9
1
Monday 24 Oct 2016 22:32

مین اسٹریم سیاست اور شیعہ قومی جماعتیں

مین اسٹریم سیاست اور شیعہ قومی جماعتیں
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

ملک کی باگ ڈور حکومت کے ہاتھ میں ہے، لیکن حکمران جماعت مخمصے کا شکار ہے، لیگی کارکن علیحدہ پریشان ہیں، ایک طرف یہ تاثر ہے کہ حکومت مخالف جماعتوں کی پشت پہ فوج ہے، دوسری طرف پنجاب کا روایتی ووٹر مسلم لیگ نون کو پاکستان کا وارث اور سچا وفادار بھی سمجھتا ہے، انہیں کنفوژن اس بات پر ہے کہ پورا ملک بھارتی وزیراعظم کو پاکستان اور مسلمانوں کا دشمن تصور کرتا ہے لیکن وزیراعظم انکے خاص دوست ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ عام پاکستانی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی ہے کہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کی کمر توڑی ہے اور بھارت کو نکیل ڈال دی ہے۔ اس کے باوجود کہ موجودہ حکومت فوج کیساتھ ہم آہنگ نہیں، آج بھی الیکشن ہو تو پنجاب کا ووٹ مسلم لیگ نون کو پڑے گا۔ لیکن لازم نہیں کہ عمران خان اپنے صوبے میں دوبارہ اقتدار حاصل کر پائیں گے۔ پنجاب عام آدمی یا روایتی ووٹر دہشت گردی کے خاتمے اور لوڈشیڈنگ میں کمی کا سہرا مسلم لیگ نون کی حکومت کے سر ہی باندھتا ہے۔ جہاں تک مسلم لیگ نون کی حریف سمجھی جانے والی مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے، دفاع پاکستان کونسل کے نام پہ انکا کنٹرول فوج کے پاس ہے۔ اسی لئے یہ فضا بنائی جا رہی ہے کہ عمران خان کے دھرنے اور اسلام آباد کو بند کرنے کے لئے مدارس کے طلبہ مارچ کا حصہ بنیں گے، حالانکہ جمعیت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ نے پانامہ اسکینڈل پہ کبھی آواز نہیں اٹھائی، بلکہ ہمیشہ عمران خان کیخلاف فتویٰ دیا ہے۔

اس کا ایک پہلو مولانا فضل الرحمان کی میاں نواز شریف کی حمایت میں پختون علاقوں میں منعقد ہونے والی ریلیاں اور جلسے بھی ہیں، جہاں سمیع الحق عمران خان کے ساتھ جا کھڑے ہوں گے۔ ماضی میں مولانا فضل الرحمان بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیتے رہے اور مولانا سمیع الحق نواز شریف کے ساتھ رہے، اس وقت اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ نون کی سیاسی سرپرستی کیا کرتی تھی۔ پاکستان کی داخلی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار زیادہ نمایاں ہو رہا ہے، ایک طرف ضیاءالحق کے دور کو مطعون کیا جا رہا ہے اور موجودہ حکمرانوں کو ضیاء کی باقیات کہا جا رہا ہے، دوسری طرف فوج سے مطالبات کئے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کی جلاوطنی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مسلم لیگ نون بھی اسٹیبلشمنٹ سے اتنی دور جا چکی ہے، جتنی ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی۔ گذشتہ قومی انتخابات میں دہشت گرد طالبان گروہ نے مسلم لیگ نون کو بالواسطہ امداد فراہم کی، درحالیکہ جھنگ میں کالعدم سپاہ صحابہ کو مسلم لیگ نون نے سیٹ محروم کر دیا تھا، اس کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی کو ناکامی سامنا کرنا پڑا، اس کا بڑا سبب کالعدم طالبان اور کالعدم لشکر جھنگوی کی دھمکیاں اور دہشت گردی کی کارروائیاں تھیں۔ ساتھ ہی خفیہ اداروں کی طرف سے پیپلز پارٹی کے رہنماوں، امیدواروں اور ہمدردوں کو پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پہ جمع کرنے کی پالیسی تھی۔

مسلم لیگ نون نے روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے پٹواری سے آئی جی تک، حکومتی مشینری کے ذریعے حکومت پنائی، لیکن تحریک انصاف خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی، البتہ پیپلز پارٹی کا پنجاب سے صفایا ہوگیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد مسلم لیگ نون نے روایتی حریفوں، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی سمیت دیوبندی اور اہل حدیث مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر کالعدم طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور شیعہ مذہبی جماعتوں نے مذاکرات کی بجائے آپرشن کا مطالبہ کیا، یہ مطالبہ حکومت کی بجائے ہمیشہ فوج سے کیا گیا، سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول کے بعد فوج نے مذاکرات معطل کرکے، کالعدم تحریک طالبان کیخلاف آپریشن کا آغاز کیا، اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی حکومت مخالف تحریک کا آغاز کیا، جسے انقلاب مارچ کا عنوان دیا گیا۔ حکومت کو بند گلی میں رکھنے کے لئے عمران خان نے دھاندلی کی تحقیقات کے لئے دھرنے کا آغاز کیا اور بار بار ایمپائر اور ایمپائر کے کردار کا ذکر کرتے رہے، البتہ ڈاکٹر طاہر القادری ہمیشہ آرمی چیف کا نام لیکر بات کرتے رہے، اس دوران شیعہ نمائندہ سیاسی جماعت نے ڈاکٹر طاہر القادری کا ساتھ دیا۔

مولانا طاہر القادری منظر سے غائب ہیں، عمران خان کیساتھ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انکے مشاور اور نگران شیخ رشید منہاج القرآن کے سربراہ کو اسلام آباد بند کرنے کی مہم میں ساتھ نہیں ملا سکے۔ طاہر القادری wiat and see کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اس سے پہلے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ دفاع پاکستان کونسل اسلام آباد بند کرنے کے لئے عمران خان کی حمایت کا دم بھرتی، موجودہ حکومت نے بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے آئی ایس آئی کی سرپرستی میں کام کرنے والی کشمیر کی جہاد کونسل کی رکن جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی پنجابی جماعتوں کو کشمیر ہی سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی میں رکاوٹ قرار دیکر قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں اٹھایا ہے، حالانکہ مسلم لیگ نون کے سیاستمدار یہ جانتے ہیں کہ پنجاب میں انکا ووٹر مذکورہ کالعدم جہادی جماعتوں سے گہری ہمدردی رکھتا ہے۔ یہ بھی نکتہ قابل غور ہے کہ پنجاب کا ووٹر جہادی جماعتوں کیساتھ ہمدردی کے باوجود مسلم لیگ نون کا وفادار ہے، اس کے کئی عوامل ہیں، اہم عامل پنجابی ازم ہے، جسے مسلم لیگ نون شعوری طور پر استعمال کرتی ہے، جیسے پاکستان پییپلز پارٹی سندھی ازم کو استعمال کرتی ہے۔

پنجابیوں میں پنجاب کے بے تاج بادشاہ سمجھے جانے والے شریف خاندان کو بریلوی مسلک کے درباروں، پیروں اور گدی نشینوں کی حمایت بھی حاصل ہے، دوسری تکفیری مزاج رکھنے والے اہل حدیث اور دیوبندی بھی مسلم لیگ نون کو ایران مخالف اور سعودی عرب کا حامی سمجھتے ہیں، یہی رجحان انہیں شریف خاندان کی حمایت میں اپنے مقامی سیاسی مفادات قربان کرکے مسلم لیگ نون کو تقویت پہ مائل کرتا ہے۔ مولانا ساجد میر کی طرح دیگر مذہبی گروہوں کو باقاعدہ سعودی عرب سے یہ ہدایات بھی ملتی ہیں کہ وہ ایران نواز پیپلز پارٹی کی مخالفت میں شریف خاندان کا ساتھ دیں، یہ تقسیم اتنی واضح ہے کہ اب شیعہ اور بریلوی سیاسی گروہ حکمران جماعت کی قیادت کو آل شریف کے نام سے پکارتے ہیں۔ شیعہ علماء کونسل پنجاب میں مسلم لیگ نون کی مخالفت کا تاثر نہیں چھوڑتی، لیکن سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے حامی سمجھے جاتے ہیں۔ اسکا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں صوبوں میں ممکنہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعتوں سے مذکورہ شیعہ گروہ نے عمدگی کیساتھ سیاسی تعلقات استوار رکھے ہیں۔ انکے برعکس مجلس وحدت مسلمین نے الگ سے الیکشن لڑا اور مین اسٹریم سیاست میں قدم رکھا۔ پنجاب میں بریلوی جماعتوں میں نئی صف بندی ہو رہی ہے۔

تحریک صراط مستقیم سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ ہوچکی ہے اور تحریک لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نام سے الیکشن مہم چلا رہی ہے، مولانا طاہر اشرفی کی جماعت پاکستان علماء کونسل بھی ملک بھر کی دیوبندی مساجد کے ائمہ جمعہ و جماعت کو ماہانہ بنیادوں پر تنخواہیں دینے کیساتھ ساتھ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کروا دی گئی ہے، آئندہ انتخابات میں تمام مسالک کی سیاسی جماعتوں کو حکمت عملی بدلنا پڑے گی، کیونکہ انکے ووٹر تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں، البتہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ووٹر سندھ اور پنجاب میں روایتی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیں گے۔ مارشل لا نہ لگنے کی صورت میں اگر قومی انتخابات ہوں گے تو پنجاب میں صنعت کار اور جاگیردار ملکر حکومت بنائیں گے، اس طرح سندھ میں بھی زمام اقتدار انگریز کی میراث کے پاس رہے گی، جماعت اسلامی اسی بساط پہ کھیل رہی ہے، پی ٹی آئی کے جلسوں کیساتھ ساتھ سراج الحق کی الگ الگ کانفرنسیں ایک طرف تحریک انصاف اور دوسری طرف مسلم لیگ نون کو جماعت کی طرف مائل کرنے کی کوشش ہے، پاکستان کے سیاسی نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی کسی طور پر نہیں آئے گی، طاہرالقادری اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لئے انتخابات میں نہیں آ رہے۔

علامہ جواد نقوی پہلے ہی موجودہ جمہوریت نما نظام کو کفر قرار دے چکے ہیں، ایم ڈبلیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ نہیں لیا، انکی توانائی محفوظ ہے، اگر فورتھ شیڈول کی زد میں نہ آئے تو اپنی رابطہ عوام مہم ضرور چلائیں گے، ورنہ کسی سیاسی جماعت کا سہارا نہیں بنیں گے، سیاست دیرپا، سست رفتار اور گہرا عمل ہے، لیکن پاکستان کا خاصہ یہ ہے کہ یہاں سب فوج کی نگرانی میں انجام پذیر ہوتا ہے، اسی لئے پنجاب کے آئی جی نے کہا ہے کہ ہم دہشت گردوں کیخلاف جو آپریشن بھی کرتے ہیں، وہ فوج کی مدد سے کیا جاتا ہے، نئے بریلوی اور دیوبندی سیاسی گروہ سعودی عرب کے حمایت یافتہ ہیں، جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے، پاکستانی سیاست کی بساط پہ یہ گروہ سعودی عرب مخالف سیاسی قوتوں کو پاکستان مخالف عناصر قرار دیں گے، کسی خفیہ ادارے کو سامنے آنے کی بجائے، یہ انکی آواز بنیں گے، ایسی صورتحال میں واضح نصب العین کیساتھ انتخابات میں نمایاں کردار ادا کرنے کی حکمت عملی بنانے کے لئے زرخیز اذہان کو سوشل میڈیا کی بجائے میدان عمل کا انتخاب کرنا پڑے گا، ورنہ اگلے الیکشن تک ناکامیوں کا تجزیہ کرنے جیسے موضوعات کے علاوہ کوئی سرگرمی دستیاب نہیں ہوگی، کیونکہ الیکشن بھی ہوں گے، دوبارہ حکومت بھی بنے گی، مشرق وسطٰی میں جنگ بھی جاری رہے گی، بھارت افغانستان کے راستے سازشیں بھی جاری رکھے گا۔

جو شیعہ سیاسی گروہ میں اسٹریم سیاست کا حصہ باور کئے جاتے ہیں، ظلم ستیزی کے اصول کی بنیاد پہ یمن، عراق اور کشمیر پہ بات کریں، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ناکامیوں کو اجاگر کریں، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہتری کے لئے تجاویز دیں، بھارت کی مذمت کریں، ہر حلقے سے اپنے امیدوار تیار کریں، انتخابی مہم کا آغاز کریں، عوامی رابطہ شروع کریں، اگلے انتخابات کے پولنگ ایجنٹوں کو تربیت دیں، ووٹر لسٹوں کا جائزہ لیں، حلقہ وار سیاسی سیل بنائیں، یونین کونسل کی سطح پہ کمیٹیاں تشکیل دیں، وکیلوں، استادوں، طلبہ، ڈاکٹروں اور خواتین سمیت تمام طبقات کے ونگز کو فعال بنائیں، پہلے سے موجود تھنک ٹینک، مفکرین اور حکماء سے مشاورت کے ذریعے دانش اجتماعی سے استفادہ کریں، فنڈریزنگ کریں، عطیات جمع کریں، سستی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے، محرم الحرام کے بعد اربعین کے انتظامات، انتظامی رکاوٹوں کو درست کرنے میں عزاداروں کی مدد کریں، ریاستی اور سرکاری تعصب کی زد میں آنے والے خاندانوں کی مدد پوری قوم کے دل نرم کرے گی، اپنے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کریں اور اسے ارفع مقصد کے لئے استعمال کریں، یہ جدوجہد جاری رکھیں تاوقتیکہ پاکستان میں نظریہ پاکستان کی روح کے مطابق نظام کی راہ ہموار ہوجائے۔
ختم شد۔  
خبر کا کوڈ : 578188
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
خان صاحب آپ کے کالم کا آخری پیرا پڑھ کر تو خواب خرگوش کو دل کرتا ہے، اگر یہ لوگ یہ سارے کام کرتے تو رونا کس چیز کا تھا، دیکھیں شاید آپ کو مفکر مان کر آپ کی باتوں پر یہ شرفاء عمل کرتےہیں یا پھر وہی روایتی سستی ۔۔
خان
Pakistan
شکریہ۔۔۔۔۔۔آپ مخاطب ہوئے۔ ان میں سے کافی سارے کام ہو رہے ہیں، تشہیر اور عوامی رابطے کی ضرورت ہے۔
Iran, Islamic Republic of
جو شیعہ سیاسی گروہ مین اسٹریم سیاست کا حصہ باور کئے جاتے ہیں، ظلم ستیزی کے اصول کی بنیاد پہ یمن، عراق اور کشمیر پہ بات کریں، . . .
آپ کی سیاسی جمع تفریق اچھی تھی لیکن آپ کی تحریر میں کہیں بھی الٰہی اقدار نظر نہیں آرہیں، شیعہ سیاسی پارٹیز کو اگر انہی سیاسی اصولوں پر عمل کرنا ہے تو جس طرح آج تک کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں، آیندہ بھی یہ سلسلسہ جاری رہے گا ۔ ۔
اگر ایم ڈبلیو ایم آج تک فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیز پر چل رہی ہے، کوئٹہ میں دھرنا فوج کی آمد کا مطالبہ/ طالبان کے خلاف ایکشن فوج کی آمد کا مطالبہ / شکار پور تا کراچی لانگ مارچ سندھ میں فوج کی آمد کا مطالبہ/ طاہرالقادری کے ساتھ دھرنا فوجی پلان کا حصہ ۔ ۔ ۔ اور شیعہ علماء کونسل کے قائد ساجد علی نقوی کی بھی فوجی سربراہ مملکت جنرل پرویز مشرف کے ساتھ گروپ فوٹو سب کے سامنے ہے ۔ ۔ ۔
لیکن الٰہی اقدار اور بین الاقوامی تحریک اسلامی کی پاکستان میں نمائندگی نہیں ہو رہی ۔ ۔ ۔ آج جہان اسلام کا مسئلہ سوریہ کا معاملہ ہے ۔۔ کیوں مدافعان حرم کی بات نہیں ہوتی؟ جبکہ شورایٰ دفاع پاکستان دفاع حرمین شریفین کو کہ جو ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہے تو ہماری مین اسڑیم سیاسی جماعتیں کیوں شام اور عراق میں دفاع حرم اہلبیت و اصحاب کی بات نہیں کرتیں؟
ہم جو ہر روز بارڈر پر زائرین کے مسائل کیلئے فوٹو سیشن کرواتے ہیں، اگر ہماری یہی مین سٹریم سیاسی جماعتیں اعلان کر دیتیں کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے موقع پر ایک لاکھ شیعہ زائرین کو عراق لے کر جائیں گے تو آپ کے خیال میں کیا یہ کسی لانگ مارچ سے کم تھا؟ کیا پبلک نہ نکلتی؟
میرے بھائی اس سیاسی جمع و تفریق میں جب تک الٰہی اقدار کا رنگ نہیں آئے گا، شیعہ پلیٹ فارم سے کوئی سیاسی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی!
خان
Pakistan
اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان کی مین اسٹریم سیاست میں الہیٰ اقدار مفقود ہیں۔
عرفان علی
Pakistan
سلام. سردار صاحب فل فارم میں ہیں. بہت اچھے مشورے ہیں. بعض اداروں کا نام استعمال خود سے نہ کیا کریں بلکہ یہ لکھ دیا کریں کہ عوامی تاثر یہ ہے یا فلاں نے کہا ہے کہ وہ فلاں کی سرپرستی کر رہے ہیں. یہ آپ کی حفاظت کے لئے تجویز دی ہے. شام کے مسئلے پر امام زادگان عشق یعنی مدافعان حرم پر میں لکھ چکا ہوں. ضروری نہیں کہ ہر مسئلے پر روزانہ لکھا جائے. عالمی مسائل پر بات ہونی چاہیے لیکن پہلے گھر کے حالات سدھارنے کو ترجیح دی جائے. شیخ نمر سے یکجہتی سے لے کر بحرین و یمن وفلسطین کے لئے احتجاج ہوچکا. اس پر کوئی دو رائے نہیں. اصل مسئلہ پاکستانی سیاست میں اپنی حیثیت کو مضبوط کرنا ہے. جب ہم خود ہی کمزور ہوںگے تو دوسروں کی مدد کیسے کرسکیں گے. بہترین تجویز ہے تفتان بارڈر تک زائرین کے ساتھ لانگ مارچ والی. اس پر مزید بات ہونی چاہیے.
عرفان علی
Pakistan
الہی رنگ والی رائے بھی ایک ایسا نکتہ ہے جسے نظر انداز کسی طور نہیں کیا جاسکتا، لیکن بنیادی بات تنظیموں میں تنظیمی کلچر کا پیدا کرنا ہے۔ تنظیمی کارکنان و رہنماء کم از کم اپنے دستور پر ہی عمل کرلیں، تب بھی حالات بہتر ہونگے۔ تنظیموں کے دستور پر جنہوں نے عمل کروانا ہے، وہ خواص اور خاص طور پر معمم افراد، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ تنظیمیں اتحاد و وحدت و محبت کے لیے بنائی گئی ہیں نہ کہ تفرقہ و انتشار کے لیے، اگر انتہائی ناشائستہ الفاظ کا استعمال کرکے ایک دوسرے پر ہی حملہ آور رہیں گے اور اتحاد بین المومنین سے فرار کے بہانے ڈھونڈیں گے تو شیطانی رنگ ہی سب پر طاری رہے گا۔ سب سے پہلے خواص و معمم افراد کی اخلاقی و معنوی تربیت ضروری ہے۔ کم از کم اپنی گفتار، رفتار و کردار سے خود کو اسلام کے واجبات و مستحبات کا پیروکار تو ثابت کریں۔ انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ مرغوں کی طرح ایک دوسرے سے لڑتے ہیں۔ میں ایسے کئی افراد کو جانتا ہوں، جو اس ساری صورتحال سے متنفر ہوکر یا تو گھر بیٹھ گئے یا پھر سیکولر ہوگئے کہ دین پر عمل کرنے والا عملی رول ماڈل ان کے درمیان انہیں کوئی نظر نہیں آرہا۔ غیبتیں، بہتان تراشی، دوغلا پن، نفاق، ان خامیوں کے ساتھ جس رنگ نے آنا ہے وہ صبغت اللہی ہو ہی نہیں سکتا۔ بہرحال آپ کی بہت سی تجاویز قابل تحسین ہیں، خدا آپ کو سلامت رکھے۔
خان
Pakistan
شکریہ، عرفان بھائی۔
آصف حیدر
Pakistan
امام خمینی نے فرمایا: ’’افسوس کہ ہم اسلام کو کھو چکے ہیں، جو اسلام اس وقت ہمارے پاس ہے اسے سیاست سے بالکل جدا کر دیا گیا ہے۔ اس کا سرکاٹ دیا گیا ہے۔ اصلی حصے کو کاٹ کر الگ کر دیا گیا اور باقی ہمیں دے دیا گیا ہے۔ ہمارا آج یہ حال اس لئے ہے کہ ہم راز اسلام کو نہیں جانتے ہیں ۔۔۔ جب تک ہم اسلام کو تلاش نہ کر لیں، جب تک تمام مسلمان اسلام کو ڈھونڈ نہ لیں، اس وقت تک ہم اپنی عظمت کو حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘ (صحیفه امام، ج۱۰، ص ۱۱۶ و ۱۱۷)
Pakistan
امام خمینی ایک زندہ حقیقت ہیں، جنہوں نے اسلام کو زندہ کر کے اسکا روشن چہرہ پیش کیا۔
ہماری پیشکش