0
Thursday 13 Oct 2016 16:51

کراچی، سانحہ عاشورہ دھماکہ کیس، 7 سال بعد بھی ملزمان کا سراغ نہ مل سکا، مقدمہ التوا کا شکار

کراچی، سانحہ عاشورہ دھماکہ کیس، 7 سال بعد بھی ملزمان کا سراغ نہ مل سکا، مقدمہ التوا کا شکار
رپورٹ: میثم عابدی

سانحہ عاشورہ بم دھماکہ کیس میں ملوث کالعدم جنداللہ کے دہشت گردوں کو فرار ہوئے 7 سال کا عرصہ بیت گیا، لیکن عدالتی احکامات کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان کا سراغ لگانے میں بری طرح ناکام ہیں، جس کی وجہ سے سانحہ عاشور سمیت دہشت گردی کے 4 مقدمات انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں زیر التوا ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے سربراہ راجہ عمر خطاب کی سربراہی میں پولیس ٹیم نے جنوری 2010ء میں خفیہ اطلاع پر پولیس مقابلے کے بعد ماڑی پور کے علاقے سے 4 ملزمان مرتضٰی عرف شکیل، محمد شکیب فاروقی، وزیر احمد اور مراد شاہ کو گرفتار کرکے ان کے قبضے سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کیا تھا۔ پولیس ٹیم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ملزمان کا تعلق کالعدم جہادی تنظیم جنداللہ سے ہے اور جو سانحہ عاشور بم دھماکہ کیس کے علاوہ محرم الحرام کے موقع پر مزید مختلف مقامات پر بم دھماکوں میں بھی ملوث ہیں، جن کے خلاف سانحہ عاشورہ بم دھماکوں کے مجموعی طور پر 4 مقدمات انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت جبکہ ایک مقدمہ سٹی کورٹ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں داخل سماعت کیا گیا۔

ملزمان کو شناخت پریڈ کے دوران چشم دید گواہان نے عدالت میں شناخت بھی کیا، تاہم اس کے بعد مذکورہ مقدمات میں تفتیشی افسران کی عدم دلچسپی اور غفلت کے باعث 5 ماہ تک حتمی چالان عدالتوں میں پیش نہیں کئے جاسکے، ہائی پروفائل کیس میں ملوث انتہائی خطرناک ملزمان کا بخوبی علم ہونے کے باوجود ملزمان کا جیل ٹرائل کرانے کے بجائے جیل حکام کی جانب سے سٹی کورٹ میں سکیورٹی خدشات کے باوجود غیر قانونی اسلحہ کے مقدمے میں پیشی کے لئے جیل سے سٹی کورٹ بھیجا جاتا رہا، اس غفلت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملزمان کے ساتھیوں نے جون 2010ء میں سٹی کورٹ میں پیشی کے موقع پر دستی بموں سے اس وقت حملہ کیا، جب ملزمان پیشی کے بعد پولیس کی غفلت و لاپروائی سے غیر ضروری طور پر کمرہ عدالت کے باہر بیٹھے ہوئے تھے، ملزمان کے ساتھیوں نے دھاوا بول کر دستی بموں سے حملہ کیا اور اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر لے جانے میں کامیاب ہوئے، اس دوران حملے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت ملزم مراد شاہ ہلاک بھی ہوا۔

ناخوشگوار واقعے کے بعد انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج غلام مصطفٰی میمن اور دیگر متعلقہ عدالتوں نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87،88 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف تاحیات وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے اشتہاری قرار دیا اور پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو احکامات جاری کئے کہ ملزمان کا سراغ لگا کر جلد از جلد گرفتار کیا جائے اور انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے 28 دسمبر 2009ء کو محرم الحرام کے یوم عاشورہ کے موقع پر مرکزی جلوس جب ایم اے جناح روڈ لائٹ ہاؤس کے مقام پر پہنچا تو اس دوران سگنل پر قرانی آیات کے لئے لگائے گئے ڈبے میں بم نصب کیا، بم زور دار دھماکے سے پھٹ گیا، جس کے نتیجے میں جلوس میں شریک 45 افراد شہید جبکہ 100 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں معروف صحافی فہیم صدیقی بھی زخمی اور شہید ہونے والوں میں ان کا بیٹا بھی شامل تھا۔

عدالتی احکامات کے باوجود پولیس کی جانب سے آج تک اس کیس پر مزید کام کرنا تو دور کی بات، اس کیس پر بات کرنا بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔ پولیس نے اس دھماکے میں جہاں دھماکے کا مقدمہ درج کیا تھا، وہیں جلاؤ گھراؤ کے مقدمات میں شیعہ جوانوں کو بھی گرفتار کیا تھا۔ ہونا تو چاہیئے تھا کہ پولیس دھماکے کرنے والے دہشت گردوں اور جلاؤ گھیراؤ کرنے والے اصلی محرکین پر ہاتھ ڈالتی، الٹا پولیس نے شیعہ آبادیوں میں چھاپے مار کر نوجوانوں کو گرفتار کیا، تاکہ شیعہ برادری کی جانب سے دھماکے کے ملزمان کی گرفتاری کیلئے بڑھتے ہوئے پریشر کو دبایا جاسکے۔ زمانہ گزر گیا، جلاؤ گھیراؤ کرنے والے آزاد بھی ہوچکے ہیں، جن لوگوں نے عصر عاشور کئی بے گناہ انسانوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا، وہ آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان بھی بن چکا ہے، ملک کی طرح کراچی میں اس پلان کے تحت کاروائیاں کی گئی ہیں، لیکن شاید شیعہ قوم کی طرح ریاستی اداروں نے بھی سانحہ عاشور کو یکسر بھلا دیا ہے، جو ایک افسوسناک عمل ہے۔
خبر کا کوڈ : 575125
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش