اسلامی تحریک کے نمائندہ کی جو فعالیت نظر آرہی ہے اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے بہت جلد کسی جماعت کے حق میں بیٹھنے کا اعلان کرنا ہے۔ آخری اطلاع آنے تک وہ مسلم لیگ نون کے حق میں دستبردار ہوچکے تھے۔

اسکردو حلقہ6 میں بھی برسوں سے سیاسیت دو رخی تھی۔ یہ وہ حلقہ تھا جہاں پر سیاست کو مذہب کا درجہ حاصل تھا۔ ایک طرف عمران ندیم اور دوسری طرف راجہ اعظم انکے سیاسی رہنما تھے۔ جہاں یہ شخصیات جاتیں لوگ اسی پارٹی کا حصہ بنتے۔ جماعت بدلنے میں دونوں شخصیات ماہر ہیں اور ایک دوسرے پر الزام بھی نہیں لگا سکتے۔ ان دونوں کی شخصی سیاست کے سبب پرتشدد سیاست بھی دیکھنے میں آتی تھی۔ دونوں کی باریاں بدلنے کے باوجود خطے میں چنداں ترقی نہیں ہوسکی ہے۔ ہمارے سروے کے مطابق سب سے زیادہ بہتر پوزیشن اس وقت عمران ندیم کی ہے اور وہ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑ رہے ہیں، جبکہ مذکورہ حلقے میں دوسری پوزیشن مجلس وحدت مسلمین کی ہے۔ ایم ڈبلیو ایم دیگر حلقوں کی طرح یہاں بھی پہلی مرتبہ وارد ہو رہی ہے اور انہوں نے جس نمائندہ کو متعارف کرایا ہے، اسکی تعریف ہر کوئی کرتا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ جس سطح کے اہل نمائندہ کو مجلس وحدت مسلمین نے متعارف کرایا، کوئی اور جماعت ایسا نہیں کرسکی۔ سروے کے مطابق شگر میں ایم ڈبلیو ایم کے سربراہان اگر بھرپور دورہ کرکے کمپئین چلائیں تو کایا پلٹ سکتی ہے۔ اسی حلقے میں اسلامی تحریک دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ اسلامی تحریک کے امیدوار حاجی فضل نے اچانک عمران ندیم کے حق میں بیٹھے کا اعلان کر دیا اور دوسری طرف اسلامی تحریک شگر کے سربراہ شیخ شیر نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجہ اعظم خان کی الیکشن کمپئین میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔ اس عمل کے بعد شگر کے اسلامی تحریک کے متعدد علمائے کرام نے اسلامی تحریک سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ مذکورہ حلقہ میں سابقہ ایم کیو ایم کے امیدوار اور وزیر پلاننگ راجہ اعظم خان اور موجود مسلم لیگ نون کے امیدوار کے کاشتکاروں کے ووٹوں کی تعداد بھی بہت اہم ہے، لیکن سابقہ پانچ سالہ دور حکومت میں بھی انکی پوزیشن کمزور ہوگئی ہے۔

گنگچھے حلقہ نمبر1 میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما آمنہ انصاری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ابراہیم ثنائی کا مقابلہ ہوگا۔ ہماری سروے رپورٹ کے مطابق اس حلقے میں آمنہ انصاری کی پوزیشن قدر مضبوط ہے، اگر آمنہ انصاری تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کو پی ٹی آئی کے گرد جمع نہ کر سکیں تو یہ سیٹ ابراہیم ثنائی کے حصے میں آسکتی ہے، اسکے برعکس اس حلقہ میں اگر مجلس وحدت مسلمین اور دیگر جماعتیں تحریک انصاف کی بھرپور حمایت کرتی ہیں تو نتیجہ بدل سکتا ہے۔ گنگچھے حلقہ نمبر2 میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندہ آمنہ انصاری، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ایڈوکیٹ غلام حسین، پاکستان عوامی تحریک کے امیدوار خادم حسین اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیرین فاطمہ موجود ہیں۔ ہمارے سروے کے مطابق آمنہ انصاری کی پوزیشن سب سے مضبوط ہے اور سروے کے مطابق مجلس وحدت مسلمین کی بھی انتخابات میں دوسری جماعتوں کی نسبت تحریک انصاف سے قربت ہے، تاہم ابھی تک ایم ڈبلیو ایم نے باقاعدہ کسی جماعت کے ساتھ اتحاد کا اعلان نہیں کیا ہے۔ سروے کے مطابق مجلس وحدت مسلمین کا اتحاد ہوتا ہے تو یہ سیٹ تحریک انصاف کے حق میں کنفرم ہوسکتی ہے۔ حلقہ3 گنگچھے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد شفیق، پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اور سابقہ وزیر انجینئر اسماعیل اور مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار مولانا اسحاق ثافب میدان میں موجود ہیں، آخری معرکہ بھی انہی تینوں امیدواروں کے درمیان ہونا متوقع ہے۔ ہمارے سروے کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد شفیق کی پوزیشن دوسروں کی نسبت زیادہ مضبوط ہے اور حالات میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آسکتی، انکے بعد نوربخشیہ مکتب فکر کے نوجوان عالم دین اور مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار مولانا اسحاق ثاقب کی پوزیشن مضبوط ہے، حلقے کا تمام محروم اور مستضعف طبقہ مولانا اسحاق ثاقب کے پیچھے کھڑا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ چند روز میں یہاں کی سیاست میں کس حد تک تبدیلی واقع ہوتی ہے اور ساتھ ہی کوئی ڈرامائی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے تو کیا ہماری سروے رپورٹ کے نتائج کس حد تک درست ثابت ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 465019
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Khalid
Pakistan
یہ پورا سروے جھوٹ ہے
علی شاہ
Canada
اس تمام سروے سے لگتا ھے کے یہ سروے کسی ایم ڈبلیو ایم کے فرد نے کیا ھے
Rana qamar
Pakistan
M w m ki jido jehd ki tareef karni pare gi.
Pakistan
عوامی سروے بالکل درست ہے
Pakistan
یعنی ایک سے راجہ ، دو سے کاچو امتیاز، تین سے وزیر سلیم، چار سے راجہ اور سکندر کا سخت مقابلہ، شگر سے راجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گنگچھے ایک سے ثنائی ، دو سے آمنہ انصاری، تین سے شفیق۔۔۔ 19 و 20 کے فرق کیساتھ یہی نتیجہ آئے گا
Pakistan
80% رزلٹ درست ہوگا
ہماری پیشکش