0
Saturday 3 Sep 2016 21:40

مقبوضہ کشمیر مہلک ہتھیاروں کی تجربہ گاہ

مقبوضہ کشمیر مہلک ہتھیاروں کی تجربہ گاہ
تحریر: جاوید عباس رضوی

’’پیلٹ گن‘‘ ایک پمپ کرنے والی بندوق ہے، جس میں کئی طرح کے ’’کارتوس‘‘ استعمال ہوتے ہیں۔ یہ کارتوس 5 سے 12 کی رینج میں ہوتے ہیں، پانچ کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اثر کافی دور تک ہوتا ہے۔ پیلٹ گن سے تیز رفتار چھوٹے لوہے کے بال فائر کئے جاتے ہیں اور ایک کارتوس میں ایسے لوہے کے 500 تک بال ہوسکتے ہیں۔ فائر کرنے کے بعد کارتوس ہوا میں پھوٹتے ہیں اور چھرے چاروں سمت میں جاتے ہیں۔ پیلٹ گن عام طور پر شکار کے لئے استعمال کی جاتی ہے، کیونکہ اس سے چھرے چاروں طرف بکھرتے ہیں اور شکاری کو اپنے ہدف پر نشانہ لگانے میں آسانی ہوتی ہے۔ یا یہ وحشی جانوروں کو قابو کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، لیکن کشمیر میں یہ گن انسانوں پر استعمال ہو رہی ہے۔ پُرامن مظاہرین میں خوف و ہراس پیدا کرنے کے لئے اور انہیں ابدی طور بینائی سے محروم کر دینے کے لئے یہاں استعمال کی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس ہتھیار کو 2010ء میں بھی کشمیر میں احتجاج کے دوران قابض فورسز نے استعمال کیا تھا، جس سے 100 سے زیادہ مظاہرین کی موت ہوگئی تھی۔ دیگر مہلک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اب 2016ء میں مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن نے مستقل جگہ بنا لی ہے۔

قابض فورسز کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہرین کو ناکام کرنے کے لئے سکیورٹی فورسز کو 12 نمبر کے کارتوس استعمال کرنا پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت ہی مشکل حالات میں 9 نمبر کارتوس کا استعمال ہونا چاہیے۔ غرض یہ کہ قابض فورسز کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پیلٹ گن یعنی چھرے والی بندوق کا استعمال جاری ہے۔ پیلٹ گن کے چھرے لگنے سے اب تک اکثر مظاہرین کی دونوں آنکھوں کی بینائی چلی گئی ہے اور مظاہرین کا کشمیر سے باہر ہی علاج و معالجہ ممکن ہے، پیلٹ گن کے ایک متاثر نوجوان کی ماں کا کہنا ہے کہ ’’مجھے اپنے زیورات فروخت کرنے پڑ رہے ہیں، تاکہ کشمیر کے باہر اپنے بیٹے کے علاج کا خرچ اٹھایا جاسکے، وہ بھی ناکافی رہا اور ہمیں اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے پیسے قرضے لینے پڑے۔‘‘ جن لوگوں کی پیلٹ گنز لگنے سے بینائی مکمل طور پر چلی جاتی ہے، وہ ذہنی جھٹکا، مایوسی اور ڈپریشن میں بھی ڈوب جاتے ہیں۔ ادھر بتایا جاتا ہے کہ کشمیر میں پہلے سے 8 لاکھ سے زائد قابض فورسز کی تعیناتی کے باوجود مزید فورسز کی کمک کے ساتھ ساتھ 63 کروڑ Pallet کی نئی کھیپ منگوائی گئی ہے۔ حال ہی میں سرینگر میں پیلٹ بندوق کے قہر نے 2 کمسن بچوں سمیت انکے والد کی زندگی کو موت کے دہانے پر پہنچایا ہے۔

قابض فورسز کے ایک اعلٰی آفیسر نے کچھ روز قبل یہ انکشاف بھی کیا کہ 56 دنوں کے اندر احتجاجی مظاہرین پر 20 لاکھ پیلٹ فائر کئے گئے ہیں، جسکی اوسط روزانہ کے اعتبار سے 70 ہزار سے زائد بنتی ہے۔ اسکا آسانی کے ساتھ یہ مطلب نکالا جاسکتا ہے کہ گزرے 56 دنوں میں رواں احتجاج کو روکنے کے لئے 20 لاکھ کے قریب چھرے استعمال ہوئے ہیں، جن کی زد میں آکر دس ہزار کے قریب لوگ زخمی ہوگئے ہیں جبکہ 100 سے زائد نوجوانوں کے آنکھوں کی بینائی مکمل چلی گئی ہے۔ اس مہلک ہتھیار کے استعمال کے خلاف بھارت کے اندر ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ پنتھرس پارٹی کے سربراہ ایڈووکیٹ بھیم سنگھ نے پیلٹ گن کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور کشمیر کے علاوہ دنیا کے کسی تیسرے حصے میں اس مہلک ہتھیار کا استعمال نہیں ہوتا۔ غرض ہر چہار سمت سے مہلک ہتھیاروں کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے لئے بھارتی وزیر داخلہ نے اسکے استعمال پر نظرثانی کرنے کے لئے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی، جس نے مبینہ طور پر اپنی رپورٹ میں ہجوم کو قابو کرنے کے لئے ’’مرچی گرنیڈوں‘‘ اور مدمقابل کو ’’مبہوت‘‘ کرنے کے شیل استعمال کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر پیلٹ کا استعمال جاری رکھنے کی سفارش کی ہے۔ اس کے علاوہ ’’ پاوا‘‘ PAVA اور کانوں کے پردے پھاڑنے والے سماعت شکن شور کے حامل گرنیڈوں جیسے ہتھیاروں کے استعمال کی بھی باتیں کی جا رہی ہیں۔ اس طرح اگر مجموعی طور پر یہ اخذ کیا جائے کہ وادی کشمیر کو ہجوم قابو کرنے کے نام پر نت نئے ہتھیاروں کے استعمال کی تجربہ گاہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ جن نت نئے ہتھیاورں کی باتیں کی جا رہی ہیں، بھارت میں اُنکا استعمال کہیں نہیں ہوا ہے۔

پیلٹ گن‘‘ کی جگہ بظاہر ’’پاوا شل‘‘ لے گا، لیکن رہیں گے دونوں

بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے کشمیر میں چلائی جا رہی پیلٹ گن کا متبادل تلاش کرنے کیلئے قائم کی گئی ماہرین کی کمیٹی نے مرچی پر مشتمل ’’پاوا شل‘‘ پر اپنی نگاہیں جمائی ہیں، جو ماہرین کے بقول کم مہلک ہے اور عارضی طور ہجوم کو بے حرکت کر دیتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ماہرین کی کمیٹی نے رواں ہفتہ کے دوران ایک تجرباتی میدان میں تیار کئے گئے اس نئے شل کا تجربہ کیا اور اس کو ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے استعمال میں لانے کو ہری جھنڈی دکھائی۔ معلوم ہوا ہے کہ اب یہ شل کشمیر میں احتجاجی مظاہرین سے نمٹنے کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ ذرائع کے مطابق ’’پاوا شل‘‘ کے بارے میں تیار کئے گئے بلیو پرنٹ میں لکھا گیا ہے کہ یہ شل گذشتہ ایک برس سے لکھنؤ میں قائم انڈین انسٹی چیوٹ آف ٹاکسیکالوجی ریسرچ لیبارٹری (جو سائنسی و صنعتی تحقیق کے کونسل کی تجربہ گاہ ہے) میں زیر تجربہ تھا اور اس کی مکمل پرداخت اس وقت مکمل ہوئی، جب کشمیر آتش زیرپا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ کمیٹی نے پاوا شل کو پیلٹ گن کے متبادل کے طور استعمال کرنے کی حمایت کی ہے اور یہ سفارش کی ہے کہ گوالیار میں قائم بی ایس ایف کے ٹیر سموک یونٹ کو فوری طور کافی بڑی تعداد میں یہ شل تیار کرنے کی ہدایت دی جائے اور پہلی کھیپ 50 ہزار شیلوں سے کم نہ ہو۔ پاوا شل کا مطلب یہ ہے کہ اس سے خارش ہوگی اور یہ انسانوں کو عارضی فالج زدہ بنا سکتا ہے۔ ایک دفعہ جب یہ شل چلایا جاتا ہے تو یہ زیر نشانہ ہجوم کو عارضی طور ساکت اور فالج زدہ بنا سکتا ہے اور یہ ٹیر گیس شل یا مرچی گیس سے زیادہ موثر ثابت ہوجائے گا۔ بظاہر نعرہ تو یہ ہے کہ پیلٹ گن کی جگہ پاوا شل لے گا لیکن تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ پیلٹ گن اور پاوا شل دونوں کا استعمال ہوتا رہے گا۔ ادھر میڈیا رپورٹز کے مطابق مہلک و مبہوت کردینے والے ہتھیار ’’پاوا شل‘‘ کی پہلی کھیپ جس کی تعداد 50 ہزار بتائی جاتی ہے، آج مقبوضہ کشمیر پہنچائی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 564852
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش