0
Monday 11 Jul 2016 20:18

ہم ایسے ہی ہیں ایدھی صاحب

ہم ایسے ہی ہیں ایدھی صاحب
تحریر: نجم ولی

ایک مرتبہ لیاقت بلوچ کی انتخابی صندوقچی سے تین، ساڑھے تین ہزار ووٹ نکلے تو میں نے پوچھا، لیاقت صاحب اس سے کئی گنا زیادہ تو آپ نے اس حلقے میں رہنے والوں کے پیاروں کے جنازے پڑھ ڈالے، ان گھروں میں سے بھی کوئی آپ کو ووٹ دینے نہیں نکلا اور اب یہی سوال ایدھی صاحب سے ہے، ملک بھر میں آپ کے پونے چار سو مراکز کام کررہے ہیں، بارہ سو ایمبولینسیں ہیں جن میں سے تین سو صرف کراچی میں چلتی ہیں، پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں ایم اے جناح روڈ سمیت تقریبا ہر سڑک سے ہی روزانہ ان کی کوئی نہ کوئی ایمبولینس گزرتی ہے جس میں شہر قائد کے کسی نہ کسی شخص کا کوئی نہ کوئی پیارا بیمار، زخمی یا مردہ حالت میں ہوتا ہے، جی ایدھی صاحب، مجھے یہی کہنا ہے کہ اگر دو کروڑ کی آبادی کے شہر کی ایک فیصد آبادی بھی آپ کی محبت اور خدمت کا قرض چکا دیتی تو اسٹیڈیم میں کم و بیش دو لاکھ سر موجود ہوتے مگر وہاں تو پندرہ، بیس ہزار ہوں گے، چلیں میں کون سا پرویز رشید ہوں کہ بغیر موجودگی کے ہی بندوں کی اصل تعداد کا اندازہ لگا لوں، بیس نہیں تو پچیس ہزار ہوں گے، مجھے علم ہے کہ ایدھی صاحب اس پر تبصرہ نہیں کریں گے کہ وہ قوم کی خدمت کسی نوبل ایوارڈ لینے یا اپنا جنازہ پڑھوانے کے لئے نہیں کر رہے تھے مگر مجھے ایدھی صاحب سے کہنا ہے کہ ہم آپ کے جنازے پر بہت کم تعداد میں آئے اور اس کی وجہ اور صرف یہ ہے کہ ہم ایسے ہی ہیں۔

جی ہاں ایدھی صاحب اگر ہم ایسے ہی نہ ہوتے تو یقینی طور پر ہمارے حالات بھی اچھے ہوتے، ہم اچھے ہوتے تو ہم پر نازل ہونے والے حکمران بھی اچھے ہوتے، اگر حکمران اچھے ہوتے تو پھر ہمیں آپ کی ایمبولینسوں کی ضرورت بھی نہ ہوتی، جو کام آپ مانگ تانگ کے کر رہے ہیں وہ سرکار طنطنے کے ساتھ کر رہی ہوتی۔ ایدھی صاحب! میں آپ کو بتاؤں کہ غلطی ہماری نہیں ہے بلکہ آپ کی ہے، آپ کو علم ہے کہ بدھ کے روز عید الفطر تھی اورآپ کو علم ہونا چاہئے تھا کہ عید پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہر خالی ہوجاتے ہیں، سچ پوچھیں تو اگلا ورکنگ ڈے سوموار ہی ہونا تھا اور آپ جمعے کے روز انتقال کرگئے۔ میں مانتا ہوں کہ آپ ایک درویش تھے مگر آپ کے جنازے میں تو صرف درویشوں نے نہیں حکمرانوں نے آنا تھا، آپ کا پروٹوکول ضروری نہیں تھا اور نہ ہی آپ نے کبھی سکیورٹی کے نام پر پروٹوکول قبول کیا تھا مگر ان کا پروٹوکول تو تھا جو اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور جیسے شہروں سے اپنے تمام کام کاج چھوڑ کے آئے تھے، دوسرے ہم میرٹ پر ہمیشہ صرف مُردوں اور جنازوں کو پروٹوکول دینے کے عادی ہیں، ہم اپنی عادت کیسے بدل سکتے تھے۔ میں نے بہت ساروں سے پوچھا، یہ ایدھی صاحب کے جنازے پر لوگ لاکھوں میں کیوں نہیں تھے، ہزاروں میں کیوں تھے ، بہت ساروں نے جواب میں کہا کہ وی وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے، کہا گیا تھا کہ اسٹیڈیم کے دروازے گیارہ بجے بند کردئیے جائیں گے اور دوسرے دروازوں پر داخلے کے وقت تلاشی کے لئے لمبی قطاریں لگ گئی تھیں، جی ایدھی صاحب، یہ درست ہے کہ آپ غریبوں کی خدمت کرتے تھے اور اب غریبوں کے پاس بھی اتنا وقت کہاں تھا کہ وہ دو، تین گھنٹے پہلے آجاتے، چیکنگ کروا لیتے، جو دس، بیس یا پچیس ہزار آگئے، انہی کی نمائندگی کو کافی سمجھئے اور یوں بھی نماز جنازہ فرض کفایہ ہے، دو کروڑ کے شہر میں سے بیس ہزار آگئے تو شرعی طور پر دو کروڑ ہی نہیں بلکہ بیس کروڑ پر آپ کا قرض اور فرض دونوں ہی چُکتا ہو گئے۔ ہم نے گھر بیٹھے ہی فیس بک پر حق گوئی کی انتہا کر دی کہ غریبوں کے ہم درد کا جنازہ ریاست کے طاقت ور لوگوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ ابھی تو غنیمت جانئے کہ ملک کے آئینی اور سوشل میڈیا کے خیالی دونوں وزرائے اعظم بھی جنازے میں نہیں آئے کہ ایک کو لندن سے آنا تھا اور وہ ایک روز پہلے نہیں آ سکتے تھے اور دوسرے کو لندن جانا تھا اور وہ ایک روز بعد نہیں جا سکتے تھے۔ آپ چاہے ایدھی فاونڈیشن میں اربوں روپوں کے اثاثوں کے مالک ہوں مگر میٹھادر جیسے محلے میں اپنی پوری عمر دو جوڑے کپڑوں میں گزار دینے والے کو کیا علم کہ وقت پر لندن جانا اور آنا کتنا ضروری ہوتا ہے۔


ہاں ! یاد آیا، ہمارے تو آپ کے ساتھ گلے شکوے بھی ہیں، آپ ایسے ہوں گے جو انسانوں کو مذہب رنگ نسل نظرئیے اور سیاسی وفاداری سے بالاتر ہو کر صرف انسان سمجھتے ہوں گے، ان کی بغیر کسی امتیاز خدمت کرتے ہوں گے مگر ہم تو آپ جیسے کلر بلائینڈ نہیں ہیں، ہمیں تو اپنے دھڑے بھی نظر آتے ہیں اور ان دھڑوں سے جڑے اعزازات اور اموال کے ڈھیر بھی، ہم آپ کی نماز جنازہ پڑھنے یا پڑھانے آ جاتے تو اپنے دھڑے کو کیا جواب دیتے کہ ہم ایک ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑ ھ آئے ہیں جو اللہ کے بندوں کواللہ ہی کی نظر سے دیکھتا ہے، اللہ بھی تو کسی کو رزق، عزت اور زندگی دیتے ہوئے یہ نہیں پوچھتا کہ کیا تو نے گواہی دی ہے کہ میں ہی تیرا رب ہوں اور ہاں، معاملہ صرف نظریات کا ہوتا تو اس پر سمجھوتہ ہو بھی جاتا مگر یہاں تو مال کا معاملہ بھی ہے جسے ہم سال بھر صدقات اور عطیات اور ہر رمضان میں زکوٰۃ کی صورت صرف اپنے لئے مباح جانتے ہیں، یہ آپ ہی تھے جو کراچی جیسے شہر سمیت ملک بھر میں بے پناہ سیاسی اور مذہبی اثر و رسوخ رکھنے والوں کے مقابلے میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں اور اربوں سمیٹ لے جاتے تھے اور ہم اپنی خالی جھولیوں اور صندوقچیوں کو دیکھتے رہ جاتے تھے، اب اس ذکر کو جانے دیں کہ ہم نے آپ کے انتقال پر کیمروں کے سامنے مگر مچھ کے آنسو بہائے یا نہیں مگر دوسری طرف آپ نے ہمیں جتنا مالی نقصان پہنچایا ہے کیا اس کا حساب کیا جا سکتا ہے؟ یہ لاہور کا ایک صحافی آپ کے جنازے میں نمازیوں کے کم ہونے کا واویلا مچا رہا ہے مگر ہم تو کیلکولیٹر لئے بیٹھے ہیں۔


نہیں نہیں، ایدھی صاحب، میں پھر کہوں گا کہ میں کوئی پرویز رشید ہوں کہ جلسوں میں بندوں کے جواب میں جنازوں میں بندے گنتا رہوں اور اس کی بنیاد پر کامیابی اور ناکامی کے فتوے جاری کرتا رہوں مگر مجھے اتنا کہنے دیں کہ کراچی میں امجد صابری، راولپنڈی میں ممتاز قادری اور لاہور میں سلطان راہی کے جنازے آپ کے جنازوں سے کہیں زیادہ بڑے تھے۔ آپ نہ تو معروف قوال تھے، نہ دین کے نام پر آپ نے کسی کو قتل کیا تھا اور نہ ہی آپ فلموں کے ہیرو تھے، آپ تو کوئی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی نہیں تھے جس نے آئین اور جمہوریت کا بستر گول کئے رکھا تھا جس کے لئے سرکاری ٹی وی کا کوئی تنخواہ دار براڈ کاسٹر رو، رو کر لوگوں کو گھروں سے نکالتا بلکہ آپ نے تو بے نظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے لئے مقتدر قوتوں کا آلہ کار بننے سے انکار کردیا تھا، آپ کا کوئی مذہبی، سیاسی اور معاشرتی دھڑا نہیں تھا تو اے ہمارے پیارے ایدھی صاحب، جان لیجئے کہ ہم دھڑے باز ہیں اور آپ کا کوئی دھڑا تھا تو وہ غریب، بے بس اور لاچار لوگ تھے ، میں حیران ہوں کہ وہ بھی بے وفا نکلے۔


ہاں ! یاد آیا، ہم نے سوشل میڈیا پر اپنی ڈسپلے پکچرز کو آپ کی تصویر سے بدل لیا، ہم نے ان یہودیوں کو جی بھر کے گالیاں دیں جنہوں نے اپنا نوبل ایوارڈ آپ کو نہیں دیا مگر معذرت کے ساتھ ہم دو کروڑ آبادی کے شہر میں آپ کے جنازے میں دو لاکھ بھی نہیں آ سکے کیونکہ عید کی چھٹیاں تھیں، گرمی بھی بہت تھی، اگر ہم گھر سے نکل کر اسٹیڈیم پہنچ جاتے تو وی وی آئی پی پروٹوکول بھی رکاوٹ بنتا لہذا ہم عوام نے سوچا کہ تھانے دار کی ماں مرے تو جانا چاہیے مگر جب تھانے دار مر جائے تو پھر جنازے پر جانے کا کیا فائدہ اور آپ تو معذرت کے ساتھ تھانے دار بھی نہیں لگتے تھے۔ آپ جیسے عوامی شخص کے جنازے پر قومی جذبے سے سرشار ایک رپورٹر نے خبر فائل کی، ’ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘ مگر نماز جنازہ کے وقت کچھ اونچائی سے لی گئی تصویر نے جہاں شرکا کی تعدا د کا بھانڈا پھوڑ دیا وہاں نیک بخت محمودوں اور بدبخت ایازوں کی صفوں کے درمیان واضح فرق اور کھلے ڈھلے فاصلے کو بھی نمایاں کر دیا۔ بس ایدھی صاحب، ہم غریب عوام بھی جوق در جوق آپ کے جنازے پر نہیں آسکے اور آپ سے ڈھیٹ بن کر کہنا ہے کہ ہم ایسے ہی ہیں، ہم اگر اچھے ہوتے تو کیا ہمارے حالات نہ اچھے ہوتے، کیا ہمارے آج تک آنے والے حکمران نہ اچھے ہوتے اور کیا ہم آپ کی ایمبولینسوں کے محتاج ہوتے؟
خبر کا کوڈ : 551914
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش