0
Wednesday 28 Oct 2015 15:01

اصحاب حسین (ع)

اصحاب حسین (ع)
تحریر: سید توکل حسین شمسی

جتنے بھی انقلاب تاریخ انسانی میں وقوع پذیر ہوئے ہیں، ان کی بررسی سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ہر انقلابی حرکت میں ہر رہبر کو ایسے ہمدل، شجاع، فداکار اور ممتاز صفات کے مالک اصحاب و اعوان کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس انقلاب کے ستون کہلاتے ہیں اور اس انقلاب کی سنگینی کو اپنے دوش پر لئے ہوتے ہیں۔ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو کچھ ایسے ہی اصحاب میسر تھے،جو صفات و فضائل عالیہ میں اپنی مثال آپ تھے، یہاں تک کہ یہ صفات امام علیہ السلام کے ایک ایک صحابی کے گفتار و کردار میں تجلی کئے ہوئے تھیں۔ یہاں پر صرف چند صفات کا ذکر کرنا مقصود ہے۔

معرفت الٰہی
ان کی اساسی ترین خصوصیت معرفت الٰہی میں اس محکم و استوار درجہ پر ہونا ہے کہ جس میں نہ تو کوئی خلل وارد ہوسکتا تھا اور نہ ہی شک و تردید۔ مثال کے طور پر عاشور کی شب جناب حبیب کو دیکھا گیا کہ وہ ہستے مسکراتے اپنے خیمے سے باہر تشریف لا رہے ہیں۔ کسی نے پوچھا یہ کون سا ہسنے مسکرانے کا وقت ہے؟ جناب حبیب نے جواب میں معرفت الٰہی میں غرق ایک جملہ فرمایا؛ اے میرے بھائی ان لمحات سے بڑھ کر اور کون سا سرور و شادمانی کا لمحہ ہو سکتا ہے، خدا کی قسم کل ستمگروں کی تلواریں ہم پر حملہ آور ہوں گی اور ہم شہادت سے ہمکنار ہوں گے، پھر بہشتی پریاں ہمیں اپنی آغوش میں لیں گی۔ حبیب کے ان الفاظ سے بخوبی معلوم ہو رہا ہے کہ معرفت الٰہی کے عمق اور ایمان کی پختگی نے کربلا کے اس بوڑھے سپاہی کو جوان کر دیا تھا۔ بالکل اصحاب کہف کی طرح کہ جن کی روحیں سایہ ایمان میں جوان ہوچکی تھیں، پھر قرآن نے ان کو "فتیہ" (یعنی جوان) کہا، جبکہ حقیقت میں ان میں سے جو سب سے چھوٹے تھے،کہا جاتا ہے وہ اس وقت ستر سال کے لگ بھگ تھے۔ لیکن اس کے برعکس حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کو اس کے ضعف ایمانی اور کفر کی وجہ سے  سورہ شعراء میں عجوزہ کہا گیا ہے۔

یہی حبیب جب امام علیہ السلام سے وداع ہونے لگے تو امام علیہ السلام سے عرض کرتے ہیں؛ اے مولا ؛ خدا کی قسم میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی نماز بہشت میں ادا کروں اور آپ کا سلام آپ کے جد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچاوں، یعنی حسین علیہ السلام کے اصحاب اسقدر عاشق خدا ہیں کہ بہشت میں بھی خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ آج کے عزادار و محبت کے دعویدار جو دنیا میں بھی (کہ محل عبادت و عمل  ہے) نماز سے عشق تو دور کی بات، نماز والی مجلس نہیں سنتے۔ ان مشکل حالات میں بھی عاشور کی شب امام علیہ السلام کے اصحاب کی معنویت و خدا محوریت کا وہ عالم تھا کہ ہر خیمے سے تسبیح و تقدیس اور تلاوت قرآن کی صدائیں بلند تھیں۔ (مقتل خوارزمی ج 1ص249 و الکامل فی التاریخ ج2 ص558)۔

اگر کسی کو امام علیہ السلام کے اہل بیت، اصحاب و انصار کی معرفت الہی دیکھنی ہو تو اسے چاہیئے وہ اس کاروان حسینی کی مستورات حضرت زینب، ام کلثوم و فاطمہ صغریٰ سلام اللہ علیھا کے ان خطبات  کا مطالعہ کرے جو کوفہ و شام میں دیئے اور لہوف، امالی طوسی، بحارالانوار، کامل ابن ایثر، احتجاج اور مقتل الحسین جیسی کتب میں نقل ہوئے ہیں۔ کوفہ کے دربار میں جب ابن زیاد ملعون نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا سے پوچھا؛ «کیف رایت صنع الله باخیک و اهل البیتک؟» جو کچھ خدا نے تیرے بھائی حسین اور اہل بیت کے ساتھ کیا، تم اس کو کیسے دیکھتی ہو؟ اس ملعون کا مقصد توہین و اہانت کرنا تھا، لیکن بی بی نے فرمایا؛ (ما رایت الا جمیلا) میں تو حسن و جمال کے  علاوہ کچھ نہیں دیکھتی۔ یا امام علیہ السلام کی اپنی بہن کو وصیت (یا اختاه لا تنسی فی نافلة اللیل۔ زینب الکبری ص62 و ریاحین الشریعه ج3 ص62 ،خصائص زینبیه ص120) کہ نماز شب میں مجھے یاد رکھنا، کیونکہ امام علیہ السلام جانتے تھے میری بہن معرفت الٰہی اور ایمان راسخ کے اس درجہ پر فائز ہے کہ ان تمام مصائب، ان تمام روحی و جسمی شکنجوں کے باوجود نماز شب ضرور ادا کرے گی۔

رضائے الٰہی
امام حسین علیہ السلام نے مدینۃ الرسول سے کوچ کے وقت ایک خطبہ دیا اور فرمایا؛ میں کسی قسم کی قدرت طلبی کے لئے وطن کو ترک نہیں کر رہا، بلکہ فرمایا؛ اے پروردگار میں تیری رضا میں راضی ہوں، تیرے امر کے سامنے سر تسلیم خم ہوں اور تیری قضا پر صبر کروں گا۔(3) اور یہی عالم امام علیہ السلام کے اہل و عیال اور انصار و اعوان کا تھا۔ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کے زخموں سے چور اور بے گور و کفن لاشے پر پہنچی ہیں تو فرماتی ہیں؛ خدایا اس قربانی کو ہم سے قبول فرما۔ (حیاة الامام الحسین علیه السلام ج2 ص301)۔ اس طرح ہانی ابن عروہ کے زیارت نامے میں آیا ہے؛ اے وہ کہ جس نے رضائے الٰہی میں اپنی جان فدا کر دی۔ (مفاتیح الجنان، زیارت حضرت مسلم، ص403)

اطاعت و ولایت مداری
قرآن کریم کی صراحت «یا ایهاالذین آمنوا اطیعوالله و اطیعواالرسول و اولی الامر منکم» اور مسلّم عقائد امامیہ کے مطابق امام کی اطاعت واجب اور ان کی نافرمانی ایک ناقابل بخشش گناہ و  رحمت الٰہی سے دوری کا سبب ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے باوفا سپاہیوں کی اطاعت کا یہ عالم تھا کہ وہ امام علیہ السلام کے اوامر و دستورات کو بغیر کسی چوں و چرا کے انجام دیتے تھے۔ امام علیہ السلام کے حکم پر اصحاب نے خیام کی پشت پر ایک خندق کھودی، جس کو آگ سے بھر دیا گیا، تاکہ دشمن پشت خیام سے ان پر حملہ آور نہ ہو، کیونکہ امام علیہ السلام دشمن کی نامردی سے اچھی طرح واقف تھے۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ شمر لعین کچھ سپاہیوں کے ساتھ اس خندق کے قریب آیا اور اہانت  آمیز لہجے میں کہنے لگا؛ حسین تم نے قیامت سے پہلے ہی اپنے لئے آتش کا اہتمام کر رکھا ہے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں، اے بھیڑیں چرانے والی کے بیٹے، آتش تیرے لئے شائستہ ہے، نہ کہ فرزند رسول (ص) کے لئے۔ مسلم ابن عوسجہ نے تیر کمان میں لیا اور عرض کی، مولا اجازت دیں اس کا کام تمام کر دوں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا؛ مسلم تیر کمان رکھ دو، میں پسند نہیں کرتا کہ ہم جنگ کا آغاز کریں، مسلم نے تیر کمان پھینک دیا۔ اسی طرح حضرت عباس کا مشکیزہ لے کر بغیر کسی چون و چرا کے میدان جانا، امام  علیہ السلام کی ایسی اطاعت ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ (بحارالانوار ج 52 ص308)

اصحاب حسین علیہ السلام ایسے ولایت مدار تھے کہ امام علیہ السلام کے بیعت اٹھا لینے کے باوجود بھی وفادار رہے اور اپنے عہد و پیمان سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ جناب سعید بن عبداللہ حنفی کہتے ہیں؛ خدا کی قسم اگر قتل کیا جا‏‏‏ؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر زندہ جلا دیا جاؤں اور ٹکڑے ٹکڑے کیا جاؤں اور یہ عمل ستر مرتبہ دھرایا جائے، پھر بھی آپ علیہ السلام کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ (عیون الاخبار، ج 4، ص35۔ الارشاد، ج 2، ص 92 و 93)۔ عمرو بن قرظہ نے دشمن کے ہر آنے والے تیر کو اپنے سینے سے لگایا، تاکہ فرزند رسول پر کوئی آنچ نہ آئے اور امام علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ نماز ظہر ادا کرسکیں۔ اس صحابی امام کے بدن اقدس پر اتنے تیر لگے کہ زمین پر گر پڑے، امام علیہ السلام سے عرض کی، مولا کیا میں نے وفا کی؟ امام علیہ السلام نے فرمایا؛ تم نے وفا کی، تم مجھ سے پہلے بہشت میں داخل ہوگے، رسول خدا (ص) کی خدمت میں میرا سلام عرض کرنا۔ (اعیان الشیعہ، ج1، ص605) حبیب ابن مظاہر، مسلم بن عوسجہ کے آخری لحظات میں ان کے سرہانے پہنچے اور ان کو جنت کی بشارت دی، تو جناب مسلم نے حبیب سے کہا میں تم  کو وصیت کرتا ہوں کہ اپنی آخری سانس تک امام علیہ السلام کی حمایت و نصرت سے دستبردار نہ ہونا۔(مقتل خوارزمی، ج2، ص15)

شجاعت
شجاعت کا تعلق انسان کے جسم سے نہیں بلکہ اس کے قلبی اعتقاد سے ہوتا ہے، جن کا پختہ ایمان خدا پر ہو، وہ خدا کے علاوہ کسی چیز سے نہيں ڈرتے۔ جو شوق عشق سے لڑتے ہیں، وہ موت سے نہیں بلکہ موت ان سے ڈرتی ہے، تب ہی تو امام علیہ السلام کے بعض اصحاب زرہ پہن کر نہیں، اتار کر دشمن کے مقابل جاتے تھے۔ یہ تو صرف انکو معلوم تھا کہ حسین علیہ السلام کے ہم رقاب جہاد کرنا اور پھر زخم پر زخم کھاتے ہوئے جان فدا کرنا کتنا لذت بخش ہے۔ یاران امام علیہ السلام کی شجاعت کا وہ عالم تھا کہ دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا اور یہ کہتا دکھائی دیا؛ ہم پر ان خشمگین شیروں نے حملہ کیا ہے کہ جن کے پنجوں میں تیز دھار تلواریں تھیں اور وہ ہمارے لشکر کو تار و مار کر رہے تھے، وہ موت سے ذرہ بھی خائف نہیں تھے۔ (عنصر شجاعت، خلیل کمره ای ج1ص20) مرد تو مرد، اہل بیت امام علیہ السلام اور بالخصوص حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی شجاعت کا وہ عالم تھا کہ قید و بند میں ہونے کے باوجود وہ سرتسلیم خم نہیں ہوئیں اور باطل کی ولایت کو قبول نہیں کیا، یہاں تک کہ ابن زیاد جیسے ابلیس کو بھی کہنا پڑا کہ یہ زن متکبر ہے۔ جس کو وہ تکبر کہہ رہا تھا، درحقیقت وہ شجاعت تھی، جس نے ستمگر حاکم شام کے ‏غرور کو خاک میں ملا دیا تھا۔

ایثار و فداکاری

ایثار کا مطلب ہے فداکاری، دوسروں کو اپنی ذات پر فوقیت دینا۔ کربلا میں یہ صفت اپنے پورے عروج  اور آب وتاب میں دیکھی گئی، جب تک امام علیہ السلام کے اصحاب زندہ رہے، انھوں نے بنی ہاشم میں سے کسی کو میدان جانے نہیں دیا۔ شاید کوئی سوال کرے، امام علیہ السلام کے اصحاب تو میدان کارزار میں جام شہادت نوش کرتے رہے، لیکن امام علیہ السلام نے اپنے اہل بیت و بنی ہاشم کو پہلو میں بٹھائے رکھا۔ اس کے دو جواب دیئے جاسکتے ہیں، ایک تو اصحاب حسین علیہ السلام کی اہل بیت علیہم السلام سے الفت و محبت اپنی انتہا پر تھی کہ اصحاب کے ہوتے ہوئے بنی ہاشم کا میدان جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ دوسرا میدان کربلا میں جو جتنی دیر زیادہ زندہ رہتا اس کو اتنی ہی زیادہ شجاعت و فداکاری درکار تھی، کیونکہ اس کو اتنا ہی زیادہ پیاس و مصائب کا سامنا کرنا تھا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام علیہ السلام کا ننھا سپاہی علی اصغر کس شجاعت کا ملک تھا اور پھر فرزند رسول کی شجاعت۔
خبر کا کوڈ : 494253
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش