0
Sunday 14 Aug 2016 23:50

دنیا کی نظروں سے اوجھل گلگت بلتستان کے حسین ترین مقامات کا تعارف!

دنیا کی نظروں سے اوجھل گلگت بلتستان کے حسین ترین مقامات کا تعارف!
رپورٹ: میثم بلتی

گلگت بلتستان کا شمار نہ صرف وطن عزیز پاکستان کے حسین ترین علاقوں میں ہوتا ہے بلکہ بغیر کسی مبالغے کے کہا جا سکتا ہے کہ اس جنت نظیر خطے کے چند گوشے ایسے ہیں، جو اپنی یکتائی، حسن و رعنائی اور جاذبیت کے اعتبار سے دنیا کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ہو سکتے ہیں۔ ان میں چند مقامات ایسے ہیں جو اب بھی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ ان حسین ترین مقامات کو پذیرائی نہ ملنا کسی خاص سازش کا شاخسانہ ہے، یہ محض اتفاق ہے یا علاقائی سکیورٹی خدشات کے پیش نظر، فی الوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دنیا بھر اور وطن عزیز پاکستان کے اہل نظر اور صاحبان ذوق ہی نہیں بلکہ خود گلگت بلتستان کے اکثر باسیوں کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں کہ گلگت بلتستان میں ایسے بھی مقامات ہیں، جنہیں دنیا میں جنت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سیاح اور اہل نظر گلگت بلتستان کے حسین مقامات میں پھنڈر، غذر، نلتر، ہنزہ، نانگا پربت، راکا پوشی، خنجراب، کچورا شنگریلا، شگر، دامن کے ٹو، منٹھوکھا اور گانچھے وغیرہ کو جانتے اور یاد رکھتے ہیں۔ لیکن گلگت بلتستان کے ان گوشوں پر سے بھی پردہ اٹھانے اور دنیا کو دکھانے کی ضرورت ہے، جو پاکستان کے حسین ماتھے کا جھومر اور جبیں کا غازہ کہلانے کے مستحق ہیں۔

ان مقامات تک عام افراد بالخصوص ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو رسائی دینے اور انہیں تمام تر سہولیات پہنچانے کی صورت میں سیاحت اتنی ترقی کرسکتی ہے کہ نہ صرف اس سے گلگت بلتستان کی تقدیر بدل سکتی ہے بلکہ پاکستان کے زرمبادلے کے ذخائر میں بھی واضح اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ گلگت بلتستان میں اگر سیاحت پر صاحبان حل و عقد توجہ دیں تو یہاں معاشی انقلاب آسکتا ہے۔ ان مقامات میں جنت نظیر سطح مرتفع دیوسائی، دیوسائی سے ملحقہ گاوں چلم اور استور میں آنے والے مقامات راما جھیل، رٹو، دیوسائی ہی سے ملحقہ علاقہ منی مرگ، ناگئی، قمری، رینبو لیک شامل ہے۔ ان میں کچھ مقامات تو ایسے ہیں جو دشمن ملک کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہیں۔ یہ علاقے سردیوں میں برف کی سفید چادر اوڑھ کر منفی تیس ڈگری سینٹی گریٹ کے موسم کیساتھ اہل علاقہ بالخصوص سرحد پر موجود وطن عزیز کے محافظین پاکستان آرمی کے شیر دل جوانوں کو امتحان میں ڈال رہا ہوتا ہے۔ ہائیٹ، سرد ترین موسم، دنیا سے رابطہ منقطع ہونے کے سبب یہ علاقہ سردیوں کے آٹھ مہینے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے لیکن گرمیوں کے چند مہینے میں یہ علاقے وہ دلفریب اور دلکش نظارے پیش کرتے ہیں کہ خواب کا گماں ہوتا ہے۔

ان جنت نظیر علاقوں کی طرف ایک اہم دورے کا اہتمام ہوا، جس کے تمام مندرجات کو ذکر نہیں کیا جاسکتا، تاہم ان مقامات کے تعارف اور اہمیت پر گفتگو ہوسکتی ہے، جو غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سفر کے دوران جن کرم فرماوں نے کرم نوازی کی اور اس سفر کو یادگار بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، ان آرمی آفسیران کا نام یہاں مناست نہیں، ان تمام کرم فرماوں کی کرم نوازی کے سبب اہم ترین ایسے مقامات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، جنہیں دیکھنا عام افراد کے لئے سکیورٹی خدشات اور دیگر مسائل کے پیش نظر ممکن نہیں۔ ہماری ٹیم نے ان سب کی کاوشوں پر انکا شکریہ ادا کیا۔ ان مقامات پر مختصر تبصرہ کرتے ہیں جن کو دیکھنے کے بعد انسان کے دل و دماغ میں حسن، خوبصورتی، دلکشی کے چراغ جلنے لگتے ہیں۔ ان مقامات کو حسن کا پیکر کہا جاسکتا ہے، جو حسن کے تمام تر معیارات پر پورا اتر سکتا ہیں، انکا ذکر کرتے ہیں۔

دیوسائی دنیا کی چھت، بحر گل اور قدرت کا کرشمہ:

دیوسائی میں گنگاتی خاموشی، مہکتے پھول، چہکتی کلیاں، مچلتی یخ بستہ ہوائیں، ہیرے کی مانند چمکتے پانی، اٹھکیلیاں کرتے دنیا بھر میں معدوم بھورے رنگ کے ریچھ، دریا کے سینے پر کھیلتی، تیرتی اور دریائی بہاو کے مخالف سمت پانی کو چیرتی نکلتی مچھلیاں، اڑتی رنگ برنگ کی تتلیاں، ترارے بھرتے ہرن، کوکو کرتی کوئل، منڈلاتے عقاب اور شاہین، سیٹیاں بجاتی گلہریاں، یاقوت کی مانند نیلے نیلے آسمان، گھنگھور گھٹائیں، پل میں رنگ بدلتے آسمان، چھم چھم اور جم جم برستی بارش، گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھٹکتے مسافروں کی مانند چمکتے جگنو، یہ قدرت سے ابھارا ہوا نقش و نگار، تاحد نگاہ لہلہاتا سبزہ زار، فطرت سے مشاطہ شدہ کیاریاں اور پھول، قدرت کی سینچی ہوئی روشن اور سطح سمندر سے چودہ ہزار سے ساڑے سولہ ہزار فٹ کی اونچائی پر چمکتی جھیل اور اس جھیل کے اوپر موجیں کرتی موجیں، منڈلاتے اور آسمان پر مخمور پھیلاتے رخ بدلتے بادلوں کو دیکھ کر انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔

دیوسائی پر موجود سینکڑوں نادر و نایاب جڑی بوٹیوں کی ماہیت و اثرات اور انواع پر لقمانی نگاہ تاحال نہیں پڑسکی ہے اور نہ ہی مسیحا صفت اطباء ان کی دولت معرفت سے مستفیض ہوسکے ہیں۔ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ سینکڑوں اقسام کے پھول اور جڑی بوٹیاں کیا صرف ماحول میں حسن و رعنائی بکھیرنے کے لئے ہیں یا ان کے فوائد بھی ہیں اور اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں۔ متعدد جڑی بوٹیوں کی معرفت کے بعد مقامی لوگ ان سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ دنیا میں ناپید بھورے رنگ کے ریچھ صرف اس مقام پر کیوں ہیں، یہ بھی شاید کوئی نہ بتا سکے۔ اس میدان میں موجود تمام تر رعنائیوں کو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرنا بھی چند ساعت کا کام نہیں بلکہ تین ہزار مربع کلومیٹر پر محیط اس جنت نظیر میدان میں گھومنے اور تمام تر مناظر کو محفوظ کرنے کے لئے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے۔ بہت زیادہ بلندی پر ہونے اور وسیع میدان ہونے کی وجہ سے دیوسائی کو دفاعی اہمیت بھی حاصل ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے انڈیا، چائنہ، افغانستان اور تاجکستان کی پاکستان کی شمال مغربی اور شمالی فضائی سرحدوں کی آسانی سے نگرانی ہوسکتی ہے۔ اس سرزمین کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت بھی غیر معمولی ہے۔ مختصر یہ کہ دیوسائی کو گلگت بلتستان کے ماتھے کا جھومر کہا جاسکتا ہے۔ حسن و رعنائی کے علاوہ دیوسائی کی دفاعی، سائنسی، تاریخی اور ثقافتی اہمیت بھی منفرد ہے اور یہ موضوع تفصیلی رپورٹ کا متقاضی ہے۔

