0
Monday 5 Oct 2015 15:42

مہاجرین شام اور چند حقائق

مہاجرین شام اور چند حقائق
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


شام گذشتہ چار برس سے سخت ترین حالات کا سامنا کر رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ شام میں مغربی اور عربی ممالک کی جانب سے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کو بھرپور تعاون فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکہ، اسرائیل سمیت خطے کے چند ایک عرب ممالک بھی سرفہرست ہیں، جن کو شام میں سنگین مسائل وجود میں لانے کا ذمہ دار گردانہ جاتا ہے۔ شامی مسئلہ کے حوالے سے متعدد آراء پھیلائی جاتی رہی ہیں، لیکن جو اصل حقیقت ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ شام میں کچھ گروہوں نے امریکی، اسرائیلی و عربی حکمرانوں کی حمایت سے حکومت کے خلاف ایک مسلح تحریک کا آغاز کیا اور اس تحریک کے اندر کچھ گروہ جنم لیتے رہے، جن میں داعش، جبہة النصرہ اور دیگر شامل ہیں کہ جن کا مقصد صرف اور صرف شامی حکومت کو اسلحہ کے زور پر تہہ و بالا کرنا تھا اور اس کی جگہ شام میں امریکی، اسرائیلی اور عربی ممالک کی حمایت یافتہ حکومت اور حکمرانوں کو برسر اقتدار لانا تھا۔

دراصل شام کے اندر تمام تر مغربی و عربی وسائل کے حامل یہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں شروع ہی میں ناکام ہوگئے تھے، جس کے بعد انہوں نے شام میں مختلف آبادیوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانا شروع کر دیا اور بڑے پیمانے پر مظلوم اور نہتے عوام کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا۔ معصوم بچوں کو قتل کیا گیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی، جہاد النکاح جیسی لعنت کے ذریعے اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے کی گھنائونی سازش کی گئی اور اس کام میں پورے کا پورا یورپ اور چند عرب ممالک بھرپور تعاون فراہم کرتے رہے، نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ شام کے اسکولوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، شامی سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا، بعض اوقات اس کام میں اسرائیل اور داعش نے مشترکہ کارروائیاں انجام دیں اور شام کو بدترین بحران میں جکڑنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، شام میں کیمیکل مادوں کا استعمال کیا گیا اور پھر شامی حکومت کے خلاف منفی پراپیگنڈا شروع کیا گیا، ان تمام کارناموں میں جہاں مغربی اور یورپ سمیت اسرائیل اور عربی حکومتیں دہشت گرد گروہوں کی معاونت کے ساتھ ساتھ منفی پراپیگنڈے کو پوری دنیا میں پھیلانے کے لئے اپنی مشینری کو ان دہشت گردوں کے لئے استعمال کرتی رہیں۔

یہاں ہر ذہن میں ایک سوال ضرور پیدا ہوگا کہ آخر شام میں کیوں اس طرح کا گھنائونا کھیل کھیلا گیا؟ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ شام جو کہ خطے میں ایک اہم ترین علاقے میں واقع ہے، فلسطین پر صیہونی جارح ریاست کے غاصبانہ تسلط کے خلاف نبرد آزما رہا ہے اور نہ صرف صیہونی اسرائیل کے خلاف بلکہ فلسطینیوں کی بھرپور مدد و نصرت کرنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا، لبنان میں اسرائیلی قبضہ کے خلاف ہونے والے چند نوجوانوں کے قیام نے بعد میں حزب اللہ نامی اسلامی مزاحمت کو جنم دیا، جس نے اٹھارہ سال کی جدوجہد کے نتیجہ میں لبنان سے اسرائیلی تسلط کو ختم کروانے میں کامیابی حاصل کر لی اور اسرائیل کو پسپا کیا، اس حوالے سے شام ہمیشہ لبنان کی اسلامی مزاحمت کا نہ صرف حامی رہا، بلکہ ہر ممکنہ مدد فراہم کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ اسی طرح مصر سے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے سربراہوں کی بے دخلی اور پھر دفاتر کے بند کئے جانے کے بعد شام کی حکومت ہی تھی کہ جس نے فلسطینی جماعتوں کے سربراہاں بشمول خالد مشعل، رمضان عبداللہ اور دیگر کو شام میں پناہ دی، بلکہ یہاں ان جماعتوں کے دفاتر کھولے گئے اور مزاحمت کاری کے سلسلے کو فلسطینی عوام کا بنیادی حق بھی تصور کیا۔ یاد رہے کہ شام میں 1948ء کے دوران فلسطین سے ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں فلسطینی پناہ گزین شامی شہریوں کی طرح شام میں پناہ گزین ہیں اور برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔

شام کے خلاف عالمی دہشت گرد امریکہ اور اسرائیل سمیت چند عرب اتحادیوں کی جانب سے سازشوں کا سلسلہ تو 2003ء میں شروع کر دیا گیا تھا، جہاں ایک طرف امریکہ عراق میں ذلیل و رسوا ہو رہا تھا تو دوسری طرف افغانستان میں بھی یہی حال تھا، اسی دوران امریکہ، اسرائیل اور چند عربوں کی تیار کردہ سازش کے تحت لبنان کے سابق صدر رفیق الحریری کو ایک دہشت گردانہ حملے میں قتل کر دیا گیا اور اس کا الزام شامی افواج اور لبنان کی اسلامی مزاحمت پر عائد کرتے ہوئے لبنان میں پہلے سے ایک معاہدے کے تحت موجود شام کی افواج کو شام واپس بھیجنے کا پراپیگنڈاہ کیا گیا، جس میں عالمی دہشت گرد امریکہ کو بظاہر کامیابی حاصل ہوئی اور شامی افواج کو عالمی دبائو کے تحت شام واپس لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد امریکہ اور اسرائیل نے موقع دیکھتے ہیں 2006ء میں لبنان پر حملہ کر دیا اور اس حملے کا مقصد صرف اور صرف لبنان کو زیر کرنا اور اسرائیل کے زیر تسلط لانا تھا، تاکہ اگلا ہدف شام کو بنایا جاسکے اور اسی طرح شام کے راستے عراق، افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک پر تسلط قائم ہو اور غاصب صیہونی ریاست کا \'\'گریٹر اسرائیل\'\' کا ناپاک منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے، لیکن یہاں لبنان میں 33 روز تک جنگ جاری رہنے کے باوجود امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی اور عربی اتحادیوں کے ہاتھ کچھ نہ لگا اور اسرائیل کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، واقعات تیزی سے رونما ہوتے رہے، غزہ پر جنگیں مسلط کی جاتی رہیں، لیکن ہر مرتبہ اسرائیل کو ناکامی کا سامنا اس لئے کرنا پڑا کیونکہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس موجود تھی۔

تمام تر ناکامیوں کے بعد امریکہ نے ایک نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھان لی اور شام کو میدان جنگ بنا ڈالا، قتل عام کی داستانیں اوپر سطور میں بیان کی گئی ہیں، بالآخر آج چار سال سے زائد کا عرصہ بیت جانے کے بعد شام میں صرف دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل و غارت گری، اولیاء اللہ کے مزارات مقدسہ کی توہین، مسیحی عبادتگاہیں اور مسلمانوں کی مساجد اور دیگر عبادتگاہوں کو نقصان پہنچتا رہا ہے جبکہ دہشت گرد اور ان کے غیر ملکی آقا اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ حال ہی میں شام میں جو مسئلہ زیادہ اہمیت اختیار کر رہا ہے، وہ مہاجرین کا مسئلہ ہے، یعنی شامی مہاجرین جو شام سے ہجرت کر رہے ہیں، آخر یہ ہجرت گذشتہ چار برس میں کیوں نہیں ہوئی؟ اور پھر پورا یورپ اور مغرب اس ہجرت پر کیوں زور دے رہا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہوسکتی ہے؟ اس حوالے سے پہلے تو قارئین کو عرض کر دوں کہ شام کے تمام وہ علاقے جو داعش اور النصرة نامی اسرائیلی و عربی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے قبضے میں تھے، جن میں حلب، ادلب، حمص وغیرہ سرفہرست آتے ہیں، سب کے سب حزب اللہ کے مجاہدین اور شامی افواج نے مشترکہ فوجی کارروائیوں میں آزاد کروا لئے ہیں، جبکہ چند ایک مقامات پر دہشت گردوں کے سرغنہ آج بھی موجود ہیں اور انہی مقامات سے اب شامی شہریوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ یہاں سے نکل کر سمندر کے راستے ترکی جائیں اور پھر ترکی سے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی طرف چلے جائیں۔

اس مرتبہ بھی پہلے کی طرح سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مغربی ممالک اور یورپی ممالک نے شامی مہاجرین کی اس زنردستی کروائی جانے والی ہجرت کو بھرپور اہمیت دینا شروع کر دی ہے اور شام کے خلاف منفی پراپیگندہ شروع کیا گیا ہے۔ تاہم شامی مہاجرین کے حوالے سے جو چند حقائق سامنے آئے ہیں، ان میں سے ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ چند ایک مقامات سے جہاں پر دہشت گرد موجود ہیں، ہجرت کروائی جا رہی ہے، اس ہجرت کی آڑ میں یورپ اور عرب ممالک سے لا کر بٹھائے گئے داعش اور النصرة کے دہشت گرد اب شکست خوردہ حالت میں فرار کر رہے ہیں اور اس ہجرت کو اپنے فرار کی راہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، حال ہی میں منظر عام پر آنے والے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ داعش کے خطرناک ترین دہشت گرد جو شام کے اندر مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں، شامی مہاجرین کی آڑ میں سمندری راستے سے ترکی اور پھر جرمنی سمیت دیگر ممالک میں جا پہنچے ہیں۔ داعش اور جبہة النصرہ کے فرار کرنے والے نامور دہشت گردوں میں جبہة النصرہ کے محمد ذھیر جیدیہ کو جرمنی میں دیکھا گیا ہے، اسی طرح احمد عبدالکریم الحاج بھی نرمبرگ میں پہنچ چکا ہے، جس کی حالیہ تصویر کچھ ذرائع جاری بھی کرچکے ہیں۔

اسی طرح فیصل رمضان شامی مہاجرین کی صورت میں فرار اختیار کرکے رومانیہ جا پہنچا ہے، جس کا واضح ثبوت سوشل نیٹ ورکس پر فیصل کی وہ تصاویر ہیں، جو حال ہی میں چند بچوں کے ساتھ رومانیہ کے جھنڈے ہاتھ میں لئے بنوائی گئی ہیں، گذشتہ دنوں معصوم عراقی شہریوں کو جلائے جانے کے واقعے میں ملوث داعش کا خطرناک دہشت گرد مرتضٰی الذبیدی بھی فرار کرکے فن لینڈ پہنچ چکا ہے، جبکہ اس کے علاوہ متعدد داعشی اور النصرہ کے دہشت گرد شامی مہاجرین کا روپ دھار کر سمندری راستے سے پہلے ترکی اور پھر یورپ کے ممالک میں پہنچ چکے ہیں، دوسری جانب تازہ حالات یہ ہیں کہ روس نے عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل سمیت تمام اتحادی عربی ممالک کا دبائو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے بچے ہوئے ان داعش کے دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے، اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ فیصلہ کن کارروائی اسرائیلی و عربی حمایت یافتہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کا پیش خیمہ بنے گی۔
خبر کا کوڈ : 489084
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش