2
0
Friday 14 Aug 2015 07:30

احیاءِ ریاستِ مدینہ

احیاءِ ریاستِ مدینہ
تحریر: سید قمر رضوی

عیسیٰؑ ابنِ مریمؑ کو اپنے پاس آسمانوں پر بلانے کے بعد خدا نے نبوت کی بساط کو ایک معلوم وقت تک کے لئے لپیٹ دیا۔ یہ خدا کی نافرمانی کی سزا تھی، اسکی نعمت کی ناشکری پر ناگواری، مخلوق کی احسان فراموشی پر خالق کی ناراضگی۔۔۔ یا خدا کی اپنی مصلحت۔ یہ خداوندِ عالم ہی جانے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ پھر انسان اور انسانیت ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہونا شروع ہوگئے۔ انسان انسانیت سے گر کر حیوان، وحشی درندہ اور پھر بتدریج شیطان کی صورت میں ڈھلنے لگا۔ انسانی اقدار معدوم ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ خدا کے اس وقت تک کے آخری نبی کی انسانی و اخلاقی تعلیمات ایک گمشدہ خزانے کی صورت اختیار کر گئیں اور بالآخر وہ دور پستی کی دلدل میں اس طرح جا گرا کہ زمانہء جاہلیت کہلایا۔ ایک خدا کا انکار، لڑنا جھگڑنا، قتل و غارت گری، دشمنی، عناد، غرور، نسب و بت پرستی وہ چند چیدہ چیدہ خصوصیات ہیں، جو اس معاشرے کا طرہء امتیاز رہی ہیں۔ جنگ کا وہ جنون کہ  بقول علامہ اقبال۔۔۔
کبھی پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کبھی گھوڑا آگے دوڑانے پہ جھگڑا


چھپکلی نما ایک جانور کے شکار پر لڑی جانیوالی وہ جنگ تو تاریخ میں بہت مقبول ہے، جس میں دو قبائل یوں گتھم گتھا ہوئے کہ چالیس سال تک دو نسلیں ایک دوسرے کا خون پیتی رہیں۔ ایک عورت کے توسط سے دنیا میں قدم رکھنے والے جب ایک عورت ہی کے بطن سے ایک عورت ہی کو جنم لیتا پاتے تو  آگ بگولہ ہو کر اسکی موت کا سامان کرنے کو دوڑتے۔ توحید کی واضح نشانیاں ہونے کے باوجود اپنے ہی ہاتھوں کے تراشے ہوئے بے جان بتوں کو سجدہ کرتے اور اپنے خدا کے علاوہ دوسرے کے خدا کو بھی حقیر جانتے۔ یوں زمین پر انسانیت معدوم ہوئی اور چہار جا شیطنت کا چرچا ہوا۔ پانچ سو ستر سال کی صبر آزما آزمائش کٹی۔ پس وہ وقت آیا جب خدا نے انسان کو شیطنت کی اس دلدل سے نکالنے اور اسکو اسکا اپنے ہاتھوں سے کھویا ہوا وقار لوٹانے کی ٹھانی۔ اس نے انہی جہلا میں اپنے ایک عبد کو مبعوث کیا، جسے اس شیطانی معاشرے کو انسانی و ایمانی معاشرے میں ڈھالنے کی ثقیل ترین ذمہ داری سونپی۔

پیغمبرِ گرامیء قدر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے خدا کے اس عظیم مقصد کو عملی جامہ پہنانے اور اسے اسکے منطقی انجام تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس مقصد کو پورا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ایک لاکھ تئیس ہزار نو سو ننانوے انبیاء تو اپنی اپنی محدود ذمہ داریاں نبھا چکے تھے۔ آپﷺ کے کاندھوں پر ان تمام کی شریعتوں کو تمام کرنے کی ذمہ داری تھی۔ عرب کے ان وحشیوں کے منہ سے ٹپکتے ہوئے خون کو صاف کرنا، انکے چہروں کو اجالنا اور ان پر انسانیت کے نور کو پھر سے طالع کرنا۔۔ انکے قلوب کی سیاہی کو دھو کر پیغامِ الٰہی کو جذب کرنے والا روشن ظرف عطا کرنا، وہ مشکل ترین کام تھے جو آپ ہی کا ملکہ تھا۔ آپ نے محدود وسائل (انسانی و مادی) کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا۔ پہلے اپنے آپ کو پہچنوایا۔ پیغام پہنچانے کی کوشش کی، لیکن کوئی سننے کو تیار نہ ہوا۔

توحید کے پیغام کے جواب میں کبھی گالی آئی تو کبھی پتھر۔۔۔ کبھی قتل کی دھمکی اور کبھی قاتلانہ حملہ۔۔۔ لیکن آپﷺ کے پایہء ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہ آئی۔ آپ بھی اپنے مشن پر ڈٹے رہے۔ خدا نے آپکی نصرت فرمائی اور آپ نے چند گمشدہ انسانوں کو ظلمات کی دلدل سے آزاد کرکے انکا حقیقی مقام آشکار کر دیا۔ چند انسانوں کا یہی وہ لشکر تھا جو خدا کا لشکر کہلایا اور اس نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ رہتی دنیا تک کی انسانیت انکی ممنونِ احسان رہے گی۔ زمانے کی جہالت اور جاہلیت کی مزاحمت میں خدا کا یہ لشکر ایک مضبوط پہاڑ کی مانند جما رہا اور وسائل کی نابودی کے باوجود خدا سے کئے گئے اپنے پیمان پر قائم رہا۔ کئی کئی دن کی بھوک و پیاس، مسلط کردہ جنگوں کا مقابلہ، معاشرتی ناانصافیاں، تحقیر و تذلیل اور غریب الوطنی جیسے عظیم مصائب کو جھیلتے رہے اور خدا کے نظام کو اس زمین پر نافذ کرنے میں اپنا اپنا کردار نبھاتے رہے۔

بزرگ کہتے ہیں اور ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ کوئی غم غریب الوطنی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔۔۔۔ جب انسان کو اپنا گھر چھوڑنا پڑ جائے۔ پیغمبرِ گرامیء قدرﷺ کو جب خدا کی راہ میں ہجرت کرنا پڑی تو آپ مڑ مڑ کر مکے کی ان گلیوں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے، جہاں آپ نے آنکھ کھولی اور اپنی زندگی کے شب و روز گزارے۔ خدا ہی جانے کس دل سے اپنے والدین کی قبروں کو الوداع کہا ہوگا۔۔۔ لیکن یہ سب کیا۔ خدا کی خوشنودی اور اسکے نظام کے نفاذ کے لئے، انسانیت کے وقار کے لئے، آنے والی نسلوں کے لئے۔ ایک مثالی ریاست کے قیام کے لئے جہاں ہر کسی کو اسکا جائز حق ازخود ملتا رہے۔ جہاں عدل و انصاف کو پہلی ترجیح حاصل ہو۔ جہاں نسب پر کردار کو فوقیت حاصل ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ حبیبِ خداﷺ نے کئی سالوں کی جاں سوز محنتوں اور کاوشوں کے بعد وہ مثالی معاشرہ قائم کر دیا، جہاں کھوئی ہوئی انسانیت نے سر اٹھا کر جینا شروع کیا۔ آپ ﷺ نے انسان کو آزادی کا تحفہ عنایت فرمایا۔ خدا کے حبیبﷺ نے اپنی ذمہ داری احسن ترین نہج پر ادا کی کہ اب تاقیامت کسی اور پیغمبر و شریعت کی ضرورت ہی نہ رہی۔ خدا نے بھی "اسلام" کو دین  یعنی نظامِ حیات کے طور پر پسند کرلیا۔ پس خدا نے سردار الانبیاءﷺ کو اپنے حضور واپس بلوا لیا۔

لیکن شیطان کو اپنی یہ شکست چین سے بیٹھنے نہ دیتی تھی۔ آپﷺ کے پردہ فرماتے ہی اس نے دوبارہ سے سر اٹھایا اور فساد کے وہ بیج بوئے، جو دیکھتے ہی دیکھتے کھڑی فصل کی صورت اختیار کر گئے۔ زمانہء جاہلیت کا ظہورِ دیگر ہوتا دکھائی دینے لگا۔ آپﷺ کے جانے کے بعد کئے گئے لوٹ مار، دنگا فساد، وسائل پر قبضہ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، ظلم و زیادتی اور خدائی نظام پر ضربِ کاری وہ بڑے بڑے جرم ہیں جو شاید خدا کی بارگاہ میں معافی کے قابل نہ سمجھے جائیں۔ پیغمبرِ اسلامﷺ اور آپکے جانثار اصحاب و اہلبیتؑ کی ذوات و کاوشات کو  "اسلام" ہی کے عنوان کے تحت تہہِ تیغ کر دیا گیا۔ عدالت کے نام پر ظلم کا نظام رائج ہوگیا۔ دولت اور وسائل پست ترین لوگوں کے ہاتھوں میں چلے گئے۔ اختیارات کا  ایسا ناجائز استعمال ہوا کہ خدا کی پناہ۔ جہالت و ذلت اس نہج پر پہنچی کہ اونٹ  اور اونٹنی کا فرق بھی ختم ہوگیا اور جمعہ و بدھ بھی ایک ہوگئے۔ شرفا یا تو گھروں میں قید ہوگئے یا پھر سے ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرنے لگے۔ آل و اصحابِ پیغمبر ﷺ جنہیں خدا نے عزت بخشی تھی، آج کے انسان نما شیطان نے گلیوں، بازاروں اور صحراؤں میں خاک و خون میں غلطاں کرکے رکھ دیا۔ یہ تمام عوامل خدا کی خفگی کا باعث بنے اور اس نے اس احسان فراموش و شیطان دوست انسان کو اسی کے حوالے کر دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، مسلمان کہلانے والے ذلت و رسوائی کا شکار ہیں اور ان پر بدترین لوگ حاکم ہیں۔
ــــــــــــــــــــــــــ
تیرہ سو سال گزرے۔ ہندوستان کے مسلمان پریشان ہیں۔ صبر آزما مصائب جھیلتے ہوئے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ خدا سے دست بدعا ہیں کہ کوئی نجات دہندہ بھیج دے۔ خدا نے انکی سنی اور انکی جمعیت و رہنمائی کے لئے اپنے حبیبﷺ کا ہمنام بھیج دیا۔ محمد علی جناح نے بھی اپنے  آقاﷺ سے ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے ہوئے بہترین افراد کا لشکر تشکیل دیا، جس کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں ریاستِ مدینہ کی بنیادِ نو کا کام تشکیل پایا۔ مدینہ کی طرز پر قائم کی جانیوالی اس ریاست کا نام بھی "پاکستان" رکھا گیا، جہاں وہ "اسلام" نافذ کرنا مقصود تھا، جسے خدا نے دین کے طور پر پسند کیا تھا۔ اس نئی ریاست کو بسانے اور اس میں خدا کے نظام کے تحت زندگی گزارنے والوں نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی۔ غریب الوطنی کیا ہے! یہ وہی جانے جس کا گھر چھوٹے۔ نجانے کن احساسات و جذبات سے ان انسانوں نے ان گلیوں اور چوراہوں کو  مڑ مڑ کر دیکھا ہوگا، جہاں وہ پیدا ہوئے اور اپنی زندگی کے شب و روز گزارے۔ کس قلبِ ثقیل کے ساتھ اپنے اجداد کی قبور کو الوداع کہا ہوگا!۔ لیکن اپنے آقاﷺ کی سنت اور آپکا طرزِ عمل سب کے پیشِ نظر تھا۔ سو آپ ﷺ روحِ انور سے فیض اور حوصلہ حاصل کرتے ہوئے یہ صعوبتیں بھی سہہ گئے۔

ہمیں آزادی اور  ایک وطن کا تحفہ دلوا کر خدا نے قائدِ اعظم  کو بھی اپنے پاس واپس بلوا لیا۔ سوچا تو تھا کہ اس نظریاتی مملکت میں خدا کا نظام رائج ہوگا۔ جہاں پاکستانی انسان آزاد ہوگا۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ شیطان نے یہاں بھی اپنی شکست کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ موقع پرست وسائل پر قابض ہوگئے۔ قائدِ اعظم کے لشکر کو تہہِ تیغ کر دیا گیا۔ بانیانِ ملک کو غدار قرار دے دیا گیا۔ بابائے قوم کے اہلِ خانہ کو گوشہ نشینی اختیار کروا دی گئی۔ شرفا نے ہجرتوں کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا۔ لوٹ مار کا وہ بازار گرم کیا گیا کہ خدا کی پناہ۔ اس ملک پر وہ نظام تھوپ دیا گیا جو ایک آزاد قوم کو ذہنی غلامی کی دلدلوں میں تنہا چھوڑ آیا۔ چوری، ڈاکے، دنگا، فساد، قتل و غارت گری، عصمت دری و فروشی، منشیات، فرقہ پرستی، لسانیت، دہشتگردی اور انسانیت سوزی وہ بڑے بڑے جرم ہیں، جو آج بدقسمتی سے میرے وطن کی پہچان کرواتے ہیں۔ عدالت و عدلیہ۔۔۔ جو اسکا طرہء امتیاز ہونا تھا، ایک فحش مذاق کے سوا کچھ نہیں۔۔۔

آج اس ملک کو حاصل کئے اڑسٹھ برس بیت گئے۔ ملک کے طول و عرض میں اس پر قابض موقع پرست افراد غلام ہجوم کو "قومِ رسولِ ہاشمی" کے  جھوٹے عنوان سے خطاب کرکے انکے جذبات سے گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ تشخص کو مسخ کرکے انہیں "زندہ و پائیندہ قوم" کے نغموں سے بہلایا جا رہا ہے۔ غریب الوطنوں کے سہارے اس وطن کو خاک و غلطاں کرکے شیطان کا وہی لشکر آج ان غریبوں کی بے بسی پر قہقہے لگا رہا ہے۔ دنیا دوسری دنیاؤں میں قدم رکھ چکی اور ہمیں زمانہء جاہلیت کی جانب پلٹا دیا گیا۔ ایک غاصب سے آزادی لیکر نجانے کیسے اور کب ہم دوسرے غاصب کی غلامی میں چلے گئے، پتہ ہی نہیں چلا، ہم پر بدترین لوگ مسلط ہوگئے۔

لیکن۔۔۔۔بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی، دولت و وسائل کی منصفانہ تقسیم، تعلیم و صحت کی فراہمی، عدل و انصاف کا پھر سے رواج، تعمیر و ترقی اور دنیا کے ساتھ کندھا ملا کر دوسری دنیاؤں میں قدم رکھنا۔۔۔ یہ سب ہمارے پاس کیوں نہیں؟ اسکا جواب ہمیں خود تلاش کرنا ہے۔ جواب تلاش کرنے کے لئے سوال کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ سوال تب پیدا ہوتا ہے، جب آپکے پاس خدا کی ایک بہترین نعمت "شعور" ہو۔ ۔۔۔ خدا نے شعور دیا بھی! لیکن غلامی میں شعور بھی خوابیدہ ہوجاتا ہے۔ پس خدا کے ودیعت کردہ شعور کو جگانے کی دیر ہے۔ اس کی تخلیق کردہ ایک ایک نعمت اس سرزمین میں  وافر موجود ہے، جو ہماری بے شعوری کے باعث موقع پرستوں کے ہاتھوں ضائع ہو رہی ہے۔ غلامی کی یہ شبِ یلدہ کٹ سکتی ۔۔۔۔ صرف اسی صورت میں کہ ہم اپنے شعور کی شمع کو روشن کریں۔ انشاءاللہ یہ ملک قائدِ اعظم کی خواہش کے مطابق پیغمبرِ گرامیء قدرﷺ کی ریاستِ مدینہ کی شبیہ بن سکتا ہے، اگر ہم چاہیں تو۔ ہمیں شعور کی دھار سے غلامی کی زنجیر کو کاٹنا ہوگا۔ امیر المؤمنین امام علی ؑ کا ارشادِ گرامی ہے کہ
"میں تلواروں پر تو صبر کرسکتا ہوں، زنجیروں پر نہیں۔"
میرے باشعور ہم وطنوں کو انشاءاللہ ملنے والی حقیقی آزادی مبارک ہو۔
خبر کا کوڈ : 479794
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Ahsan Shah
United Kingdom
So nice one Qamar bhai
Najaf Sajjad
United Kingdom
Excellent piece of writing. The vision presented in the article is a reminder to all Pakistanis
ہماری پیشکش