1
0
Sunday 22 Jan 2017 21:30

سامراجی شکنجوں میں جکڑی مسلم امہ

سامراجی شکنجوں میں جکڑی مسلم امہ
تحریر: سید اسد عباس

اسی اور نوے نیز دو ہزار کی دہائی میں مسلمان ملکوں پر مغربی اور مشرقی ملکوں کی جانب سے براہ راست حملے کئے گئے۔ افغانستان، عراق اور لیبیا براہ راست ان حملوں کی زد پر آئے۔ ان حملوں کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان لقمہ اجل بنے، کئی حکومتیں ختم ہوئیں، نئی حکومتیں معرض وجود میں آئیں، وسائل کو لوٹا گیا، تاہم اچانک مغربی اور مشرقی ریاستوں کی جانب سے براہ راست حملوں کا سلسلہ رک گیا۔ حملے اب بھی ہوتے ہیں، تاہم ان کی نوعیت بدل چکی ہے۔ اب مغربی و مشرقی طاقتیں براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر مسلمانوں پر حملہ آور ہیں۔ قتل و غارت اسی طرح جاری ہے، ملک ویسے ہی تباہ ہو رہے ہیں، حکومتیں بنائی اور اکھاڑی جا رہی ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ وہ دور برا تھا جب غرب و شرق کی طاقتیں براہ راست حملہ آور تھیں یا یہ دور برا ہے جب یہ طاقتیں بالواسطہ طور پر حملہ آور ہیں۔ شام کی جنگ ہو یا لیبیا کا معرکہ، یمن کا محاذ ہو یا افغانستان کی لڑائی، جہاں بھی جنگ لڑی جا رہی ہے، وہاں غرب و شرق کی طاقتوں کے کردار سے انکار ممکن نہیں ہے، تاہم میری نظر میں ان کا یہ کردار کھلی جنگ کے کردار سے بھی گھناونا اور سنگین ہے۔ براہ راست جنگ میں دشمن عوام کے غیض و غضب اور نفرت کا براہ راست نشانہ بنتا ہے، تاہم یہاں نہیں معلوم کہ اصل دشمن کون ہے۔ اس بالواسطہ لڑائی میں مسلمان باہم دست و گریباں ہیں اور شرقی و غربی طاقتیں ان کی ہمنوا۔ یہ ایک زیادہ نقصان دہ جنگ ہے، جس میں امت مسلمہ میں باہمی نفرتیں اور دوریاں بڑھتی ہیں اور امکان رہتا ہے کہ یہ جنگ مزید علاقوں میں بھی پھیلے۔ وہ محاورہ تو آپ نے سنا ہوگا ’’نہ ہنگ لگے نہ پھٹکڑی‘‘ کچھ یہی حال اس وقت غربی و شرقی طاقتوں کا ہے۔ وہ کچھ کھوئے بغیر وہی فوائد حاصل کر رہے ہیں، بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ جو براہ راست جنگ سے حاصل کئے جاتے ہیں۔

پچاس سال قبل امت مسلمہ کو بنیادی طور پر دو سیاسی قضیوں کا سامنا تھا، ایک فلسطین اور دوسرا کشمیر۔ آج صورتحال یہ ہے کہ یہ دونوں سیاسی قضیے تو بدستور اپنی جگہ قائم ہیں، ان کی جگہ اب امت مسلمہ یمن، شام، بحرین، لیبیا اور افغانستان کے قضیوں میں پھنس چکی ہے۔ ان نئی جنگوں کا فائدہ یقیناً پچاس سال پرانے دو سیاسی قضیوں کے حریفوں کو تو ہے ہی، کچھ نئے جواری بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مغرب کے سیاسی حکماء کی حکمت عملی اور متانت کی داد دینی پڑے گی۔ کیا خوبصورت انداز سے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا اور پھر مسلم ریاستوں کو کچھ انداز سے تشکیل دیا کہ یہاں بننے والی حکومتیں اگلی کئی صدیوں تک ہمارے چنگل سے نہ نکل سکیں۔ اس سارے ڈرامے میں مسلمانوں کے عقائد، قومیات اور نسلی امتیازات کا بھی تڑکا لگایا گیا۔ مسلمانوں کی مذہبی قیادت بھی بڑے اہتمام کے ساتھ ایک خاص مسلک کے حامل گروہ کے سپرد کی گئی۔ پھر ان کو تقدس مآب بھی بنایا، کچھ ممالک میں آمریتوں کو پروان چڑھایا، حالانکہ دنیا بھر میں جمہوریت کی راگنی یہی طاقتیں الاپتی ہیں۔ مصر، تیونس، لیبیا، یمن، الجزائر، بحرین غرضیکہ دنیا کا کونسا ایسا اسلامی ملک ہے، جس میں اپنی مرضی کا حاکم متعین نہ کیا گیا ہو۔ بعض لوگوں کا خیال ہوگا کہ شاید مسلمان ریاستیں برطانوی، فرانسیسوی اور پرتگالی کالونیوں سے نکل آئیں اور وہاں اسلامی حکام تعینات ہوگئے، تاہم مجھے لگتا ہے کہ مسلمانوں کو کبھی بھی سامراجی چنگل سے آزادی نہیں ملی۔

برصغیر کو ہی لے لیں، یہاں پاکستان کے نام سے ایک اسلامی فلاحی ریاست بن گئی، لیکن کیا اپنے قیام کے وقت سے تادم تحریر کبھی کوئی ایسی حکومت بنی جو قائداعظم محمد علی جناح کے حقیقی پاکستان کی تشکیل کے لئے سرگرم عمل ہو۔ نعرہ ہر کوئی لگاتا ہے، تاہم درحقیقت ایسا کچھ نہیں۔ ہمیں یہ سب اس وقت معلوم ہوتا ہے، جب قائداعظم کا حقیقی پاکستان کا نعرہ لگانے والا اپنی دھن دولت سمیٹ کر کسی مغربی ملک میں جا بیٹھتا ہے یا خاک کے پردے میں پنہاں کر دیا جاتا ہے۔ یہی حال امت مسلمہ کے دیگر ممالک کا ہے۔ ہر جگہ مہرے تعینات ہیں، جو ہیں تو اگرچہ اسی قوم سے، جس پر وہ حاکم ہیں، مگر درحقیقت وہ خود کسی کی غلامی کر رہے ہیں اور مقامی وائسرائے کی شکل میں وہ اپنے آقاوں کی خدمت پر معمور ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی مہرہ اپنی خام خیالی یا ظاہری جاہ جلال کے سبب یہ سمجھنے لگے کہ اب مجھے کسی بیرونی آقا کی ضرورت نہیں رہ گئی تو وہ روز اس کے اقتدار کا آخری روز ہوتا ہے۔ صدام حسین، زین العابدین، حسنی مبارک اور علی عبداللہ صالح ایسی ہی چند مثالیں ہیں۔ کچھ عرصے میں دنیا ان مہروں کو فراموش کر دے گی، کیونکہ سامراجی شاطروں کو نئے مہرے دستیاب ہوچکے اور وہ اس وقت اپنا اقتدار اپنے اپنے ملکوں میں راسخ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ پہلا دائرہ آمروں کا ہے اس کے بعد بادشاہتوں کا دائرہ ہے۔ سامراج کے شکنجے اسلامی ملکوں میں اس قدر گہرے ہیں کہ کوئی عام فہم سادہ مسلمان ان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

غربت، بھوک، افلاس اور زندگی کے گوناگوں مسائل ویسے ہی آنکھیں نہیں کھلنے دیتے کہ انسان ان پر توجہ دے سکے۔ اگر کسی کو یہ سب گھن چکر سمجھ بھی آتا ہے تو وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ آج مسلم امہ کو جس قدر جمال الدین افغانی، حسن البنا، شیخ شلطوت، علامہ محمد اقبال، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جیسے راہنماؤں کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ جیسے آج براہ راست مغرب ہم پر حملہ نہیں کرتا بلکہ ہمیں باہم دست و گریباں کرکے بالواسطہ ہم پر حملہ آور ہے، اسی طرح سامراج ہم پر براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر حکومت کر رہا ہے۔ اسلامی ممالک کی خارجہ، داخلہ، معاشی پالیسی سب اسی کی مرضی و منشاء کے مطابق آگے بڑھتی ہے۔ اسی کی مرضی کے اتحاد تشکیل پاتے ہیں، اسی کی مرضی سے حکومتیں تشکیل پاتی ہیں، اسی کی مرضی سے ان کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اسی کی مرضی کا نظام تعلیم ہے اور وہی ثقافت ہمیں مل رہی ہے جو سامراج ہمیں دینا چاہتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ کا درد رکھنے والے صاحبان دانش سر جوڑ کر بیٹھیں اور سوچیں کہ وہ کون سی راہ ہے، جس سے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اس چنگل سے نکل سکتے ہیں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہماری آئندہ نسلیں بہت بری طرح اس شکنجے میں جکڑی جائیں گی۔ ایک فاضل دوست نے بڑی خوبصورت بات کی کہ اگر مسلمان مل کر ایک نظام حکومت کے بارے فیصلہ کر لیں کہ ہمیں یہ اختیار کرنا ہے، جیسا کہ یورپ نے گذشتہ صدیوں میں کیا تو شاید ہماری مشکلوں کے حل کی کوئی صورت نکل آئے اور یہ اجتماعی فیصلہ دانشوروں اور عوام کو مل کر کرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 602594
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید سیدین ارتضا رضوی
بلاشبہ دورِ حاضر کے سیاسی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مسلم امہ یکجہتی کا مظاہرا کرے، مگر یہ ممکن بنانے کے لئے عوام کو چاہئے کہ وہ فتنہ انگیز نظریات رکھنے والے علماء کی پیروی سے اجتناب اور دین کی روح جو کہ اخلاقیات پر مبنی انسانیت ہے، اسے اختیار کریں۔
ہماری پیشکش