چلم ضلع استور کا منفرد مقام:
اسکردو کی طرف سے سفر کریں تو دیوسائی کے آخری حصے پر موجود دلفریب جھیل شوسر سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر گلگت بلتستان کے ضلع استور کا پہلا گاوں چلم آتا ہے۔ شرح تعلیم و ترقی کے اعتبار سے یہ علاقہ کافی پسماندہ ہے اور سردیوں میں سخت ترین مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے۔ سردیوں کے تین مہینے معمولاً سات فٹ تک برف پڑتی ہے اور زندگی منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ خطہ قدرتی مناظر سے مالا مال ہے۔ قیمتی اور نادر جڑی بوٹیوں کے علاوہ گھنے جنگلات اس علاقے کی اہمیت میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ دیوسائی اور اسکردو جانے والے سیاحوں کا گزر یہیں سے ہوتا ہے، لیکن اس سلسلے میں خاطر خواہ انتظامات نہیں۔ چلم چوکی سے ہی ایک راستہ استور اور گلگت کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ لائن آف کنٹرول کی طرف جاتا ہے، جن میں قمری اور دمیل شامل ہے۔ دمیل، منی مرگ اور ناگئی جنکا تعارف بعد میں ہوگا، جانے کے لئے پاکستان آرمی کی جانب سے چلم میں موجود کیمپ سے این او سی جاری ہونا ضروری ہے۔ ورنہ علاقے کی حساسیت اور وی آئی پی موومنٹ کے سبب بیج راستے میں کسی بھی چوکی سے واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

منی مرگ جہاں حسن رقص کرتا اور سکون گنگنانا ہے:
چلم سے کوئی تین گھنٹے کے سفر کے بعد منی مرگ سیاحوں کا استقبال کرتا ہے۔ یہ علاقہ لائن آف کنٹرول پر واقع ہونے کے سبب اور جغرافیائی حساسیت کے پیش نظر عام سیاحوں کی آمد و رفت مشکل ہوجاتی ہے اور ایف سی این اے کی جانب سے پیشگی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس راستے میں مرتضٰی ٹاپ پر ایک چھوٹی مگر خوبصورت جھیل انعام کی صورت میں ملتی ہے۔ اس جھیل کے بعد برزل ٹاپ پر وطن کے پاسبان پاکستان آرمی کی چوکی بھی موجود ہے۔ ہماری واپسی پر اس ٹاپ پر نہایت دلفریب مناظر اس وقت دیکھنے کو ملے جب گہرے بادلوں نے ہمیں گھیر لیا۔ بادلوں کے درمیان سے گزرنے کا تجربہ پہلا تھا اور مست و یخ بادل کے ٹکڑے گالوں سے ٹکرا ٹکرا کر گرزتے تھے تو منفرد لطف محسوس ہوتا تھا۔ اتنی دشوار گزار سڑک اور بل کھاتی سڑک سفر کو اور خوبصورت بنانے کا باعث بنتی ہے۔ منی مرگ میں اسی بریگیڈ کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ وہاں سے اجازت لئے بغیر رینبو جھیل نہیں جایا جا سکتا۔ منی مرگ کے مناظر دیکھنے اور درک کرنے سے عبارت ہے۔ وہاں پر موجود قدرتی مناظر سرسبز و شاداب پہاڑ، رنگ برنگ پھول، صاف و شفاف بہتا پانی، شاداب جنگلات کے درمیان سے بہتے گلیشیئر کا یخ پانی، پہاڑوں پر برف اور پہاڑوں کی چوٹی کو چومتے سفید و سیاہ بادل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ خواب میں دیکھا جا رہا ہے۔

منی مرگ سے ثابت ہوا کہ انسانیت کبھی نہیں مرتی:
منی مرگ گاوں کا پرانا نام نین تھا، 1935ء میں نین گاوں کا پوسٹ ماسٹر جس کا نام زنانڈار تھا، اپنی بیوی جسکا نام منی تھا، گاوں میں لے کر آیا۔ پورے نین (منی مرگ) کی باگ دوڑ اسی پوسٹ ماسٹر کے ہاتھ میں تھی۔ یہ دونوں مذہباً عیسائی تھے اور اس وقت مہاراجہ کا دور حکومت تھا، منی اسی گاوں میں تقریباً دس سال رہی اور اس نے 1945ء میں یہیں وفات پائی۔ چونکہ گاوں والے اسکے خاوند کی بہت عزت کرتے تھے۔ علاقے والوں کے دلوں پر انہوں نے حکمرانی کی اور انسانی اقدار کا خاص خیال رکھا۔ لوگوں سے محبت کرنے کے وجہ سے انہوں نے اس گاوں کا نام نین سے بدل کر منی مرگ رکھ دیا، تاکہ ان سے محبت کرنے کی بنیاد پر پوسٹ ماسٹر سے محبت کرنے والی انکی اہلیہ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ منی عورت کے نام سے منسوب اور مرگ فارسی زبان کا لفظ ہے جسکے لفظی معنی موت کے ہیں۔

دومیل سحر انگیز و حیران کن مقام:
منی مرگ سے 14 کلومیٹر کے بعد دومیل آتا ہے۔ گلگت بلتستان کے دیگر خطوں کی طرح یہ خطہ بھی محرومی کی دولت سے مالا مال ہے۔ شرح تعلیم بہت کم ہے۔ طبی سہولیات ناکامی ہیں۔ اس خطے میں بھی عوامی ترقی کے لئے پاک فوج کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ تنگ سڑک جو کبھی پہاڑ کے کنارے سے گزرتی ہے، جس کے دائیں جانب صاف و شفاف اور یخ پانی کا نالہ بہتا ہے، جبکہ نالے کی دوسری طرف بید، چیل اور سروسمن کے درختوں کے جنگلات جو مناظر پیش کرتے ہیں، اسے نہ لفظوں سے بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ کیمرے کی آنکھ میں اتنی طاقت ہے کہ اسے اسکی رعنائی کے ساتھ ضبط کیا جا سکے۔ یہ سڑک سرو سمن کے جنگلات کے درمیان سے گزرتی ہے تو کسی طور نہیں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا ہے۔ مسحور کن ماحول اور نظاروں سے بغل گیر ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ انہی مقامات پر حسن رقص کرتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس گاوں میں گھر کی تعمیر لکڑیوں سے ہوتی ہے۔ اینٹوں کی بجائے لکڑی کے تختوں سے کام لیا جاتا ہے۔ بھاری برف باری سے بچنے کے لئے عمارتیں دو منزلہ ہوتی ہیں۔ سردیوں میں لوگ دوسری منزل پر سکونت پذیر ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگ نہایت سادہ اور محبت کرنے والے ہیں۔

رینبو جھیل یا قطعہ بہشت:
اگرچہ یہ جھیل مصنوعی اور پاکستان آرمی کے جوانوں کی محنت کا نتیجہ ہے، لیکن جس ماحول میں یہ جھیل موجود ہے، کسی طور نہیں لگتا ہے کہ منصوعی ہے۔ اس جھیل کے ایک کنارے پر واقع چھوٹی سی آبشار، جھیل کے صاف و شفاف پانی میں ارد گرد کے مناظر کا عکس، جھیل کے کنارے پر رنگ برنگ کے پھول، پھولوں کے گرد محو طواف حسین و جمیل تتلیاں، چاروں طرف شاداب پہاڑ، پہاڑوں پر موجود سرو سمن کے درختوں کا پانی میں عکس، جھیل کی سطح پر رقص کرتی موجیں، جھیل کی سطح پر اور کبھی تہہ میں جھومتی رینبو مچھلیاں، ارد گرد پہاڑوں کی چوٹی کو چھوتے مخمور بادل، گھنگور گھٹائیں، بادلوں کے درمیان سے اچانک نمودار ہونے والا خورشید جہاں تاب اور پہاڑوں پر موجود گہرے سبز اور سبز رنگ کے سر و سمند کے ایستادہ درخت مسحور کن بنا دیتا ہے۔ دشوار گزار اور طویل سفر کے بعد اس جھیل کو قدرت کی جانب سے ایک حسین سوغات کہا جا سکتا ہے۔ اس جھیل پر آنے کے لئے پاکستان آرمی کی طرف سے اجازت ضروری ہوتی ہے، کیونکہ یہ ایریا آرمی کا ہے۔ اس جھیل میں چوبی نشست گاہ جو جھیل میں پانی پر تیر رہی ہوتی ہے، جہاں بیٹھ کر آپ جھیل کے نظارے سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اسی جھیل کنارے پر سیاح سکون اور چین کی دولت سے مالا مال ہوسکتا ہے۔ رینبو جھیل کو دیکھنے والے اس بات سے ضرور اتقاق کریں گے کہ کوئی اس جھیل کو بخوشی سے چھوڑ کر واپس نہیں جاتا۔ جتنی خوشی اور مسرت اس جھیل کو دیکھنے کے بعد ملتی، اس سے کہیں زیادہ دکھ اسے الوداع کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 560427
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش