8
0
Wednesday 4 Jan 2017 18:15

افغانستان کے امریکی جہاد میں اسرائیل کا کردار

افغانستان کے امریکی جہاد میں اسرائیل کا کردار
تحریر: عرفان علی

تکفیری دہشت گردوں اور جعلی ریاست اسرائیل کے مابین روابط کی اصل بنیاد کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں صرف ایک حقیقت جاننا ہی کافی ہے اور وہ ہے کہ صہیونی ریاست کے امریکا کے سامراجی منصوبوں میں اس کے کردار کی نوعیت۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ جدید بین الاقوامی تکفیریت کا سرا افغانستان و پاکستان سے آکر ملتا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین اور اس کے حامیوں کے خلاف امریکی و یورپی اتحادی ممالک کی جنگ کو پاکستان کا ایک مخصوص مذہبی طبقہ افغان جہاد کا نام بھی دیتا ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ تکفیریت اور اسرائیل کے تعلق کا ایک سرا اس افغان جنگ سے بھی آکر ملتا ہے۔ اس میں امریکی سعودی کردار کو بے نقاب کیا جا چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس امریکی، یورپی نیابتی جنگ میں سعودیوں کے ساتھ ساتھ صہیونیوں کے کردار سے بھی پردہ اٹھایا جائے۔ سی آئی اے میں تیس سال خدمات انجام دے کر 2006ء میں ریٹائرڈ ہونے والے بروس رائیڈل نے چار امریکی صدور کی حکومتوں کے دور میں نیشنل سکیورٹی کاؤنسل اور وائٹ ہاؤس کی جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطٰی کے امور میں مشاورت کے فرائض انجام دیئے۔ امریکی تھنک ٹینک دی بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے تحت 2011ء میں بروس رائیڈل کی کتاب Deadly Embrace :Pakistan, America and The Future of Global Jihad شایع ہوئی۔ اس کے دوسرے باب کا عنوان ہے ’’ضیاء کا جہاد۔‘‘ یعنی پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے اس کردار کا وہ نام نہاد جہاد جو انہوں نے امریکا و سعودی عرب کے لئے انجام دیا۔

اس افغان جنگ یا جہاد میں امریکی ایوان نمائندگان کے مشہور رکن چارلی ولسن کا ذکر بھی کیا گیا ہے، کیونکہ افغان جنگ کو چارلی ولسن کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ چارلی ولسن امریکی ایوان نمائندگان کی اہم کمیٹیوں میں شامل تھا، جہاں سے افغانستان میں امریکا کی خفیہ کارروائیوں کے لئے فنڈز کی منظوری دی جاتی تھی۔ حتٰی کہ سی آئی اے جتنی رقم طلب کرتی تھی، اس سے کہیں زیادہ رقم چارلی ولسن کی کوششوں سے منظور کر لی جاتی تھی۔ ان تفصیلات کے ساتھ بروس رائیڈل نے چارلی ولسن کے بارے میں اہم نکتہ یہ بیان کیا کہ چارلی نے اس خطے کے تقریباً تین درجن دورے کئے، جہاں وہ ہر مرتبہ امریکا کے کلیدی اتحادیوں سے حمایت حاصل کرنے کے لئے اسلام آباد، ریاض، قاہرہ اور یروشلم میں رکا کرتا تھا۔ یروشلم یا مقبوضہ بیت المقدس میں امریکا کا کلیدی اتحادی کون تھا؟ درحقیقت یہ اصطلاح دانستہ طور پر تل ابیب کے مترادف کے طور استعمال کی گئی ہے، کیونکہ اتحادی ممالک کے دارالحکومتوں کے نام لکھے گئے ہیں۔ افغان جنگ میں پاکستان، امریکا اور سعودی عرب کے کردار پر متعدد مرتبہ لکھا جاچکا ہے۔ لیکن مصر اور جعلی ریاست اسرائیل سے متعلق معلومات کو دانستہ طور پر چھپایا جاتا ہے۔ چارلی ولسن کا امریکا کے کلیدی اتحادی یعنی صہیونی ریاست سے مستقل رابطہ رہتا تھا اور اس رابطے کا ایک اہم ذریعہ زوی رافیا تھا، جو بظاہر امریکا میں اسرائیلی سفارتخانے کا ایک افسر تھا۔

مشہور امریکی صحافی جارج کرائل نے اپنی کتاب Charlie Wlson's War میں لکھا ہے کہ چارلی ولسن زوی رافیا کو اعلٰی سطحی موساد ایجنٹ سمجھتا تھا اور زوی رافیا چارلی کو صہیونی کاز کا ہمدرد سمجھ کر اس کے ساتھ تعاون کرتا تھا۔ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ چارلی ولسن کو امریکی کانگریس میں اسرائیلی کمانڈو سمجھا جانے لگا تھا۔ اس کتاب میں چارلی ولسن کی کوششوں سے صہیونی ریاست کے افغان جنگ میں اسلحے کی فراہمی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ مائیکل پی سبا نے 1984ء میں اپنی کتاب The Armageddon Network میں زوی رافیا کو واشنگٹن میں موساد کا چیف آف اسٹیشن لکھا تھا۔ جارج کرائل کے مطابق چارلی ولسن نے جنرل ضیاء کو بتایا کہ اسرائیل سے ڈیل کرنا ہوگا، اسرائیل کے پاس لبنان میں فلسطین کی تحریک آزادی سے چھینا گیا سوویت اسلحہ موجود ہے، اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج تو نہیں، تو جنرل ضیاء نے مسکراتے ہوئے کہا کوئی مسئلہ نہیں، بس اس پر سے صہیونیوں کا نشان ستارہ داؤدی مٹادینا۔ ان دنوں اسرائیلی چین کے ساتھ مل کر ٹی 55 ٹینک کو اپ گریڈ کر رہے تھے، تب چارلی نے جنرل ضیاء کو کہا کہ براہ راست اسرائیل سے اس معاملے میں تعلق استوار کرے۔

مصر میں اس وقت انور سادات کی حکومت تھی۔ انور سادات نے بھی اس ضمن میں امریکا سے معاہدہ کر لیا تھا۔ امریکی صحافی جون کولے کے مطابق He agreed with the Americans to help train, equip and supply volunteers for the Afghan Jihad.
Later, Israel would feel real Russian weapons captured from Egypt, Syria and the PLO, into the supply pipeline for the Afghan jihad.

حوالہ: Unholy War: Afghanistan, America and International Terrorism باب دوم انور السادات)
افغان جنگ میں صہیونی کردار کو سمجھنے کے لئے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ وہ سرد جنگ کا دور تھا اور اس دور میں امریکا اپنے اتحادی یورپی ممالک کے ساتھ سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دنیا بھر میں کارروائیاں کر رہا تھا۔ اس پورے عرصے میں اسرائیل امریکی مفادات کا تحفظ کر رہا تھا۔ اسرائیلی جنرل میٹٹیاہو پیلیڈ نے کہا تھا کہ Israel is dirty work contractor for the US. Israel is acting as an accomplice and arm of the United States.
صہیونی پروفیسر بنجامن بیت ہلاھمی نے کتاب The Israeli Connection: Who Israel Arms and Why میں بھی بعض تفصیلات سے پردہ اٹھایا ہے۔

امریکی سی آئی اے نے آپریشن سائیکلون ست متعلق معلومات کو تاحال خفیہ رکھا ہوا ہے اور 1945ء کے کسی آپریشن کے اصل نام پر ہاتھ کی لکھائی سے اسکا نام آپریشن سائیکلون لکھ کر اپنی ویب سائٹ پر رکھ دیا ہے، تاکہ عوام کو گمراہ کیا جاسکے، حالانکہ آپریشن سائیکلون 1979ء سے 1989ء تک افغانستان میں لڑنے والوں کی ٹریننگ، اسلحے اور مال سے مدد کرنے والے آپریشن کا نام ہے۔ سرد جنگ میں بہت سے خفیہ آپریشن سہ طرفہ کارروائی ہوا کرتے تھے اور ان میں تین فریق امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل ہوا کرتے تھے۔ بقول صحافی اسٹیفن کنزر کے:
Israel became a prized, semi-secret partner of the United States: a trainer of anti-Communist forces that the United States could not directly train, a conduit for arming regimes and rebel groups the United States could not openly arm and a productive source of intelligence from around the world
کنزر نے اپنی کتاب "ری سیٹ‘‘ کے حصہ سوم، باب ششم میں اس نکتے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا ہے کہ بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں امریکا کے لئے سرد جنگ سے زیادہ کوئی اور چیز اہم نہیں تھی، لیکن اس سرد جنگ میں بھی جو غیر قانونی اور خفیہ لڑائیاں ہوا کرتی تھیں، اس میں صرف سعودی عرب اور اسرائیل ہی امریکا کے بہترین شراکت دار تھے۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ افغان جنگ سے القاعدہ کا ظہور ہوا اور یہ بھی معلوم ہے کہ شام میں جبھۃ النصرہ نامی تکفیری دہشت گروہ القاعدہ ہی کی شاخ ہے اور اب جبھۃ النصرہ نے نام تبدیل کر لیا ہے۔ اسرائیلی کنیسٹ کے رکن دروز سیاستدان اکرم حسون نے کہا ہے کہ شام کے دروزیوں کے گاؤں پر اس تکفیری دہشت گرد گروہ نے اسرائیلی وزیر دفاع ایویگڈور لائبرمین کی سپورٹ اور پروٹیکشن کے تحت حملہ کیا۔(حوالہ اسرائیلی روزنامہ ھا آریتز، 12ستمبر 2016)۔

یاد رہے کہ افغان جنگ کے دوران ہی پاکستان اور افغانستان میں جدید تکفیری دہشت گردوں کا ظہور ہوا اور اس جنگ میں سعودی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ شہزادہ ترکی ال فیصل کا اہم کردار تھا، یہی ترکی ال فیصل پچھلے چند برسوں سے کھل کر اعلٰی صہیونی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں اور منافقین خلق کو بھی مدد کا یقین دلا چکے ہیں۔ اسامہ بن لادن سمیت بہت سے کرداروں کا ایک سرا ان سے بھی ملتا ہے۔ سب سے اہم بات جو مجھے میرے ایک سنی صحافی دوست نے سال 2004ء میں بتائی کہ خود جنرل نصیراللہ بابر جو طالبان کے ہمدرد تھے، نے ایک ٹی وی چینل کے پروگروام میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک غیر ملکی دورے میں ایک پروگرام میں کالعدم سپاہ صحابہ کے سرغنہ اعظم طارق کو ایریل شیرون کے ساتھ باتیں کرتے دیکھ چکے تھے۔ سی آئی اے کے افسر گیری سی اسکروئن نے اپنی کتاب دی فرسٹ ان کے چھٹے باب میں افغان جنگ شروع ہونے سے پہلے س آئی اے کے ایک اجلاس کی روداد میں لکھا ہے کہ ان کے افسر ایلن وولف نے کہا تھا کہ You will recruit assets in every mujahideen group. یہ ایک جملہ ہی یہ سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ سی آئی اے کا مقصد مجاہدین کو اپنے اثاثے کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ اگر تکفیریوں کا ایک سرا کسی امریکی ادارے یا سعودیوں جا سے ملتا ہے تو ان منصوبوں میں اسرائیل بھی ایک جزو لاینفک کے طور پر موجود ہے، جو شام پر مسلط کی گئی جنگ میں ایک اور مرتبہ بے نقاب ہو رہی ہے۔ رہ گیا یہ کہ داعش اور طالبان میں کیا ربط ہے تو پاکستان اور افغانستان میں داعش میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو ہی ملاحظہ کرلیں، یہ سبھی کل تک طالبان کہلاتے تھے، جو آج یہاں داعش کے لئے کام کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 597159
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

mtaskeen
Japan
Excellent Mr. Irfan Ali
بٹ صااحب
Iran, Islamic Republic of
سلام عرفان صاحب، بہت اچھا کالم ہے، بس اب تاریخ دان لکھے گا جنرل راحیل کا جہاد جس کی کمی باقی تھی۔ میں نے آپ کے ایک کالم کے نیچے لکھا تھا کہ وہ کمانڈ سنبھالنے جا رہے ہیں، مگر آپ نے نفی کی تھی، اب دیکھ لیں۔ دوسرا اتنے دقیق اور تفصیلات سے بھرپور کالم نہ لکھا کریں، یہ آپ کیلئے اور کچھ پڑھے لکھے میرے جیسے لوگوں کیلئے تو فائدہ مند ہوں گے، مگر آپ کے قومی قاری ایسے مضامین کو پڑھنا اپنے وقت کا ضیاء سمجھتے ہیں۔ اس لیے درمیان میں کچھ پاکستانی شیعہ قوم اور ۔۔۔ پر لکھیں گے تو قومی قاری بیدار ہوگا۔ یہ تحقیقی کالم ہماری قوم کو اچھے نہیں لگتے، ہم لوگ چلتی سیاست کے رسیا ہیں۔ امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے۔ کیونکہ جب سے آپ نے تحقیقی کالم بمع حوالہ جات لکھنا شروع کیے ہیں آپ کے کالموں کے نیچے وہ قومی ہمدرد نظر نہیں آتے، جو آوے گا بھائی آوے گا، کا راگ الاپتے ہیں۔ ان کی پسند کا بھی کچھ لکھ دیا کریں درمیان میں۔
عرفان علی
Pakistan
شکریہ بٹ صاحب۔ دراصل جنرل کے موضوع پر اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت تھا اور تاحال کسی مستند ذریعہ ابلاغ سے ان کے بارے میں حتمی خبر جاری نہیں ہوئی، لیکن اس ناچیز نے نفی تب بھی نہیں کی تھی، کیونکہ امکان شروع سے موجود تھا۔ البتہ آپ کی رائے کے دیگر نکات پر خاموشی بہتر ہے۔ کیونکہ آوے گا بھئی آوے گا گروپ نے میری جان نہیں چھوڑنی۔
کریمی
Iran, Islamic Republic of
سلام عرفان بھائی، بہت اچھا کالم ایک بار پھر، ایک بات کی طرف متوجہ کروں گا پاکستان کے اندر کس طرح ان شدت پسندوں کو دوبارہ قومی اسمبلیوں میں لانے کیلئے جدوجہد ہو رہی ہے، اس کی ایک مثال دنیا نیوز کے کالم نگار عامر خاکوانی کا آج کا کالم ہے، جس میں اس خوبصورت انداز میں ان شدت پسندوں کی حمایت کی گئی ہے کہ رہے نام اللہ کا حالانکہ عامر کے کالم کے نام سے ایسا نہیں لگتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری پاکستانی شیعہ قوم کو ان اسرائیلی نواز حکومتوں کی پالیسیوں کو سمجھنا ہوگا۔ راحیل شریف بھی ایک مثال ہیں اس اسرائیلی نوازی کی۔
عرفان علی
Pakistan
Thanks
بھائی کتابی کام اور صحافتی کام میں فرق ہوتا ہے۔ یہ کتابوں کی کاپی پیسٹ تو عام سی بات ہے۔
عرفان صاحب آپ سے یہ امید نہیں تھی کہ آپ عام لوگوں کی کتابی جمع تفریق میں لگ جائیں گے۔
عرفان علی
Pakistan
پیارے بھائی جو موضوع ہے اس پر مستند معلومات کے منابع لکھنے کی میری عادت تبدیل نہیں ہوگی، کیونکہ جو ہمارے تعلیم یافتہ جوان یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں یا فارغ التحصیل ہوچکے ہیں، وہ سبھی علمی و تحقیقی روش کو پسند کرتے ہیں، ان کی خواہش و فرمائش ہے کہ معلومات کا ریفرنس ضرور دیا جائے، یہ ان کے حکم کی تعمیل ہے۔ آپ اگر تحقیقی کاموں کو کاپی پیسٹ سمجھتے ہیں تو خوشی سے سمجھیں۔ مجھے اعتراض نہیں۔ لیکن جو معیار آپ کا ہے، اس کی بنیاد پر تو پوری دنیا میں ماضِی کی ساری معلومات ہی کاپی پیسٹ ہے، حتیِ کہ آپ نے آج تک جو کچھ پڑھا سنا ہے وہ بھی۔ باقی کتابی جمع تفریق یہ آپ جیسے بزرگان کا کام ہوگا، ہم ان معاملات میں بالکل کورے ہیں۔ اگر آپ کو تحقیق سے شغف ہے تو تحقیقی مقالوں یا کتب میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے، اس کو اچھی طرح سمجھ لیں یعنی
bibliography
بعض اوقات یہ ریفرنس کسی علمی تحقیقی کام کے آخر میں دیتے ہیں، یہاں درمیان میں بیان کی گیے گئے ہیں۔
Roozi
ماشاءاللہ جناب محترم ۔سلامت رہیں۔
بہت عمدہ تحقیقی تحریر ہے۔
آنکھیں کھول دیتی ہیں
ہماری پیشکش