0
Tuesday 3 Jan 2017 13:46

کراچی کیلئے سال 2016ء کاروباری اعتبار سے مایوس کن قرار دیدیا گیا

کراچی کیلئے سال 2016ء کاروباری اعتبار سے مایوس کن قرار دیدیا گیا
رپورٹ: ایس ایم عابدی

کراچی کے تاجروں نے 2016ء کو کاروباری اعتبار سے انتہائی مایوس کن اور معیشت کش سال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ سال امن و امان کی مجموعی صورتحال تسلی بخش رہی لیکن کاروبار کیلئے انتہائی مشکلات رہیں، شہر اذیت ناک بلدیاتی عذاب سے دوچار رہا، حکومت اور حکومتی اداروں کی غفلتوں کے نتیجے میں پورے شہر کا نظام درہم برہم رہا، ہر تہوار پر تاجروں کا سیل سیزن غیر تسلی بخش اور خریدار قوتِ خرید سے محروم رہے، آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے پریس و میڈیا کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سابق آرمی چیف کی بے مثال کارکردگی نے عوام اور تاجروں میں جذبہ حب الوطنی کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں تمام قومی تہوار انتہائی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام سے منائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ کاروبار کی مجموعی صورتحال انتہائی غیر تسلی بخش رہی، مارکیٹوں پر مندی، کساد بازاری اور سناّٹوں کا راج رہا، مجموعی طور پر کاروبار میں معمول سے 40 فیصد تک کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں گذشتہ ایک سال کے دوران تاجروں کو 300 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا، شہر کی بیشتر مارکیٹیں کوڑے، کچرے، ملبے، بہتے گٹر، تجاوزات، ٹریفک، پارکنگ، آتشزدگی اور دیگر ان گنت مسائل کا شکار رہیں۔ انہوں نے سندھ حکومت کی کارکردگی کو بدترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعلیٰ تبدیل ہوئے لیکن صوبے کے حالات تبدیل نہ ہوسکے، حکومت کی زیر نگرانی کام کرنے والے تمام ادارے بدعنوانی اور مجرمانہ غفلت کا شکار رہے۔

سال بھر پولیس کی خفیہ ایجنسیاں شہریوں اور تاجروں کے اغواء میں مصروف رہیں، جن کی رہائی کے عوض کروڑوں روپے وصول کئے گئے، جبکہ اسٹریٹ کرائم کی شرح 200 فیصد بڑھ گئی، رینجرز کی کارکردگی حوصلہ افزاء رہی، بھتہ، اغواء برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ میں 85 فیصد کمی ہوئی، سرمایہ کاروں کا حوصلہ بحال نہ ہوسکا، سرمایہ کاری 60 فیصد تک کم ہوگئی، نئے تجارتی یونٹس کا قیام 10 فیصد سے بھی کم رہا، بیروزگاری میں تشویشناک اضافہ، ملازمتوں کے مواقع ناپید رہے۔ انہوں نے کہا کہ 2015ء میں وزیر خزانہ کی جانب سے بینکوں کی ٹرانزیکشن پر نافذ کردہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے منفی اثرات 2016ء میں بھی کم نہ ہوسکے، بینکوں سے کاروباری لین دین میں واضح کمی سے بینکوں کا کاروبار شدید متاثر ہوا، مارکیٹوں میں کیش ٹرانزیکشن جبکہ بڑے سودوں کے تحت پرچی سسٹم کو فروغ ملا، حکومتی محصولات میں تشویشناک کمی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال بھی نئے ٹیکس گذاروں نے ٹیکس سسٹم کا حصہ بننے سے گریز کیا، رضاکارانہ انکم ٹیکس اسکیم حکومت اور ٹیکس اداروں پر عدم اعتماد کی نذر ہوگئی۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عوام نے 2016ء کے مصائب و مشکلات کو 2017ء میں بھی خاموشی اور بے حسی سے برداشت کیا تو نئے سال کے حالات بھی 2016ء سے مختلف نہیں ہونگے، بلکہ عوام کی پریشانیوں اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو سال 2016ء پاکستانی روپے کے لئے کافی بہتر رہا، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم رہی جبکہ یورو اور برطانوی پونڈ سستے ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق سال کے دوران انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 15 پیسے بڑھ گئی، یورو کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 3 روپے 84 پیسے اور برطانوی پونڈ کے مقابلے میں 26 روپے 70 پیسے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 2016ء کے آغاز پر ڈالر 104 روپے 74 پیسے کا تھا، سال کے آخری دن 104 روپے 59 پیسے کا رہا، اس دوران یورو 114 روپے 43 پیسے سے سستا ہوکر 110 روپے 59 پیسے اور برطانوی پونڈ 155 روپے 26 پیسے سے کم ہوکر 128 روپے 57 پیسے کا رہ گیا، بھارتی روپے کے مقابلے میں بھی پاکستانی روپیہ 4 پیسے مہنگا ہوگیا، تاہم جاپانی ین کے مقابلے میں روپے کی قدر میں دو پیسے کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ گزشتہ سال 2015ء کے دوران انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 4.24 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی، کرنسی ڈیلرز کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کافی اتار چڑھاو دیکھا گیا۔

سال 2016ء میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی رہی، ملک تجارتی خسارے اور قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبا رہا۔ اقتصادی ماہرین نے 2017ء میں حکومت کو اخراجات کو کنٹرول کرنے کا مشورہ دے دیا۔ گذشتہ تین برسوں میں حکومت نے 12 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضے لے کر یہ بوجھ 74 ارب 60 کروڑ ڈالرز تک پہنچا دیا ہے۔ تارکین وطن کی جانب سے بھیجی جانے والی غیر ملکی کرنسی میں ڈھائی فیصد کمی سے بھی زرمبادلہ ذخائر میں کمی ہوئی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں 50 فیصد کمی ہوئی تو زرعی پیداوار ایک اعشاریہ 6 فیصد کے ساتھ 67 فیصد کمی کا شکار ہوگئی۔ اسٹیٹ بینک سے ایک ہزار اٹھتر ارب کے قرض کو اقتصادی ماہرین نے تباہ کن قرار دیا۔ سال 2015ء میں بیرونی سرمایہ کاری 84 کروڑ ڈالرز تھی، جو پچاس فیصد کمی کیساتھ 2016ء میں محض 46 کروڑ ڈالرز رہ گئی۔ چین کی سرمایہ کاری کا حجم محض 15 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے اخراجات کی ترجیحات میں عوام اور صنعتی ترقی کو اہمیت دینے سے ہی ممکن ہے۔ حکومت اورنج ٹرین، میٹرو اور سرکلر ریلوے پر سرمایہ کاری کرنے سے نہیں بلکہ تعلیم، صحت، زراعت و صنعت کاری پر سرمایہ کاری سے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا سکتی ہے۔

چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی کنزیومر رائٹ پروٹیکشن شکیل احمد بیگ کے مطابق سال 2016ء صارفین کیلئے بدترین سال ثابت ہوا، ملک بھر میں صارفین ایک بڑی طاقت ہوتے ہوئے بھی مسلسل زیادتیوں کا شکار رہے۔ حالانکہ تمام صنعتیں، ایکسپورٹ صارفین ہی کی مرہون منت ہے، چاول دالیں، چکن تیل اور روزمرہ استعمال کی تمام ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، سال گزشتہ بھوک مفلسی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافے کا باعث بنا، جبکہ حکومت صارفین کو کوئی ریلیف دینے کیلئے تیار نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں تمام کمپنیاں صارفین کو ریلیف پر ریلیف دیتی ہیں لیکن ہمارے یہاں صرف پرانے مال کو نکالنے کیلئے ہی رعایت دی جاتی ہے۔ انہوں نے بینکنگ نظام سے متعلق کہا کہ دنیا بھر میں سود کی شرح کم ہورہی ہے، یہاں صارف سے 50 ہزار سے زائد رقم نکلوانے پر 0.41 کٹوٹی کی جارہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کو یہ کٹوتی ختم کر کے بینکنگ کے شعبے میں مزید سہولتیں دینی ہوں گی۔ بجلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بجلی کا صارف تو بل ادا کرکے مر رہا ہے، لوڈ شیڈنگ تو اپنی جگہ برقرار لیکن کہیں چوری کے نام پر بل، کہیں ایڈجسٹمنٹ کے نام پر لوٹ ماری، رہی سہی کسر ڈیجیٹل میٹروں کی تنصیب اور پھر بل کا بھی درست نہ بھیجا جانا زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صارف IBC کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک جاتا ہے تو اسے بل صحیح کرنے کے بجائے قسطوں کا مشورہ دے دیا جاتا ہے، بلکہ زبردستی قسطیں کر دی جاتی ہیں جو کہ ظلم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کیلئے 2016ء بہت ہی منافع بخش رہا جبکہ صارف کو تباہی کے قریب تر کر گیا۔

آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، بزنس مین پینل کے سینیئر وائس چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملکی برآمدات کئی سال سے مسلسل گر رہی ہیں جبکہ درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے بجٹ خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے، اس لئے برآمدی شعبہ کو مستحکم کرنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ قرضوں پر انحصار جاری رہے گا۔ 2014-15 میں برآمدات میں آٹھ فیصد کمی آئی، 2015-16 میں برآمدات میں 12.5 فیصد کمی آئی جبکہ سال رواں کے پہلے تین ماہ میں برآمدات میں نو فیصد کمی اور درآمدات میں دس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس نے خسارے میں 29 فیصد اضافہ کیا ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ برآمدات کے علاوہ ترسیلات اور زرعی پیداوار کی صورتحال بھی تشویشناک ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، بعض بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا ہے مگر پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ٹیکسٹائل کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جبکہ نجی شعبہ کے قرضوں میں بھی کمی آئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 596637
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش