1
0
Friday 7 Oct 2016 09:49

انڈے دینے والا مولوی اور خارجہ پالیسی

انڈے دینے والا مولوی اور خارجہ پالیسی
تحریر: سید مجاہد علی

قومی اسمبلی کی امور خارجہ کمیٹی میں ایک انڈے دینے والے مولوی کے قصہ سے ملک میں طاقت کے توازن کے بارے میں حتمی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی رانا محمد افضل نے سوال کیا ہے کہ کیا حافظ سعید انڈے دیتا ہے کہ ہم نے اسے پال رکھا ہے۔ یہ سوال ان سطور میں گذشتہ کئی برس سے پوچھا جا رہا ہے لیکن اب اس کی گونج قومی اسمبلی تک پہنچ چکی ہے۔ اس خبر کے آنے سے پہلے ملک کے انگریزی اخبار ڈان کی یہ خبر نہایت دلچسپی سے پڑھی جا رہی تھی کہ اس ہفتے کے شروع میں وزیراعظم ہاؤس میں تمام پارٹیوں کے اجلاس سے پہلے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، ملک کی سیاسی قیادت اور وزارت خارجہ کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی تھی۔ اخبار کے ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں سول حکومت نے واضح کیا تھا کہ ملک کو عالمی سطح پر شدید مشکلات اور تنہائی کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اجلاس کو بتایا کہ تمام اہم دارالحکومتوں میں کشمیر اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے جب بھی بات کی جاتی ہے تو وہ ملک میں آزادی سے کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کا ذکر لے بیٹھتے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلٰی نے گلہ کیا کہ حکومت جب بھی ایسے ناپسندیدہ عناصر کو پکڑتی ہے تو ایجنسیاں کسی نہ کسی طرح انہیں تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اجلاس میں اس صورتحال کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ فوج کے اہم ادارے کے ساتھ اس قدر سخت اور دوٹوک لب و لہجہ میں بات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔

اگرچہ فوج نے دہشت گردی کے خلاف قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے آج بھی پاک فضائیہ کے کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف فقید المثال کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے گلہ کیا کہ اس کے باوجود دنیا بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف کارروائی کے جھوٹے دعوؤں پر خاموش ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور سرجیکل اسٹرائیک کے جھوٹے اعلانات پر عالمی مذمت سامنے آنی چاہئے۔ اس گلہ کا جواب کسی حد تک سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری اور وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے سوموار کو وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں فراہم کیا ہے۔ اعزاز چوہدری نے بتایا کہ دنیا کے جس دارالحکومت میں بھی حکومت کے تیارہ کردہ نکات پر بات کی جاتی ہے تو وہ ملک میں محفوظ نان اسٹیٹ ایکٹرز کا ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا حقانی نیٹ ورک، جماعت الدعوۃ یا لشکر طیبہ و حافظ محمد سعید اور جیش محمد و مولانا مسعود اظہر کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہونے کا سوال اٹھاتی ہے۔ اس حوالے سے ہی شہباز شریف کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت جب بھی ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس پر آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے کہا کہ آئندہ ان کا ادارہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے کئے گئے اقدامات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر بھارت کے ساتھ تصادم کی موجودہ صورتحال میں حافظ سعید یا مولانا مسعود اظہر کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو بھارت اسے اپنی کامیابی قرار دے گا اور کشمیری عوام یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ پاکستانی حکومت ایک انتہائی مشکل وقت میں ان کے دشمن کی بات مان کر ان کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ تاہم آئی ایس آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ فوج شرپسند عناصر کی پشت پناہی نہیں کرنا چاہتی۔

رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے جنرل رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ماضی میں کئے گئے فیصلے ریاست کے فیصلے تھے، جس میں حکومت اور فوج یکساں طور سے شامل تھے۔ موجودہ حالات کی بات کرتے ہوئے فوج یا آئی ایس آئی کو ماضی میں کی گئی غلطیوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم انہوں نے صورتحال کی اصلاح کے لئے دو نکاتی اقدام کا حکم دیا۔ ایک یہ کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر وزیراعظم کے مشیر برائے سلامتی امور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے ہمراہ تمام صوبائی دارالحکومتوں کا دورہ کریں گے اور آئی ایس آئی کے مقامی سربراہان کو نئی حکمت عملی کے بارے میں واضح ہدایات جاری کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی پٹھان کوٹ سانحہ کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں تعطل کا شکار ممبئی حملوں کے بارے میں مقدمات کو از سر نو شروع کیا جائے گا۔ روزنامہ ڈان نے یہ معلومات سوموار کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنے والی بعض اہم شخصیات کے حوالے سے شائع کی ہیں۔ لیکن ان میں سے سب نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہی معلومات فراہم کی تھیں۔ تاہم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی رانا محمد افضل کی کھری کھری باتوں سے ملک کے سیاسی ماحول میں تبدیلی کے آثار واضح ہوگئے اور یہ تصدیق بھی ہوگئی کہ ڈان کی فراہم کردہ معلومات کافی حد تک درست ہیں۔

رانا محمد افضل حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر عالمی طاقتوں سے بات کرنے کے لئے ایک وفد کے ہمراہ فرانس گئے تھے۔ اس دورہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی نمائندے جب اور جہاں کشمیر اور وہاں بھارتی مظالم کی بات کرتے ہیں تو ان سے حافظ سعید کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ دنیا یہی سمجھتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازعہ حافظ محمد سعید اور جماعت الدعوۃ یا لشکر طیبہ کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہوسکتی ہے کہ ہم اس ایک شخص کو قابو نہیں کرسکے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا حافظ سعید انڈے دیتا ہے کہ ہم نے اسے پال رکھا ہے۔ یہ سوال بالکل واضح انداز میں ملک کی سیاسی قیادت کی بے بسی اور ایسے عناصر کے بارے میں کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے جو دنیا بھر میں ملک کی بدنامی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور جن کی حرکتوں اور کارروائیوں کے سبب اہم ترین ہمسایہ ملک کے ساتھ تصادم کی ایک نئی صورتحال سامنے آئی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹ کے قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن نے بھی نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ قومی ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے ایسے عناصر کی روک تھام نہیں ہوسکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ملک کی طرف سے کسی بھی سانحہ کی صورت میں پاکستان پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اس طرح ملک کی برسر اقتدار اور اپوزیشن جماعتیں بیک وقت مسئلہ کا حل ایک ہی قسم کے اقدامات کو سمجھ رہی ہیں۔ پاکستان کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نجات دلانے اور ہمسایہ ملک کے ساتھ تنازعات کے خاتمہ کے لئے ان عناصر کو ملکی مفادات سے متصادم قرار دیا جا رہا ہے جو بھارت کے خلاف عوامی جذبات کا سہارا لے کر یا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو بنیاد بنا کر جہادی رجحان کو عام کرنے کا سبب بنتے رہے ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک فوج پوری یکسوئی سے ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے کام کر رہی ہے۔ نیز یہ کہ تحریک طالبان پاکستان جیسے خطرناک گروہ اور غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پاک فوج کے لئے بیک وقت کئی محاذ کھولنا ممکن نہیں تھا۔ یہ اندیشہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ پاک فوج کے بعض حلقوں میں اب بھی ان عناصر کے لئے ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں، جو ماضی میں ملک و قوم کی سکیورٹی کے حوالہ سے ’’اثاثہ‘‘ سمجھے جاتے رہے ہیں۔ تاہم ملک کی سیاسی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام معاملات کو واضح کرے اور پاک فوج اور دیگر عسکری اداروں سے ان کی حکمت عملی اور پالیسیوں کے بارے میں جواب طلب کرے۔ اب بھی اس حوالے سے صرف ایک تقریر اور ایک خبر میں اشارے دیئے گئے ہیں۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم خوف کی فضا سے باہر نکل کر قومی اسمبلی میں تمام معاملات کو پیش کریں اور ملکی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے بارے میں سیاسی قیادت کے مکمل کنٹرول کا مطالبہ سامنے لائیں۔ ملک میں ماضی کے تجربوں اور فوج کی طرف سے متعدد بار جمہوری حکومتوں کے خاتمہ کے سبب سیاسی لیڈر اور جماعتیں فوج کے ساتھ معاملات طے کرنے میں ضرورت سے زیادہ محتاط رویہ اختیار کرتی رہی ہیں۔ یہ طرز عمل صرف مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہی مختص نہیں ہے۔ ملک میں 2008ء سے 2013ء کے درمیان پیپلز پارٹی کے حکومت تھی۔ صدر کے طور پر آصف علی زرداری فوجی مداخلت سے اس قدر خوفزدہ رہتے تھے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو غیر ضروری طور پر تین برس کی توسیع دینے کا فیصلہ کیا بلکہ ان کے اشاروں پر امور مملکت طے کرتے رہے۔ وہ اسے مفاہمت اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی قرار دیتے رہے۔ تاہم اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد انہوں نے غیر مہذب انداز میں فوج اور آرمی چیف کے خلاف تند و تیز لب و لہجہ اختیار کیا۔ اب وہ فوج کی طرف سے انتقامی کارروائی کے خوف کی وجہ سے ہی خود اختیار کردہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

اسی طرح آئین کی خلاف ورزی اور اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہونے کے باوجود پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس کا الزام نواز شریف کی حکومت کو برداشت کرنا پڑا ہے، لیکن اب پرویز مشرف ببانگ دہل کہتے ہیں کہ انہیں فوج سے چالیس سالہ تعلق کی وجہ سے ملک سے باہر نکلنے کا موقع میسر آیا تھا۔ اس بات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ فوج کے لئے اپنے ایک سابق سربراہ کے خلاف آئین شکنی کے الزام میں مقدمہ کی کارروائی برداشت کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن ایک مشکل سے بچنے کے لئے ملک کی سیاست اور ریاستی امور میں زیادہ پیچیدگیاں پیدا کرنا بھی دانشمندی نہیں ہے۔ پاک فوج نے کبھی یہ اعتراف نہیں کیا ہے کہ وہ پرویز مشرف کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔ تاہم موجودہ صورت حال میں اسے پرویز مشرف کے بیانات سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہئے۔ تاکہ عام لوگوں میں مسلسل یہ تاثر نہ پھیلایا جا سکے کہ فوج بدستور جمہوری نظام کو ملک کےلئے ناقص سمجھتی ہے۔ ملک و قوم کے علاوہ فوج کے لئے جنرل راحیل شریف کی خدمات کو سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ تین سال کی مختصر مدت میں ان سے یہ توقع کرنا بھی غلط ہوگا کہ انہوں نے گذشتہ کئی دہائیوں میں پیدا کی ہوئی بدعملیوں کو مکمل طور سے ختم کیوں نہیں کیا۔ کسی بھی شخص کے پاس خواہ وہ فوج کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ جادو کی چھڑی نہیں ہوتی۔ لیکن فوج کی سوچ اور نظام میں سیاست اور فوجی انتظام کو علیحدہ کرکے دیکھنے کا رویہ راسخ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ کام صرف سرگوشیاں یا گلے کرنے سے مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس مقصد کے لئے سیاستدانوں کو واضح اہداف مقرر کرنے اور ملک کے تمام اداروں سے ان اہداف کے حصول کے لئے کام کرنے کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ منتخب لیڈر جب تک اس قسم کا حوصلہ نہیں دکھائیں گے، حالات میں ڈرامائی تبدیلی رونما نہیں ہوسکتی۔ خبروں اور بیانات سے یہ تاثر قائم کر لینا بھی غلط ہوگا کہ ساری خرابی فوج ہی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ جس طرح سیاستدانوں کو تمام مسائل کی وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا، اسی طرح صرف فوج کو مورد الزام ٹھہرا کر بھی آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ سیاستدان ذمہ داری قبول کرنے اور فوج کے ساتھ مشکل پیش آنے کی صورت میں پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کو اپنی مجبوریوں سے آگاہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ متعدد سیاسی رہنما مختلف وجوہ اور حالات میں ناپسندیدہ عناصر کی سرپرستی میں بھی ملوث رہے ہیں۔ جب فوج سے سول معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا تو اس کے ساتھ سیاستدانوں کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا اور غلط کاریوں میں ملوث عناصر کی بلاتخصیص گرفت کرنے کا نظام بھی استوار کرنا ہوگا۔ یہ کام جس قدر جلد شروع ہوسکے ملک و قوم کے لئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
بشکریہ: ہم سب ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے
خبر کا کوڈ : 573457
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

khalid
رانا افضل خود کونسے انڈے دیتا ہے، ملک و قوم کا کھا ہی رہا ہے۔
ہماری پیشکش