1
Wednesday 3 Feb 2016 20:30

جنیوا مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ختم

جنیوا مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ختم
تحریر: عرفان علی

جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، شام کی تقدیر کا فیصلہ بیک وقت دو جگہوں پر ہو رہا ہے: ایک میدان جنگ میں تو دوسرا مذاکرات کی میز پر۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں شام کے حوالے سے متعدد خبریں گردش میں ہیں۔ تازہ ترین خبر بی بی سی انگلش کی ہے، جس کا عنوان ہے کہ حلب کی کارروائی سے مذاکرات خطرے میں۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی سربراہی میں شام کو میدان جنگ بنانے والے گروہوں اور شامی حکومت کے نمائندگان سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں جمع ہیں۔ شام کے وفد کی قیادت بشار ال جعفری کر رہے ہیں، جو اقوام متحدہ میں شام کے سفیر ہیں۔ انہوں نے دو اہم نکات بیان کئے ہیں، ایک یہ کہ مذاکرات کے لئے جب شام نے کوئی پیشگی شرط نہیں رکھی تو مخالف فریق کی جانب سے بھی کوئی پیشگی شرط نہیں مانی جائے گی۔ دوسری اہم بات جو پہلے سے زیادہ اہم ہے وہ ان مذاکرات میں محمد علوش کی شرکت ہے، جو دہشت گرد تکفیری گروہ کا سربراہ ہے۔ احرار الشام کے نمائندے بھی وہاں پہنچے ہیں۔ نام جیش الاسلام رکھنے سے کوئی فوج اسلام کی فوج نہیں بن جاتی بلکہ کام سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی ہے یا صہیونی سعودی تکفیری! اس دہشت گرد کی آمد پر تہران میں جرمنی کے وزیر خارجہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں ایران کے وزیر خارجہ نے تبصرہ کیا کہ دہشت گردوں کو مذاکرات میں شمولیت کی اجازت دینا اقوام متحدہ کی ساکھ خراب کرکے رکھ دے گا۔

یاد رکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ بی بی سی سمیت مغربی ذرائع ابلاغ کی خبروں اور تجزیوں میں دہشت گردوں کے موقف کو ہی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور صحافی حضرات بھی اسی زاویے سے لکھ رہے ہیں یا بول رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بی بی سی کی خبر ان دہشت گردوں کی بلبلاہٹ پر مبنی ہے، جو حلب میں روس اور شام کی فوجی کارروائی کی زد میں آچکے ہیں اور انہیں اس طرح گھیرے میں لیا جا چکا ہے کہ اب راہ فرار ممکن نہیں ہے۔ ایک اور مثال وال اسٹریٹ جرنل میں محمد علوش کا موقف پیش کیا گیا ہے جو روس کی فضائی کارروائی کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ اس کا یہ جملہ نقل کیا گیا ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان خون ہے۔ اس کا برادر نسبتی تکفیری گروہ جیش الاسلام کا بانی زھران علوش مارا جاچکا ہے اور خون سے مراد اس کی ہلاکت ہے لیکن یہ یکطرفہ بات ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ جس علاقے میں اس کا برادر نسبتی مارا گیا، وہاں اس تکفیری گروہ کی مدد سے جعلی ریاست اسرائیل کے نسل پرست صہیونی دہشت گرد فوجیوں نے سمیر ال قنطار کو شہید کیا تھا اور اسی تصویر کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ دمشق میں جناب سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے حرم مطہر کے قریب خودکش دھماکے بھی کئے گئے، جس میں درجنوں عرب مسلمان شہید ہوئے۔ مذاکرات کے وقت اگر انہیں دھماکوں اور قتل و غارت گری کی اجازت ہے تو اس سے زیادہ یہ حق شام کی ریاست و حکومت کا ہے کہ وہ ان باغی سفاک دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دے نہ کہ مذاکرات کے چکر میں انہیں کوئی رعایت دے۔

یہی وجہ ہے کہ آج روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ سیز فائر صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے، جب ترکی کی سرحدوں سے شام میں موجود دہشت گردوں کو اسلحے کی منتقلی روک دی جائے۔ امریکی وزیر خارجہ بھی حلب کی آزادی کے لئے کئے جانے والے تازہ ترین آپریشن پر دہشت گردوں کو تقویت دینے والا بیان دے چکے ہیں کہ بموں کی برسات میں مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ یعنی مذاکرات سے فرار کے بہانے تلاش کئے جا رہے ہیں۔
شام میں جو اپوزیشن گروپ پہنچا ہے، اسے اعلٰی سطحی مذاکراتی کمیٹی کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا ترجمان سالم عبدالعزیر ال مسلط کو بنایا گیا ہے۔ جس طرح یہ کمیٹی سعودی عرب میں تشکیل دی گئی ہے، اسی طرح سالم بھی 1985ء سے ایک سعودی کمپنی کا ملازم رہا اور 1998ء سے 2011ء تک اسے متحدہ عرب امارات میں ایک ادارے میں ملازمت دی گئی۔ اس کا تعلق شام کے صوبے حسکہ سے ہے، جو ترکی کی سرحد پر واقع ہے۔ کہنے کی حد تک وہ شام کے قبائلیوں کی کاؤنسل کا صدر ہے۔ 1959ء میں پیدا ہونے والے سالم نے ایم اے امریکا کی ایک یونیورسٹی سے کیا ہے۔ اب خود ہی فیصلہ کرلیں کہ اس کی زندگی کے کتنے دن، مہینے اور سال شام میں گذرے ہوں گے۔ اعلٰی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ ریاض حجاب خود شام کے صدر بشار الاسد کی صدارت میں وزیراعظم جیسے اعلٰی عہدے پر رہ چکے ہیں اور ایک دور میں وزیر بھی رہے۔ انہیں عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ ماضی میں وہ بعث پارٹی کے عہدیدار تھے۔ شام کی بعث پارٹی کے بہت سے افراد کے بارے میں ہم شام کے بارے میں لکھے گئے مضامین میں تفصیل بیان کرچکے ہیں۔ ان کا مسئلہ بھی وہی ہے یعنی حکومتی عہدے سے برطرفی اور شام کی حکومت کی جانب سے لفٹ نہ کرایا جانا۔ یعنی یہ کہ یہ کوئی نظریاتی حریف نہیں ہیں۔

شام کے مذکرات تادم تحریر شروع ہی نہیں ہوسکے ہیں۔ سعودی عرب کی اعلانیہ سرپرستی میں متحد ہونے والے مختلف مفادات رکھنے والے اس فریق مخالف نے تو تاحال اقوام متحدہ کے نمائندے اسٹیفان ڈی مسچورا سے ملاقات سے بھی انکار کر دیا ہے، چہ جائیکہ شام کی حکومت سے مذاکرات۔ پہلے بھی ان مذاکرات کے حوالے سے ہم عرض کرچکے ہیں کہ شام میدان جنگ میں جیت رہا ہے اور میدان جنگ میں شام کی حکومت کی مضبوط پوزیشن ہی مذاکرات کی میز پر اس کی حیثیت کا تعین کرے گی۔ شام کی حکومت اور اس کے اتحادی ممالک روس اور ایران نے یہ اچھا فیصلہ کیا ہے کہ غیر مشروط مذاکرات کی تائید کی ہے، لیکن ساتھ ہی شام کی حکومت کے اس فیصلے کی بھی تائید کر دی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور مذاکرات بیک وقت جاری رہیں گے۔ سیز فائر تو اس صورت میں ممکن ہے جب شام دشمن گروہوں کی مدد کرنے والے پڑوسی ممالک سے اسلحے کی ترسیل رک جائے۔ اقوام متحدہ کے نمائندے اسٹیفان ڈی مسچورا نے کہہ دہا ہے کہ مذاکرات ہونے سے پہلے ہی ناکام ہوسکتے ہیں کیونکہ دونوں فریقین میں اعتماد کی سطح صفر ہے۔ شام دشمن گروہوں کی جانب سے جو دو مطالبات پیشگی شرط کے طور پر سامنے رکھے گئے ہیں، یہ مطالبات خود ان کی کمزور حیثیت اور شکست خوردہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ان کے خلاف کارروائی بھی روک دی جائے اور ان علاقوں کا محاصرہ بھی ختم کردیا جائے جہاں وہ موجود ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ راہ فرار ڈھونڈ رہے ہیں کہ جیسے ہی محاصرہ ختم ہو تو پناہ گزین عام شہریوں کا روپ اختیار کرکے کسی دوسرے ملک منتقل ہوجائیں۔ اب تک کی صورتحال یہ ہے۔ جوں ہی مزید کوئی ڈیولپمنٹ ہوتی ہے تو اسی تحریر کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے گا۔

پاکستان میں بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کا وقت ہے کہ بی بی سی نے اپنی خبر کو اپ ڈیٹ کیا ہے اور مذاکرات معطل ہوچکے ہیں۔ البتہ اقوام متحدہ کے نمائندے نے کہا ہے کہ  25 فروری کو دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو مذاکرات کا عمل ناکام ہوا ہے اور نہ ہی اختتام پذیر۔ شامی وفد کے سربراہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب، قطر اور ترکی کے احکامات کے تحت مخالف فریق نے جنیوا مذاکرات کو ناکام بنایا۔ شام کی حکومت نے حلب کے شمال مغرب میں واقع نبل اور الزھراء کے شہروں کو دہشت گردوں کے محاصرے سے آزاد کروا لیا ہے۔ مذاکرات کی آڑ میں باغی دہشت گردوں کے آقا ممالک ان شہروں میں شام کے فوجی آپریشن کو رکوانا چاہتے تھے، لیکن اس مقصد میں ناکامی نے شاید انہیں مذاکراتی عمل سے وقتی طور پر دوری پر مجبور کر دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 517975
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش