0
Wednesday 18 Nov 2015 17:40

داعش کا خاتمہ ہی اس فتنہ سے راہ نجات

داعش کا خاتمہ ہی اس فتنہ سے راہ نجات
تحریر: جاوید عباس رضوی

شام و عراق میں سر چڑھ کر بولنے والا تکفیری فتنہ اپنے وجود میں آنے سے پہلے ہی اہل فکر و دانش کے نزدیک کھلی کتاب تھا، کوئی مبہم سازش تھی نہ کوئی ڈھکی چھپی بات، یہ وہی حربہ تھا جو پہلے طالبان اور القاعدہ کی شکل میں دشمن اسلام آزما چکا ہے، یہ وہی خونین کھیل تھا، جس کا تلخ تجربہ عالم اسلام سالہا سال کرچکا تھا، شام میں طویل مدت تک ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، عراق میں بھی نام نہاد اسلامی حکومت کے قیام کے لئے مسلمانوں کی جان و مال و عزت سے تجاوز کیا گیا، شام و عراق کی قابل تحسین، قابل داد عوامی استقامت آخر رنگ لائی اور شام و عراق و ایران و روس کی سیاسی بالیدگی کام آئی، داعش اپنے ناپاک ارادوں سمیت شام و عراق میں ہی مٹ گئے، اس قدر فشار کا شکار ہوئے کہ داعش تکفیری فتنہ سے وابستہ دہشتگرد اپنے حلئے بدل کر اپنے اصل وطن کی طرف لوٹنے لگے۔ عوامی استقامت اور روسی فضائی حملوں کے نتیجہ میں ہوئے فشار کے بعد اب ان تکفیری دہشتگردوں کو کہیں پناہ تو لینی ہی ہے، یا اپنے اصل کی طرف لوٹ جانا ہے، جہاں جہاں سے انہیں اکٹھا کیا گیا ہے، وہاں اب اس فتنہ کا مزہ تو چکنا ہی ہے، اگر داعش کا وجود تنہا عالم اسلام میں قتل و غارتگری کا بازار گرم کرنے کے لئے تھا تو اب اس کے برعکس دیگر دنیا کو بھی اس وحشی دنیا کو دیکھنا ہے۔

فرانس میں ہوئی بے گناہ ہلاکتوں کے بعد اب امریکہ و برطانیہ، ہندوستان کو بھی داعش کو برداشت کرنا پڑ سکتا ہے، داعش (آئی ایس آئی ایل) اپنے وجود میں آنے سے پہلے بھی سراپا شر تھا، شام و عراق میں ہزاروں افراد کی قتل و غارتگری کے بعد بھی داعش داعش ہی تھا، عزت مآب خواتین کی جہاد النکاح کے نام پر عصمت دری کے وقت بھی داعش انسانیت دشمن تکفیری تنظیم تھی اور اب پیرس میں ہوئی حملے کے بعد بھی داعش شام و عراق میں فعال داعش ہی ہے، مختلف ممالک کے ذی شعور حکمران داعش کو روز اول سے ہی انسانیت دشمن، انسانی اقدار کی دشمن، اسلام دشمن تنظیم گردانتے تھے، وہ شام و عراق میں ہمیشہ تکفیری کارروائیوں کی مذمت کرتے آئے ہیں، وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ اس فتنے کا خاتمہ ہوجائے، ان کا ماننا ہے کہ دہشتگردی جہاں بھی ہو، جس روپ میں ہو، جس کسی کی سربراہی میں ہو، قابل نفرت اور قابل مذمت ہے، وہ اب پیرس میں ہوئے حملے کے بعد بھی وہی اپنا روز اول والا مطالبہ دہراتے ہیں کہ اس تکفیری فتنہ سے نجات کا واحد راستہ اسکا خاتمہ ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا بھر کی دہشت گردی کی سربراہی برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل کر رہا ہے اور دیگر ممالک ممالک جن میں عالم اسلام کے بعض ممالک بھی شامل ہیں، انکی معاونت کر رہے ہیں، داعش فتنہ میں بھی یہی سلسلہ، یہی سربراہی، یہی معاونت جاری رہی اور دوسری طرف اس تکفیری دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمہ کے لئے روس و ایران نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا، جس میں فرانس بھی قدرے معاون ہی ثابت ہوا، کہا جا رہا ہے کہ پیرس میں ہوئے حملہ آوروں (داعش) نے حملوں کے دوران فرانسی حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے کہا تھا کہ شام و عراق میں ہمارے معاملہ میں مداخلت نہ کریں، یہ حملے اسی کا نتیجہ ہے۔‘‘ اب اگر تھوڑی سے مداخلت کا نتیجہ یہ ہوا تو روس اور ایران میں اگر ان کے اختیار میں ہوا تو بڑی سے بڑی کارروائی کر گذرتے، لیکن یہاں ایسے ممالک کی دفاعی صلاحیت سوچنے کی ہے، کہ جو نہ صرف اپنی حفاظت و اپنا دفاع اعلٰی استعداد سے کر رہے ہیں بلکہ تمام مستضعفین عالم کا دفاع انقلاب اسلامی ایران کا شیوہ ہے۔

تمام ذی حس اور صاحب فہم اشخاص دہشتگردی سے متنفر ہیں، دہشت گردی دنیا کے جس خطے میں ہو رہی ہو، جس شکل میں ہو اور جس کسی کی سربراہی میں ہو، قابل مذمت ہے۔ افغانستان، پاکستان، شام اور عراق میں طالبان، القاعدہ اور داعش کی انسانیت دشمن کارروائیوں سے کوئی ذی شعور مطمئن نہیں ہوسکتا، تمام دہشت گرد گروہوں کا مقصد وجود یکساں ہوا کرتا ہے، داعش کا بھی نام تبدیل کیا جائے اور دوسرا کوئی مقدس نام رکھا جائے، ہمیں فریب میں ہرگز نہیں آنا چاہیے، دہشت گردی کا کوئی بھی ورجن ہو ہمیں دھوکہ نہیں کھانا چاہیئے۔ یقیناً عنقریب داعش کو دنیا سے ختم ہونا ہے، اس داعشی فتنے کا خاتمہ ہی اس سے راہ نجات ہے، شام و عراق میں انکے لئے راہ فرار مسدود کرکے انہیں وہیں ختم کرنا ہوگا، تمام ممالک کو اس بات پر متحد ہونا چاہیئے کہ شام و عراق میں ہی داعش کا خاتمہ کیا جائے، ایسا کرنا ہی تمام ممالک کے لئے مفید ثابت ہوگا، دنیا کو اپنی سرحدوں پر چوکسی برتنے کے بجائے شام و عراق کی حکومت کا معاون بن کر شام و عراق کی سرحدیں داعش کے لئے تنگ کرنا ہونگی۔
خبر کا کوڈ : 498712
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش